شاعر علی شاعر کے ’’ تنقیدی آئینے ‘‘
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
تنقید ایک ایسا فن ہے جو ایک ہی وقت میں انتہائی آسان بھی ہے اور انتہائی مشکل بھی۔ یہ وہ فن ہے جس میں کسی کا لحاظ رکھنے سے، تنقیدی شخصیت پاش پاش ہو جاتی ہے، اگر وہ حق گوئی کو نوکِ قلم کی زینت بناتا ہے تو صاحبِ کتاب یعنی جس کے فن پر اظہارِ خیال کرنا مقصود ہو، اس کے پلے کچھ نہیں رہتا۔
گویا تنقید نگارکا حقیقی فرضِ منصبی یہ ہے کہ خود کو بھی بچائے اور صاحبِ کتاب کی عزتِ نفس کو مجروح نہ ہونے دے یعنی درمیانی راستہ نکالنے کی تگ و دو کرے۔ شاعر علی شاعر نے اپنی کتاب ’’ تنقیدی آئینے‘‘ میں بھی یہی اسلوب تنقید اپنایا ہے۔
تنقید کے معنی ہیں ’’ کھوٹا کھرا پرکھنا ‘‘ اصطلاحا کسی موجود مواد کی مصایب وطاسن متعلق فیصلہ دینا نقاد کے مدنظر ہوتا ہے۔ ’’ تنقیدی آئینے‘‘ بھی ہمیں نئی حقیقتوں سے آشنا کرواتا ہوا ایک مجموعہ ہے۔ جس کے مصنف شاعر علی شاعر ہے۔ وہ اُردو ادب میں ایک حوالے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’ تنقیدی آئینے‘‘ رکھا ہے جس میں تنقیدی مضامین اور انٹرویوز ان کے زورِ قلم کا ثمر نظر آتے ہیں۔ جس کا انتساب ڈاکٹر جمیل جالبی کے نام کیا گیا ہے۔ تنقیدی آئینے کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی نظر اور فکر دونوں کو ضایع نہیں ہونے دیا بلکہ ایسے لوگوں پر قلم اُٹھانے کا جتن کیا ہے، جنہوں نے ساری زندگی قلم اور کتاب سے جوڑے رکھی۔
اس کتاب میں تنقیدی مضامین حمایت علی شاعر، پروفیسر سحر انصاری، انور شعور، ڈاکٹر معین الدین عقیل، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، رفیع الدین راز، سہیل غازی پوری، ڈاکٹر ہارون رشید تبسم، لیاقت علی عاصم،گستاخ بخاری، جسارت خیالی ودیگر شخصیات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ کتاب میں انٹرویوز اعجاز رحمانی، شاعر صدیقی، خواجہ معزالدین اور ریاض ندیم نیازی کے شامل ہیں۔ تنقیدی آئینے کے حوالے سے اے خیام لکھتے ہیں کہ ’’ اکثر نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ تنقید کی ایسی کوئی صورت نہیں جو ذاتی تعصب اور تاثر اور ذاتی پسند ونا پسند سے یکسر عاری ہو، لیکن اصول، انتقادیات کو اگر مدنظر رکھا جائے تو دلائل کی بڑی اہمیت ہے اور ساتھ ہی وسیع اور متنوع موضوعات کے مطالعے کی۔
تحسین، تنقیص اور تبصرے سے بالاتر ہوکر تنقید لکھنے کی روش بہت عام نہیں ہے اور یہ عمومی شعورکے حامل قلم کاروں کے لیے ممکن بھی نہیں ہے۔‘‘اس کتاب میں ہفت زبان شاعر ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا فنِ شاعری اور عہد آفرین شخصیت کے عنوان سے بھی مضمون شامل ہے۔ جو خالصتا تنقید اور تحقیق دونوں عمل سے مرتب کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ’’شاعری کی جان‘‘ یہ مضمون جان کاشمیری کی شخصیت اور ان کے ایک سال میں ایک ہی دن منظر عام پر آنے والے دس عدد شعری مجموعوں کو تنقیدی نظر میں یوں دیکھتے ہیں کہ ’’ جان کاشمیری نے یہ عزت و شہرت کسی بازار سے نہیں خریدی بلکہ قطرہ قطرہ جمع کر کے سمندر بنایا ہے۔
اُن کی شعری عمر کا حساب لگائیں تو آج وہ پاکستان کے صفِ اول کے شعرا میں شمار کیے جائیں گے۔ اس بات کا ثبوت اُن کی وہ ندرتِ خیالی ہے جو اُن کے اشعار میں پائی جاتی ہے۔ وہ نازک احساسات ہیں جن سے اُنہوں نے شعروں کو بُنا ہے، زندگی کے وہ تلخ و شیریں تجربات ہیں جن کی آگ میں تپ کر وہ کندن بنے ہیں۔‘‘
ایک مضمون ماہرِ علم عروض ڈاکٹر آفتاب مضطر کے حوالے سے شامل ہیں۔ جس میں اُن کے علم عروض اور اُن کی شخصیت دونوں پر ایک ساتھ تنقیدی نظر سے بیان کیا گیا ہے۔ جس میں مصنف لکھتے ہیں کہ ’’عروض اُن لوگوں کے لیے مشکل ہے جو اسے سیکھنا نہیں چاہتے۔ وہی لوگ عروض کے خلاف ہیں اور اس میں عروضی مغالطے پیدا کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
اُردو عروض ایک نافع علم ہے۔ جس طرح علم انسان کا زیور ہے جو انسان کو زیب و زینت بخشتا ہے اسی طرح علم عروض شاعری کا زیور ہے جو اسے نکھارتا، سنوارتا اور فنی عیوب سے پاک کرتا اور اس کے محاسن کو اُجاگرکرتا ہے۔ ‘‘ یہ بات سچ ہے کہ ہر علم عروض انسان کے کلام کے ساتھ ساتھ اُس کی شخٰصیت کو بھی نکھارتا ہے۔ ولی دکنی، میر، غالب واقبال کے علاوہ بہت سے شعرا علم عروض کے ماہر تھے۔ جو محفل میں شعر سنتے ہوئے علم عروض کی طرف زیادہ توجہ مرکوز رکھتے تھے، مگر آج ایسی کیفیت نہیں ہے، اگر ہے تو اُسے ہم ماننے پر خود کو نااہل سمجھتے ہیں۔
