ماتمِ پہلگام ۔۔۔۔۔۔خاموشی کی چیخ
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
کشمیرمیں حالیہ دہشت گردی کے واقعے کا جغرافیائی،سیاسی وعسکری اورانٹیلی جنس تناظرمیں ہونے والے واقعات کاجائزہ لیاجائے توبھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں پرماضی میں مختلف داخلی فالس فلیگ آپریشنزکا الزام لگتارہاہے جوبعدازاں تحقیقات پرانڈین سازش کے بھیانک اورخوفناک چہرے سے نقاب ہٹانے میں مددگارثابت بھی ہوچکاہے۔مثلاچھٹی سنگھ پورہ جموں، پٹھانکوٹ اورممبئی حملوں کے تناظرمیں یہ بحث ہمیشہ زندہ رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کارروائیوں میں داخلی ہاتھ ملوث رہاہے،جو عالمی رائے عامہ کومتاثر کرنے کے لئے انجام دی جاتی ہیں۔اسی طرح،ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی،اوربلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی بھارتی سرپرستی کے بھی مصدقہ شواہد موجود ہیں،جنہیں پاکستان متعددبین الاقوامی فورمزپرپیش کرچکاہے۔
خطے کی موجودہ عالمی صورتِ حال محض دوقوموں کی کشمکش نہیں بلکہ ایک وسیع ترطاقت آزمائی کی تصویربن چکی ہے جہاں عالمی قوتیں علاقائی شطرنج کی بساط پراپنے سفارتی حربوں کے پیادوں کواستعمال کرکے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ایسے خوفناک ڈراموں کی پشت پناہی پرموجود ہوتے ہیں۔جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادی چین کے تجارتی و عسکری اثرورسوخ کوروکنے کی کوشش کررہے ہیں،وہیں سی پیک جیسے منصوبے،جنہیں پاکستان اورچین نے اپنی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا ہے ، مغربی اوربھارتی قوتوں کی آنکھوں کاکانٹابنے ہوئے ہیں۔ امریکا اورچین کے مابین بڑھتی ہوئی تجارتی کشمکش میں بھارت کی شمولیت کونظراندازنہیں کیاجا سکتا۔ کواڈاتحاد،جس میں بھارت، امریکا، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں،دراصل چین کے خلاف ایک معاشی و عسکری بندباندھنے کی کوشش ہے۔ چین اورپاکستان کا مشترکہ منصوبہ سی پیک،بھارت اور مغربی طاقتوں کی آنکھ کاکانٹاہے۔بلوچستان اورکشمیرمیں دہشتگردی کواس تناظرمیں بھی دیکھاجاسکتاہے کہ یہ سی پیک کوغیرمستحکم کرنے کی ایک کڑی ہے۔ انڈو،امریکن اتحاد ،اسرائیلی عسکری معاونت اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں ،سب ایک مربوط جغرافیائی تانے بانے کی نشاندہی کرتی ہیں۔کیایہ سانحہ بھی اسی عالمی بساط پرایک پیادہ قربان کرنے کی حکمت عملی ہے؟
اسرائیل اوربھارت کے درمیان عسکری وانٹیلی جنس تعاون اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے دوران بھارت کی حمایت،اوراسرائیلی فوج میں بھارتی رضاکاروں کی شمولیت،یہ سب ایک نئے سفارتی اتحادکی نشاندہی کرتے ہیں جس کے اثرات جنوبی ایشیا میں بھی دیکھےجاسکتے ہیں۔ امریکاانڈیاکوایشیاء میں چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہےلہذا وہ کشمیرکے معاملے پرخاموشی اختیارکرسکتاہے۔