Juraat:
2025-11-03@06:10:04 GMT

ججز تبادلہ و سینیارٹی کیس، سوال جواب کا سیشن رکھنے کا فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT

ججز تبادلہ و سینیارٹی کیس، سوال جواب کا سیشن رکھنے کا فیصلہ

آرٹیکل 200نے صدر کو اختیار ہی نہیں دیاکہ آرٹیکل 175اے کے تحت ججز تعیناتیاں کرسکیں، وکیل
عارضی تبادلے میں جج کی سینیارٹی ساتھ ٹریول نہیں کرتی تو جج اپنے جونیئر کا جونیئر ہو جائے گا، عدالت

سپریم کورٹ میں ججز تبادلہ و سینیارٹی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، کیس کے دوران سوالات و جوابات کا سیشن رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے ٹرانسفر کے خلاف 5 ہائی کورٹ ججز کی درخواست پر سماعت کی۔جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس صلاح الدین پنہور بینچ میں شامل تھے ۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کو عارضی ٹرانسفر پر کوئی اعتراض نہیں، بتائیں عارضی ٹرانسفر پر سینارٹی کا کیا ہوگا؟ عارضی تبادلے پر بھی جج کی سینارٹی برقرار رہتی ہے ، عارضی تبادلے والے جج کی سینیارٹی ساتھ ٹریول نہیں کرتی تو جج اپنے جونیئر جج کا بھی جونیئر ہو جائے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر عارضی تبادلے والے جج کی سینیارٹی ساتھ نہیں رہتی تو کوئی جج تبادلے پر راضی ہی نہیں ہوگا۔جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ آپ کا اصل اعتراض تو سینیارٹی پر ہے ، ٹرانسفر پر تو ہے ہی نہیں۔جسٹس شاہد بلال حسن نے منیر اے ملک سے کہا کہ عدلیہ میں مجھے دو دہائیوں سے زیادہ وقت ہوچکا، آپ کو بھی 4 دہائیوں سے زائد کا وقت ہوچکا ہے ۔منیر اے ملک نے کہا کہ ججز ٹرانسفر سے متعلق آرٹیکل 200 کی شق ایک کو الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا، آرٹیکل 200 کی شق 1 میں رنگ اسی وقت آئے گا جب آرٹیکل 2 اے اور آرٹیکل 175 اے کے تحت دیکھا جائے گا، آرٹیکل 200 کی تشریح آرٹیکل 2 اے اور 175 اے کو سامنے رکھ کر ہی کی جاسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز ٹرانسفر سے قبل پانچ ججز کی اسامیاں خالی تھیں، آرٹیکل 200 نے صدر کو یہ اختیار دیا ہی نہیں کہ آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز تعیناتیاں کرسکیں، طے شدہ ہے کہ جج کی اسامی یا خالی اسامی کے لیے نامزدگی ممبر جوڈیشل کمیشن کرے گا، آئین پاکستان نے ججز کی تعیناتی کے لیے پورا طریقہ کار طے کر رکھا ہے ، مستقل جج کی تعیناتی جوڈیشل کمیشن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔جسٹس محمد علی نے کہا کہ آپ کی دلیل یہ ہے صدرِ مملکت کو مستقل جج کی تعیناتی کا اختیار ہی حاصل نہیں، آپ نے کہا کہ مستقل جج کی تعیناتی کا طریقہ کار آرٹیکل 175 اے میں موجود ہے ۔ جسٹس محمد علی نے کہا کہ آئینی بینچ میں موجود ججز نے مل کر طے کیا ہے کہ آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا، ہم نے طے کیا ہے جب آپ کے دلائل مکمل ہوں گے تو سوالات و جوابات کا ایک سیشن ہوگا، عدالتی کارروائی کے اس سوال و جواب کے سیشن میں آپ جوابات دیجیے گا۔وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ جی ٹھیک ہے ، بھارت میں بلاتفریق ججز کا ٹرانسفر ہونا روٹین ہے ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی عارضی تبادلے کی تعیناتی نے کہا کہ آرٹیکل 200 آرٹیکل 175 ہی نہیں جائے گا

