Express News:
2025-11-05@02:24:41 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

غزل
اُس خوش قدم نے بڑھ کے سنبھالی زمین تھی 
دل اک عذابِ نوح میں ڈالی زمین تھی 
اُس نے بدن پہ ریشمی ہونٹوں سے ہل چلائے 
ورنہ یہ گلستان تو خالی زمین تھی 
نکلا تھا یومِ ہجر کا سورج اور اُس کے بعد 
بس سرخ آسمان تھا، کالی زمین تھی 
اپنے وطن سی بات سکردو میں اب کہاں 
لیکن یہ ہے کہ دیکھنے والی زمین تھی 
دو بھائیوں کو پیار سے سینے لگا لیا 
دونوں میں وجہِ جنگ بھی سالی زمین تھی 
ہم نے غزل میں آگ بھری، دل جلا دیے 
مضموں تھا عشق، آنکھ کی لالی زمین تھی 
وہ تو زبیرؔ چوم لیے میں نے ماں کے پاؤں 
جنت وگرنہ صرف خیالی زمین تھی 
(زبیرحمزہ ۔قلعہ دیدار سنگھ)

.

..
غزل
ندیم شام کی ہوا اداس ہو گئی ہے کیا؟
گلی میں بیکسی کے ساتھ پھر وہ سو گئی ہے کیا
بڑے تپاک سے مجھے بھی مل رہے ہو راہ میں
خیال و خواب میں نحیف سوچ کھو گئی ہے کیا؟
کھڑے ہو یوں گلی میں جیسے کوئی جانتا نہیں
کسی کی آنکھ نور سا بدن بھگو گئی ہے کیا؟
میں جانتا ہوں جس کا منتظر ہے دوست اجنبی 
نظر کا تیر جسم و جاں میں وہ چھبو گئی ہے کیا؟
مجھے یقین تو نہیں میں پھر بھی پوچھ لیتا ہوں 
میں جیسا چاہتا تھا پھر وہ ویسی ہو گئی ہے کیا؟
تمھارے نظم و ضبط کا کوئی وسیلہ ہی نہیں 
ندیم ؔـاس نگاہ میں یہ جاں سمو گئی ہے کیا؟
(ندیم ملک ۔کنجروڑ، نارووال)

...
غزل
پژمردگی میں ڈوبی بے جان زندگی کا 
اشکوں نے لکھ دیا ہے عنوان زندگی کا 
اب کیا بچا ہے جس کے کھونے سے ہم ڈریں گے
پہلے ہی کر چکے ہیں نقصان زندگی کا
اے بے خبر! خبر لے اپنے مریضِ غم کی
یہ مانتا ہے تجھ کو لقمان زندگی کا
جب سے دیا ہے اس نے ملنے کا اک اشارہ
بڑھنے لگا ہے تب سے امکان زندگی کا
اس نے گدا گری کی ہر حد عبور کر دی 
جانا تھا جس کو ہم نے سلطان زندگی کا
غافل بنا ہوا ہے یہ جانتے ہوئے بھی
لے گا حساب تجھ سے رحمان زندگی کا
ازبر ہیں اس کو سارے مضمون عاشقی کے
بھولا ہوا ہے مقصد انسان زندگی کا 
کس کی مجال لوٹے سانسوں کا یہ خزانہ
ہے موت کا فرشتہ نگران زندگی کا
تائبؔ ہنوز ہے وہ خود کی ہی جستجو میں
جو شخص پا چکا ہے عرفان زندگی کا
(رمضان تائب۔ قلعہ دیدار سنگھ)

...
غزل
کب تک سینے میں رکھے گا یہ اَسرار فقیر
دھوپ سہیں اورچھاؤں بانٹیں، سب اشجار فقیر
اُس وجدانی منظر میں ہے کچھ لمحوں کی دیر
جس کی خاطر چھوڑ کے آیا ہے گھربار فقیر
اُس کی آنکھیں کرتی ہیں بس اک چہرے کا ورد
اپنی ہستی سے کرتا ہے جب انکار فقیر
پتّوں سے شبنم ٹپکے اور پانی حمد پڑھے
جھوم رہا ہے قدرت کا سن کر ملہار فقیر
جب سے والضُحٰی کی صورت من میں آن بسی
روز بہ روز ہُوا جاتا ہے خوشبو دار فقیر
میں سوچوں کی گدڑی اوڑھے اپنے حال میں مست
شعر مرے مالا کے منکے اور افکار فقیر
اپنے من کی غار میں آصفؔ جا بسرام کرے
اِس دنیا سے ہو جاتا ہے جب بیزار فقیر
(یاسررضاآصفؔ ۔پاک پتن)

