Express News:
2025-08-07@07:09:53 GMT

شاعر علی شاعر کے ’’ تنقیدی آئینے ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

تنقید ایک ایسا فن ہے جو ایک ہی وقت میں انتہائی آسان بھی ہے اور انتہائی مشکل بھی۔ یہ وہ فن ہے جس میں کسی کا لحاظ رکھنے سے، تنقیدی شخصیت پاش پاش ہو جاتی ہے، اگر وہ حق گوئی کو نوکِ قلم کی زینت بناتا ہے تو صاحبِ کتاب یعنی جس کے فن پر اظہارِ خیال کرنا مقصود ہو، اس کے پلے کچھ نہیں رہتا۔

گویا تنقید نگارکا حقیقی فرضِ منصبی یہ ہے کہ خود کو بھی بچائے اور صاحبِ کتاب کی عزتِ نفس کو مجروح نہ ہونے دے یعنی درمیانی راستہ نکالنے کی تگ و دو کرے۔ شاعر علی شاعر نے اپنی کتاب ’’ تنقیدی آئینے‘‘ میں بھی یہی اسلوب تنقید اپنایا ہے۔

 تنقید کے معنی ہیں ’’ کھوٹا کھرا پرکھنا ‘‘ اصطلاحا کسی موجود مواد کی مصایب وطاسن متعلق فیصلہ دینا نقاد کے مدنظر ہوتا ہے۔ ’’ تنقیدی آئینے‘‘ بھی ہمیں نئی حقیقتوں سے آشنا کرواتا ہوا ایک مجموعہ ہے۔ جس کے مصنف شاعر علی شاعر ہے۔ وہ اُردو ادب میں ایک حوالے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’ تنقیدی آئینے‘‘ رکھا ہے جس میں تنقیدی مضامین اور انٹرویوز ان کے زورِ قلم کا ثمر نظر آتے ہیں۔ جس کا انتساب ڈاکٹر جمیل جالبی کے نام کیا گیا ہے۔ تنقیدی آئینے کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی نظر اور فکر دونوں کو ضایع نہیں ہونے دیا بلکہ ایسے لوگوں پر قلم اُٹھانے کا جتن کیا ہے، جنہوں نے ساری زندگی قلم اور کتاب سے جوڑے رکھی۔

اس کتاب میں تنقیدی مضامین حمایت علی شاعر، پروفیسر سحر انصاری، انور شعور، ڈاکٹر معین الدین عقیل، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، رفیع الدین راز، سہیل غازی پوری، ڈاکٹر ہارون رشید تبسم، لیاقت علی عاصم،گستاخ بخاری، جسارت خیالی ودیگر شخصیات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کتاب میں انٹرویوز اعجاز رحمانی، شاعر صدیقی، خواجہ معزالدین اور ریاض ندیم نیازی کے شامل ہیں۔ تنقیدی آئینے کے حوالے سے اے خیام لکھتے ہیں کہ ’’ اکثر نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ تنقید کی ایسی کوئی صورت نہیں جو ذاتی تعصب اور تاثر اور ذاتی پسند ونا پسند سے یکسر عاری ہو، لیکن اصول، انتقادیات کو اگر مدنظر رکھا جائے تو دلائل کی بڑی اہمیت ہے اور ساتھ ہی وسیع اور متنوع موضوعات کے مطالعے کی۔

تحسین، تنقیص اور تبصرے سے بالاتر ہوکر تنقید لکھنے کی روش بہت عام نہیں ہے اور یہ عمومی شعورکے حامل قلم کاروں کے لیے ممکن بھی نہیں ہے۔‘‘اس کتاب میں ہفت زبان شاعر ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا فنِ شاعری اور عہد آفرین شخصیت کے عنوان سے بھی مضمون شامل ہے۔ جو خالصتا تنقید اور تحقیق دونوں عمل سے مرتب کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ’’شاعری کی جان‘‘ یہ مضمون جان کاشمیری کی شخصیت اور ان کے ایک سال میں ایک ہی دن منظر عام پر آنے والے دس عدد شعری مجموعوں کو تنقیدی نظر میں یوں دیکھتے ہیں کہ ’’ جان کاشمیری نے یہ عزت و شہرت کسی بازار سے نہیں خریدی بلکہ قطرہ قطرہ جمع کر کے سمندر بنایا ہے۔

اُن کی شعری عمر کا حساب لگائیں تو آج وہ پاکستان کے صفِ اول کے شعرا میں شمار کیے جائیں گے۔ اس بات کا ثبوت اُن کی وہ ندرتِ خیالی ہے جو اُن کے اشعار میں پائی جاتی ہے۔ وہ نازک احساسات ہیں جن سے اُنہوں نے شعروں کو بُنا ہے، زندگی کے وہ تلخ و شیریں تجربات ہیں جن کی آگ میں تپ کر وہ کندن بنے ہیں۔‘‘

