حمایت علی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے
اک دن نکل نہ جاؤں ذرا اپنے آپ سے
ڈر، اندیشہ اور خدشہ، سب کی منزل خوف ہی ہوتی ہے۔ خوف، ایک چھوٹا سا لفظ کسی بھی انسان کی زندگی کو بدل کے رکھ دیتا ہے، کبھی یہ ڈراتا ہے تو کبھی کسی بڑے خطرے سے بھی آگاہ کرتا ہے۔
انسان کو کسی بھی چیز یا احساس سے خوف آ سکتا ہے، مگر کسی انسان کا خوف کسی دوسرے انسان کے لیے دلچسپی یا حیرانی کا سبب بھی بن سکتا ہے، کیسے آیئے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں اونچائی کا، کسی کے لیے بلندی میں ایک کشش ہے تو کئی افراد کو اونچائی پر چڑھنے کی سوچ ہی ایک انجانے خوف میں گھیر لیتی ہے، کوہ پیماؤں کو ہی دیکھ لیں، اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر بلند اور خطرناک چوٹیاں سر کرتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں، پیسہ اپنی جگہ مگر شوق اور جنون نہ ہو تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔
کچھ افراد کو تو اونچائی سے اتنا خوف آتا ہے کہ ان کا یہ ڈر خوبصورت تفریحی مقامات پر جانے کے شوق پر بھی حاوی ہو جاتا ہے اور وہ دلفریب تفریحی مقامات حقیقت میں دیکھنے سے محروم ہی رہتے ہیں۔
جھولے، بچوں کے لیے ایک سستی اور بہترین تفریح ہوتی ہے، مگر اس سے بھی کئی افراد کو خوف آتا ہے اور زیادہ تیزی سے جھولا لینے سے تو انہیں اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
پنکھا گرمی میں ہر کسی کا خوب ساتھ نبھاتا ہے، مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ بعض افراد کو چلتے پنکھے سے بھی خوف آتا ہے، یہ خوف کہ کب پنکھا ان پر گر جائے، انہیں سکون سے سونے بھی نہیں دیتا۔
لفٹ بہت کام کی چیز ہے، کوئی بھی اونچی عمارت ہو یا پلازہ، اس کے بغیر تعمیر نامکمل سمجھتی جاتی ہے، پلک جھپکتے ہی ایک منزل سے دوسرے منزل تک پہنچائے، کئی افراد کو اس عجوبے سے بھی خوف آتا ہے، سیڑھیاں چڑھ لیتے ہیں، سانس پھلا لیتے ہیں مگر لفٹ میں نہیں بیٹھتے، لفٹ پھنسنے کی خبریں اور واقعات ان کے خوف میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔
پانی زندگی ہے مگر یہ ہی پانی اکثر خطرناک بھی ہو جاتا ہے، سمندر یا پھر بپھرے دریا کئی افراد کی موت کا سبب بن چکے ہیں، بپھرا دریا یا سمندر، ان سے دور ہی رہنا چاہیے مگر دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں، جو ساکت پانی سے بھی خوف کھاتے ہیں۔
کسی نہر یا دریا میں کشتی کی سیر ان کے لیے کسی خوفناک خواب سے کم نہیں ہوتی اور ان کی کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ مجبوری میں بھی کشتی کا سفر نہ کریں۔
ٹرین میں سفر کے دوران سرنگ سے گزرنا سب کے لیے ہی دلچسپی کا سبب ہوتا ہے، مگر روزمرہ زندگی میں اندھیرے سے گزرنا بہت سے افراد کے لیے انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے، اندھیرے میں تو کئی افراد کے لیے تو اپنے گھر میں چھت پر جانا بھی کسی مہم سے کم نہیں ہوتا۔
احمد ندیم قاسمی نے کیا خوب کہا ہے
آج کی رات بھی تنہا ہی کٹی
آج کے دن بھی اندھیرا ہوگا
کئی افراد کے لیے جہاز کا سفر معمول ہوتا ہے، ابھی ایک شہر یا ملک میں تو اگلے دن ہی کہیں اور ۔۔۔ دنیا میں ایسے افرد کی بھی کمی نہیں، جنہیں جہاز کے سفر سے بھی خوف آتا ہے۔ سفر کے دوران یہ خوف ہی لاحق رہتا ہے کہ کب کوئی حادثہ ہی نہ پیش آ جائے اور جہاز گرنے کے واقعات تو ان کے خوف میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔
