ماتمِ پہلگام ۔۔۔۔۔۔خاموشی کی چیخ
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
کشمیرمیں حالیہ دہشت گردی کے واقعے کا جغرافیائی،سیاسی وعسکری اورانٹیلی جنس تناظرمیں ہونے والے واقعات کاجائزہ لیاجائے توبھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں پرماضی میں مختلف داخلی فالس فلیگ آپریشنزکا الزام لگتارہاہے جوبعدازاں تحقیقات پرانڈین سازش کے بھیانک اورخوفناک چہرے سے نقاب ہٹانے میں مددگارثابت بھی ہوچکاہے۔مثلاچھٹی سنگھ پورہ جموں، پٹھانکوٹ اورممبئی حملوں کے تناظرمیں یہ بحث ہمیشہ زندہ رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کارروائیوں میں داخلی ہاتھ ملوث رہاہے،جو عالمی رائے عامہ کومتاثر کرنے کے لئے انجام دی جاتی ہیں۔اسی طرح،ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی،اوربلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی بھارتی سرپرستی کے بھی مصدقہ شواہد موجود ہیں،جنہیں پاکستان متعددبین الاقوامی فورمزپرپیش کرچکاہے۔
خطے کی موجودہ عالمی صورتِ حال محض دوقوموں کی کشمکش نہیں بلکہ ایک وسیع ترطاقت آزمائی کی تصویربن چکی ہے جہاں عالمی قوتیں علاقائی شطرنج کی بساط پراپنے سفارتی حربوں کے پیادوں کواستعمال کرکے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ایسے خوفناک ڈراموں کی پشت پناہی پرموجود ہوتے ہیں۔جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادی چین کے تجارتی و عسکری اثرورسوخ کوروکنے کی کوشش کررہے ہیں،وہیں سی پیک جیسے منصوبے،جنہیں پاکستان اورچین نے اپنی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا ہے ، مغربی اوربھارتی قوتوں کی آنکھوں کاکانٹابنے ہوئے ہیں۔ امریکا اورچین کے مابین بڑھتی ہوئی تجارتی کشمکش میں بھارت کی شمولیت کونظراندازنہیں کیاجا سکتا۔ کواڈاتحاد،جس میں بھارت، امریکا، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں،دراصل چین کے خلاف ایک معاشی و عسکری بندباندھنے کی کوشش ہے۔ چین اورپاکستان کا مشترکہ منصوبہ سی پیک،بھارت اور مغربی طاقتوں کی آنکھ کاکانٹاہے۔بلوچستان اورکشمیرمیں دہشتگردی کواس تناظرمیں بھی دیکھاجاسکتاہے کہ یہ سی پیک کوغیرمستحکم کرنے کی ایک کڑی ہے۔ انڈو،امریکن اتحاد ،اسرائیلی عسکری معاونت اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں ،سب ایک مربوط جغرافیائی تانے بانے کی نشاندہی کرتی ہیں۔کیایہ سانحہ بھی اسی عالمی بساط پرایک پیادہ قربان کرنے کی حکمت عملی ہے؟
اسرائیل اوربھارت کے درمیان عسکری وانٹیلی جنس تعاون اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے دوران بھارت کی حمایت،اوراسرائیلی فوج میں بھارتی رضاکاروں کی شمولیت،یہ سب ایک نئے سفارتی اتحادکی نشاندہی کرتے ہیں جس کے اثرات جنوبی ایشیا میں بھی دیکھےجاسکتے ہیں۔ امریکاانڈیاکوایشیاء میں چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہےلہذا وہ کشمیرکے معاملے پرخاموشی اختیارکرسکتاہے۔تاہم، اگر ثبوت سامنے آتے ہیں کہ انڈیاخود ساختہ حملوں میں ملوث ہے،توامریکا کی پوزیشن پیچیدہ ہوسکتی ہے۔تاہم ٹرمپ نے اقتدارمیں آنے کے بعدجس طرح عالمی چپقلش کوبڑھانے کے لئے جن پالیسیوں کااعلان کر کےاپنے دوستوں کو بھی نہیں بخشا،اس کابین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آناشروع ہوگیاہے اورعین ممکن ہےکہ ٹرائیکانے باہم ایک سازش کےتحت پہلگام جیسےواقعہ کےلئے اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے اس ڈرامہ کواس لئے بھی رچایاہے کہ ٹرمپ۔اسرائیل اورانڈیاکے اندرونی خلفشارسے توجہ ہٹانے کے لئے ویساہی ڈرامہ کیاجائے جواس سے پہلے کئی مواقع پرکیاگیاہے۔
چین کشمیرکے معاملے پرپاکستان کی حمایت کرتارہاہے اورسی پیک کے تحفظ کواپنی قومی سلامتی سےجوڑتاہے۔اگرانڈیاکاملوث ثابت ہوتاہے، تو چین اقوام متحدہ یادیگرفورمز پردباؤ بڑھا سکتاہے۔ دوسری طرف روس،جوچین کااتحادی ہے،ممکنہ طور پرانڈیاپرنرم مؤقف اپنائے گا کیونکہ انڈیا اسلحے کی خریداری میں روس کااہم گاہک ہے۔ مکمل سیاسی تجزیہ کے لئے داخلی محرکات کے ان اہم نکات کوبھی سامنے رکھناہوگا۔ کیاانڈیا کشمیرمیں اپنی پالیسیوں کی ناکامی چھپانے یافوجی موجودگی کوجوازدینے کے لئے ایسے واقعات کواستعمال کررہاہے؟
