دو قومی نظریہ، جنرل عاصم منیر اور بھارتی گودی میڈیا کا فریب
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
دو قومی نظریہ، جنرل عاصم منیر اور بھارتی گودی میڈیا کا فریب WhatsAppFacebookTwitter 0 26 April, 2025 سب نیوز
دو قومی نظریہ ہمیشہ سے پاکستان کے وجود کی بنیاد رہا ہے۔مسلمانوں اور ہندوؤں کے مذہب، تہذیب، زبان، ثقافت اور تاریخ یکسر مختلف ہے ۔
دو قومی نظریہ میں کسی بھی پاکستانی کو رتی بھر بھی شک نہیں، حقائق کو اپنے جھوٹ اور پروپیگنڈا سے چھپاتے ہوئے بھارتی گودی میڈیا نے دو قومی نظریے کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم نے واضح الفاظ میں دو قومی نظریے کو بیان کیا تھا۔ جب کہ حالیہ دنوں میں آرمی چیف نے جب دو قومی نظریہ کی بات کی اور قائد کے الفاظ کو دہرایا تو گودی میڈیا کو آگ لگ گئی۔
بھارتی میڈیا نے دو قومی نظریہ کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ہندو کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جب کہ درحقیقت دو قومی نظریہ کیا ہے اور اسے قائد اعظم نے کن الفاظ میں بیان کیا، درج ذیل اقتباس سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے:
’نہیں! مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان خلیج اتنی بڑی ہے کہ کبھی ختم نہیں ہو سکتی‘۔ (قائد اعظم محمد علی جناح، 1924)
اسی طرح ایک موقع پر قائد اعظم نے فرمایا:
’ مسلمان، ہندوؤں کے ساتھ کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔۔؟‘۔
قائد اعظم محمد علی جناح واضح اور واشگاف الفاظ میں بتا دیا تھا کہ
’ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی روایات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں‘۔
انہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان خلیج کا ان الفاظ میں واضح کیا:
’ہماری تاریخ، ثقافت، فن تعمیر، موسیقی، قوانین، فقہ اور سماجی تانے بانے زندگی کے ضابطوں میں مختلف ہیں‘۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے یہی خیالات تھے جنہیں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب کے دوران باالفاظ دیگر دہریا کہ:
’ہم مسلمان زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہندوؤں سے مختلف ہیں‘۔۔۔ ’ہمارا مذہب ، رسم و رواج ، روایات، سوچ اور عزائم ہندوؤں سے یکسر مختلف ہیں‘۔۔۔’ دو قومی نظریے کی بنیاد یہ تھی کہ مسلمان اور ہندو دو قومیں ہیں، ایک قوم نہیں‘۔۔۔ ’ہمارے آبا و اجداد نے پاکستان کی تخلیق کی خاطر انگنت قربانیاں دیں اور بے مثال جدوجہد کی‘۔۔۔ ہم نے پاکستان کیلئے بہت سی قربانیاں دیں،ہم اس کا دفاع کرنا جانتے ہیں‘۔
آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا اپنے روایتی جھوٹے پروپیگنڈے سے تاریخ کو مسخ نہیں کر سکتا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرہم کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار، بھارت کو منہ توڑ جواب دینگے: خواجہ آصف پہلگام واقعہ: سعودی وزیر خارجہ کا پاکستانی ہم منصب سے رابطہ، ڈار کا جارحیت پر پاکستان کے سخت جواب کے عزم کا اعادہ پہلگام واقعے پر غیر جانبدارانہ عالمی تحقیقات کیلئے تیار ہیں، وزیراعظم بدقسمتی سے پاکستانی قوم تقسیم ہے، صرف عمران خان ملک کو متحد کر سکتا ہے، عمر ایوب امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کا پاک بھارت کشیدگی پر ردعمل سامنے آگیا روس اور برطانیہ نے پاکستان سے متعلق ٹریول ایڈوائزری جاری کردی فضائی حدود بند: بھارت سے یورپ، امریکہ جانے والی کئی پروازیں متاثرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: دو قومی نظریہ گودی میڈیا
پڑھیں:
بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟
جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔
سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟
بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔
اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟
یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔
کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