تاہم، اگر ثبوت سامنے آتے ہیں کہ انڈیاخود ساختہ حملوں میں ملوث ہے،توامریکا کی پوزیشن پیچیدہ ہوسکتی ہے۔تاہم ٹرمپ نے اقتدارمیں آنے کے بعدجس طرح عالمی چپقلش کوبڑھانے کے لئے جن پالیسیوں کااعلان کر کےاپنے دوستوں کو بھی نہیں بخشا،اس کابین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آناشروع ہوگیاہے اورعین ممکن ہےکہ ٹرائیکانے باہم ایک سازش کےتحت پہلگام جیسےواقعہ کےلئے اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے اس ڈرامہ کواس لئے بھی رچایاہے کہ ٹرمپ۔اسرائیل اورانڈیاکے اندرونی خلفشارسے توجہ ہٹانے کے لئے ویساہی ڈرامہ کیاجائے جواس سے پہلے کئی مواقع پرکیاگیاہے۔
چین کشمیرکے معاملے پرپاکستان کی حمایت کرتارہاہے اورسی پیک کے تحفظ کواپنی قومی سلامتی سےجوڑتاہے۔اگرانڈیاکاملوث ثابت ہوتاہے، تو چین اقوام متحدہ یادیگرفورمز پردباؤ بڑھا سکتاہے۔ دوسری طرف روس،جوچین کااتحادی ہے،ممکنہ طور پرانڈیاپرنرم مؤقف اپنائے گا کیونکہ انڈیا اسلحے کی خریداری میں روس کااہم گاہک ہے۔ مکمل سیاسی تجزیہ کے لئے داخلی محرکات کے ان اہم نکات کوبھی سامنے رکھناہوگا۔ کیاانڈیا کشمیرمیں اپنی پالیسیوں کی ناکامی چھپانے یافوجی موجودگی کوجوازدینے کے لئے ایسے واقعات کواستعمال کررہاہے؟
کیا انڈیا نےکشمیراورہندوستان میں مسلمانوں پرجاری مظالم سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ فالس فلیگ آپریشن کیاہے؟ کیاخطے میں بھارتی تسلط سے بنگلہ دیش کی آزادی پاک بنگلہ دیش کے نئے دوستی کے اتحادکی وجہ یہ ڈرامہ رچایاگیاہے؟ کیا(انڈیا، اسرائیل،امریکا)ایک نیامحاذ کھول کرچین، پاکستان،اورایران کے اتحادکوکمزورکرنا چاہتے ہیں؟کیامغربی میڈیا اس واقعے کو’’اسلامی دہشت گردی‘‘کے طورپرپیش کرکے مقامی کشمیری مزاحمت کوداغدارکرنے کی کوشش کرے گا؟ بین الاقوامی المیےمیں ذرائع ابلاغ،بیانیے کی جنگ، اورسچ کاگلا گھونٹنے میں ٹرائیکا (امریکا، اسرائیل اور انڈیا)کے میڈیاکاکردار قابلِ نفرت بن چکاہے۔ جہاں ایک طرف غزہ میں اسرائیلی مظالم پرپردہ ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے،وہیں کشمیرمیں اس طرح کے واقعات کوری ایکشن قراردے کردنیاکو گمراہ کیاجارہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیاکی خاموشی، بالخصوص مغربی ذرائع ابلاغ کاتعصب،ان کارروائیوں کوپسِ منظرمیں دھکیل دیتاہے تاکہ اسرائیل و بھارت کےاقدامات پرسوال نہ اٹھیں۔ کیادنیاکی آنکھیں اب صرف وہی آنسو دیکھتی ہیں جو امریکاکی مرضی سے بہائےجائیں؟
بین الاقوامی قانونی تناظرمیں ان عالمی طاقتوں کی خاموشی جواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیرکے حق خودارادیت کے معاہدے میں بطور ضامن دستخط کرچکی ہیں،اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، بالخصوص قراردادنمبر47جو1948میں منظورکی گئی، کشمیرمیں استصوابِ رائے کی حمایت کرتی ہے۔تاہم بھارت اس پرعملدرآمدسے گریزاں رہا ہے۔