بھاری رقم غلط سعودی اکاونٹ میں منتقل ،ہزاروں پاکستانیوں کے حج سے محروم ہونے کا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
اسلام آباد(اوصاف نیوز)وفاقی حکومت کی جانب سے غلط سعودی اکاونٹ میں حج فنڈز بھیجنے کے بعد ہزاروں پاکستانی حج سے رہ گئے۔ہزاروں پاکستانیوں کے حج سے محروم ہونے کا خطرہ ہے ۔ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے غلطی سے حجاج کرام کی اداکی گئی رقم غلط سعودی اکاؤنٹ میں جمع کروادی۔
رواں ہفتے کے شروع میں، پاکستان کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے سربراہ ملک محمد عامر ڈوگر نے اس غلطی کی تصدیق بھی کردی ،، جس سے 67,000 پاکستانی حجاج کا سعودی عرب جانا کھٹائی میں پڑھ گیا
اس حادثے کو “ملکی تاریخ کے سب سے بڑا سکینڈلز” قرار دیتے ہوئے، عامر ڈوگر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ وضاحت کرے کہ کیوں تقریباً 50 ملین سعودی ریال ($ 13.
فنڈز کا صحیح وصول کنندہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ڈوگر نے کہا، “یہ صرف پیسے کی بات نہیں ہے۔ “یہ 67,000 پاکستانیوں کے خوابوں اور ایمان کے بارے میں ہے جو اب پیچھے رہ گئے ہیں۔ذمہ داروں کی شناخت ہونی چاہیے – چاہے وہ وزارت میں ہوں یا حج پیکج بیچنے والے پرائیویٹ آپریٹرز میں۔
اگر حج نہیں ہو سکتا تو رقم واپس کردی جائے، ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ حاجیوں کے پیسوں سے منافع کمایا جا رہا ہے۔عامرڈوگر کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی سردار محمد یوسف نے افسوس کا اظہار کیا اور کمیٹی کو یقین دلایا کہ فنڈز کی وصولی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
سسٹم کے ذریعے بھیجی گئی رقم واپس کر دی جائے گی۔ ہم نے پہلے ہی 10,000 اضافی سلاٹ حاصل کر لیے ہیں، اور مزید جگہوں کے لیے بات چیت جاری ہے،” وزیرمذہبی امور محمد یوسف کہا کہ اس واقعے نے پاکستان میں حکومت کی جانب سے حج کے انتظامات کے حوالے سے بڑھتے ہوئے بحران کو مزید گھمبیر کر دیا ہے، ہزاروں افراد ابھی تک اس بات پر معترض ہیں کہ آیا وہ اس سال حج ادا کر سکیں گے یا نہیں۔
ہر سال سعودی عرب دنیا بھر کے ممالک کے لیے حج سلاٹ کا کوٹہ مختص کرتا ہے۔اس سال، پاکستانی حکومتی دستاویزات نے اشارہ کیا کہ ریاض نے ملک کو تقریباً 179,210 جگہیں دی ہیں۔اس میں سے سرکاری حکام نے نجی فراہم کنندگان کے لیے 89,605 جگہیں مختص کیں، جب کہ ریاض نے پاکستانی حکام کو مزید 10,000 مقامات سے نوازا۔
تاہم، پرائیویٹ آپریٹرز اپنے الاٹ کردہ سلاٹوں میں سے صرف 23,000 کو بھرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے سعودی حکومت کے آن لائن سسٹم کو اس کمی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔اس دوران پاکستانی حکام نے نجی آپریٹرز پر جان بوجھ کر اس عمل میں تاخیر کا الزام لگایا ہے۔
تحریر کے وقت، یوسف نے مڈل ایسٹ آئی کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا تھا۔اس غلطی کے اثرات یورپ، شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ میں پاکستانی دہری شہریت رکھنے والوں پر بھی پڑ سکتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے پورٹل کے ذریعے حج کے لیے رجسٹریشن کرائی تھی۔
سعودی عرب کی جانب سے برطانیہ اور امریکا سمیت ممالک کے لیے حج بکنگ کے نظام کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے ہزاروں افراد اس راستے پر انحصار کر رہے ہیں۔تاہم، پاکستانی حکومت کے حادثے نے ان کے حج کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ٹریول آپریٹرز سے سننے کے منتظر ہیں۔
ستاروں کی روشنی میں آج بروزہفتہ،26اپریل 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی جانب سے ا پریٹرز کے لیے
پڑھیں:
ایک سال میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: گزشتہ ایک سال کے دوران بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
پاکستان میں معاشی دباؤ، بڑھتی مہنگائی اور مقامی سطح پر روزگار کی کمی ایک عرصے سے عوام کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک کا رخ کریں۔ حالیہ اقتصادی سروے رپورٹ نے اس رجحان کی ایک چونکا دینے والی تصویر پیش کی ہے، جس کے مطابق صرف رواں مالی سال میں لاکھوں پاکستانیوں نے روزگار کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ کر غیرملکی سرزمین پر قدم رکھا ہے۔