شاعر علی شاعرکے تنقیدی آئینے حقیقت کی زبان بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ خود بھی ایک صاحبِ مطالعہ آدمی ہے وہ تنقید اور تحقیق میں فرق کو اچھے سے سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی ہم عصروںپر قلم آزمائی کرتے ہوئے اُن کی شخصیت اور فن پر نظر ڈالتے ہوئے انھیں تحقیق سے تنقید کے آئینے میں دیکھتے ہوئے اہل قلم کو ایک صاف آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔
ایسا آئینہ جس میں تخلیق کار اور تنقید کار دونوں اپنے میں باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں،کیونکہ میری نظر میں تنقید بھی ایک سائنس ہی ہے،کیونکہ یہ بھی سائنس کی طرح ایک سچائی کی جو بندہ پایندہ ہے اور یہ سچائی حسن کی تلاش اور اس کی نسبتوں اور مقداروں کے تعین سے متعلق ہے اور اس کے بھی کچھ عقلی اصول ہیں۔
میرے خیال میں شاعر علی شاعر نے اپنے تنقیدی آئینے میں ایسی ہی سچائیوں اور نسبتوں کا تعین کرتے ہوئے اپنی عقلی اصول پرستی کو ایک نئی شکل دینے کی جد وجہد کی ہے۔ جو یقینا اردو ادب کی تاریخ میں ایک منفرد اضافہ کا باعث ثابت ہوگی جس سے شاعر علی شاعر کا قد اور بھی اونچا ہو جائے گا۔ تنقیدی آئینے جس کے کل صفحات 264 ہیں۔ اس کتاب میں جن ادبی شخصیات سے شاعر علی شاعر مکالمہ کر رہے ہیں ان کی شخصی زندگی اور ادبی کارگزاریوں سے بہ خوبی واقف ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شاعر علی شاعر کتاب میں نے اپنی ہے جو ا ہے اور ہیں کہ اور اس ہوئے ا
پڑھیں:
’کیا جے شاہ نے ورلڈ کپ جیتا ہے؟‘، ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے پرومو میں 11 مرتبہ دکھائے جانے پر آئی سی سی پر تنقید
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل کا پرومو جاری کردیا جس پر سوشل میڈیا صارفین خوب تنقید کر رہے ہیں کیونکہ اس میں کھلاڑیوں سے زیادہ آئی سی سی کے چیئرمین جے شاہ کے شاٹس تھے۔
آئی سی سی کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو 45 سکینڈز کی ہے جس میں مجموعی طور پر 23 شاٹس شامل کیے گئے لیکن حیران کن طور پر 11 شاٹس جے شاہ کے تھے جسے دیکھ کر صارفین نے آئی سی سی اور جے شاہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ یہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا پرومو تھا یا جے شاہ کا۔
A fantastic #WTC25 Final at Lord's with the @proteasmencsa lifting the mace on day four after defeating the defending champions @CricketAus pic.twitter.com/sMlDXIhIVe
— ICC (@ICC) June 17, 2025
ایک صارف نے ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کیا جے شاہ نے ورلڈ کپ جیتا ہے۔
Did Jay Shah lift the world cup??? ????
— Zaara Syed ???? (@Zaarasyedd_) June 17, 2025
ایک ایکس صارف نے کہا کہ جنوبی افرقہ نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ جیتی لیکن آئی سی سی کے چیئرمین دکھاوے کے لیے حقیقی مین آف دی میچ ہیں۔
Breaking: South Africa won the WTC, but ICC’s chairman is the real man of the match for just showing up.
— Hemant Batra (@hemantbatra0) June 17, 2025
وویک گپتا کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ جے شاہ جنوبی افریقہ کے کپتان ہیں، کیونکہ ویڈیو میں وہی نظر آ رہے ہیں۔
It seems like Shah is the captain of South Africa, because he is the one dominating the video.
— Vivek Gupta (@30guptavivek) June 17, 2025
سید فدا حسین نے لکھا کہ یہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نہیں بلکہ انڈین کرکٹ کونسل ہے۔
International Cricket Council ❌
Indian Cricket Council ✅ https://t.co/pYIftPhh0L
— Syed Fida Hussain???????? (@SFidaSheerazi) June 17, 2025
راشد لطیف نے طنزاً لکھا کہ یہ جے شاہ کی ایک نایاب اور متاثر کن ویڈیو ہے جو بین الاقوامی کرکٹ میں ان کی کامیابیوں کو اجاگر کرتی ہے۔
A rare and inspiring Video of JS highlighting his achievements in international cricket
— Rashid Latif | ???????? (@iRashidLatif68) June 17, 2025
واضح رہے کہ لارڈز کے تاریخی میدان میں آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل ہوا اور جنوبی افریقا نے آسٹریلیا کو ہراکر طویل عرصے بعد آئی سی سی ٹائٹل جیتا۔ آئی سی سی کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں باووما کے 5، مارکرم کے 2، آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز اور ربادا کی صرف ایک جھلک موجود تھی جبکہ جے شاہ کو 11 بار دکھایا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل آئی سی سی جے شاہ