کیا انڈیا نےکشمیراورہندوستان میں مسلمانوں پرجاری مظالم سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ فالس فلیگ آپریشن کیاہے؟ کیاخطے میں بھارتی تسلط سے بنگلہ دیش کی آزادی پاک بنگلہ دیش کے نئے دوستی کے اتحادکی وجہ یہ ڈرامہ رچایاگیاہے؟ کیا(انڈیا، اسرائیل،امریکا)ایک نیامحاذ کھول کرچین، پاکستان،اورایران کے اتحادکوکمزورکرنا چاہتے ہیں؟کیامغربی میڈیا اس واقعے کو’’اسلامی دہشت گردی‘‘کے طورپرپیش کرکے مقامی کشمیری مزاحمت کوداغدارکرنے کی کوشش کرے گا؟ بین الاقوامی المیےمیں ذرائع ابلاغ،بیانیے کی جنگ، اورسچ کاگلا گھونٹنے میں ٹرائیکا (امریکا، اسرائیل اور انڈیا)کے میڈیاکاکردار قابلِ نفرت بن چکاہے۔ جہاں ایک طرف غزہ میں اسرائیلی مظالم پرپردہ ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے،وہیں کشمیرمیں اس طرح کے واقعات کوری ایکشن قراردے کردنیاکو گمراہ کیاجارہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیاکی خاموشی، بالخصوص مغربی ذرائع ابلاغ کاتعصب،ان کارروائیوں کوپسِ منظرمیں دھکیل دیتاہے تاکہ اسرائیل و بھارت کےاقدامات پرسوال نہ اٹھیں۔ کیادنیاکی آنکھیں اب صرف وہی آنسو دیکھتی ہیں جو امریکاکی مرضی سے بہائےجائیں؟
بین الاقوامی قانونی تناظرمیں ان عالمی طاقتوں کی خاموشی جواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیرکے حق خودارادیت کے معاہدے میں بطور ضامن دستخط کرچکی ہیں،اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، بالخصوص قراردادنمبر47جو1948میں منظورکی گئی، کشمیرمیں استصوابِ رائے کی حمایت کرتی ہے۔تاہم بھارت اس پرعملدرآمدسے گریزاں رہا ہے۔عالمی عدالتِ انصاف اورانسانی حقوق کی تنظیمیں اس مسئلے پرمسلسل خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کی طرف سے منظورشدہ قراردادیں ان ضامنوں سے سوال کرتی ہیں کہ کیا اگرتمہارے ملک کے عوام کے ساتھ ایسامعاہدہ اوروعدہ کیاگیاہوتاتوکیاتم اسی طرح خاموش رہتے، لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کی شہادت پراسی طرح آنکھیں بندرکھتے؟ تف ہے تمہارے اس کردارپرکہ خود تو دنیابھرمیں انسانی حقوق کے چیمپئن بننے کا دعویٰ کرتےہولیکن کشمیرکے معاملے پرتم سب کوسانپ سونگھ جاتاہے اورتم سب اپنے مفادات کے اسیربن کرغزہ میں نیتن یاہواورکشمیرمیں مودی کی ظالم فوج کوکشمیریوں کے کھلے عام قتل کالائسنس دینے میں کوئی عارنہیں سمجھتے۔بین الاقوامی قانون کے تحت شہری آبادی کونشانہ بناناجنگی جرائم کے زمرے میں آتاہے،اورایسے واقعات میں اقوامِ متحدہ کی مداخلت لازم ہے،بصورتِ دیگرعالمی اداروں کی ساکھ پرسوال اٹھتے ہیں۔
وادی کشمیر،تیری خاک بھی چراغاں ہے، کشمیر کی فضاآج بھی خموش نہیں۔وہ اپنے زخموں سے بھی چیختی ہے،اپنے بادلوں سے بھی روتی ہے،یہ ایک حادثہ نہیں،یہ تاریخ کاورق ہے خون میں ڈوبا،چیخوں سے مزین،اورجھوٹ کے غلاف میں لپٹاہوا،اور اپنی برف میں بھی سوال چھپائے رکھتی ہے۔آج بھی کئی سوال ہیں جوتاریخ کے سینے میں دھڑکتے ہیں ۔ وادی کشمیر کی سرسبزپہاڑوں میں بہائے جانے والاخون آج بھی یہ سوال پوچھتاہے کہ اگریہ سازش ہے،تواس کے معمارکون ہیں؟اگرانڈیاخود اپنے شہریوں کے خون سے اپنا دامن رنگ رہاہے،توکیا عالمی برادری اس جرم کی چشم پوشی کرے گی؟ اگر امریکاپشت پناہی کرے گا،توچین وروس کاردعمل کیا ہوگا؟ یہ واقعہ صرف ایک سانحہ نہیں بلکہ عالمی سفارتی شطرنج کی چال معلوم ہوتاہے،جس میں انسانی جانیں محض مہرے بن چکی ہیں۔اگردنیا نے اس پرسنجیدگی سے غورنہ کیاتویہ شعلے پورے خطے کواپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔اب وقت ہے کہ عالمی برادری،اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں نہ صرف اس واقعہ کی شفاف تحقیقات کامطالبہ کریں بلکہ اس پسِ پردہ ہاتھوں کو بھی بےنقاب کریں جوامن کے نام پرجنگ کاکھیل کھیل رہے ہیں۔ واقعے کی آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات ہونی چاہئیں، خاص طور پرجب تاریخی طور پرانڈین خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے شواہدموجودہیں۔
