سپریم کورٹ: جج کا تبادلہ محض ایگزیکٹو ایکشن نہیں ہو سکتا، منیر اے ملک
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
سپریم کورٹ میں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے اور سینیارٹی کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس صلاح الدین پنہور بینچ میں شامل ہیں۔
درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک نے آج بھی دلائل جاری رکھے اور کہا کہ آرٹیکل 200 کا ذیلی سیکشن ون اکیلا نہیں ہے، سیکشن ون کا آرٹیکل 200 کے سیکشن 2 سے لنک ہے۔ جج کا تبادلہ ایک ایگزیکٹو ایکشن ہے، سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹو، ججز تبادلے کا اختیار کیسے استعمال کرے گا؟
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا تبادلے کا اختیار استعمال کرنے کے لیے ایگزیکٹو کے لیے کوئی شرط ہے؟ منیر اے ملک نے کہا کہ ایگزیکٹو کے ججز تبادلے اختیار کا جوڈیشل ریویو ہو سکتا ہے۔ ججز تبادلہ کی سمری وزارت قانون نے وزیر اعظم کو بھیجی۔ وزیراعظم نے سمری پر صدر کو ایڈوانس کردی، ججز تبادلہ سمری کی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ججز تبادلہ اور سنیارٹی کیس، لاہور ہائیکورٹ بار کی متفرق درخواست دائر
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ آج اپنے دلائل ختم کرلیں گے؟ منیر اے ملک نے بتایا کہ میں کوشش کروں گا کہ آج دلائل ختم کرلوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ آج ختم کریں گے تو پیر سے کسی اور وکیل کے دلائل شروع ہو سکیں گے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ آج آپ کب تک دستیاب ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ بینچ کے ایک رکن نے کراچی نکلنا ہے اس لیے ہم نے ساڑھے 9 بجے کیس رکھا ہے، کل یکم مئی کی چھٹی ہے اس لیے کل اور پرسوں کیس نہیں رکھ سکتے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ وزارت قانون کی ججز ٹرانسفر کے لیے سمری میں بھی تضاد ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو سیکریٹری قانون نے لکھا کہ کوئی سندھ کا جج نہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کو بھی لکھا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سندھ سے کوئی جج نہیں۔
مزید پڑھیں: ججز تبادلہ کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان نے اہم سوالات اٹھادیے
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ہائیکورٹ کی جج جسٹس ثمن رفعت کا تعلق سندھ سے ہے؟ جسٹس ثمن رفعت کا تعلق کراچی سے ہے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ پہلی جو سمری تیار ہوئی اس میں اندرون سندھ کا ذکر تھا، یہ انجانے میں کی گئی غلطی ہوسکتی ہے کہ اندرون سندھ کے بجائے سندھ لکھا گیا، کراچی کو تو اندرون سندھ سے الگ ہی لکھا جاتا ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ سمری میں غلطیاں حکومت کی نا اہلی اور غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق کیس کی سماعت 7 مئی ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی جسٹس محمد علی مظہر جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ منیر اے ملک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی جسٹس محمد علی مظہر جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ منیر اے ملک جسٹس محمد علی مظہر نے ججز تبادلہ سپریم کورٹ کے لیے
پڑھیں:
کوئی محکمہ کیسے اپنے نام پر زمین لے سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-08-20
اسلام آباد (صباح نیوز) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ کوئی محکمہ کیسے اپنے نام پر زمین لے سکتا ہے؟، عدالت عظمیٰ زمین استعمال کرے گی تاہم یہ زمین وفاقی حکومت کے نام گی یا صوبائی حکومت کے نام ہوگی۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے وفاقی حکومت کی جانب سے پنجاب کے 4اضلاع میں پاکستان آرمی کے استعمال کیلیے حاصل کی گئی زمین پر قبضے کے معاملے پر پنجاب حکومت کے خلاف دائر درخواست کی بحالی کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پیش ایڈیشنل اٹارنی جنرل چودھری عامررحمان کاکہنا تھا کہ 1991میں سرگودھا، ملتان، خوشاب اور ڈیرہ غازی خان میں پنجاب حکومت نے پاکستان آرمی کے استعمال کیلیے حاصل کی گئی زمین اپنے نام کروالی۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ کیسے فوج نے زمین حاصل کی۔ جسٹس جمال مندوخیل کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ جذباتی نہ ہوں، کوئی محکمہ کیسے اپنے نام پر زمین لے سکتا ہے۔ چودھری عامررحمان کاکہنا تھا کہ 2020سے پنجاب حکومت کوبار، بارلکھ رہے ہیں تاہم معاملہ طے نہیں ہوسکا۔ عدالت نے درخواست بحال کرتے ہوئے پنجاب حکومت سے جواب طلب کرلیا۔ بینچ نے مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