پڑھیں:

کریملن کا جوہری تجربات سے انکار، امریکی تجربات کی بحالی پر مناسب جواب دیا جائے گا، روس

روس نے کہا کہ اس کے حالیہ ہتھیاروں کے تجربات جوہری نوعیت کے نہیں، امریکا کی جانب سے تجربات کی بحالی کی صورت میں مناسب جواب دیا جائے گا۔

ماسکو ٹائمز کے مطابق کریملن نے جمعرات کے روز ان دعوؤں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ روس نے جوہری تجربات دوبارہ شروع کر دیے ہیں، یہ تردید اس وقت سامنے آئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 1992 کے بعد پہلی مرتبہ امریکا میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے رواں ماہ کے اوائل میں بیوریوسٹنک (Burevestnik) نامی ایٹمی توانائی سے چلنے والے کروز میزائل اور پوسائیڈن (Poseidon) زیرِآب ڈرون کے کامیاب تجربات کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایران کا ٹرمپ پر دوغلے پن کا الزام، جوہری تجربات کے اعلان کی مذمت

امریکی صدر ٹرمپ نے بدھ کے روز کہا کہ انہوں نے فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے پروگراموں کے مقابلے میں مساوی بنیاد پر امریکی جوہری تجربات شروع کرے۔

کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ روس کو کسی بھی ایسے ملک کے بارے میں علم نہیں جو اس وقت جوہری تجربات کر رہا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ماسکو کے حالیہ تجربات کو کسی طور بھی جوہری دھماکے کے طور پر تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ پیسکوف نے کہا کہ اگر کوئی بیوریو سٹنک کے تجربات کی بات کر رہا ہے، تو یہ جوہری تجربہ نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: یورپ پابندیاں ہٹائے، عالمی جوہری نگرانی تسلیم کرنے کو تیار ہیں، ایرانی وزیر خارجہ

انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکا سابق صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کے 1992 کے جوہری تجربات پر عائد مورٹوریم سے انحراف کرتا ہے تو روس بھی اسی کے مطابق ردِعمل دے گا۔

دونوں ممالک نے 1996 میں جامع جوہری تجربہ پابندی معاہدے (CTBT) پر دستخط کیے تھے، جس کا مقصد دنیا بھر میں جوہری تجربات کا خاتمہ ہے۔
روس نے یہ معاہدہ 2000 میں توثیق کیا، مگر امریکا نے آج تک اسے قانون کا حصہ نہیں بنایا۔ بعد ازاں صدر پیوٹن نے 2023 میں روس کی توثیق واپس لے لی، تاہم کریملن کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب جوہری تجربات کی بحالی نہیں ہے۔

سویت یونین نے آخری بار 1990 میں جوہری تجربہ کیا تھا، جبکہ روس نے اپنی تاریخ میں کبھی کوئی جوہری دھماکا نہیں کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی تجربات جوہری جوہری تجربات کریملن

متعلقہ مضامین

  • خطے کے استحکام کا سوال
  • سی پیک فیز ٹو کا آغاز ہو چکا، چین نے کبھی کسی دوسرے ملک سے تعلق نہ رکھنے کی شرط نہیں لگائی، احسن اقبال
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • خطے میں کسی نے بدمعاشی ثابت کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا: ملک احمد خان
  • نئی گاج ڈیم کی تعمیر کا کیس،کمپنی کے نمائندے آئندہ سماعت پر طلب
  • توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ
  • سندھ میں ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے عارضی نتائج ویب سائٹ پر اپلوڈ
  • دنیا کی زندگی عارضی، آخرت دائمی ہے، علامہ رانا محمد ادریس قادری
  • کریملن کا جوہری تجربات سے انکار، امریکی تجربات کی بحالی پر مناسب جواب دیا جائے گا، روس
  • 190 ملین پاؤنڈ: سیشن جج کی تعیناتی چیلنج کرنے کا کیس نومبر کے دوسرے ہفتے میں لگانے کی ہدایت