بھارت میں پاکستان کے خلاف مِس ایڈونچر کی شدید مخالفت، مودی کا محاسبہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
سٹی42: بھارت میں ہندوتوا کو ریاست کی پالیسی کی حیثیت سے مسلط کرنے اور پاکستان کو ناجائز طور پر پہلگام سانحہ میں ملوث کرنے کی نریندر مودی کی پالیسی کی سخت مخالفت سامنے آ رہی ہے۔ سینئیر سٹیٹس مین، ریاست کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدارامیا نے بھی پہلگام سانحہ کو بھارت کی سکیورٹی ناکامی قرار دے دیا اور اس سانھہ کا الزام پاکستان پر دھر کر پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی کھلے عام مخالفت کر دی۔
گلیڈئیٹرز vs کے کے؛ روسو حسن علی کا تیسرا شکار بن گئے
چند روز پہلے مقبوضہ کشمیر کے پہاڑی قصبہ پہلگام کے قریب سیاحوں پر مسلھ افراد کے حملے میں 26 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے تھے، بھارت ن کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے روایتی ہٹ دھرمی اور تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی تحقیق کے اس سانحہ پر بے رحمانہ سیاست کی اور شوٹنگ کے لئے آدمی بھیجنے کا الزام پاکستان پر تھوپ دیا۔
چیف منسٹر سِِدو نے کیا کہا
قذافی سٹیڈیم میں کوئٹہ گلیڈئیٹرز اور کراچی کنگز کے میچ میں ڈرامائی آغاز
کرناٹک کے دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ سدارامیا نے پہلگام سانحہ کو لے کر پاکستان کے خلاف کسی مس ایڈونچر کی دو ٹوک الفاظ میں مخالفت کی ہے اور چند ہی جملوں سے نریندر مودی کو راہَ راست دکھا دی جس پر مودی کے چلنے کا تو سرِ دست کوئی ارادہ دکھائی نہیں دیتا تاہم بھارت میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے حوالے سے ان کی پالیسی کی گھر میں مخالفت مزید شدید ہونے کا قومی امکان ہے۔
سینئیر سیاست دان سدارامیا جنہیں عوام پیار سے سِدو کہتے ہیں، کانگرس کے رہنما ہیں، طویل عرصہ تک لوک سبھا میں کرناٹک کے عوام کی نمائندگی کرتے رہے ہیں اور 2018 سے مسلسل کرناٹک کے طیف منسٹر ہیں۔ انہوں نے نریندر مودی کی پاکستان کے خلاف حالیہ مہم جوئی کی مذمت کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، پہلگام واقعہ سکیورٹی کی ناکامی ہے، ہم جنگ کے حق میں نہیں ہیں۔
وفاقی کابینہ نے نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی تشکیل دیدی
وزیراعلیٰ سِدو نے البتہ یہ کہا کہ مودی کی مرکزی حکومت کی جانب سے جاری احکامات کے بعد پاکستانیوں کی (کرناٹک سٹیٹ سے) واپسی کے اقدامات کیے جائیں گے۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ جنگ کے مخالف سٹریٹ فارورڈ بیان دینے پر ہندو انتہا پسند بی جے پی سرکار کے رہنماؤں کی جانب سے وزیراعلیٰ سدارامیا پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ لیکن سی ایم سِدو تو بس سیدھی بات ہی کہنے کے عادی ہیں، وہ تنقید کو خاطر میں لاتے ہی کب ہیں۔
صدر مملکت سے وزیر داخلہ محسن نقوی کی اہم ملاقات
خیال رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے مودی سرکار کے بے سر و پا پروپیگنڈا کے جواب میں آج اعلان کیا ہے کہ پاکستان پہلگام سانحہ کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات میں خود شریک ہونا چاہتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے یہ اعلان کاکول اکیڈمی میں کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ تقریب میں کئی غیر ملکی سفارتکاروں کی موجودگی میں کیا، نئی دہلی سے اس دو ٹوک بیان کا اب تک جواب نہیں آیا اور غالباً کوئی جواب آئے گا بھی نہیں۔
تمام نجی تعلیمی ادارے کل بند رہیں گے
پہلگام ٹریجیڈی پر مودی کی آل پارٹیز کانفرنس گلے پڑ گئی؛ کانگرس نے کھلا اختلاف اختیار کیا
اس واقعہ کو لے کر ہندوتوا کی پرچارک انتہا پسند مودی سرکار نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی تو بھارت کی سب سے بڑی جماعت کانگرس نے نریندر مودی کے دعووں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے الٹا مودی سرکار سے سخت منطقی سوالات پوچھے کہ بتایا جائے کہ سکیورٹی کیوں ناکام ہوئی، وزیر داخلہ امیت شاہ کب استعفیٰ دیں گے، اور یہ کہ کیا وزیراعظم نریندر مودی اس واقعے کی ذمہ داری قبول کریں گے۔
جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے بکواس کو بکواس ہی قرار دے ڈالا
بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے اس حوالے سے ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارتی جرنیل پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے بھارتی ٹی وی چینلز پر بکواس کر رہے ہیں، انہیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں۔
جسٹس (ر) مرکنڈے کاٹجو نے کہا، اگر بھارت جنگ کرتا ہے تو اس کی معیشت بری طرح متاثر ہوگی، انہوں نے پلواما حملے کے بعد پاکستان کے اقدامات کی بھی تعریف کی تھی۔
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: پاکستان کے ساتھ پہلگام سانحہ کرناٹک کے مودی کی
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کے خلاف مودی حکومت کی کارروائیوں سے نوجوان صحافیوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا
ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نوجوان صحافیوں کو شدید بحران کا سامنا ہے جو حکومتی دبائو کے باعث بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا شکار ہیں اور اس سے علاقے کی ایک وقت کی متحرک پریس بالکل خاموش ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ نئے آنے والے نوجوانوں کو بہت سے تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں قابل عمل اور آزاد روزگار کے پلیٹ فارمز کا فقدان شامل ہے، نگرانی کا ماحول، صحافیوں پر کالے قوانین کو لاگو کرنا اور پریس کی آزادی میں کمی ایک معمول بن چکا ہے۔ بحران اتنا سنگین ہے کہ نئے طلباء اس پیشے سے وابستہ ہونے سے کتراتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کا کہنا ہے کہ صحافت کے شعبہ جات میں اندراج کی شرح خطرناک حد تک کم ہوئی ہے، صرف 25 سے 30 طلباء سالانہ اپنی ڈگریاں مکمل کر پاتے ہیں۔ وہ انتہائی محدود پیشہ ورانہ مواقع، شدید دبائو کے باعث شعبے کے گرتے ہوئے وقار اور فائدے سے زیادہ بڑھتی ہوئی تعلیمی لاگت کو اس کمی کی بنیادی وجوہات قرار دے رہی ہیں۔