...
غزل
جو بات کرنے چلا تھا وہ بات بھول گیا 
عجیب شخص ہے عمرِ حیات بھول گیا
تھکا تھکا سا بدن کام سے گھر آتے ہوئے 
نظامِ غم میں سبھی خواہشات بھول گیا
کسی کے ترکِ تعلق کو دیکھ کر یکدم
دلِ تباہ ترے حادثات بھول گیا
شکستہ جسم کو اس کارگاہِ دنیا میں 
ہوئی تھی کیسے یہاں مجھ سے مات بھول گیا
ہمارا عہدِ محبت تو یاد تھا اس کو
حریف وعدۂ وصلت کی رات بھول گیا
ستم تو یہ ہے مجھے یاد ہی نہیں آیا
لگائی کس نے یہاں مجھ پہ گھات بھول گیا
خدا کی اتنی بڑی کائنات میں وہ عمودؔ
تکلفات میں اپنی ہی ذات بھول گیا
(عمود ابرار احمد ۔کراچی)

...
غزل
اپنے دل و دماغ سے اس کو نکال کر
بیٹھے ہیں جان اپنی اذیت میں ڈال کر
وہ بھی خزانہ لٹ گیا ہے اس کی یاد میں 
آنکھوں میں جس کو رکھا تھا میں نے سنبھال کر 
رب کے علاوہ کام میں آتا نہیں کوئی 
دیکھا ہے میں نے خود کو مصیبت میں ڈال کر 
تجھ سے حسین کوئی نہیں ہے جہان میں 
کل کائنات دیکھی ہے میں نے کھنگال کر
تیرے بغیر میرا نکلنے لگا ہے دم 
اے  یار میرے تھوڑا تو میرا خیال کر
مجبور تھا سو بیچ دیا اس  ہنر سے آج
میں نے ہوا کو ایک غبارے میں ڈال کر 
(محمد عامرسہیل پٹیل۔ موہالہ تعلقہ آکوٹ ، مہاراشٹر ،بھارت)

...
غزل
کسی کو دیکھ نہ پائے تھے پاس ہوتے ہوئے
ترے رجوع کی چاہت یا آس ہوتے ہوئے 
اسی سہارے تھے زندہ اسے تو پالنا تھا
امید پل نہیں سکتی تھی یاس ہوتے ہوئے
ہزار رنگ ہیں میرے میں کوئی گرگٹ ہوں
میں خوش دکھائی دیا ہوں اداس ہوتے ہوئے
ہماری پیاس کا کیا ہے خدا بجھا دے گا
کسی کی پیاس بجھائیں گے پیاس ہوتے ہوئے
وہ آپ اپنی تباہی کا خواب دیکھ چکا
نہ دیکھ پاؤں گا جاناں کا ناس ہوتے ہوئے
مقام اس کا اسی میں ہے دب کے رہنا ہے
دبی رہے گی ہمیشہ اساس ہوتے ہوئے
وہ زہر تھے تو مجھے پھر مٹھاس کیسے لگے
وہ زہر لگتے ہیں کیسے مٹھاس ہوتے ہوئے
اترنا چاہا تو کانٹوں کا روپ دھار لیا
مرے لباس نے کیسے کپاس ہوتے ہوئے
حواس کھونا ضروری ہے عشق میں احسنؔ
کسی سے عشق نہ ہوگا حواس ہوتے ہوئے
(احسن خلیل احسن ۔ ڈیرہ اسماعیل خان)

...
غزل
آپ سے دل لگا لیا میں نے 
گویا سب کچھ ہی پا لیا میں نے
صلح کرلی ہے بچوں کی خاطر
گھر اجڑتا، بسا لیا میں نے
کوششیں رائیگاں نہیں جاتیں
دیکھ اُس کو منا لیا میں نے
میری ہمت کو داد تو دو یار
یہ بھی رشتہ، نبھا لیا  میں نے
شاید  اُس کو یقین آ جائے 
خون اپنا، بہا لیا میں نے
سمجھا جانے لگا گِرا ہوا میں
خود کو اتنا جھکا لیا میں نے
سرپرستوں کی زندگی ہو بس 
خواہشوں کو دبا لیا میں نے
جانے والا ٹھہر نہیں رہا دوست
ہر طرح  آزما  لیا میں نے
یہ نہیں دکھ، مری نہیں ہوئی وہ
دکھ ہے، خود کو تھکا لیا میں نے
 (عمر فدا۔ؔ بہاولنگر)

