ملک احمد بچھر کو 9 مئی کے کیس میں 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, July 2025 GMT
—فائل فوٹو
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد بچھر کو 9 مئی کے کیس میں 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
انسداد دہشت گردی عدالت لاہور کے جج ارشد جاوید نے کوٹ لکھپت جیل میں مقدمے کی سماعت کی جہاں ملزمان کے وکلاء اور سرکاری وکیل نے حتمی دلائل دیے جس کے بعد عدالت نے 9 مئی کو شیر پاؤ پل پر اشتعال انگیز تقریروں اور جلاؤ گھیراؤ کیس کا جیل ٹرائل مکمل کر لیا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایم این اے احمد چھٹہ سمیت تمام کارکنوں کو بھی 10، 10 سال قید کی سزا کا حکم سنایا ہے۔ فیصلے کے وقت اپوزیشن لیڈر احمد خان بچھر سمیت کوئی ملزم عدالت میں نہیں تھا۔
اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھچر نےکہا ہے کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے۔
عدالت نے احمد خان بچھر سمیت کیس کے 32 ملزمان کو حاضری سے استثنیٰ دے رکھا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کہا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کے وکیل کل صبح 10 بجے مزید دلائل دیں گے جس کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا۔
عدالت نے شاہ محمود قریشی سمیت 14 ملزمان کا ٹرائل مکمل کیا، ملزمان کے خلاف 61 سرکاری گواہوں نے بیانات ریکارڈ کرائے۔
واضح رہے کہ میانوالی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کیس کے زیادہ تر ملزمان ضمانت پر ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
ترکیہ؛ ہوٹل آتشزدگی میں 78 ہلاکتیں اور 137 زخمی؛ مالک سمیت 11 افراد کو عمر قید
ترکیہ کے ایک ہوٹل میں ہونے والی آتشزدگی کے نتیجے میں ہلاکتوں کی وجہ مالکان اور عملے کی غلفت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق رواں سال کے آغاز پر اس افسوسناک واقعے میں 34 بچوں سمیت 78 افراد جاں بحق اور 137 زخمی ہوگئے تھے۔
واقعے کی تحقیقات کے دوران ہوٹل انتطامیہ کی غفلت سامنے آنے پر ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے جس پر آج عدالت نے سزا سنا دی۔
ترکیہ کی صوبائی عدالت نے 12 منزلہ ہوٹل آتشزدگی کیس میں مالک سمیت 11 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنا دی۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ ہوٹل کی انتظامیہ سنگین غفلت کی مرتکب پائی گئی جس کا مرکزی ذمہ دار مالک ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ہوٹل میں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ہوٹل میں احتیاطی تدابیر کا بھی فقدان تھا اور عملہ بھی غیر تجربہ کار تھا جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔
عدالت اس بات پر زور دیا کہ ہوٹل کے اجازت نامے جاری کرتے ہوئے سرکاری محکموں نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا۔