ہماری اصل طاقت عوام کی وہ بیداری ہے جو کسی سیاسی مصلحت کی مرہونِ منت نہیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 25 اپریل 2025ء ) عمران خان کا کہنا ہے کہ ہماری اصل طاقت عوام کی وہ بیداری ہے جو کسی سیاسی مصلحت کی مرہونِ منت نہیں، 8 فروری کو پاکستانی عوام نے ہمارے خلاف ہونے والی بدترین فسطائیت، سیاسی قیدوبند، الیکشن مہم پر مکمل پابندی کے باوجود، ہمیں 2 تہائی سے ذیادہ اکثریت سے کامیاب کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اصل طاقت عوام ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کا تحریکِ انصاف کے 29ویں یومِ تاسیس کے موقع پر جیل سے خصوصی پیغام جاری کیا گیا ہے۔ اپنے پیغام میں عمران خان نے کہا کہ " میں تحریکِ انصاف کے تمام ورکرز، سپورٹرز اور ووٹرز کو 29ویں یومِ تاسیس کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ 29 سال پہلے ہم نے “انصاف، انسانیت اور خودداری” کے بنیادی اصولوں کے تحت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی اور آج تک اپنے منشور پر قائم ہے- تحریکِ انصاف وہ واحد جماعت ہے جو ناصرف آئینی اصولوں، عدلیہ کی آزادی اور اداروں کی خودمختاری کی علمبردار ہے بلکہ الیکشن کمیشن، نیب، پولیس سمیت تمام ریاستی اداروں کو کسی بھی قسم کے اثر و رسوخ سے پاک دیکھنا چاہتی ہے۔(جاری ہے)
ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ملک میں تمام ریاستی ستونوں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے- آج تحریکِ انصاف پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے۔ 8 فروری 2024 کو پاکستانی عوام نے ہمارے خلاف ہونے والی بدترین فسطائیت، سیاسی قیدوبند، اور الیکشن مہم پر مکمل پابندی کے باوجود، ہمیں دو تہائی سے ذیادہ اکثریت سے کامیاب کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اصل طاقت عوام ہیں، اور وہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ماضی کی مقبول سیاسی جماعت عوامی لیگ کو بھی ایک سالہ بھرپور انتخابی مہم کے بعد کامیابی نصیب ہوئی تھی، جبکہ تحریکِ انصاف کو تو انتخابی نشان تک سے محروم کر دیا گیا۔ اس کے باوجود عوام نے تحریکِ انصاف کے حق میں تاریخی فیصلہ سنا کر ہر سازش کو ملیامیٹ کردیا۔ تحریکِ انصاف پاکستان میں وفاق کی علامت ہے۔ آج یہ پاکستان کی واحد قومی جماعت ہے جسے چاروں صوبوں کے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تحریکِ انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کی نہیں، درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کو تحریکِ انصاف کی ضرورت ہے۔ کیونکہ صرف اصلی عوامی مینڈیٹ اور عوامی حمایت کے ساتھ آنے والی حکومت ہی ملک کو درپیش سنگین بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔ الحمدللہ تحریکِ انصاف کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ الیکٹیبلز کمزور جماعتوں کی مجبوری ہوتے ہیں۔ تحریکِ انصاف ایک ایسی نظریاتی تحریک ہے جس نے شدید ریاستی جبر، غیر آئینی ہتھکنڈوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کے باوجود ثابت کیا ہے کہ وہ ایک ناقابلِ شکست،اور مضبوط ترین جماعت ہے۔ ہماری اصل طاقت عوام کی وہ بیداری ہے جو کسی سیاسی مصلحت کی مرہونِ منت نہیں۔ ملک کو بنانا ریپبلک بنا دیا گیا ہے، جب آئین اور قانون کی حکمرانی نہ ہو، ادارے فنکشنل نہ ہوں تو ملک میں باہر سے ڈائریکٹ انویسٹمینٹ نہیں آسکتی۔ ملک صرف فارن remittances سے نہیں، فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ سے ترقی کرتے ہیں، جو کہ اس وقت ملکی تاریخ میں کم ترین نمبرز پر آچکی ہے۔ ملک کو درپیش سیاسی، معاشی اور دہشت گردی کے شدید بحرانوں سے نکالنے کے لئے ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو عوام کی تائید کے ساتھ ملک میں آئین قانون کی حاکمیت قائم کر سکے، اور اس کے لئے سخت ادارہ جاتی اصلاحات کر سکے۔ اور صرف تحریکِ انصاف ہی یہ کردار ادا کر سکتی ہے۔ میں اپنے ان اوورسیز پاکستانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو ملک میں جمہوریت، آئین اور انصاف کی بحالی کیلئے ہر محاذ پر ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ آپ قوم کا فخر ہیں-“.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اصل طاقت عوام کے باوجود انصاف کے جماعت ہے عوام کی ملک میں
پڑھیں:
