روس کا جوہری صلاحیتوں سے لیس بحری ڈرون کا تجربہ
اشاعت کی تاریخ: 31st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اعلان کیا ہے کہ ان کے ملک نے ایک جوہری صلاحیتوں والے بحری ڈرون کا تجربہ کیا ہے جسے پوسائیڈن کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اعلان جوہری طاقت سے چلنے والے کروز میزائل کے کامیاب تجربے کے چند روز بعد آیا ہے۔ پیوٹن نے کہا کہ یہ ایسا ڈرون ہے جسے روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ہتھیار بھی جوہری طاقت سے چلتا ہے اور جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ڈرون کو ا سٹیٹس 6 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ ایک بڑا جوہری طاقت سے چلنے والا ٹارپیڈو ہے جو جوہری وار ہیڈ سے لیس ہے اور جو پانی کے اندر طویل فاصلے تک خود مختار طور پر سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے بارے میں پہلی عوامی معلومات 2015 ء میں روسی ٹیلی وژن پر ایک لیک کے ذریعے سامنے آئی تھیں جس میں پانی کے اندر جوہری ڈرون تیار کرنے کے حکومتی منصوبے کا انکشاف ہوا تھا۔ لیک ہونے والی دستاویز میں بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کا مقصد ساحلی علاقوں میں دشمن کی اقتصادی بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچانا اور بڑے پیمانے پر تابکاری آلودگی پیدا کرنا ہے۔ یہ ایسی تابکاری ہوسکتی ہے جو ان علاقوں کو طویل عرصے تک فوجی یا اقتصادی سرگرمیوں کے لیے ناقابل استعمال بنا دے۔ 2018 ء میں امریکی محکمہ دفاع کی جوہری پوزیشن کے جائزے کی مسودہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ روس ایک بین البراعظمی جوہری ایندھن والا اور جوہری وار ہیڈ سے لیس خود مختار ٹارپیڈو تیار کر رہا ہے۔ برطانیہ کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے محقق سدھارتھ کوشل کے مطابق اس ٹارپیڈو کی لمبائی تقریباً 20 میٹر ہے۔ یہ تقریباً ایک ہزار میٹر کی گہرائی تک غوطہ لگا سکتا ہے اور اس کی حد کم از کم 10ہزار کلومیٹر ہونے کا اندازہ ہے۔ اس کے برعکس اس کی بہت سی حقیقی صلاحیتیں خفیہ رکھی گئی ہیں ۔ جو بنیادی خصوصیات اس سے منسوب کی جاتی ہیں وہ اس کی گہری گہرائیوں میں اور بہت تیز رفتاری سے کام کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ ایسی رفتار ہے جس کے باعث اسے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پوسائیڈن کی تیاری میزائل دفاعی نظاموں کو چکما دینے والے ہتھیاروں کے نظام کو دکھانے کے ماسکو کے عزائم کی عکاسی کرتی ہے۔پوسائیڈن کو ڈرون کہا جاتا ہے کیونکہ یہ خود مختار طور پر سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ممکنہ طور پر لانچ کے بعد اس کا راستہ تبدیل یا مشن منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ اسے آبدوزوں سے براہ راست لانچ کرنے کے بجائے بعد میں فعال کرنے کے لیے سمندر کی تہ میں نصب کیا جا سکتا ہے جس سے مہنگی اور بڑی آبدوزوں کے ہدف بننے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی صلاحیت جاتا ہے ہے اور
پڑھیں:
افغان طالبان 3 حصوں میں تقسیم، یہ ٹی ٹی پی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے: میجر جنرل (ر) انعام الحق
دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ر) انعام الحق نے کہا ہے کہ افغانستان میں قریبی مدت میں سیاسی و سماجی استحکام کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور پاکستان کے ساتھ طالبان حکومت کے تعلقات ’دوستی سے زیادہ مجبوری‘ پر مبنی ہیں۔ ان کے مطابق کابل حکومت کے پاس نہ تو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خاتمے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی اس کا کوئی سیاسی حل ہے۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل (ر) انعام الحق نے کہاکہ افغانستان کو سمجھنے کے لیے صرف جغرافیہ نہیں بلکہ اس کی تاریخ، قبائلی سماج اور پشتون ولی جیسے روایتی نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔
ان کے مطابق افغانستان ’ایک پیچیدہ معاشرہ‘ ہے جس کے اندر مذہب، قبیلہ، تاریخ اور طاقت کی حرکیات ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، کسی ایک کو بھی الگ کرکے نہیں سمجھا جا سکتا۔
’احسان کا بوجھ قبول نہیں کیا جاتا‘انہوں نے کہاکہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں کئی مستقل عوامل ہیں۔ مذہب، ثقافت، جغرافیہ اور تاریخی روابط لیکن ان کے ساتھ ساتھ کچھ تغیر پذیر مسائل بھی موجود ہیں جن میں ٹی ٹی پی، ڈیورنڈ لائن، سرحدی باڑ اور افغان مہاجرین کے معاملات نمایاں ہیں۔ یہی وہ نکات ہیں جو وقتاً فوقتاً دونوں ممالک کے درمیان تناؤ پیدا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان معاشرے میں ایک تاریخی احساسِ برتری موجود ہے جو اس سوچ سے جنم لیتا ہے کہ ’افغان ہمیشہ آزاد رہے ہیں جبکہ برصغیر غلامی کا شکار رہا‘۔
انہوں نے وضاحت کی کہ پشتون ولی کا ایک بنیادی اصول خیگڑا (یا شیگڑا) ہے، یعنی اگر کوئی احسان کرے تو پشتون روایت کے مطابق فوری طور پر اس احسان کا جواب دے کر توازن قائم کیا جاتا ہے۔
’پاکستان نے جب افغانوں کی مدد کی تو افغانوں نے اسے احسان سمجھنے کے بجائے ایک عدم توازن کے طور پر لیا اور ردِعمل میں برابری کے لیے سخت رویہ اپنایا۔‘
’طالبان حکومت کے اندر تین بڑے طاقت کے مراکز موجود ہیں‘انعام الحق کے مطابق طالبان حکومت کے اندر اس وقت تین بڑے طاقت کے مراکز موجود ہیں۔ قندھار گروپ (احمدزئی درانی)، حقانی نیٹ ورک اور کابل کی بیوروکریسی۔
انہوں نے کہاکہ قندھار گروپ زیادہ نظریاتی ہے، جبکہ حقانی نیٹ ورک نسبتاً عملی سوچ رکھتا ہے، تاہم طالبان حکومت ان دونوں کے درمیان ایک مجبوراً مفاہمت کے نتیجے میں قائم ہے۔
ان کے مطابق ٹی ٹی پی اس وقت حقانی نیٹ ورک کے اثر و رسوخ والے علاقوں میں موجود ہے، اور طالبان حکومت نہ تو انہیں نکالنے کی سیاسی مصلحت رکھتی ہے اور نہ ہی ان کے پاس فوجی قوت ہے۔
’ٹی ٹی پی طالبان کے لیے ایک ایسی ہڈی بن چکی ہے جسے نہ نگلا جا سکتا ہے نہ اُگلا، اگر طالبان انہیں نکالتے ہیں تو پاکستان ناراض ہوتا ہے، اگر رکھتے ہیں تو عالمی دباؤ بڑھتا ہے۔‘
’افغانستان کے لیے پاکستان اب بھی سب سے بڑا لازمی دروازہ ہے‘انہوں نے کہاکہ افغانستان کے لیے پاکستان اب بھی سب سے بڑا لازمی دروازہ ہے، چاہے وہ تجارت ہو، تعلیم، صحت، یا سفری سہولتیں ہوں۔
’افغانستان کی معیشت اور روزمرہ زندگی کا بڑا حصہ پاکستان سے جڑا ہوا ہے، اس لیے کابل حکومت اسلام آباد سے مکمل دوری کا متحمل نہیں ہو سکتی۔‘
انہوں نے مزید کہاکہ لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں جنہوں نے معاشرتی اور ثقافتی سطح پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں، لیکن اب یہ معاملہ بھی سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان جاری استنبول مذاکرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ افغان وفد محدود مینڈیٹ کے ساتھ شریک ہے اور طالبان حکومت کے اندر طاقت کی تقسیم کے باعث کسی بڑے معاہدے کی امید نہیں۔
’افغان مذاکراتی وفد کو قندہار کی قیادت کی طرف سے مکمل خودمختاری حاصل نہیں‘’افغان وفد کو قندہار کی قیادت کی طرف سے مکمل خودمختاری حاصل نہیں۔ یہ زیادہ تر داخلی طاقت کے توازن کا معاملہ ہے، نہ کہ بین الاقوامی پالیسی کا۔‘
انہوں نے مزید کہاکہ افغانستان میں غیر یقینی صورتحال آئندہ برسوں تک برقرار رہ سکتی ہے، اور طالبان حکومت کے اندرونی اختلافات اگر بڑھتے رہے تو علاقائی استحکام پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات فی الحال مجبوری کی بنیاد پر چل رہے ہیں، دوستی کی بنیاد پر نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews استنبول مذاکرات افغان طالبان انعام الحق پاک افغان تعلقات ٹی ٹی پی مسئلہ وی نیوز پیپلزپارٹی کا وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اتفاق
پیپلزپارٹی کا وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اتفاق