ابدالی میزائل تجربہ اور پروفیسر ساجد میر کی رحلت
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
مئی2025کے پہلے ہفتے دو نہائت اہم خبریں ہمارے سامنے آئی ہیں ۔ ایک تو بے حد خوش کن اور قومی اطمینان کی حامل ہے جب کہ دوسری خبر رنج و ملال کی ہے ۔ 3مئی2025کو پاکستان نے ’’ابدالی میزائل نظام‘‘ کا کامیابی سے تجربہ کیا ۔ الحمد للہ ۔پاکستان نے ’’ابدالی ‘‘ میزائل کا نہائت کامیابی سے تجربہ ایسے حساس ایام میں کیا ہے جب پاک بھارت کشیدگی عروج پر ہے اور دونوں ممالک کی فوجیں تیاری کی حالت میں کھڑی ہیں۔
افواجِ پاکستان کے قابلِ فخر انجینئرز نے ’’ابدالی‘‘ میزائل کا کامیاب تجربہ کرکے بھارت اور عالمی برادری پر ثابت کیا ہے کہ پاکستان نہ تو پاک بھارت کشیدگی سے خائف ہے اور نہ ہی اپنے دفاع سے غافل۔ لاریب اِس کامیاب میزائل تجربے پر افواجِ پاکستان قابلِ تحسین ہے ۔ اگرچہ ایسے میزائل خاصے مہنگے بھی ہوتے ہیں اور پاکستان ایسے ملک ( جس کی معیشت خاصی کمزور ہے) پر بوجھ بھی ، لیکن جب کمینے دشمن سے ملک ہمہ دَم خطرات کی زَد میں ہو،قومی سلامتی کی خاطر ایسے بھاری تر مالی بوجھ، ہنسی خوشی، برداشت کرنا پڑتے ہیں ۔
اطلاعات کے مطابق:پاکستان نے ’’ایکس انڈس مشق کے تحت ابدالی میزائل نظام کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ابدالی میزائل کی رینج 450 کلومیٹر ہے۔ مطلب: بھارت کا کوئی کونا کھدرا پاکستان کی دسترس سے باہر نہیں ہے ۔ ابدالی میزائل، دشمن کے خلاف، زمین سے زمین تک ہدف کو نشانہ بنانے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔بتایا گیا ہے کہ مذکورہ میزائل کے تجربے کا مقصد آپریشنل تیاریوں کو یقینی بنانا اور اہم تکنیکی پیرامیٹرز، بشمول جدید نیوی گیشن سسٹم، کو یقینی بنانا تھا۔آئی ایس پی آر کے مطابق: ابدالی ویپن سسٹم کے ٹریننگ لانچ کے موقع پر کمانڈر آرمی اسٹریٹجک فورسز کمانڈ موجود تھے۔
ویپن سسٹم ٹریننگ لانچ تجربہ اسٹریٹجک پلانز ڈویژن، آرمی اسٹریٹجک فورسز کمانڈ کے سینئر حکام نے بھی دیکھا، اور پاکستان کی اسٹریٹجک تنظیموں کے سائنسدانوں اور انجینئرز نے بھی۔ سب کے دل قومی کامیابی کے کارن مسرتوںاور اطمینان سے بھرے ہُوئے ہیں ۔ ابدالی کی کامیابی پر ایک نہ معلوم سا مسرت انگیز نشہ قوم کے ہر فرد کے دل و دماغ پر چھایا ہُوا ہے چنانچہ ابدالی کی کامیابی پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس نے فوجیوں، سائنسدانوں اور انجینئرز کو بجا طور پرمبارکباد پیش کی ہے۔ابدالی میزائل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہر فرد ہمارا قومی ہیرو ہے ۔ ہم سب کا ہمارے اِن ہیروز کو محبت بھرا سیلوٹ!
