ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس، آئین میں تبادلے کیلئے 2سال کی مدت نہیں دی گئی، جج آئینی بینچ WhatsAppFacebookTwitter 0 29 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ موجودہ آئین میں تو 2 سال کی مدت نہیں دی گئی، مدت نہ ہونے کی ایک تشریح یہ بھی ہے کہ تبادلہ غیر معینہ مدت کیلئے ہوگا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس میں درخواست گزار پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک کے دلائل جاری رہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ کل بھی منیر اے ملک اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججز کے ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس صلاح الدین پنہور بینچ میں شامل تھے۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا آپ نے جواب الجواب جمع کروا دیا ہے؟ منیر اے ملک نے کہا ابھی جواب جمع نہیں کرایا مگر جلد اپنے موکل کی ہدایات کے بعد جواب جمع کروا دیں گے۔منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کا اصل مطلب عارضی تبادلے ہیں، اس حوالے سے میں ماضی کے آئین سے اپنے دلائل شروع کروں گا، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں ججز ٹرانسفر کی کوئی شق شامل نہیں تھی، 1956 کے آئین میں ججز کے ٹرانسفر کے حوالے سے شق شامل تھی۔
اس شق کے تحت صدر دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے ٹرانسفر کر سکتا تھا، اس شق کے تحت ججز کا ٹرانسفر عارضی یا مخصوص مدت کیلئے تھا، 1962 کے آئین کے مطابق بھی ججز کا ٹرانسفر مخصوص مدت کیلئے تھا، 1973 کے آئین میں ججز ٹرانسفر کیلئے آرٹیکل 202 تھا۔اس آرٹیکل کے مطابق بھی ججز کے ٹرانسفر کی مدت اور مراعات کا تعین صدر کرتا تھا۔منیر اے ملک نے کہا 18ویں آئینی ترمیم کے بعد ججز ٹرانسفر کیلئے آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا ٹرانسفر عارضی ہوگا، آرٹیکل 200 کی شق دو کے تحت ججز کا تبادلہ عارضی ہوسکتا ہے، چھبیسویں ترمیم میں آرٹیکل 200 کو نہیں چھیڑا گیا۔
انہوں نے استدلال کیا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت ٹرانسفر ہونے والے ججز کو عہدہ سنبھالنے سے پہلے حلف لینا ہوگا، جج کے عہدہ سنھبالنے کے بعد حلف لینے کی شق میں بھی ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔منیر اے ملک نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ججز تبادلے کا اختیار دینے والے آرٹیکل 200 کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا، آرٹیکل 200 پر آئین کی کچھ دیگر شقوں کا بھی اثر ہے، آرٹیکل 200 کو آرٹیکل 2 اے اور آرٹیکل 175 اے سے ملا کر ہی دیکھا جائے گا، آرٹیکل 2 اے میں واضح ہے کہ عدلیہ آزاد ہوگی۔منیر اے ملک نے کہا 1976 میں آرٹیکل 200 میں نئی شق شامل کی گئی، شق کے مطابق ججز کا تبادلہ ایک سال کیلئے ہوتا تھا، 1985 میں ترمیم کرکے تبادلے کی مدت دو سال کر دی گئی۔