...
غزل
اس آنکھ سے اب اتنی شناسائی تو ہے نا 
محفل میں مجھے دیکھ کے شرمائی تو ہے نا 
میں کاٹ نہیں سکتا ہوں تنہائی تو کیا ہے
مدت سے  مجھے کاٹتی تنہائی تو ہے نا 
بے خوف نکل سکتا ہوں میں دشت کی جانب 
اپنا بھی علاقہ کوئی آبائی تو ہے نا 
پچیس برس رہنا مرا زندہ سلامت 
دنیائے جگر خور کی پسپائی تو ہے نا 
ان غم زدہ لوگوں کو کسی طور ہنسانا 
اک طرح کا یہ کارِ مسیحائی تو ہے نا 
حیرت سے سہی اس نے مجھے دیکھ لیا ہے 
اک لمحے کو دیوانگی کام آئی تو ہے نا
(عبید آکاش۔ گلگت)

...
غزل
چھینا جھپٹی نہ کر دل دیا ہے تجھے 
اپنی مرضی نہ کر  دل دیا ہے تجھے 
میرے آگے کسی اور کو مت پکار 
اے منادی نہ کر دل دیا ہے تجھے 
پاس تو بیٹھ جا بات کر یا نہ کر 
اتنی جلدی نہ کر دل دیا ہے تجھے 
شان و شوکت پہ رتبے پہ مت کر غرور 
 شاہ زادی نہ کر دل دیا ہے تجھے
کچھ تو نرمی بھی اپنے روئے میں لا 
اتنی سختی نہ کر دل دیا تجھے
گل کی تکلیف تھوڑی ہے کٹ جائے گی 
آنکھ بھردی؟ نہ کر دل دیا ہے تجھے
(فاروق سلطان گل۔ گلگت)

...
غزل
دم توڑتی ہیں حسرتیں پل پل مرے دل میں 
ہر لمحہ مچی رہتی ہے ہلچل مرے دل میں
اس کا کوئی حل ہے تو بتاؤ مجھے للہ 
کرتا ہے کوئی شور مسلسل مرے دل میں 
بے تاب و تواں ہوں تو کوئی وجہ بھی ہوگی 
آباد ہے جذبات کا مقتل مرے دل میں 
آزاد ہوں آزاد ہی رکھتا ہوں سبھی کو 
رہتا ہے مگر کوئی مقفل مرے دل میں 
کوشش تو بہت کی اسے ویران کروں پر 
آباد رہا ہجر کا جنگل مرے دل میں
مخلوق کا ٹھکرایا ہوا شخص ہوں گر چہ 
کھلتا ہے مگر اک گل مخمل مرے دل میں
کہتے ہیں کسے روشنی میں تجھ کو بتاؤں؟
خورشید جہاں تاب کبھی ڈھل مرے دل میں
(لئیق انصاری۔ ٹنڈو آدم)

...
غزل
سنو کہ بیٹھ کے دونوں کہیں پہ بات کریں
پر اس سے پہلے مراسم سے احتیاط کریں
تمہارے بعد یہ واجب ہوا ہے ہم پہ کہ ہم
خراب اپنا نظامِ سکونیات کریں 
نظامِ دہر بھلا کر تمنا ہے دونوں 
سکوں سے بیٹھ کے باتیں تمام رات کریں 
علی نے جیت کے اعلاں کیا تھا آبِ فرات  
یہ جچتا ہم پہ نہیں بندشِ فرات کریں 
کوئی بھی نفع نہیں ہوگا مجھ پہ غیبت کا
اگر ہے مسئلہ کوئی تو منہ پہ بات کریں
سو کارِ عشق میں تقسیم کا جواز نہیں 
  لڑائی بھی کریں تو بس ہمارے ساتھ کریں 
حسب نسب میں نہیں ہے حماز ؔیہ شامل
محبتوں میں کوئی کام واہیات کریں 
(رانا حمزہ حماز۔ حافظ آباد)

شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہ کر دل دیا ہے تجھے س ہوتے ہوئے لیا میں نے گئی ہے کیا بھول گیا زندگی کا زمین تھی تو ہے نا بات کر نے لگا

پڑھیں:

تجدید وتجدّْ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-9

 

4

مفتی منیب الرحمن

اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔

معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔

ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔

قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔

اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔

ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام، تحریک
  • اسد زبیر شہید کو سلام!
  • بانی پی ٹی آئی کا متبادل کوئی نہیں، بات ختم، عمران اسماعیل
  • فارم 47 نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت ہوگی، عمران خان
  • مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • تجدید وتجدّْ
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان