بارش و سیلاب کی تباہ کاریاں
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، اس سال بارشوں سے متعلقہ حادثات کے نتیجے میں اب تک 260 سے زائد قیمتی جانیں ضایع ہوچکی ہیں، جب کہ املاک اور بنیادی ڈھانچے کو ہونے والا نقصان 60 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں کئی دیہات یا تو زیرِ آب آگئے ہیں یا مکمل طور پر منقطع ہو گئے ہیں۔ فصلیں، جو کٹائی سے محض چند ہفتے دور تھیں، بہہ گئی ہیں، جس سے پہلے ہی مشکلات کا شکار دیہی آبادی پر مزید بوجھ پڑا ہے۔
ہر سال مون سون کی بارشوں سے ملک کے کسی نہ کسی حصے میں سیلاب ضرور آتا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ مون سون کی بارشوں میں نقصانات سے بچنے کے لیے کوئی پیشگی انتظامات نہیں کرتی۔ اس وقت پاکستان میں بہنے والے دریاؤں میں پانی کی سطح شدید بارشوں کی وجہ سے بلند ہو رہی ہے اور جب ان دریاؤں کا سیلابی پانی دریائے سندھ میں داخل ہوگا تو ایک متوقع تباہی کا سوچ کر ہی خوف طاری ہوجاتا ہے۔ 2022 میں سندھ سیلاب سے شدید متاثر ہوا تھا۔
سندھ کے شہروں میں تو قدرتی ندی نالوں پر قبضے ہوچکے ہیں۔ سڑکیں، بند، اور ریلوے لائنیں بغیر کسی کراس ڈرینیج کے بنائی گئی ہیں۔ جہاں پہلے دریا 15 کلومیٹر چوڑا تھا، وہاں پل کی لمبائی صرف ایک کلومیٹر رکھی گئی ہے۔ یہ رکاوٹ سیلابی پانی کے بہاؤ کے لیے نہایت خطرناک ہے، جو اپ اسٹریم بندوں پر دباؤ بڑھاتی ہے اور بند ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور پانی ٹھہر کر تباہی مچاتا ہے۔
سندھ کے صوبائی سڑکوں کے محکمے نے سیلاب کو عام تعمیراتی مسئلہ سمجھا ہے۔ ان اداروں کے ایس او پیز اور قواعد کو ایمرجنسی کی مناسبت سے بدلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ رابطے کی بحالی ہی انخلاء، ہنگامی فراہمی اور لوگوں کی مدد کے لیے بنیادی قدم ہے، دراصل پانی کو روکنے کے لیے نیچر بیسڈ حل اپنانے ہوں گے۔ جیسے شہروں میں پارکس یا کھیل کے میدانوں کو عارضی واٹر ریٹینشن زون بنانا، قدرتی جھیلوں اور دلدلی علاقوں کی بحالی، جہاں پانی عارضی طور پر ذخیرہ کیا جا سکے، جہاں ممکن ہو وہاں چھوٹے ریٹینشن ڈیمز بنانا اور شجرکاری کو فروغ دینا۔ پچھلی دہائیوں میں سڑکوں، نہروں، اسکیموں اور ریلوے لائنوں کی تعمیر نے قدیم ندی نالوں کو بند کردیا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں نے قدرتی پانی کے بہاؤ کو روک دیا ہے۔ ان مقامات کی ازسرِنو شناخت اور بحالی کی ضرورت ہے۔ نکاسی کے راستے کھولنے ہوں گے۔
آج ہمارے ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں سنگین صورت اختیار کرچکی ہیں تو اس کے ذمے دار حکمران اور انتظامیہ ہے، جو کچھ شمالی علاقوں میں ہوا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں درخت اور جنگلات بے دریغ کاٹے جارہے ہیں۔ پہاڑ کے پہاڑ اسٹون کرشنگ کے نام پر غائب کیے جا رہے ہیں۔ دریاؤں کے اندر ہوٹلز اور مکانات بنا لیے گئے ہیں۔
یہ سب انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ عوام، خصوصاً سیاحوں اور سنسنی کے متلاشی افراد کی غفلت اور لاپروائی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہر سال جب محکمہ موسمیات کی جانب سے وارننگز جاری کی جاتی ہیں، تب بھی کئی لوگ خطرناک علاقوں کا رخ کرتے ہیں، دریاؤں کے کنارے کیمپ لگاتے ہیں یا ان پہاڑی راستوں پر چڑھائی کرتے ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ کے لیے مشہور ہوتے ہیں۔ ایسی لاپروائی بارہا قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنی ہے، نہ صرف ان افراد کی، جو خود خطرہ مول لیتے ہیں، بلکہ ان امدادی کارکنوں کی بھی، جو انھیں بچانے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔
بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور نہ اب اس طرف کوئی توجہ دی جا رہی ہے۔ سیاحتی علاقوں میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں۔ سیاحوں کے لیے ایمرجنسی کی صورت میں کوئی ہیلپ لائن نہیں۔ ہمارے ملک کے شمال میں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے ہیں لیکن ہم ان جگہوں کو آج تک ویسے کیش نہیں کراسکے جیسے دنیا کے دیگر ممالک اپنے سیاحتی مقامات کوکراتے ہیں۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے سیاحتی مقامات پر بنیادی سہولتوں کی فراہمی، ایمرجنسی سروسز کی فراہمی، انفرا اسٹرکچر کی بہتری بہت ضروری ہے۔
گلگت بلتستان اور سوات میں سیاحوں کی اموات کے بعد اکثر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ سیاح اس خراب موسم میں پہاڑی علاقوں کی طرف جاتے ہی کیوں ہیں؟ ملک کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ سارا سال پیسے جمع کر کے بمشکل ان علاقوں کی سیاحت کے لیے جاپاتے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر انھیں بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں آتیں۔ گرمی کے ستائے عوام ان چھٹیوں میں پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں ناکافی سہولتوں اور بدانتظامی کی وجہ سے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں، اگر متعلقہ محکمے پہلے ہی الرٹ جاری کردیں اور کسی ممکنہ حادثے سے نمٹنے کے لیے پیشگی انتظامات مکمل رکھیں تو اتنا زیادہ نقصان نہ ہو۔ پہاڑی علاقوں میں کوئی ایسی خصوصی فورس نہیں دیکھی گئی جو کسی حادثے کی صورت میں سیاحوں کے ریسکیو کے لیے موجود ہو، عموماً مقامی لوگ ہی سیاحوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔
حالیہ بارشوں سے ملک کے شمالی علاقوں میں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابوں کو اور بڑے شہروں میں اربن فلڈنگ کو قدرتی آفات قرار دے کر متعلقہ حکام خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ اربن فلڈنگ کی ذمے دار قدرت نہیں بلکہ حکومت اور انتظامیہ ہے۔ ہر شہر میں نئے نئے رہائشی منصوبے بن رہے ہیں لیکن ان منصوبوں میں نکاسی آب کے نظام کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ حتیٰ کہ ان رہائشیوں منصوبوں میں آنے والی قدرتی آبی گزرگاہوں کو بھی بند کر دیا جاتا ہے اور وہاں پلاٹ بنا کر فروخت کر دیے جاتے ہیں۔
راولپنڈی کے نالہ لئی کے دونوں طرف تجاوزات کی بھرمار ہے اور ہر سال مون سون کی بارشوں میں نالے کے دونوں اطراف کی آبادی اربن فلڈنگ کا سامنا کرتی ہے۔ پیچھے پہاڑوں پر ڈیم بن جاتے تو بھی ایسا نہ ہوتا۔ ڈیم کیا بنتے یہاں تو پہلے سے موجود نالے بھی تنگ کردیے گئے ہیں، سیوریج کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ اس وجہ سے پانی رہائشی علاقوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ جب تک ملک میں نئے رہائشی منصوبوں میں نکاسی آب کے بہتر نظام کو ترجیح نہیں دی جائے گی، نئے ڈیم نہیں بنیں گے، عوام کو اسی صورتحال کا سامنا رہے گا۔
اسلام آباد میں تعمیر ہونے والے نئے ایونیو کی وجہ سے اب سفارتی انکلیو میں پانی جمع ہوجاتا ہے۔ بارش میں اس ایونیو کی سڑکیں بھی بیٹھ رہی ہیں اور انڈرپاس میں پانی بھرجاتا ہے۔ کھڑے پانی میں ڈینگی مچھر افزائش پا رہے ہیں۔ جڑواں شہروں میں جہاں جہاں نالوں کی جگہ تنگ کرکے تعمیرات کی گئی ہیں، وہاں مون سون میں ہر سال اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان نالوں پر تجاوزات کے خاتمے کے لیے بھرپور کارروائی ہونی چاہیے، عوام کو متبادل جگہ دی جانی چاہیے۔