جیوپولیٹیکل احتیاط اورکشمیر کے معاملے پر پاکستان کوچین اورروس کے ساتھ تعلقات کومزید مضبوط بنانے کے لئےفوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔خطے میں امن وسلامتی اورکشمیر کے معاملے پر اپنے ہمسایوں افغانستان، ایران کے ساتھ مل کراقوام متحدہ میں انڈیاکی ممکنہ جارحیت کے خلاف بلاک بنانے کی ضرورت ہے۔ خطے کے عوام کے اندرفوری طورپرپرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاکے ذریعے ایک جامع عوامی بیداری کی مہم کاآغازکیاجائے اور ایسے واقعات کے پیچھے چھپی سازشوں کے بارے میں آگاہ کیاجائے،تاکہ عوام پروپیگنڈے کا شکارنہ ہوں۔ اس سارے معاملے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کشمیرکی مقامی آبادی کوتشدد کی قیمت اداکرنی پڑرہی ہے،جبکہ طاقتور ممالک اپنے مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ مضمون ان تمام عناصر کے لئے ایک دعوتِ فکرہے جوخطے میں دیرپاامن کے خواہاں ہیں۔یہاں ہرفقرہ ایک سوال ہے،اورہرسوال کے پیچھے ایک چیخ ہے جوانصاف کی متقاضی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین الاقوامی اقوام متحدہ میں بھارت کے معاملے متحدہ کی کی کوشش کے لئے چین کے
پڑھیں:
خاموشی ‘نہیں اتحاد کٹہرے میں لانا ہوگا : اسرائیل کیخلاف اقدامات ورنہ تاریخ معاف نہیں کریگی : وزیراعظم
دوحہ‘ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی+ این این آئی+ خبر نگار خصوصی) قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے دوحہ میں عرب اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر اسلامی ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی۔ ان میں طیب اردگان‘ اردن کے شاہ عبداللہ دوئم‘ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان‘ مصری‘ تاجک صدور بھی موجود تھے۔ امیر قطر نے اپنے خطاب میں کہا اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدیں پار کر دیں۔ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ اسرائیل نے قطر کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی ہے۔ دوحہ میں اسرائیلی حملہ بہت بڑی جارحیت ہے۔ قطر نے ثالث کے طور پر خطے میں امن کیلئے مخلصانہ کوششیں کیں۔ اسرائیل نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرتے ہوئے حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا۔ یرغمالیوں کی پرامن رہائی کے اسرائیل کے تمام دعوے جھوٹے ہیں۔ گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے مسئلہ فلسطین حل کرنا ہوگا۔ اسرائیل کی جانب سے خطے کے ملکوں کی خود مختاری کی خلاف ورزی قابل مذمت ہے۔ صیہونی حکومت انسانیت کیخلاف جرائم کی مرتکب ہوئی ہے۔ اسرائیل کی طرف سے عالمی قوانین کی سنگین پامالی لمحہ فکریہ ہے۔ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے امن کو خطرات لاحق ہیں۔ سیکرٹری جنرل او آئی سی نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ بھوک کا بطور ہتھیار استعمال کرنا گھٹیا حرکت ہے۔ غزہ میں امداد کی بلاتعطل اور فوری فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔ اسرائیلی بربریت اور مظالم نے تمام حدیں پار کر لی ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے خطے کے ممالک کو نشانہ بنانا انتہائی تشویشناک ہے۔ قطر پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کا حل ناگزیر ہے۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ جرم کے سامنے خاموشی مزید جرائم کی راہ ہموار کرتی ہے۔ قطر تنہا نہیں، عرب اور اسلامی دنیا ساتھ کھڑی ہے۔ قطر تنہا نہیں، عرب اور اسلامی دنیا اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے اقدامات دو سال تک غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر خاموش رہنے کا براہ راست نتیجہ ہیں، جس سے قابضین کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ عالمی برادری کو جنگی جرائم پر اسرائیل کی جوابدہی کرنا ہوگی۔ عراقی وزیراعظم شیاع السودانی نے کہا اسرائیلی اقدامات ہماری اجتماعی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ عالمی برادری دوہرا معیار ترک کرے۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی بولے اسرائیل نے ریڈ لائنز کراس کر لیں۔ اسے کوئی استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔ جوابدہ ٹھہرانا ہوگا۔ اسرائیل عالمی امن کیلئے سنگین خطرہ بن گیا۔ دوحہ سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم مشرق وسطیٰ اور عالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہیں۔ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے حملوں نے خطے کی سلامتی کو خطرات میں ڈال دیا۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی نہ روکی گئی تو غزہ اور یورپی دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا۔ غزہ میں نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ مسلمان ملکوں کی طرف سے قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی قابل ستائش ہے۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ اسرائیل پر سخت پابندیاں لگائی جائیں‘ مسلم ممالک اتحاد کریں۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے عرب اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ اسرائیل کے جنگی جرائم تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔ اسرائیلی اقدامات روکنے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ فوری امداد کی فراہمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی روکنا ناگزیر ہے۔ سال 1967ء کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کا قیام ہی امن کا راستہ ہے۔ اسرائیل کا محاسبہ ناگزیر ہے۔ امریکہ اور سلامتی کونسل اسرائیلی جارحیت اور جرائم رکوائیں۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ کھلی دہشت گردی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل کے قطر پر حملے کا مقصد غزہ میں نسل کشی رکوانے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اب کوئی ملک بھی اسرائیل کی جارحیت سے بچا ہوا نہیں ہے۔ تل ابیب کی لگام تھامنے کے لئے مسلم ممالک کے اتحاد کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مسعود پز شکیان نے مزید کہا کہ اسرائیل کے صیہونی رہنماؤں کا محاسبہ ہونا چاہئے۔ دوحہ پر اسرائیلی حملہ سرخ لکیر سے تجاوز ہے۔ اردن کے شاہ عبداﷲ دوم نے کہا اسرائیلی حملے نے خطے کی صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنانے کے لیے عرب اسلامی ٹاسک فورس قائم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تشدد مسائل کا حل نہیں، بات چیت سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں دو سال سے جاری بربریت عالمی برادری کے ضمیر پر سوالیہ نشان ہے۔ مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے کہا کہ دوحہ پر حملہ قطر کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔ موریطانیہ کے صدر محمد اولد شیخ غزنوی نے کہا اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات سے امن کو خطرات لاحق ہیں۔ صومالیہ کے صدر حسن شیخ محمود نے کہا کہ اسرائیل نے قطر کے خلاف جارحیت کر کے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ غزہ میں فوری غیر مشروط جنگ بندی ضروری ہے۔ کوموروس کے صدر نے کہا کہ قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ شام کے صدر احمد الشرع نے کہا کہ قطر کے خلاف اسرائیلی جارحیت قابل مذمت ہے۔ کویت کے ولی عہد شیخ صباح الخالد نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہم قطر کے ساتھ ہیں اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ اسرائیل نے حملہ کر کے قطر کی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ سربراہ اجلاس سے دیگر عرب اسلامی ممالک کے رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔
دوحہ؍ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ اے پی پی+ خبر نگار خصوصی) وزیراعظم شہباز شریف نے دوحہ میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ وزیراعظم سعودی ولی عہد سے گلے ملے اور خوشگوار جملوں کا تبادلہ کیا۔ انہوں نے ترک صدر رجب طیب اردگان سے بھی ملاقات کی۔ وزیراعظم نے امیر قطر سے بھی ملاقات کی۔ فلسطینی صدر محمود عباس، تاجکستان اور مصر کے صدور سے بھی ملاقاتیں کیں۔ قبل ازیں وزیراعظم ایک روزہ سرکاری دورے پر قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے تو دوحہ ایئرپورٹ پر قطر کے وزیر ثقافت شیخ عبد الرحمن بن حمد بن جاسم بن حمد الثانی نے وزیراعظم اور پاکستانی وفد کا استقبال کیا۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ اور معاون خصوصی سید طارق فاطمی وزیراعظم کے ساتھ اعلیٰ سطح کے وفد میں شامل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے موقع پر فیلڈ مارشل عاصم منیر‘ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار بھی موجود تھے۔ دونوں رہنماؤں نے اسرائیلی جارحیت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر گفتگو کی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے کہا اسرائیلی جارحیت مشرق وسطیٰ میں امن کی کاوشوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ شہباز شریف ملائیشیا کے وزیراعظم سے بھی ملے، محمود عباس کے ساتھ گرمجوشی سے ملاقات کی۔ کانفرنس میں پچاس سے زائد مسلم ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی۔ شہباز شریف نے عرب اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ ہم ایک اہم اور افسوسناک واقعے کے تناظر میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے ہمارے برادر ملک قطر کی خود مختاری اور سلامتی کی خلاف وزی کی۔ پاکستان قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ اسرائیل کا قطر پر حملہ جارحانہ اقدامات کا تسلسل ہے۔ اسرائیل نے جارحیت کے ذریعے امن کی کوششوں کو شدید دھچکا دیا۔ پاکستان دوحہ پر اسرائیلی حملے کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ اسرائیل کو انسانیت کے خلاف جرائم پر جوابدہ کرنا ہوگا۔ اس جارحیت کے بعد سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے مذاکرات کا ڈھونگ کیوں رچایا۔ یو این سکیورٹی کونسل غزہ میں فوری سیزفائر کرائے۔ بجائے خاموش رہنے کے ہمیں متحد ہونا ہوگا۔ غزہ میں طبی امداد کی فوری رسائی دی جائے۔ 1967ء کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ ہم سب اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانا قابل مذمت ہے۔ غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے، انسانیت کیخلاف جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔ ہم نے اجتماعی دانش کے تحت اقدامات نہ کئے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کے حامی ہیں۔ غزہ میں شہری آبادی کو فوری اور ہنگامی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے موقع پر سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیرِاعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود سے ملاقات کی اور اسرائیلی جارحیت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق ملاقات میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔ انتہائی پرتپاک اور دوستانہ ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے اسرائیل کی جارحیت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور قطر پر حملے کو سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔ وزیراعظم نے امہ کو متحد کرنے میں سعودی ولی عہد کی دانشمندانہ قیادت کی تعریف کی۔ وزیرِاعظم نے اسرائیلی اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ایک دانستہ کوشش قرار دیا۔ وزیرِ اعظم نے اس نازک گھڑی میں امت مسلمہ کو متحد کرنے پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جرات مندانہ اور بصیرت افروز قیادت کو سراہا۔ وزیرِاعظم نے سعودی ولی عہد کو پاکستان کی طرف سے بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھرپور سفارتی حمایت کا یقین دلایا جس میں پاکستان اس وقت غیر مستقل رکن ہے۔ اس کے علاوہ او آئی سی سمیت تمام دوسرے سفارتی کثیر الجہتی فورمز پر بھی پاکستان کی طرف سے بھرپور سفارتی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم نے کہا کہ دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کا انعقاد اس امر کا واضح پیغام ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اسرائیل کی غیر قانونی اور بہیمانہ جارحیت، جو علاقائی امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہے، کے خلاف ایک آواز ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تاریخی اور گہرے برادرانہ تعلقات کا اعادہ کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کے ساتھ ہر مشکل گھڑی میں بھرپور حمایت پر ولی عہد کا شکریہ ادا کیا۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ وہ وزیرِ اعظم کے رواں ہفتے کے آخر میں سرکاری دورہ ریاض کے منتظر ہیں جس سے دوطرفہ علاقائی اور بین الاقوامی امور پر جامع بات چیت کا اہم موقع ملے گا۔ وزیراعظم نے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے اس نازک وقت میں قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی کے فورم پر پاکستان کی بھرپور سفارتی کوششوں اور وزیراعظم کی قیادت کو سراہا۔ ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے عرب اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ کوئی بھی پرامن ملک صیہونی جارحیت کی حمایت نہیں کر سکتا۔ کسی خود مختار ریاست کے دارالحکومت کو نشانہ بنانا غیر قانونی ہے۔ کویت کے ولی عہد نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل نے جارحیت کی، ہم قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ اسرائیل نے حملہ کرکے قطر کی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی کی۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے خلاف مسلم دنیا متحد ہو گئی۔ مسلم ممالک نے اسرائیل کے خلاف قطر کو جوابی اقدامات کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروا دی۔ دوحہ میں عرب سربراہ ہنگامی اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ قطر کے ثالثی عمل پر حملہ عالمی امن کوششوں پر حملہ ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں اسرائیل کی جارحیت کو امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا۔ قطر پر بزدلانہ اور غیرقانونی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔ قطر کی خود مختاری کے دفاع کے لئے مکمل حمایت کا اظہار کیا گیا۔ اعلامیے میں قطر‘ مصر‘ امریکہ کی غزہ جنگ بندی کی ثالثی کوششوں کی مکمل حمایت کی گئی۔ اسرائیلی حملے کو جواز دینے کی ہر کوشش کی سختی سے مخالفت کی گئی۔ اسرائیلی جارحیت کو درست ثابت کرنے کی کسی بھی کوشش کو مکمل مسترد کر دیا گیا۔ قطر کو دوبارہ نشانہ بنانے کی اسرائیلی دھمکیوں کی شدید مذمت کی گئی۔ امن و سلامتی کے قیام کے لئے ثالثی اور حمایت میں قطر کے تعمیری اور قابل تعریف کردار کو سراہا گیا۔ دریں اثناء پاکستان اور اردن نے اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کے مقابلے کے لئے امت مسلمہ کے اتحاد کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے خطے میں امن و استحکام کے لیے عالمی حمایت کے حصول کی غرض سے قریبی مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اردن کے فرماں روا شاہ عبداللہ دوم سے دوحہ میں ہنگامی عرب۔اسلامی سربراہ اجلاس کے موقع پر ملاقات کی۔ اس موقع پر محمد اسحاق ڈار اور چیف آف آرمی سٹاف‘ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے قطر کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور مشرق وسطیٰ کے امن کے قیام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا۔ وزیراعظم نے فلسطین کے مسئلے پر شاہ عبداللہ دوم کی مدبرانہ قیادت کو خراجِ تحسین پیش کیا۔