ابدالی میزائل کی حیرت انگیز کامیابی( جس نے بھارت پر سکتہ اور ہیبت طاری کررکھی ہے) کے لمحات میں محترم پروفیسر سینیٹر ساجد میر صاحب کی رحلت نے افسردہ اور اُداس کررکھا ہے ۔3مئی ہی کو آپ کا انتقال ہُوا ہے ۔ شہرِ اقبال ، سیالکوٹ، میں پیدا ہونے والے کشمیری النسل پروفیسر ساجد میر صاحب مرحوم ’’جمعیت اہلِ حدیث‘‘ پاکستان کے سربراہ تھے ۔ عمر اُن کی86برس تھی ۔ انگریزی ادبیات اور اسلامیات میں ایم اے کررکھے تھے ۔
تعلیم ، سیاست اور دین کے شعبوں میں شاندار خدمات انجام دِیں۔دھیمے اور معتدل مزاج کے حامل تھے ۔ یادگار کتابیں بھی لکھیں۔مبینہ طور پر دل کے حملے نے زندگی کا شعلہ گُل کر دیا ۔ موت کا ایک دِن معین بھی ہے اور موت کے لیے قدرت کوئی نہ کوئی بہانہ بھی بنا دیتی ہے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ ساجد میر صاحب مرحوم ایسے مردِ مومن تھے جن کے بارے میں اللہ نے ارشاد فرما رکھا ہے:(مفہوم)’’اے نفسِ مطمئنہ، اپنے رَبّ کی طرف واپس آجا، یوں کہ تُو اُس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔‘‘
سب اِس امر پر متفق ہیں کہ محترم پروفیسر ساجد میر صاحب مرحوم پاکستان و عالمِ اسلام کی معروف شخصیت تھے ۔ ممتاز سیاستدان بھی ، معروف مذہبی رہنما بھی اور منفرد مصنف بھی ۔ اُنھوں نے تقریباً نصف درجن کتابیں تصنیف و تالیف کیں ۔ اُن کی تصنیفات میں ’’ عیسائیت: مطالعہ و تجزیہ‘‘ ممتاز ترین حیثیت رکھتی ہے ۔
یہ ضخیم کتاب پروفیسر ساجد میر مرحوم کے وسیع مطالعہ پر دلالت کرتی ہے ۔ میرے نام اُن کے دستخطوں سے یہ کتاب میرے ذاتی لائبریری میں موجود ہے اور اُن کی محبتوں و شفقتوں کی یاد دلاتی ہے۔ یادش بخیر،اُن کے معتمدِ خاص اور نوجوان عالمِ دین و محقق ، اور ہمارے دیرینہ دوست، محترم مولانا شفیق پسروری، یہ کتاب میرے لیے لائے تھے۔ شفیق پسروری صاحب جمعیتِ اہلِ حدیث سے وابستہ بھی ہیں،کالم نگار بھی ہیں، کئی کتابوں کے مصنف بھی اور آج کل اسلامی نظریاتی کونسل کے جواں ہمت رکن بھی ۔
پروفیسر ساجد میر رخصت کیا ہُوئے ہیں، اُن سے وابستہ کئی خوبصورت یادیں آ کر رہ گئی ہیں۔ بقول فراق گورکھپوری: شام بھی تھی دُھواں دُھواں حُسن بھی تھا اُداس اُداس / دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں۔ سیالکوٹ ، لاہور اور اسلام آباد میں اُن سے متعدد ملاقاتیں رہیں ۔ ملک کے جن ممتاز اہلِ حدیث علمائے کرام کے ساتھ راقم کو شرفِ ملاقات رہا ہے ، ساجد میر صاحب مرحوم اُن میں سرِ فہرست تھے ۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر ، پروفیسر حافظ سعید ، مولانا اسحاق بھٹی ایسے اہلِ حدیث علمائے کرام اور محقق میرے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر صاحب شہید بھی سیالکوٹی تھے ، مگر ساری تبلیغی ، علمی ، تصنیفی اور سیاسی زندگی لاہور میں گزاری ۔ شہادت کے بعد دفن مگر جنت البقیع میں ہُوئے ۔