یہ رپورٹ نہ صرف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ ہے بلکہ اس میں وہ تلخ حقیقت بھی جھلکتی ہے جس کا سامنا پاکستانی نوجوان روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ رواں سال میں مجموعی طور پر جو پاکستانی ملازمت کے لیے بیرون ملک گئے، ان کی تعداد 7 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک شخص ایک خواب، ایک امید اور ایک جدوجہد لے کر سرحد پار گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ افراد صوبہ پنجاب سے بیرون ملک روانہ ہوئے، جہاں معاشی حالات اور آبادی کے دباؤ نے اس رجحان کو اور تیز کر دیا ہے۔ پنجاب سے مجموعی طور پر 4 لاکھ 4 ہزار 345 افراد نے دیگر ممالک میں روزگار کی تلاش میں ہجرت کی۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صوبہ بھر میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں یا جو موجود ہیں وہ خاطر خواہ تنخواہ یا معیار زندگی فراہم نہیں کرتے۔
دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا رہا، جہاں سے ایک لاکھ 87 ہزار افراد نے غیرملکی ملازمتوں کے لیے رجوع کیا۔ صوبے میں اگرچہ ترسیلات زر کا ایک مضبوط کلچر موجود ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں نقل مکانی اس بات کی علامت ہے کہ مقامی سطح پر معاشی بہتری کے دعوے زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔
تیسرے نمبر پر سندھ سے 60 ہزار 424 افراد بیرون ملک گئے، جو کہ خاص طور پر شہری علاقوں میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے بیشتر افراد مشرق وسطیٰ کے ممالک، بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب گئے جہاں تعمیرات، ڈرائیونگ، سیکورٹی اور دیگر خدمات کی شعبہ جات میں روزگار کے مواقع دستیاب تھے۔
رپورٹ میں ملک کے دیگر علاقوں کی صورتحال بھی سامنے لائی گئی ہے، جو کم توجہ کے باوجود قابلِ غور ہے۔ سابقہ فاٹا، اب ضم شدہ قبائلی اضلاع سے 29 ہزار 937 افراد نے ملک چھوڑا۔ ان علاقوں میں تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع کی کمی پہلے ہی عوام کو بیرونی دنیا کی طرف متوجہ کرتی رہی ہے، اور موجودہ اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر سے 29 ہزار 591 افراد نے روزگار کے لیے ہجرت کی، جس میں زیادہ تر لوگ برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرف گئے۔ یہ تعداد خاص طور پر اس لیے اہم ہے کیونکہ آزاد کشمیر میں پہلے سے ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے، جس کا اثر نوجوانوں کی سوچ پر بھی پڑتا ہے۔
اسلام آباد جو کہ ملک کا دارالحکومت اور نسبتاً خوشحال شہر تصور کیا جاتا ہے، وہاں سے بھی 8 ہزار 621 افراد نے بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روزگار کی کمی صرف پسماندہ علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بڑے شہروں تک پھیل چکی ہے۔
بلوچستان سے صرف 5 ہزار 668 افراد نے بیرون ملک ہجرت کی، جو نسبتاً کم تعداد ضرور ہے لیکن اسے بلوچستان کی آبادی اور رسائی کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں بنیادی سہولیات، تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے محدود وسائل عوام کو عالمی مارکیٹ کے لیے مکمل تیار نہیں کر پاتے۔
اسی طرح شمالی علاقہ جات، جیسے گلگت بلتستان وغیرہ سے صرف 1692 افراد نے بیرون ملک روزگار کے لیے سفر کیا۔ یہ تعداد کم ضرور ہے لیکن ان علاقوں میں روزگار کے مواقع کی قلت اور انفرا اسٹرکچر کی عدم موجودگی مستقبل میں اس رجحان کو بڑھا سکتی ہے۔
اقتصادی سروے کی یہ رپورٹ محض ایک عددی تجزیہ نہیں دیتی، بلکہ اس سے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آخر ہماری ریاست، حکومتیں اور ادارے کب اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے؟ کیا بیرون ملک جانے والے ہر پاکستانی کا خواب، عزت کی روٹی کمانا، ہمیں ایک قومی پالیسی بنانے پر مجبور نہیں کرتا؟ کیا ہمیں ملک میں ایسے حالات فراہم نہیں کرنے چاہییں کہ ہماری افرادی قوت ملک میں ہی استعمال ہو؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر ہماری معیشت کے لیے اہم ضرور ہیں، لیکن مسلسل بڑھتی ہجرت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو وہ مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں جن کی وہ حق دار ہے۔ اگر اس رجحان کو روکنا ہے تو ہمیں تعلیم، ہنر مندی، روزگار کی فراہمی اور کاروباری مواقع کے شعبوں میں فوری اور دیرپا اقدامات کرنے ہوں گے۔