بھارت کی ایل او سی پر بلا اشتعال فائرنگ، پاک فوج کا منہ توڑ جواب، دشمن خاموش
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
بھارتی فوج نے 29 اور 30 اپریل کی درمیانی شب لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے کیانی اور منڈل سیکٹرز میں بلااشتعال فائرنگ کر دی جس کا پاک فوج نے بھرپور اور مؤثر جواب دیا جس سے دشمن خاموش ہو گیا۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاک فوج کی جوابی کارروائی سے دشمن کے متعدد مورچے تباہ ہوئے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں واقع بھارتی فوج کی چکپترا پوسٹ کو بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا، مؤثر کارروائی کے بعد بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ بند کر دی گئی۔
سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی یہ اشتعال انگیزی اس کے جنگی جنون کی عکاسی کرتی ہے، اس سے قبل بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے سرحدی علاقوں سے شہریوں کو خالی کروایا ہے اور وہاں مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز بھی کیا جا چکا ہے۔
سکیورٹی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ پاک فوج ملک کی سالمیت کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر الرٹ اور تیار ہے اور دشمن کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاک فوج
پڑھیں:
غزہ میں دشمن کا آخری ہتھیار بھوک
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عالمی براداری پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکی خاموشی فلسطینیوں کی چیخیں سن کر بھی نہیں ٹوٹی، یہ ناقابل معافی ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مسئلے پر عالمی خاموشی انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہے۔ فلسطینیوں کے درد پر دنیا کی خاموشی اخلاقی بحران کی آئینہ دار ہے۔ میں عالمی بے حسی کی وضاحت نہیں کرسکتا، انسانیت ختم ہوچکی ہے، عالمی برادری میں ہمدردی، صداقت اور انسانیت کا فقدان ہے۔" عالمی برادری سے گوتریس کا شکوہ اور حکمرانوں کو کوسنا بجا ہے، مگر اقوام متحدہ جیسے غیر موثر ادارے کی اب دنیا کو کیا ضرورت ہے، اس پر بھی انہیں روشنی ڈالنی چاہیئے تھی۔ تحریر: عادل فراز
[email protected]
غزہ میں "محدود جنگ بندی" کا اعلان ہوا ہے، مگر یہ انسانی امداد کی ترسیل کے لئے ناکافی ہے۔ اسرائیل نے عالمی دبائو سے مجبور ہوکر محدود جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے اور اب غزہ میں انسانی امداد پہنچنا شروع ہوگی۔ اسرائیل نے مستقل جنگ بندی کے بجائے غزہ کے تین مخصوص علاقوں میں روزانہ دس گھنٹے کے لئے حملے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ اسرائیل کے وعدے پر یقین نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس سے پہلے بھی وہ مسلسل جنگ بندی کی مخالفت کرتا رہا ہے۔اسرائیل انسانی امداد حاصل کرنے کے لئے ضرورت مندوں کی بھیڑ پر ہوائی حملے کرکے نسل کشی کر رہا ہے۔ خاص طور پر عورتوں اور بچوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے، تاکہ غزہ میں انسانی بحران کو جنم دے کر وہاں صہیونیوں کے لئے عیاشی کے مراکز قائم کئے جاسکیں۔ مختلف رپورٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل اب بھی "جنگ بندی" کے اصولوں کو پامال کر رہا ہے۔ عوام مسلسل بھوک سے مر رہے ہیں۔ خاص طور پر بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ زخمیوں کو علاج میسر نہیں ہے اور وہ مہلک امراض کا شکار ہیں۔ ایسے پرآشوب حالات میں "محدود جنگ بندی" سے زیادہ راحت کی امید نہیں ہے۔ عالمی دبائو میں ابھی مسلسل اضافہ ہونا چاہیئے، تاکہ جنگ بندی کا دائرہ مزید وسیع ہوسکے۔