ایک مضمون ماہرِ علم عروض ڈاکٹر آفتاب مضطر کے حوالے سے شامل ہیں۔ جس میں اُن کے علم عروض اور اُن کی شخصیت دونوں پر ایک ساتھ تنقیدی نظر سے بیان کیا گیا ہے۔ جس میں مصنف لکھتے ہیں کہ ’’عروض اُن لوگوں کے لیے مشکل ہے جو اسے سیکھنا نہیں چاہتے۔ وہی لوگ عروض کے خلاف ہیں اور اس میں عروضی مغالطے پیدا کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

اُردو عروض ایک نافع علم ہے۔ جس طرح علم انسان کا زیور ہے جو انسان کو زیب و زینت بخشتا ہے اسی طرح علم عروض شاعری کا زیور ہے جو اسے نکھارتا، سنوارتا اور فنی عیوب سے پاک کرتا اور اس کے محاسن کو اُجاگرکرتا ہے۔ ‘‘ یہ بات سچ ہے کہ ہر علم عروض انسان کے کلام کے ساتھ ساتھ اُس کی شخٰصیت کو بھی نکھارتا ہے۔ ولی دکنی، میر، غالب واقبال کے علاوہ بہت سے شعرا علم عروض کے ماہر تھے۔ جو محفل میں شعر سنتے ہوئے علم عروض کی طرف زیادہ توجہ مرکوز رکھتے تھے، مگر آج ایسی کیفیت نہیں ہے، اگر ہے تو اُسے ہم ماننے پر خود کو نااہل سمجھتے ہیں۔

شاعر علی شاعرکے تنقیدی آئینے حقیقت کی زبان بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ خود بھی ایک صاحبِ مطالعہ آدمی ہے وہ تنقید اور تحقیق میں فرق کو اچھے سے سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی ہم عصروںپر قلم آزمائی کرتے ہوئے اُن کی شخصیت اور فن پر نظر ڈالتے ہوئے انھیں تحقیق سے تنقید کے آئینے میں دیکھتے ہوئے اہل قلم کو ایک صاف آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔

ایسا آئینہ جس میں تخلیق کار اور تنقید کار دونوں اپنے میں باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں،کیونکہ میری نظر میں تنقید بھی ایک سائنس ہی ہے،کیونکہ یہ بھی سائنس کی طرح ایک سچائی کی جو بندہ پایندہ ہے اور یہ سچائی حسن کی تلاش اور اس کی نسبتوں اور مقداروں کے تعین سے متعلق ہے اور اس کے بھی کچھ عقلی اصول ہیں۔

میرے خیال میں شاعر علی شاعر نے اپنے تنقیدی آئینے میں ایسی ہی سچائیوں اور نسبتوں کا تعین کرتے ہوئے اپنی عقلی اصول پرستی کو ایک نئی شکل دینے کی جد وجہد کی ہے۔ جو یقینا اردو ادب کی تاریخ میں ایک منفرد اضافہ کا باعث ثابت ہوگی جس سے شاعر علی شاعر کا قد اور بھی اونچا ہو جائے گا۔ تنقیدی آئینے جس کے کل صفحات 264 ہیں۔ اس کتاب میں جن ادبی شخصیات سے شاعر علی شاعر مکالمہ کر رہے ہیں ان کی شخصی زندگی اور ادبی کارگزاریوں سے بہ خوبی واقف ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شاعر علی شاعر کتاب میں نے اپنی ہے جو ا ہے اور ہیں کہ اور اس ہوئے ا

پڑھیں:

بدقسمتی سے ہم نے ہمیشہ اپنی پولیس کو تنقید، تمسخر اور الزام تراشی کا نشانہ بنایا ہے، شرجیل میمن

 سندھ کے سینئر وزیر اور صوبائی وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ آج کا دن نہایت اہمیت کا حامل ہے، ہمارے معاشرے میں روزمرہ بنیادوں پر عوام کو امن و امان، جان و مال کا تحفظ کے مسائل درپیش ہوتے ہیں، جنہیں سنبھالنے کی ذمہ داری فقط ہماری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔

سندھ اسمبلی میں اپنے خطاب میں سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم نے ہمیشہ اپنی پولیس کو تنقید، تمسخر اور الزام تراشی کا نشانہ بنایا، جب بھی ہمیں کسی بات پر اعتراض کرنا ہوتا ہے، ہم بآسانی پولیس کو ہدفِ تنقید بنا لیتے ہیں، لیکن کبھی ہم نے یہ نہ سوچا کہ وہ سپاہی جو قلیل تنخواہ کے عوض اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر دن رات ہمارے تحفظ کے لیے کوشاں ہے، اُس پر کیا گزرتی ہے جب ہم اس کی خدمات کو نظرانداز کر کے محض عیب جوئی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خاص طور پر سندھ پولیس نے 2008 کے بعد صوبے بھر میں مثالی کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہی پولیس ہے جسے جب ایک عوامی حکومت نے فری ہینڈ دیا، تب اس نے سندھ بھر میں امن و امان قائم کرنے میں تاریخی کامیابیاں حاصل کیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ماضی میں کچھ علاقے ایسے تھے جہاں سورج غروب ہونے کے بعد کوئی شخص گھروں سے نکلنے کی ہمت نہ کرتا، مگر آج وہاں معمولاتِ زندگی بحال ہو چکے ہیں۔

شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ہماری پولیس نہ صرف امن عامہ کی ضامن ہے، بلکہ دہشت گردی جیسے سنگین چیلنجز کا بھی جواں مردی سے سامنا کرتی رہی ہے، کراچی ایئرپورٹ پر جب حملہ ہوا، اُس وقت کے آئی جی سندھ، اقبال محمود، سادہ لباس میں خود جائے واردات پر موجود تھے اور دہشت گردوں سے نبرد آزما تھے۔ اس کے علاوہ، کراچی اسٹاک ایکسچینج اور سی پی او پر ہونے والے حملوں میں بھی سندھ پولیس نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور بہادری سے مقابلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس نے سانحہ صفورہ، یونیورسٹی حملہ اور دیگر بڑے دہشت گردی کے واقعات کو کامیابی سے ڈیٹیکٹ کیا، جو اس کی مہارت اور تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ’کسی اور صوبے کی پولیس اتنے پیچیدہ اور سنگین کیسز کو اس طرح حل نہیں کیا جس طرح سندھ پولیس نے حل کیا ہے اور اُس کی مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ہر شعبہ میں اپنی پولیس کو ہر طرح کی خدمت کے لیے متحرک کیا ہے، چاہے مذہبی اجتماعات کی سیکیورٹی ہو، منشیات کے خلاف کارروائیاں ہوں یا اسٹریٹ کرائم کے انسداد کی مہمات، مگر ان سب کے باوجود، ہماری پولیس ہر اول دستے کے طور پر سرگرم عمل رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پولیس کی اتنی صلاحیت (کیپیسٹی) ہے، اور یہ صلاحیت حکومت کی کسی وقتی سہولت یا فری ہینڈ دینے سے پیدا نہیں ہوئی۔ بلاشبہ اُنہیں مزید سہولیات دی جانی چاہئیں، لیکن جو بھی سہولیات دستیاب ہیں، حکومت اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے تمام تر اقدامات کر رہی ہے۔ اس کے باوجود، سندھ پولیس نے تمام خطرناک نوعیت کے کیسز کو کامیابی سے حل کیا ہے۔ لہٰذا، میرا ماننا ہے کہ ہم سب کو مل کر اپنی سندھ پولیس کو سلام پیش کرنا چاہیے، اُن کی تحسین کرنی چاہیے، کیونکہ جو تاریخی کردار اس فورس نے ادا کیا ہے وہ بے مثال ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ ہماری پولیس کے جوان جان ہتھیلی پر رکھ کر، جس انداز سے وہ سڑکوں پر کھڑے ہو کر ہماری حفاظت کرتے ہیں، ہم سب کو چاہیے کہ اُنہیں سلام پیش کریں۔

متعلقہ مضامین

  • آئمہ بیگ کو کنسرٹ میں کورین گانے پر پرفارمنس دینے پر ٹرولنگ کا سامنا
  • بیٹے کی رنگت پر تنقید کرنے والوں کیخلاف اداکارہ کی قانونی کارروائی
  • خوبرو اداکارہ مہر بانو کی بیلی ڈانس کی ویڈیو وائرل؛ ایک بار پھر تنقید کی زد میں
  • نادیہ خان کو صائمہ نور اور سجل علی کا مذاق اُڑانے پر تنقید کا سامنا
  • صائمہ نور اور سجل علی کا مذاق اڑانے پر نادیہ خان کو شدید تنقید کا سامنا
  • اداکارہ در فشاں کا وزن زیادہ ہونے پر تنقید کرنے والوں کو کرارا جواب
  • ’خود امریکا نے روسی تیل لینے کی ترغیب دی‘، بھارت کا ٹرمپ کی تنقید پر ردعمل
  • بدقسمتی سے ہم نے ہمیشہ اپنی پولیس کو تنقید، تمسخر اور الزام تراشی کا نشانہ بنایا ہے، شرجیل میمن
  • اداکارہ نعیمہ بٹ کی طنزیہ ویڈیو وائرل، ڈرامہ انڈسٹری پر تنقید پر مداحوں کی ملی جلی رائے
  • ’’موٹی لڑکیوں کے رشتے کیوں نہیں ملتے؟‘‘ مسز خان کے سخت الفاظ