عالمی عدالتِ انصاف اورانسانی حقوق کی تنظیمیں اس مسئلے پرمسلسل خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کی طرف سے منظورشدہ قراردادیں ان ضامنوں سے سوال کرتی ہیں کہ کیا اگرتمہارے ملک کے عوام کے ساتھ ایسامعاہدہ اوروعدہ کیاگیاہوتاتوکیاتم اسی طرح خاموش رہتے، لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کی شہادت پراسی طرح آنکھیں بندرکھتے؟ تف ہے تمہارے اس کردارپرکہ خود تو دنیابھرمیں انسانی حقوق کے چیمپئن بننے کا دعویٰ کرتےہولیکن کشمیرکے معاملے پرتم سب کوسانپ سونگھ جاتاہے اورتم سب اپنے مفادات کے اسیربن کرغزہ میں نیتن یاہواورکشمیرمیں مودی کی ظالم فوج کوکشمیریوں کے کھلے عام قتل کالائسنس دینے میں کوئی عارنہیں سمجھتے۔بین الاقوامی قانون کے تحت شہری آبادی کونشانہ بناناجنگی جرائم کے زمرے میں آتاہے،اورایسے واقعات میں اقوامِ متحدہ کی مداخلت لازم ہے،بصورتِ دیگرعالمی اداروں کی ساکھ پرسوال اٹھتے ہیں۔
وادی کشمیر،تیری خاک بھی چراغاں ہے، کشمیر کی فضاآج بھی خموش نہیں۔وہ اپنے زخموں سے بھی چیختی ہے،اپنے بادلوں سے بھی روتی ہے،یہ ایک حادثہ نہیں،یہ تاریخ کاورق ہے خون میں ڈوبا،چیخوں سے مزین،اورجھوٹ کے غلاف میں لپٹاہوا،اور اپنی برف میں بھی سوال چھپائے رکھتی ہے۔آج بھی کئی سوال ہیں جوتاریخ کے سینے میں دھڑکتے ہیں ۔ وادی کشمیر کی سرسبزپہاڑوں میں بہائے جانے والاخون آج بھی یہ سوال پوچھتاہے کہ اگریہ سازش ہے،تواس کے معمارکون ہیں؟اگرانڈیاخود اپنے شہریوں کے خون سے اپنا دامن رنگ رہاہے،توکیا عالمی برادری اس جرم کی چشم پوشی کرے گی؟ اگر امریکاپشت پناہی کرے گا،توچین وروس کاردعمل کیا ہوگا؟ یہ واقعہ صرف ایک سانحہ نہیں بلکہ عالمی سفارتی شطرنج کی چال معلوم ہوتاہے،جس میں انسانی جانیں محض مہرے بن چکی ہیں۔اگردنیا نے اس پرسنجیدگی سے غورنہ کیاتویہ شعلے پورے خطے کواپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔اب وقت ہے کہ عالمی برادری،اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں نہ صرف اس واقعہ کی شفاف تحقیقات کامطالبہ کریں بلکہ اس پسِ پردہ ہاتھوں کو بھی بےنقاب کریں جوامن کے نام پرجنگ کاکھیل کھیل رہے ہیں۔ واقعے کی آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات ہونی چاہئیں، خاص طور پرجب تاریخی طور پرانڈین خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے شواہدموجودہیں۔
جیوپولیٹیکل احتیاط اورکشمیر کے معاملے پر پاکستان کوچین اورروس کے ساتھ تعلقات کومزید مضبوط بنانے کے لئےفوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔خطے میں امن وسلامتی اورکشمیر کے معاملے پر اپنے ہمسایوں افغانستان، ایران کے ساتھ مل کراقوام متحدہ میں انڈیاکی ممکنہ جارحیت کے خلاف بلاک بنانے کی ضرورت ہے۔ خطے کے عوام کے اندرفوری طورپرپرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاکے ذریعے ایک جامع عوامی بیداری کی مہم کاآغازکیاجائے اور ایسے واقعات کے پیچھے چھپی سازشوں کے بارے میں آگاہ کیاجائے،تاکہ عوام پروپیگنڈے کا شکارنہ ہوں۔ اس سارے معاملے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کشمیرکی مقامی آبادی کوتشدد کی قیمت اداکرنی پڑرہی ہے،جبکہ طاقتور ممالک اپنے مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ مضمون ان تمام عناصر کے لئے ایک دعوتِ فکرہے جوخطے میں دیرپاامن کے خواہاں ہیں۔یہاں ہرفقرہ ایک سوال ہے،اورہرسوال کے پیچھے ایک چیخ ہے جوانصاف کی متقاضی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین الاقوامی اقوام متحدہ میں بھارت کے معاملے متحدہ کی کی کوشش کے لئے چین کے
پڑھیں:
’’ میرا مقام بیت الخلا صاف کرنے والوں سے بھی نیچے ہے ، میں تو ۔۔‘‘ سہیل وڑائچ نے آخر کار خاموشی توڑ دی
اسلام آباد (نیوز ڈیسک )اداکارہ و گلوکارہ فضا علی کو سینئر صحافی سہیل وڑائچ سے متعلق متنازع بات کرنے پر تنقید کا سامنا ہے تاہم اب سینئر صحافی نے بھی خاموشی توڑتے ہوئے زبردست جواب دیدیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق فضا علی نے حال ہی میں نجی ٹی وی کے پروگرام’ آن دا فرنٹ‘‘ میں شرکت کی، جہاں میزبان کامران شاہد کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے پروگرام میں موجود شخصیات کے متبادل پیشے کا ’’تفریحی انداز‘‘ میں ذکر کیا۔تاہم، فضا علی کا صحافی سہیل وڑائچ سے متعلق بیان سب سے زیادہ متنازع ثابت ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’’وڑائچ صاحب پہلے تو معذرت، سچ بولنا میرا ٹاسک ہے، مجبوری ہے، آپ کسی ریسٹورنٹ یا بیرون ملک کسی واش روم کے سویپر ہوتے،کیوں ہوتے؟ یہ سوال ہے ، کیونکہ جتنی بھی عورتیں ہیں، ان کے واش روم میں یہ ضرور گئے ہیں، ہمیں تو یہ دکھایاگیا کہ یہ واش روم میں گئے ہیں، اندر اگر تپڑی لگا کر آئے ہوں یا دوائی ڈال کر، ہمیں کیا پتہ ، وہ چیز تو ہمیں نہیں دکھاتے ‘‘۔
My status is even below than toilet cleaners: I’m a street dirt as Mian Muhammad Baksh called himself” galian da rora kora” cleaning toilet in my view is not insult as cleaning dirt of others a noble service https://t.co/PKebchqOzA
— Suhail Warraich (@suhailswarraich) June 9, 2025
اداکارہ فضا علی کا یہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیاہے جس کے جواب میں سہیل وڑائچ نے اپنا مؤقف جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میرا مقام بیت الخلاء صاف کرنے والوں سے بھی نیچے ہے؛ میں تو گلیوں کی خاک ہوں، جیسا کہ میاں محمد بخش نے خود کو ’’گلیاں دا روڑا کوڑا‘‘کہا۔ میرے نزدیک بیت الخلا ءصاف کرنا کوئی توہین نہیں، بلکہ دوسروں کی گندگی صاف کرنا ایک عظیم خدمت ہے۔‘‘
فضا علی کا یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا، جس کے بعد انہیں کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ایک صارف نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ سہیل وڑائچ ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتے ہیں، خاتون ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ جو منہ میں آئے بولتی جائیں۔
مزیدپڑھیں:اداکارہ ہانیہ عامر نے حج کی سعادت حاصل کرلی