قومی سیاسی زندگی میں صبر، تحمل، برداشت، رواداری، سنجیدگی، عزت و احترام اور افہام و تفہیم کے رویے عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ عدل و انصاف، احتساب، قانون اور آئین کے ساتھ کھلواڑ مزاج کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ مہذب جمہوری معاشروں میں حکومت اور اپوزیشن افہام و تفہیم سے مل جل کر امور سلطنت چلانے، ملکی سلامتی کو یقینی بنانے اور قومی مفادات کے تحفظ کو ہر صورت مقدم رکھتے ہیں۔
آئین مستند، مقدس اور سپریم ہوتا ہے۔ ملک کے تمام ادارے آئین و قانون کے مطابق اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔ ایوان عدل میں پورا پورا انصاف ہوتا ہے اور ایوان نمایندگان میں تمام معاملات آئین کے مطابق طے کیے جاتے ہیں۔
سر ونسٹن چرچل سے دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک صحافی نے جب یہ سوال کیا کہ ’’مسٹر چرچل! تم جنگ کیسے جیتو گے؟‘‘ تو اس موقع پر چرچل نے تاریخی جملہ کہا کہ ’’اگر عدالتیں عوام کو انصاف دے رہی ہیں تو ہم جنگ ضرور جیت جائیں گے۔‘‘ یہی نظام کی مضبوطی کی دلیل ہے اور یہی جمہوریت اور انصاف کی اصل روح بھی ہے۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں نظام عدل پر روز اول سے سوالیہ نشانات لگتے رہے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ برسر اقتدار آئے حکمرانوں نے ایسے قوانین بنائے اور ایسی ترامیم پارلیمنٹ سے منظور کرائی گئیں جس نے نہ صرف 1973 کے اصل آئین کا حلیہ بگاڑ دیا بلکہ اس کے مضر اثرات سے ایوان عدل سے لے کر پارلیمنٹ تک سب کا وقار اور اعتبار مجروح ہوا اور آج تک ہو رہا ہے ان نام نہاد ’’اصلاحات‘‘ کا مقصد صرف ایک تھا کہ مخالف سیاسی قوتوں کو دیوار سے لگا دیا جائے یا میدان سیاست سے باہر کر دیا جائے۔
احتساب کے نام پر انصاف کا خون ہوتا چلا آ رہا ہے، لیکن سیاسی پابندیوں نے زبان بندی اور مفادات کی زنجیروں نے سب کے پاؤں جکڑ رکھے ہیں۔ آج بھی کم و بیش قوم کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی عدالتی فیصلوں پر سوالات و اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی حکمراں عدالتی فیصلوں کی تعریف و تحسین کرتے ہیں اور انھیں انصاف کی سربلندی، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قرار دیتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کے حق میں فیصلہ آ جائے تو سب صحیح ہے اور اگر کسی جرم پر سزا ہو جائے تو عدالتوں پر تنقید شروع ہو جاتی ہے ۔آج تحریک انصاف عدالتی فیصلوں پر معترض اور شکوہ طراز ہے جس کی تازہ ترین مثال 9 مئی کیس میں انسداد دہشت گردی عدالتوں سے پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں کو دس دس سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
9 مئی کے واقعات کی کوئی محب وطن حمایت نہیں کر سکتا، ایسے واقعات ہر حوالے سے قابل مذمت ہیں۔ سیاست میں آنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ قانون سے بالاتر ہیں جہاں آپ کو ہر جر م کرنے کا لائسنس مل گیا ہے اور آپ اس حد تک چلے جائیں کہ ریاست کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیں اور سیاسی انتقام اور غصے میں سنگین جرائم کے مرتکب ہوں اور جب آپ کو اس جرم پر سزا ملے تو آپ اسے سیاسی انتقام قرار دے دیں۔