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت بھی تبادلہ متعلقہ جج کی رضامندی سے مشروط تھا، 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تبادلہ ججز کی رضامندی سے مشروط تھا، 1985 کی ترمیم میں جج کی رضامندی کو ختم کر دیا گیا، ایک شق یہ بھی شامل کی گئی کہ تبادلہ تسلیم نہ کرنے والا جج ریٹائر تصور ہوگا۔منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ججز کا تبادلہ عوامی مفاد میں ہی ممکن ہے، ثابت کرنا ہوگا کہ موجودہ تبادلے عوامی مفاد میں کیے گئے ہیں، کسی بھی جج کو سزا دینے کیلئے تبادلے نہیں کیے جا سکتے۔جسٹس شاہد بلال حسن نے استفسار کیا آپ کے مطابق تبادلہ عارضی نوعیت کا ہوتا ہے، عارضی نوعیت کے تبادلے کی مدت کتنی ہوگی؟ وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا آئینی تاریخ کے مطابق تبادلے کی مدت دو سال ہوگی۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے موجودہ آئین میں تو دو سال کی مدت نہیں دی گئی، مدت نہ ہونے کی ایک تشریح یہ بھی ہے کہ تبادلہ غیر معینہ مدت کیلئے ہوگا۔منیر ملک نے کہا ججز کی مرضی کے بغیر تبادلہ ہو تو دو سال کی مدت لاگو ہوگی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے یہ تشریح بھی ہو سکتی ہے کہ جج اپنی مرضی سے غیر معینہ مدت تک ٹرانسفر ہوسکتا ہے۔منیر ملک نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر سے قبل پانچ ججز کی آسامیاں خالی تھیں، آرٹیکل 200 نے صدر مملکت کو یہ اختیار دیا ہی نہیں کہ وہ آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی تعیناتیاں کر سکیں، آئین اور رولز میں طے شدہ ہے کہ جج کی خالی آسامی کیلئے نامزدگی ممبر جوڈیشل کمیشن کرے گا۔انہوں نے دلیل دی کہ آئین پاکستان نے ججز کی تعیناتی کیلئے پورا طریقہ کار طے کر رکھا ہے، مستقل جج کی تعیناتی جوڈیشل کمیشن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی، ایسے تو ہائیکورٹ میں ججز کی خالی آسامیاں پر کرنے کیلئے صدر ہی اختیار استعمال کرتے رہیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے آپکی دلیل یہ ہے کہ صدر مملکت کو مستقل جج کی تعیناتی کا اختیار ہی حاصل نہیں، آپ نے کہا مستقل جج کی تعیناتی کا طریقہ کار آرٹیکل 175 اے میں موجود ہے، پانچ رکنی آئینی بینچ میں موجود ججز نے مل کر طے کیا ہے کہ آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا، ہم نے طے کیا ہے جب آپکے دلائل مکمل ہونگے تو سوالات و جوابات کا ایک سیشن ہوگا، عدالتی کاروائی کے اس سوال و جواب کے سیشن میں آپ جوابات دیجیے گا۔منیر اے ملک نے کہا جی ٹھیک ہے، بھارت میں بلاتفریق ججز کا ٹرانسفر ہونا روٹین ہے۔بعد ازاں عدالت نے ججز ٹرانسفر کیخلاف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت بطور ریاست پاکستان میں دہشت گردی کر رہا ہے، بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد گرفتار ،ڈی جی آئی ایس پی آرنے ثبوت دنیا کے سامنے رکھ دیئے بھارت بطور ریاست پاکستان میں دہشت گردی کر رہا ہے، بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد گرفتار ،ڈی جی آئی ایس پی آرنے ثبوت دنیا.

