انصاف تو اللہ کا کام ہے جج تو صرف دستاویز کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ ہم نے آئین میں درج پوری قوم کےحقوق کے تحفظ کاحلف لیا ہے، انصاف کرنا تو اللہ کا کام ہے ہم تو صرف فیصلہ کرتے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق اسلام آباد میں لیبر ڈے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے سنا ہو گا کہ ججز بولتے نہیں لکھتے ہیں، سوچا تھا لکھی ہوئی تقریر پڑھ لوں گا مگر اب دل کی اور آئین کی بات کروں گا۔
انہوں نے کہا آئین کے مطابق تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، آئین کے مطابق کسی سے آپ زبردستی کام نہیں لے سکتے، ہم نے قوم کے حقوق کے تحفظ کیلئےحلف لیا ہے۔
پیدائش، وفات اور ازدواجی حیثیت میں تبدیلی کے آن لائن اندراج کی نادرا موبائل ایپ تیار
جسٹس مندوخیل نے کہا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے کام کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟ کیا میں بحیثیت جج اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہوں؟ صرف آپ کو مزدور اور مجھے جج کا نام دیا گیا ہے، میرا کوئی کمال نہیں کہ میں اس عہدے پر بیٹھا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جس صوبے سے میرا تعلق ہے وہاں کان کنی کا کام ہے جو مزدور کرتے ہیں، مزدورکان کے اندر جاتے ہیں، ان مزدوروں کےحوالے سے قوانین حکومت کو بنانے چاہئیں، آئین میں درج حقوق سب کو ملنے چاہئیں، کوئی مزدور کسی کا غلام نہیں ہوتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آئین میں درج پوری قوم کےحقوق کےتحفظ کا ہم نےحلف لیاہے، ہم نےجوبھی فیصلہ کرنا ہے وہ کسی کے دباؤ،خوف اور لالچ میں آئے بغیرکرنا ہے، اپنے اور ساتھی ججز کی جانب سے یقین دلاتاہوں ہم انصاف اورحقوق کا تحفظ کریں گے، آئیں جو بھی مسئلہ ہے اس پر مل بیٹھیں۔
پنجاب پولیس کے جوان کا اغوا برائے تاوان میں ملوث ہونے کا انکشاف
انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں ہم ججز انصاف نہیں کرتے، انصاف تو اللہ کا کام ہے ہم تو بس فیصلہ کرتے ہیں، ہم اپنےسامنے موجود دستاویز کو دیکھ کر فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں، مجھےخوف ہے کہ جو میراحلف ہےکہیں میں اس کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا؟
جسٹس مندوخیل نے کہا کوئی فریق کہےگا کہ میراحق ہے مگر میں تو وہی فیصلہ کروں گا جو میرےسامنے دستاویز ہے، اللہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو حلف کی پابندی کرنے کی توفیق دے۔
کانفرنس سے چیئرمین این آئی آر سی شوکت عزیز صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محنت کش کے حقوق کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہیں، این آئی آر سی کا بنیادی مقصد ملک میں صنعت کا پہیہ رواں رکھنا ہے، صنعت چلتی رہے گی تو مزدور کا چولہا جلتا رہے گا۔
قائد اعظم پہلی دفعہ لاہور آئے تو اسی جگہ لینڈ کیا ، پاکستان کی جدید ترین سڑک روٹ 47 جہاں سے 1 میگا واٹ بجلی بھی پیدا کی جائے گی
انہوں نے کہا دسمبر 2024 کو مجھے چیئرمین این آئی آر سی کی ذمے داری سونپی گئی، جب اس ذمے داری کے تحت قانون پڑھا پتا چلا ہمارا کام مزدور، مالک کو اکٹھا کرنا ہے، ہم نے کانفرنس انعقاد کا فیصلہ کیا جہاں ورکرز ، مالکان ایک ساتھ بیٹھ کر بات کریں، ہم کامیاب ہوئے کہ آج ورکر اور مالکان ایک میز پر ہوں گے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل مندوخیل نے کہا انہوں نے کہا کا کام ہے کرتے ہیں فیصلہ کر حقوق کے
پڑھیں:
کچی آبادی اگر کچے گھر ہیں تو 90 فیصد بلوچستان کچی آبادی ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کچی آبادیوں سے متعلق کیس میں چیئرمین سی ڈی اے اور سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔
آئینی بینچ نے ممبر پلانگ سی ڈی اے کو بھی طلب کرتے ہوئے کچی آبادیوں سے متعلق قائم ورکنگ کمیٹی کے میٹنگ منٹس بھی مانگ لیے ہیں، کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ سی ڈی اے کی کچی آبادیوں کے لیے پالیسی کیا ہے، سندھ میں کچی آبادی ایکٹ موجود ہے، سی ڈی اے کا کام ہے کہ وفاقی حکومت کو کبھی آبادیوں سے متعلق قانون سازی تجویز کرے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا سی ڈی اے کو وائلڈ لائف بورڈ کے دفاتر واپس کرنے کا حکم
جسٹس حسن اظہر رضوی بولے؛ ڈپلومیٹک انکلیو کے پاس بھی کچی آبادی ہے، یہ کتنی خطرناک بات ہے، وکیل سی ڈی اے منیر پراچہ نے بتایا کہ کچھ کچی آبادیوں کو تو ہم تسلیم کرتے ہیں، وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے متعلق قانون سازی کرے۔
آئینی بینچ نے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت سی ڈی اے کچھ کچی آبادیوں کو تسلیم کرتا ہے کچھ کو نہیں، جس پر وکیل سی ڈی اے نے بتایا کہ قانون کوئی نہیں ہے بس کچھ کو ہم ویسے ہی تسلیم کرتے ہیں۔
سی ڈی اے کے وکیل منیر پراچہ کو مخاطب کرتے ہوئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کچی آبادی کہتے کس کو ہیں، کچی آبادی اگر کچے گھر ہیں تو 90 فیصد بلوچستان کچی آبادی ہے۔
مزید پڑھیں: بغیر اجازت کسی کا ڈی این اے ٹیسٹ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے : سپریم کورٹ
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ 2016 سے سپریم کورٹ نے کچی آبادیوں سے متعلق قانون سازی کی حکم دے رکھا ہے، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ 2015 سے مقدمہ زیر التوا ہے اور آج تک 10 سال ہوگئے کچھ نہیں ہوا۔
وکیل سی ڈی اے کا موقف تھا کہ عدالت کے حکم امتناع کی وجہ سے اسلام آباد میں کچی آبادیاں اور تجاوزات بڑھتی جارہی ہیں، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سی ڈی اے کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوتی۔
وکیل سی ڈی اے منیر پراچہ کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے قانون انصاف کمیشن میں قائم کمیٹی کے ہر اجلاس میں سی ڈی اے شریک ہوتا ہے، اس موقع پر عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کو ذاتی حیثیت میں عدالت طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل جسٹس حسن اظہر رضوی حکم امتناع سپریم کورٹ قانون انصاف کمیشن قانون سازی کچی آبادی منیر پراچہ وکیل سی ڈی اے