ہمارا خاندان، ہماری ذمے داری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہم میں سے ہر شخص کو ان حالات پر بڑی سنجیدگی اور دل سوزی سے غور کرنا چاہیے اور بحیثیت فرد اور من حیث القوم یکسو ہو جانا چاہیے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ کسی فرد اور کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ تباہی کا راستہ کیا ہوگا کہ بقول غالب اس کا حال یہ ہوجائے کہ
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
اگر ہماری منزل اسلام ہے اور یقیناً اسلام ہی ہے، تو پھر دورنگی اور عملی تضاد کو ترک کرنا ہوگا۔ ایمان اور جہل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسلام تو علم کی روشنی میں زندگی گزارنے کا راستہ ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان معاشرے کی اکثریت کو دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی آگہی نہیں۔ نئی نسلوں کو اسلامی آداب اور شعائر سے آشنا نہیں کیا جا رہا۔ میڈیا بالکل دوسری ہی تہذیب اور ثقافت کا پرچارک ہے، جو ذہنوں کو مسلسل مسموم بنا رہا ہے اور اخلاق اور معاشرت کو انتشار کا شکار کر رہا ہے۔
بااثر افراد کا ایک گروہ بڑے منظم طریقے پر نوجوانوں کو بے راہ روی اور اباحیت پسندی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہمارے علما، دانش ور اور اربابِ سیاست اپنے اپنے ذاتی، گروہی، مسلکی اور سیاسی مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ طبقۂ علما اور سیاست دانوں کو فرصت ہی نہیں کہ ان معاشرتی ناسوروں کے علاج کی فکر کریں۔
عدالتیں، اینگلوسیکسن قانونی روایت کی تقلید میں قانون کے الفاظ کو انصاف کے حصول پر فوقیت دے رہی ہیں۔ جن معاملات کو گھر کی چار دیواری اور خاندان کے حصار میں طے ہونا چاہیے ان کو تھانے اور کچہری کی نذر کیا جارہا ہے۔ صحافت اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا فواحش کی تشہیر کی خدمات انجام دیتے ہوئے اس گندگی کو ملک کے طول وعرض میں پھیلانے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ان حالات میں ملک کے تمام سوچنے سمجھنے والے عناصر اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ملک و ملّت کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں۔ سیاست محض نعروں کی تکرار کا نام نہیں، سیاست تو تدبیرِ منزل سے عبارت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ایک گروہ اصلاح کے لیے عملاً میدان میں اُتر آئے۔ خیر و شر میں تمیز کے احساس کو بڑے پیمانے پر بیدار کرنا، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بلاشبہ حکومت کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے، لیکن اگر حکومت اپنی اس ذمے داری کو ادا نہیں کر رہی، تو کیا حالات کو تباہی کی طرف جانے کے لیے چھوڑا جا سکتا ہے؟ اس کشتی میں تو ہم سب ہی بیٹھے ہیں۔ اس کو بچانے کی ذمے داری بھی ہم سب کی ہے۔ اگر دوسرے اس میں چھید کررہے ہیں، تو ہم ان سب کو ڈبونے کا موقع کیسے دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمے داری اسلامی فکر سے سرشار اور معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے قابلِ قدر افراد کی ہے۔
ہماری پہلی ضرورت منزل کے صحیح تعین اور اس کے حصول کے لیے یکسو ہو کر جدوجہد کرنے کی ہے۔ مغربی ثقافت کی نقالی اور تہذیبِ نو کی یلغار کے آگے ہتھیار ڈالنا ہمارے لیے موت کے مترادف ہے۔ جو کش مکش آج برپا ہے اور جس کا ایک ادنیٰ ساعکس ایک خانگی حادثے پر عدالتی فیصلے اور اس کے تحت رو نما ہونے والی بحثوں میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ ہمیں دعوتِ غور وفکر ہی نہیں، دعوتِ عمل و جہاد بھی دیتی ہے۔
آئیے، سب سے پہلے اپنی منزل کے بارے میں یکسو ہو جائیں۔ اگر وہ اسلام ہے، اور اسلام کے سوا کوئی دوسرا راستہ زندگی کا راستہ ہو ہی نہیں سکتا، تو پھر بیک وقت دو مختلف سمتوں میں جانے والی کشتیوں میں سواری کرنے کا احمقانہ ہی نہیں بلکہ خطرناک راستہ بھی ہمیں ترک کرنا ہوگا۔ فرد کی ذاتی تربیت سے لے کر خاندان کے نظام کی تشکیل، معاشرے کا سدھار، معیشت کی تنظیم نو، صحافت، سیاست، قانون اور عدالت کے نظام کی اصلاح اس کا لازمی حصہ ہیں۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور مہلت بہت کم ہے۔ ہم ملک کے اہلِ نظر کو دعوت دیتے ہیں کہ ان بنیادی مسائل کے بارے میں عوام کی مؤثر رہنمائی کریں۔ ناخوش گوار واقعات پر سے صرف کبیدہ خاطر ہو کر گزر نہ جائیں، بلکہ اصلاح کے لیے منظم طور پر عملی اقدام کریں۔