زرعی میدان، جو کبھی بارش کے پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اب کنکریٹ اور تارکول میں بدل چکے ہیں۔ نہریں اور ذیلی نالے یا تو تنگ کر دیے گئے ہیں یا ان کا رخ موڑ دیا گیا ہے۔ بعض صورتوں میں خشک دریا کے کناروں پر تعمیرات کر ڈالیں، اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے یا جان بوجھ کر بھلا کر کہ یہ خشک راستے مردہ نہیں بلکہ خاموش ہیں۔ جب قدرت اپنا حق واپس لیتی ہے تو نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ لاہور اور شیخوپورہ کے درمیان کبھی زرخیز رہنے والا علاقہ، اسلام آباد کے گرد و نواح اور کراچی کی مضافاتی بستیاں اس بات کی تلخ مثالیں ہیں کہ کس طرح بے لگام تعمیر و ترقی نے ماحولیاتی توازن بگاڑا اور انسانی مصائب کو جنم دیا۔
اس دکھ میں مزید اضافہ نکاسی آب کے نظام کی مجرمانہ غفلت سے ہوتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر ہر سال بند گٹروں اور صاف نہ کیے جانے والے نالوں کا شکار ہوتے ہیں۔ بارہا حادثات کے باوجود مقامی انتظامیہ شاذ و نادر ہی بروقت صفائی مہمات کا آغاز کرتی ہے۔ چنانچہ معمولی بارش بھی پورے علاقوں کو زیرِ آب کردیتی ہے، شہری آمد و رفت مفلوج ہو جاتی ہے، اور عوامی و نجی املاک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
ہمارے سامنے چیلنج بہت بڑا ہے لیکن ناقابل تسخیر نہیں، اگر ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، حکمت کو سائنس کے ساتھ جوڑتے ہیں اور اپنے اعمال کو عقل اور راستبازی دونوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں، تو ہمیں حفاظت کا راستہ مل سکتا ہے، ورنہ اگلے سال بارشیں لوٹ کر آئیں گی اور ان کے ساتھ دکھ کا ایک اور باب بھی لائیں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اربن فلڈنگ علاقوں میں کرتے ہیں ہوتے ہیں گئے ہیں رہے ہیں ہیں اور ہے اور اور ان ہر سال ملک کے کے لیے
پڑھیں:
لاہور کے مختلف علاقوں میں بارش، مزید بادل برسنے کی پیشگوئی
صوبائی دارالحکومت لاہور کے مختلف علاقوں میں بارش ہوئی مگر حبس کا زور ٹوٹ نہ سکا، مزید بادل برسنے کی پیشگوئی کی گئی۔مون سون کا پانچواں سپیل ملک میں داخل ہو گیا جس کے پیش نظر لاہور کے مختلف علاقوں میں تیز بارش ہوئی۔ایبٹ روڈ، مال روڈ، جیل روڈ اور ڈیوس روڈ کے اطراف میں موسلادھار بارش سے جل تھل ایک ہو گیا، اس کے علاوہ کینال روڈ، ہربنس پورہ، رنگ روڈ اور ایئرپورٹ کے اطراف میں بھی تیز بارش نے رنگ جما دیا جبکہ سول سیکرٹریٹ، چوبرجی اور ملحقہ علاقوں میں ہلکی سے درمیانے درجے کی بارش سے موسم خوشگوار ہو گیا۔دوسری جانب پی ڈی ایم اے کے مطابق آج شام سے راولپنڈی، مری، گلیات، اٹک، چکوال، گجرات، جہلم اور گوجرانوالہ میں بادل برسیں گے۔اس کے علاوہ فیصل آباد، سیالکوٹ، نارووال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، سرگودھا، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، بہاولنگر اور ملتان میں بھی بارشوں کا امکان ہے، مون سون بارشوں کا پانچواں سلسلہ 31 جولائی تک جاری رہے گا۔دوسری جانب خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں بھی گرج چمک کے ساتھ بارش جبکہ پشاور سمیت صوبہ کے بیشتر میدانی اضلاع میں گرمی کی شدت میں اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ ملک بھر میں بارشوں کے باعث حادثات میں 24 گھنٹے کے دوران مزید 8 افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہو گئے، مون سون بارشوں سے ہلاکتوں کی تعداد 279 ہوگئی جبکہ 676 افراد زخمی ہوئے ہیں۔