حکومتی اکابرین پی ٹی آئی رہنماؤں کو سنائی گئی سزاؤں کے فیصلے کو خوش آیند اور انصاف کا بول بالا قرار دے رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ 5 اگست سے پی ٹی آئی اپنی احتجاجی تحریک کو مہمیز کرنے جا رہی ہے۔
شنید ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے بیٹے قاسم و سلمان بھی اپنے والد کی رہائی کے لیے احتجاج کو پرجوش بنانے کے لیے پاکستان آنے والے ہیں۔ سزائیں انھیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی طرف مائل کر سکتی ہیں اور ممکن ہے کہ وہ پاکستان آنے کا اپنا ارادہ ملتوی کردیں۔ ہماری ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ عدالتوں سے ملنے والی سزائیں کچھ عرصے بعد انھی عدالتوں سے کالعدم قرار دی جاتی رہی ہیں اور سیاسی رہنماؤں پر قائم مقدمات ختم کیے جاتے رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کو چار دہائیوں کے بعد عدالت عظمیٰ نے غلط قرار دیا۔ (ن) لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف، موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف سمیت متعدد رہنماؤں کی سزائیں انھی عدالتوں نے کالعدم قرار دیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب طاقت کے اصل مراکز میں ہواؤں کا رخ بدلتا ہے تو سارا منظرنامہ تبدیل ہو جاتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی رہے ہیں ہے اور
پڑھیں:
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایک اور حادثہ رونما ہوا ملیر میں ایک ڈیڑھ سالہ بچہ ڈمپر کے ٹائروں کی زد میں آکر ہلاک ہو گیا۔ تفصیلات اس واقعے کی کچھ یوں ہے کہ الفلاح تھانے کی حدود ملت ٹائون میں تیز رفتار ڈمپر کی ٹکر سے ڈیڑھ سالہ بچہ عون محمد ہلاک جبکہ اس کا ماموں شدید زخمی ہو گیا یہ معصوم بچہ اپنے ماموں کے ہمراہ دادی کے گھر جا رہا تھا حادثہ کے بعد ڈمپر ڈرائیور موقع سے فرار ہو گیا اور کلینر کو پولیس نے گرفتار کر لیا اور اس کو مشتعل افراد کے چنگل سے بچا کر تھانے منتقل کر دیا یہ تو ضابطے کی کارروائی تھی مگر اس کے بعد ایس ایچ او رائو عمیر نے جو بیان دیا وہ قابل غور ہے محترم فرماتے ہیں تیز رفتار ڈمپر نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری تھی حادثے کے بعد ڈرائیور فرار ہو گیا جبکہ ڈمپر کو اس کا کلینر لے کر بھاگ رہا تھا تو پولیس نے اسے گرفتار کر لیا، متوفی عون محمد کے نانا نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ڈمپر نے مخالف سمت سے آتے ہوئے کھڑی ہوئی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری اور عون محمد ڈمپر کے ٹائروں کے نیچے دب گیا۔ ایک ذمے دار پولیس افسر کا یہ اعتراف کے تیز رفتار ڈمپر نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری کسی بھی مقدمے کے لیے ایک ٹھوس ثبوت ہے پھر ایک ڈیڑھ سالہ معصوم بچے کا ڈمپر کے ٹائروں تلے کچلا جانا سخت سے سخت انسان کے دل کو پگھلا کر موم کر دیتا ہے مگر یہ ان درندوں کا روز کا معمول ہے۔