اللہ ہر حادثے سے بچائے مگر جہاز کے سفر سے خوف سے ملتا جلتا یہ چھوٹا سا لطیفہ ہی پڑھ لیں ،
ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے کہ تم اتنے امیر ہو، مگر جہاز میں سفر کیوں نہیں کرتے، ریل گاڑی میں کیوں جاتے ہو
دوسرا بولا، اگر خدا نخواستہ ٹرین کا حادثہ ہو جائے تو
Here Are You
لیکن اگر، ہوائی جہاز حادثے کا شکار ہو جائے تو
Where Are You
بیماری ہر کسی کے لیے پریشانی ہی لاتی ہے، مگر آپ کی زندگی میں یقیناً ایسے افراد بھی آئے ہوں گے، جو کسی کی معمولی بیماری کا بھی سن کر آگے، بہت آگے کا سوچتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ ہی خیال آتا ہے کہ اس بیمار شخص نے بچنا ہی نہیں ہے۔
دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں، جو بے خطر اور معصوم جانوروں اور پرندوں سے اپنی جان سے زیادہ پیار کرتے ہیں، مگر ان سے ڈرنے والے بھی آپ کو مل ہی جائیں گے، جیسے بلی کو ہی لے لیجئے، ایسے افراد بھی اس جہاں میں ہیں جو ایسے گھر میں داخل ہونے سے سو بار سوچتے ہیں جہاں بلیاں موجود ہوں، کاکروچ، چھپلکی یا پھر مینڈک، ان سے ڈرنے والے بھی بہت ہیں، وہ ایسے کمرے میں اس وقت تک قدم نہیں رکھتے جب تک یہ ایسے حشرات یا جانور اپنی جگہ بدل نہ لیں۔
کبھی آپ نے سنا کہ کوئی شخص اپنے سائے سے ڈر جائے، جی جناب، ایسے افراد بھی ہیں اس جہاں میں، جنہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ کئی ایسے افراد بھی ہیں جو بہت زیادہ آئینہ بھی نہیں دیکھ سکتے۔
نارمل اور صحت مند زندگی گزارنے کے لیے نیند بہت ضروری ہے مگر سونے سے بھی بہت لوگوں کو خوف آتا ہے، انہیں یہ ہی وسوسہ ستاتا ہے کہ اگر وہ سو گئے تو اٹھ نہیں پائیں گے اور ان کی آنکھ بھی بار بار کھل جاتی ہے، بعض افراد کو کسی بھی امتحان یا انٹرویو سے پہلے بھی ایک خوف گھیر لیا ہے۔ وہ یہ ہی سمجھتے ہیں کہ وہ اس امتحان میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔
منیر نیازی نے کہا تھا کہ میرا خوف ہی میری طاقت ہے، ان کی شاعری میں بھی جگہ جگہ ڈر یا خوف نظر آتا ہے،
یہ شعر ہی پڑھ لیجیے
دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر
آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر
خوف یا ڈر کا مثبت پہلو دیکھیں تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کئی معاملات میں ہمیں کسی خطرے سے بھی آگاہ کر رہا ہوتا ہے، جیسے تیز رفتار گاڑی آتی دیکھ کر دماغ ہمیں رکنے کا سگنل دیتا ہے، امتحان کا خوف ہمیں مزید محنت کرنے کی جانب راغب کرتا ہے۔
خوف ایک فطری احساس ہے لیکن اگر یہ حد سے بڑھ جائے، تو یہ ہمارے لیے مشکلات بھی کھڑی کر سکتا ہے، جس خوف سے چھٹکارا پانا ممکن ہو، اس کی کوشش ضرور کرنی چاہیے، اپنے پیاروں سے بات کرنا بھی مفید ہو سکتا ہے۔
اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ ڈر یا خوف ہماری زندگی کا حصہ ہے مگر وہ کہتے ہیں نا ’جو ڈر گیا، وہ مر گیا‘۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی ڈر منیر نیازی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: منیر نیازی ایسے افراد بھی خوف ا تا ہے سے بھی خوف کئی افراد افراد کو کرتے ہیں تا ہے کہ خوف میں ہوتا ہے سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
ہم پانی، بجلی نہیں، صرف امن لینے کے لیے گھروں سے نکلے ہیں، مولانا ہدایت الرحمن
ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے کہا کہ اگر مودی بلوچستان میں پیسہ لگا سکتا ہے تو پاکستان کے حکمران بلوچ نوجوانوں پر سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ ہم سوال پوچھنے جا رہے ہیں کہ بلوچستان کو میدانِ جنگ کیوں بنا دیا گیا ہے؟ را کو ختم کس نے کرنا ہے؟ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیوں کر رہی ہے؟ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی کے زیراہتمام بلوچستان کے حقوق کے لیے جاری "حق دو بلوچستان لانگ مارچ" مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں ملتان سے خانیوال روانہ، لانگ مارچ کا پرتپاک استقبال مدرسہ جامعہ العلوم میں کیا گیا، جہاں امیر جماعت اسلامی بلوچستان نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کی محرومیوں، بدامنی اور ریاستی جبر پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان کی فریاد لے کر نکلے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو جینے کا حق دیا جائے، تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں اور جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پانی یا بجلی نہیں مانگ رہے، صرف انسانی زندگی کی ضمانت چاہتے ہیں۔ اس موقع پر سید ذیشان اختر امیر جماعت اسلامی جنوبی پنجاب، صہیب عمار صدیقی امیر جماعت اسلامی ملتان، زاہد اختر بلوچ نائب امیر جماعت اسلامی بلوچستان، مولانا عبد الرزاق مہتمم جامع العلوم، حافظ محمد اسلم نائب امیر جماعت اسلامی ملتان، چوہدری اطہر عزیز ایڈوکیٹ نائب امیر ضلع اور حق دو بلوچستان مارچ کے شرکاء سمیت ملتان جماعت کے دیگر ذمہ دران بھی موجود تھے۔
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ بلوچستان میں حکومتی رٹ صرف چند گھنٹے نظر آتی ہے، باقی وقت بدامنی، خوف اور لاقانونیت کا راج ہے۔ 249 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں سے 83 ارب صرف سیکیورٹی پر خرچ ہوتے ہیں جبکہ عوام صحت، تعلیم اور روزگار سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کا آغاز بلوچستان سے ہوا، لیکن آج تک ہمیں ایک منصوبہ بھی نہیں ملا۔ کوئٹہ کراچی ہائی وے پر ہر سال ہزاروں لوگ جان سے جاتے ہیں، لیکن حکومت ایک کلومیٹر سڑک دینے کو تیار نہیں۔ بلوچستان کے ساتھ یہ مسلسل زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوئی غیرآئینی تحریک نہیں چلا رہے، ہم پرامن جدوجہد کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں گوریلا کمانڈر بنا کر پیش کرنا سراسر ظلم ہے۔ ہماری بہنوں پر اسلام آباد میں تشدد کیا جا رہا ہے، ہمارے معدنی وسائل پر قبضہ کیا گیا ہے اور ہمیں اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مودی بلوچستان میں پیسہ لگا سکتا ہے تو پاکستان کے حکمران بلوچ نوجوانوں پر سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ ہم سوال پوچھنے جا رہے ہیں کہ بلوچستان کو میدانِ جنگ کیوں بنا دیا گیا ہے؟ را کو ختم کس نے کرنا ہے؟ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیوں کر رہی ہے؟ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ماہرنگ بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کو فوری رہا کیا جائے۔ ہم اسلام آباد جا کر اپنی بہنوں کے دھرنے میں شامل ہوں گے اور ان مظلوم ماوں، بہنوں، بچوں کی آواز ایوانوں تک پہنچائیں گے۔ بلوچستان کے عوام پروفیسر، ڈاکٹر اور امن چاہتے ہیں، جنگ نہیں۔