اہل غزہ کا درد پوری دنیا نے محسوس کیا، سوائے عالمی حکمرانوں کے۔ خاص طور پر مسلم حکمران جو بے غیرتی اور بے حسی کی مجسم تصویر بن چکے ہیں۔ غزہ کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں داخلے کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں۔ اہل غزہ کی استقامت اور حوصلے کو توڑنے کے لئے بھوک کو آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بچے بھوک سے دم توڑ رہے ہیں۔ "اونرا" کے ترجمان عدنان ابوحسنہ کے مطابق غزہ کی صورتحال قابو سے باہر ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی امداد کا پورا نظام زمین بوس ہوچکا ہے اور اس وقت لاکھوں انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ یہ انسانی بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ اسرائیل کے سیاسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے تمام بیانات غزہ کی بدترین صورت حال کو ظاہر کرتے ہیں، اس کے باوجود عالمی رہنمائوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ امریکی صدر ٹرمپ جو ہر جنگ بندی کا کریڈٹ لینے میں پیش پیش رہتے ہیں، وہ بھی غزہ میں جنگ بندی نہیں کروا سکے۔
اسرائیل کی جنگ حماس کے ساتھ ہے، مگر حماس کو شکست دینے اور ان کی فوجی قیادت کو گھٹنوں پر لانے کے لئے اہل غزہ کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ عالمی دبائو تشکیل دینے میں مسلم حکمرانوں کا کوئی کردار نہیں رہا۔ انہوں نے اسرائیلی مظالم کی صرف زبانی مذمت کی ہے اور کسی بھی عملی اقدام سے باز رہے ہیں۔ اگر وہ متحد ہوکر دبائو بناتے تو اب تک غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کے لئے تمام راستے کھول دیئے جاتے، کیونکہ اسرائیل کو اپنے وجود کے لئے ان حکمرانوں کی حمایت کی بے حد ضرورت ہے۔ غزہ میں قحط اور بھک مری شباب پر ہے۔ انسانی حقوق کی سو سے زیادہ بین الاقوامی تنظیموں اور گروہوں نے غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط کا انتباہ دیا ہے۔ "اونرا" کے کمشنر جنرل فلپ لازراینی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ "غزہ میں لوگ مردہ ہیں اور نہ زندہ بلکہ وہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ بھوک سے مرنے والوں میں اکثریت بچوں کی ہے۔ ہماری ٹیم کو جو بچے ملے ہیں، وہ انتہائی لاغر، کمزور اور قریب المرگ ہیں۔ اگر ان کا فوری علاج نہ کیا گیا تو ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔
ان بیانات سے غزہ میں سنگین صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عالمی صحت کی معروف تنظیم (ڈبلیو ایچ او) نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ غزہ کی آبادی کا بڑا حصہ بھکمری کا شکار ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ آپ اس صورت حال کو بڑے پیمانے پر قحط اور بھکمری کے اور کیا کہیں گے اور یہ صورت حال انسانوں کی پیدا کردہ ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے فوڈایڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ "غزہ میں ہر تیسرا شخص کئی دن تک بغیر غذا کے زندگی گزار رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نوے ہزار خواتین اور بچوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے۔" اس ناگفتہ بہ صورت حال کو پوری دنیا محسوس کر رہی ہے۔ امریکہ کے ایوان کانگریس کے کئی اراکین نے غزہ میں انسانی بحران کے مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھایا ہے۔ انہوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی صورت حال نہایت افسوس ناک، لرزہ خیز اور کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔
غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل نہ صرف انتہائی مشکل بلکہ جان لیوا بن چکی ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً سینکڑوں بے گناہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "غزہ کی محصور آبادی کا پچھتر فیصد حصہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ محاصرے کے باعث ہولناک بھوک کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نتن یاہو کی مجرمانہ پالیسیاں انسانی وقار اور عالمی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہیں۔" امریکی ایوان کانگریس کے نمائندگان نے تو غزہ میں انسانی امداد فراہم کرنے والی امریکی حمایت یافتہ تنظیم "غزہ ہیومنیٹیر ین فائونڈیشن" کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ کیا ایسی جرأت کسی مسلم حکومت کے نمائندوں میں پائی جاتی ہے، جو اپنی حکومت کی بے حسی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرسکیں۔؟ اسرائیل کے حلیف ممالک میں جابجا فلسطین کی آزادی اور غزہ میں جنگ بندی کے لئے احتجاج ہو رہے ہیں، مگر مسلم ملکوں کی عوام اب بھی مغرب سے کوئی سبق نہیں لے سکی۔
مسلم حکومتوں کے خلاف ان کے عوام میں غم و غصہ تو پایا جاتا ہے، مگر یہ غصہ کب لاوا میں تبدیل ہوگا، یہ نہیں کہا جاسکتا۔ ان کی زندگی عیش و نشاط میں گزر رہی ہے، اس لئے انہیں اپنی حکومتوں سے داخلی سطح پر زیادہ شکایتیں نہیں ہیں، مگر اپنے حکمرانوں کی بے حسی اور امریکی غلامی نے انہیں بھی بدگمان کر دیا ہے۔ عربوں میں اپنے حکمرانوں کے خلاف غصہ تو موجود ہے، مگر ابھی تک ان میں بغاوت کا جذبہ نہیں ابھر سکا، جس کا انتظار پوری دنیا کو ہے۔ غزہ کی بدترین صورت حال پر دنیا کی مختلف حکومتیں فلسطین کی حمایت میں سامنے آرہی ہیں۔ یہ الگ بات کہ ابھی ان حکومتوں کے بیانات کو حتمی موقف تصور نہیں کیا جا سکتا۔فرانسسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اپنے بیان میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے، حالانکہ ابھی اس بیان پر بہت اعتبار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ فرانس امریکہ کا حلیف ملک ہے۔ اس کے باوجود اس بیان کی اہمیت کو کم نہیں سمجھا جاسکتا۔ فرانس کی طرح دنیا کی متعدد حکومتیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی راہ میں پیش رفت کر رہی ہیں، جو اہل غزہ کی استقامت کی بنیاد پر ممکن ہو رہا ہے۔
فرانسسی صدر نے کہا ہے کہ "مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ اعلان رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کیا جائے گا۔" دیکھنا یہ ہے کہ تب تک فرانسسی صدر کے موقف میں کیا تبدیلی رونماء ہوگی اور امریکہ انہیں کس طرح اور کن شرائط پر اسرائیل کی حمایت میں لانے کے لئے جدوجہد کرے گا۔ میکرون نے یہ بھی کہا کہ آج کی سب سے فوری ترجیح غزہ میں جنگ کا خاتمہ اور وہاں کی شہری آبادی کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔" البتہ انہوں نے حماس کو غیر مسلح کرکے غزہ میں قیام امن اور تعمیر نو کی تجویز دی ہے، جس کے آثار نظر نہیں آتے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عالمی براداری پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی خاموشی فلسطینیوں کی چیخیں سن کر بھی نہیں ٹوٹی، یہ ناقابل معافی ہے۔
انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مسئلے پر عالمی خاموشی انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہے۔ فلسطینیوں کے درد پر دنیا کی خاموشی اخلاقی بحران کی آئینہ دار ہے۔ میں عالمی بے حسی کی وضاحت نہیں کرسکتا، انسانیت ختم ہوچکی ہے، عالمی برادری میں ہمدردی، صداقت اور انسانیت کا فقدان ہے۔" عالمی برادری سے گوتریس کا شکوہ اور حکمرانوں کو کوسنا بجا ہے، مگر اقوام متحدہ جیسے غیر موثر ادارے کی اب دنیا کو کیا ضرورت ہے، اس پر بھی انہیں روشنی ڈالنی چاہیئے تھی۔ اگر اقوام متحدہ جنگ بندی اور انسانی امداد کی ترسیل میں ناکام ہے تو اس ادارے کو بند کر دینا چاہیئے۔ انسانی حقوق کی علم بردار تمام تنظیمیں اپنی حیثیت گنوا چکی ہیں۔ ان کے ہونے سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ تمام ادارے استعمار کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہیں، جس میں اقوام متحدہ سب سے اوپر ہے۔