.. عدالتی حکم کے باوجود عمران خان سے بہنوں، پارٹی رہنمائوں کی ملاقات آج بھی نہ ہوسکی ضلعی انتظامیہ کی کارروائیاں ،ڈینگی ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر9افراد گرفتار بھارت کے خلاف ہم سب متحد ہیں، عمران خان کا جیل سے اہم پیغام تربت میں سیکیورٹی فورسز کا انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن، 3دہشت گرد ہلاک پہلگام فالس فلیگ کہانی، بھارتی میڈیا کے سوالات؟ مودی سرکاری خاموش ؟ کیوں ؟ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس سال کی مدت نہیں دی گئی اسلام آباد ہائیکورٹ منیر اے ملک نے کہا ججز کا ٹرانسفر ججز ٹرانسفر کی کی تعیناتی دلائل جاری کے تحت ججز مدت کیلئے تبادلے کی آرٹیکل 200 کے مطابق نے دلائل کے آئین ججز کی دو سال ججز کے

پڑھیں:

عمران خان کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنا آئین شکنی ہے، حلیم عادل شیخ

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 جولائی2025ء)پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ سرپرست اعلی پی ٹی آئی عمران خان کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنا آئین شکنی کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو قیدِ تنہائی میں رکھ کر ان کے خلاف ایک منظم سیاسی انتقامی کارروائی جاری ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

حلیم عادل شیخ کا کہنا تھا کہ عدالتوں کے واضح احکامات کے باوجود عمران خان کو ان کے وکلا، اہلِ خانہ اور ذاتی معالجین سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، جو ریاستی فسطائیت کی بدترین مثال ہے۔ انہوں نے اڈیالہ جیل میں عمران خان کے ساتھ کیے جانے والے انسانیت سوز سلوک پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم عمران خان کو سیاسی منظرنامے سے ماینس کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے۔

(جاری ہے)

پوری قوم عمران خان کیی ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ عمران خان کے خلاف خفیہ ٹرائلز انصاف کے چہرے پر بدنما داغ ہیں اور ملک میں انصاف کا نظام ختم ہوچکا ہے طاقت کے زور پر انصاف کی حکمرانی نہیں چل سکتی۔صدر پی ٹی آئی سندھ نے مزید کہا کہ فاشسٹ حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ ظلم کی نئی حدیں پار کر رہی ہے۔ اگر عمران خان کی صحت کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی مکمل ذمہ داری ریاست پر عائد ہو گی۔

انہوں نے دعوی کیا کہ عدلیہ کی آزادی مکمل طور پر پامال ہو چکی ہے اور عدالتیں اپنے ہی احکامات پر عملدرآمد کروانے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ ملک میں قانون کا جنازہ نکل چکا ہے، ہر جمہوری آواز کو دبایا جا رہا ہے اور بے گناہ کارکنوں پر جھوٹے مقدمات، جیل ٹرائلز اور تشدد قابلِ مذمت ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والا سلوک باقی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

عمران خان کی آواز دبانے والے خود تاریخ کے کوڑے دان میں جائیں گے۔ میڈیا کو ان کے ٹرائل میں شرکت سے روکنا عدلیہ کی توہین ہے، اور اس سب کے باوجود حکومت دعوی کرتی ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے، جب کہ اصل میں آمریت مسلط ہے۔حلیم عادل شیخ نے کہا کہ ہم عوام کے چوری شدہ مینڈیٹ کی بحالی اورم عمران خان کی رہائی تک خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ پی ٹی آئی کے قائدین کو 700 دن سے زائد قید میں رکھ کر جمہوریت کو یرغمال بنایا جا رہا ہے، لیکن ہم ہر اس فورم پر جائیں گے جہاں عمران خان کے آئینی حقوق کی بحالی ممکن ہو۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کی رٹ تقریبا ختم ہو چکی ہے، ہم اپنی جدو جہد آئین کی بالادستی، عدلیہ کی خودمختاری اور عمران خان کی رہائی کے لیے ہر محاذ پر جاری رکھیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • توہینِ مذہب کے الزامات کی تحقیقات پر کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ معطلی کا تحریری حکم نامہ جاری
  • عمران خان کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنا آئین شکنی ہے، حلیم عادل شیخ
  • 5 اگست حکومت کیلئے ایک بڑا سرپرائز کا دن ہے: بیرسٹر سیف
  • پی ڈی پی کی جدوجہد آئین، پرچم اور خصوصی حیثیت کے لیے ہے, التجا مفتی
  • سپریم کورٹ: عمران خان کی ضمانت  کی 8 اپیلیں آج سماعت کیلئے مقرر 
  • سپریم کورٹ،عمران خان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی 8اپیلیں کل سماعت کیلئے مقرر
  • ہواؤں کا رخ
  • ساہیوال: سی ٹی ڈی سے فائرنگ کے تبادلے میں 3 ڈاکو ہلاک
  • آئینی و قانونی معاملات میں ملت جعفریہ کے وکلاء کا کردار اہم ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • ملک پر ظلم کا نظام مسلط ہے، آئین تو موجود ہے، اس پر عمل نہیں ہوتا، حافظ نعیم