مشترکہ مفادت کونسل:نئی نہروں کی تعمیرکامنصوبہ موخر،بھارتی یکطرفہ اقدامات کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)وفاقی حکومت نے نئی نہروں کی تعمیرکے منصوبے کو موخرکرتےہوئے یقین دہانی کرائی ہے کہ صوبوں کے ساتھ مکمل اتفاق رائے کے قیام کیلئےاس منصوبے پر کوئی پیشرفت نہیں کی جائے گی، ارسا واٹر ایویلیبیلٹی سرٹیفکیٹ واپس کرنے کافیصلہ، منصوبہ بندی ڈویژن اور ارسا کوتمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی ہدایت کردی گئی،مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں پہلگام حملے کے بعد بھارتی یکطرفہ غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کی بھرپور مذمت ،کونسل نے قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ممکنہ بھارتی جارحیت اور مس ایڈونچر کے تناظر میں پورے ملک و قوم کے لئے اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کا 52 واں اجلاس ہوا ۔ اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار ، وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف ، وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان انجینئر امیر مقام ، چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی ۔اعلامیہ کے مطابق وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کی باہمی رضا مندی کے بغیر کوئی نئی نہریں تعمیر نہیں کی جائیں گی۔ یہ طے پایا ہے کہ جب تک تمام صوبوں کے درمیان باہمی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوتی، وفاقی حکومت نہروں کے منصوبے پر مزید پیش رفت نہیں کرے گی۔حکومت تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر ایک طویل المدتی اتفاق رائے پر مبنی زرعی پالیسی اور پاکستان میں آبی وسائل کے انتظامی ڈھانچے کی ترقی کے لیے روڈ میپ تیار کر رہی ہے۔ تمام صوبوں کے آبی حقوق 1991 کے واٹر اپورشنمنٹ ایکارڈ اور 2018 کی واٹر پالیسی میں طے شدہ ہیں، جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے تشکیل دی گئی تھیں۔تمام صوبوں کے خدشات کو دور کرنے اور پاکستان کی غذائی و ماحولیاتی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے، جس میں وفاق اور تمام صوبوں کی نمائندگی شامل ہوگی۔یہ کمیٹی پاکستان کی طویل المدتی زرعی ضروریات اور تمام صوبوں کے پانی کے استعمال کے لیے دونوں متفقہ دستاویزات کے مطابق حل تجویز کرے گی۔پانی ایک قیمتی وسیلہ ہے اور آئین کے معماروں نے اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ پانی کے تمام تنازعات کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جائے گا اور کسی بھی صوبے کے تحفظات کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مکمل غور و فکر کے بعد دور کیا جائے گا۔2۔ مذکورہ بالا صورتحال کے پیش نظر اور مشاورت کے بعد، کونسل نے فیصلہ کیا کہ نئی نہروں کی تعمیر کے لیے 7 فروری 2024 کو دی گئی عبوری ای سی این ای سی (ECNEC) منظوری اور 17 جنوری 2024 کو ہونے والے اجلاس میں جاری کیا گیا ارسا (IRSA) واٹر ایویلیبیلٹی سرٹیفکیٹ واپس کر دیے جائیں۔ منصوبہ بندی ڈویژن اور ارسا کو ہدایت کی جاتی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کو یقینی بنائیں تاکہ قومی یکجہتی کے مفاد میں اور تمام خدشات کو دور کرتے ہوئے باہمی ہم آہنگی تک پہنچا جا سکے۔ اجلاس میں پہلگام حملے کے بعد بھارتی یکطرفہ غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کی بھرپور مذمت کی گئی ،کونسل نے قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ممکنہ بھارتی جارحیت اور مس ایڈونچر کے تناظر میں پورے ملک و قوم کے لئے اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیا۔ اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں کہاگیاکہ پاکستان ایک پر امن اور زمہ دار ملک ہے لیکن ہم اپنا دفاع کرنا خوب جانتے ہیں ،تمام صوبائی وزراء اعلیٰ نے بھارت کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف وفاقی حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہنے کا عزم اظہارکیا۔ مشترکہ مفادات کونسل نے سینیٹ میں بھارتی غیر قانونی و غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے خلاف قرارداد کی بھر پور پزیرائی کی، مشترکہ مفادات کونسل نے نئی نہروں کے حوالے سے مندرجہ ذیل فیصلہ کیا ہے ۔اجلاس کو سی سی آئی سیکیریٹیریٹ کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل کی مالی سال 2021-2022 ، مالی سال 2022-2023 اور مالی سال 2023-2024 کی رپورٹس پیش کی گئیں، مشترکہ مفادات کونسل نے سی سی آئی سیکیریٹیریٹ ریکروٹمنٹ رولز کی منظوری دے دی، اجلاس کو کابینہ ڈویژن کی جانب سے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کی سال 2020-2021, سال 2021-2022 ، سال 2022-2023 اور اسٹیٹ آف انڈسٹری کی سال 2021, 2022 اور 2023 کی رپورٹس پیش کی گئیں،
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تمام اسٹیک ہولڈرز کے مشترکہ مفادات کونسل تمام صوبوں کے وفاقی حکومت اجلاس میں کرتے ہوئے کونسل نے کے ساتھ کے لیے کے بعد
پڑھیں:
حیدر آباد ، لیاقت یونیورسٹی اسپتال وجامشورو کی انتظامیہ کا اہم اجلاس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر) لیاقت یونیورسٹی اسپتال حیدرآباد و جامشورو کے انتظامی افسران اور ایڈمنسٹریشن کا اہم اجلاس میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹرعلی اکبر ڈاہری کی زیر صدارت کانفرنس ہال میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں اسپتال کے مختلف وارڈز/ شعبہ جات کو بہتر انداز میں منظم کرنے،مریضوں کو میعاری سہولیات کی فراہمی اور انتظامی خامیوں کو دور کرنے کے حوالے سے غور و خوض کیا گیا۔اجلاس میں ڈائریکٹر آئی سی یو ڈاکٹر کاشف میمن ،اے ایم ایس جنرل ڈاکٹر محمد علی قائم خانی، اے ایم ایس ڈاکٹر مجیب الرحمن کلوڑ ،اے ایم ایس ڈاکٹر مرتضی میمن، اے ایم ایس ڈاکٹر علی نواز عباسی، اے ایم ایس ڈاکٹر نفیس چوہان اور آر ایم او جنرل ڈاکٹر فیصل میمن سمیت تمام رجسٹرار ایڈمن وانچارجز شعبہ جات بھی شریک تھے ۔اجلاس میں اسپتال کے انتظامی امور میں آنے والے درپیش مسائل کے حل اور اسپتال کی ترقی و مزید بہتری کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے تفصیلی جائزہ لیا گیا جس میں مختلف وارڈ اور دیگر شعبہ جات کو مزید جدید اور زیادہ بہتر کرنے کے لیے تجاویز لی گئیں تاکہ پورے سندھ سے آنے والے غریب مریضوں کو گورنمنٹ آف سندھ کے ویژن کے مطابق بہترین و جدید علاج کی سہولیات زیادہ سے زیادہ فراہم کی جاسکیں ۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر علی اکبر ڈاہری نے کہا کہ اسپتال کا ہر وارڈ/ شعبہ ہماری اولین ترجیح ہے اور ہماری بھرپور کوشش ہے کہ مریضوں کو جدید تقاضوں کے مطابق محفوظ طبی سہولیات فراہم کی جائیں ۔انہوں نے کہا کہ اسپتال کے تمام مریضوں کا بہترین علاج و معالجہ اور ان کی دیکھ بھال سمیت صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ ایم ایس ڈاکٹر علی اکبر ڈاہری نے اجلاس میں موجود تمام رجسٹرا ریڈمن و انچارج شعبہ جات کو ہدایت کی کہ اپنی ڈیوٹی شفٹ کے اختتام پر دوسری شفٹ میں آنے والے افسران کو اپنی تمام ذمے داری ان کے سپرد کی جائے اور وارڈ میں زیر علاج مریضوں کے حوالے سے تمام معلومات بھی انہیں فراہم کی جائیں تاکہ نئے شفٹ میں آنے والے انچارجز وافسران مریضوں کے علاج و معالجہ اور ہسٹری کے حوالے سے واقف ہو سکیں اور اسی کے مطابق ان کا علاج جاری رہ سکے۔