اب ذرا ماضی کی طرف چلیے اس سے ہولناک حادثہ بھی ملیر ہی میں چند ماہ قبل رونما ہوا تھا اس وقت بھی غلط سمت سے آنے والے تیز رفتار ٹینکر نے ایک موٹر سائیکل کو ٹکر مار ی تھی جس پر ایک حاملہ خاتون سوار تھی اور ٹینکر کا پہیہ اس کے شکم کے اوپر سے اس طرح گزرا کہ وہ بچہ جس کو چھے دن بعد دنیا میں آنا تھا سڑک پر تڑپ رہا تھا گر چہ ایک رائیڈر اس کو لے کر اسپتال کی طرف بھاگا مگر وہ جاں بر نہ ہو سکا۔ یہاں بھی ڈرائیور غلط سمت سے آ رہا تھا اور اس کی غفلت ثابت ہو رہی ہے مگر کچھ نہ ہونا تھا اور کچھ نہ ہوا۔ نماز جنازہ میں سیاسی، فلاحی، مذہبی جماعتوں کے افراد نے بھرپور شرکت کی لواحقین کو صبر کی تلقین کی بعض رہنما جوش جذبات میں آکر انصاف دلانے کا بھی یقین دلا گئے مگر ایسے مقدمات جہاں ڈرائیور کی غفلت ثابت ہو رہی ہو اگر درست پیر وی کر لی جاتی تو یقینا ڈرائیور کو سزا ہو سکتی تھی مگر یہ سب کچھ تمام لواحقین پر چھوڑ دیا گیا اب وہ بیچارے اس طاقتور مافیا کے خلاف عدالت میں کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ جب کہ ان مافیاز کی پشت پر حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ ابھی چند دن قبل ایک اور حادثہ لکی ون شاپنگ مال کے سامنے والے روڈ پر ہوا جس میں ایک تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل پر سوار فیملی کو روند ڈالا جس کے نتیجے میں بہن بھائی موقع پر ہی جان بحق ہو گئے اور باپ شدید زخمی ہو گیا بد قسمت باپ بچوں کو شادی کی تقریب میں ملیر لے کر گیا تھا اور اب واپسی پر راشد منہاس روڈ پر لکی ون مال کے سامنے ڈمپر کی زد میں آگیا جس کے نتیجے میں بہن بھائی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے ہلاک ہونے والوں میں 22 سالہ ماہ نور بھی شامل تھی جس کی اگلے ماہ شادی طے تھی۔ حادثے کے بعد علاقہ میدان جنگ بن گیا اور مشتعل افراد نے سات ڈمپروں کو آگ لگا دی۔ پولیس نے 10 مشتبہ افراد کو ڈمپر نزر آتش کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ڈمپرز ایسوسی ایشن نے احتجاج کیا اس موقع پر صوبائی وزیر شرجیل میمن نے ڈمپر مالکان سے مذاکرات کیے اور ان کو جلے ہوئے ڈمپروں کے معاوضے کی یقین دہانی کرانے کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ڈمپرز جلانے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمات قائم کیے جائیں گے، اس کے بعد ڈمپزر مالکان نے دھرنا ختم کر دیا مگر مرنے والوں سے کسی سرکاری اہلکار نے ہمدردی کا اظہار نہ کیا۔
رواں برس اب تک تقریباً 600 افراد ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ ڈرائیور کی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں جن کے شواہد بھی موجود ہیں مگر کوئی ایک ڈرائیور بھی حراست میں نہیں ہے وجہ صرف عدم پیروی ہے یہ کون کرے گا؟ مرنے والوں کے عزیز و اقارب میں تو یہ ہمت نہیں کہ وہ اتنے بڑے مافیاز سے ٹکر لے سکیں۔ ہم نے یہاں صرف تین حادثات کا ذکر کیا ہے جب کہ رواں سال حادثات میں 600 افراد ہلاک ہوئے ہیں جس میں نہ کسی ڈرائیور اور نہ ہی ڑمپر مالک کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی اور نہ لواحقین کی دادرسی کی گئی۔ سوشل میڈیا کے توسط سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ شرجیل میمن 71 ڈمپر کے مالک ہیں جن میں سے 20 ڈمپر سرکاری ترقیاتی کاموں میں مصروف ہیں جن کا معاوضہ شرجیل میمن وصول کر رہے ہیں اور آغازسراج درانی بھی 20 ڈمپروں کے مالک ہیں ان کے علاوہ وزیر بلدیات اور میئر کراچی کا بھی حصہ موجود ہے۔ جب کہ لیاقت محسود کے صرف چھے یا سات ڈمبر ہیں ان کو استعمال کیا جا رہا ہے دیگر سیاسی شخصیات بھی ان کی سرپرستی کر رہی ہیں تو پھر ان کے خلاف کارروائی کیسے ممکن ہے؟