راقم نے ، میاں جاوید صاحب سے مل کر ، اُن کی زندگی کا آخری انٹرویو کرنے کا اعزاز حاصل کررکھا ہے ۔1987میں جس جلسے میں دھماکے سے زخمی ہو کر اُن کی شہادت ہُوئی ، اُس جلسے کی صحافتی کوریج کے لیے بھی راقم وہاں موجود تھا ۔ مولانا شفیق پسروری صاحب کی ایک آنکھ بھی اِسی بم دھماکے میں ضایع ہو گئی تھی ۔ مذکورہ جلسہ مینارِ پاکستان(لاہور) کے بالمقابل واقع’’ قلعہ لچھمن سنگھ‘‘ (اب قلعہ محمدی)کے چوک میں ہُوا تھا ۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر (جنھوں نے اپنی زبردست تصنیفی اور تقریری مساعی ِ جمیلہ سے جمعیتِ اہلِ حدیث کو بامِ عروج تک پہنچا دیا تھا)کی بم دھماکے میں شہادت تک پاکستان کے اہلِ حدیثوں کی یہ جماعت متحد تھی ۔ مذکورہ دھماکے نے مگر اِس کے اتحاد اور جمعیت کو بھی دھماکے سے اُڑا دیا ۔ جمعیتِ اہلِ حدیث کے تین بڑے ٹکڑے ہو گئے : ایک ٹکڑا علامہ احسان الٰہی ظہیر کے صاحبزادگان کے حصے میں آیا ، دوسرے ٹکڑے کے مالک مولانا قاضی عبدالقدیر خاموش بن گئے اور تیسرا حصہ پروفیسر ساجد میر صاحب کی سربراہی میں دیا گیا۔ قاضی عبدالقدیر خاموش مگر اتنے بھی خاموش نہیں ہیں ۔
اُن کی ’’خاموشی‘‘ اتنی پُر اسرار ہے کہ ٹرمپ کے پہلے دَورِ حکومت میں( مبینہ طور پر) وہ امریکی حکومت کی دعوت(68ویں سالانہ دعائیہ ناشتے) پر وائیٹ ہاؤس جا پہنچے تھے ۔یہ کہنا مگر درست ترین ہوگا کہ ’’اصلی اور وڈّی‘‘ جمعیتِ اہلِ حدیث محترم پروفیسر ساجد میر صاحب مرحوم کے پاس تھی ۔ یہ حساس ذمے داری اُنھوں نے خوب نبھائی اور وہ بجا طور پر علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے جانشین ثابت ہُوئے ۔
مہذب اور متین پروفیسر ساجد مرحوم سے متعدد ملاقاتوں میں راقم نے یہ پایا کہ وہ محتاط انداز میں لب کشائی کرتے تھے ۔ اگر آپ شاہدرہ (لاہور) سے راوی کا پُل پار کرکے بتّی چوک کراس کریں تو بائیں جانب، نشیب میں، آپ کو جمعیتِ اہلِ حدیث کا مرکزی دفتر نظر آتا ہے ۔ یہ پہلے ایک قدیم عمارت میں ہُوا کرتا تھا ۔ پھر اِسے مسمار کرکے موجودہ شکل دی گئی ۔
پروفیسر ساجد میر سے ہماری زیادہ ملاقاتیں اِسی دفتر میں ہُوا کرتی تھیں ۔ لیکن نجانے کیا ہُوا کہ ہمارے ایک سابق آرمی چیف کے عہدہ سنبھالتے وقت پروفیسر ساجد میر سے منسوب ایک عجب خبر گردش میں آئی ۔ مگر جلد ہی اِس خبر میں چھپی غلط فہمیوں کی تصحیح کر لی گئی۔
پروفیسر ساجد میر نے اسلام آباد کے ایک وی لاگر کو جو تفصیلی اور تاریخی انٹرویو دے رکھا ہے ، اِس میں یہ ساری تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ یہ انٹرویو اب بھی یو ٹیوب پر موجود ہے ۔ ساجد میر صاحب میاں محمد نواز شریف اور سعودی عرب کی محبتیں اور احترام سمیٹنے والوں میں سے ایک تھے ۔نون لیگ اور نواز شریف کی محبتوںاور تعاون سے ساجد میر صاحب کئی بار سینیٹر منتخب ہُوئے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ آمین ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علامہ احسان ال ہی ظہیر پروفیسر ساجد میر صاحب ابدالی میزائل ہے اور
پڑھیں:
پاک بھارت کشیدگی: پاکستان کا جدید بیلسٹک میزائل تجربہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 مئی 2025ء) پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر‘ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس تجربے کا مقصد فوجی دستوں کی آپریشنل تیاری کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس میزائل کے جدید نیویگیشن نظام اور کلیدی تکنیکی پیرامیٹرز کی جانچ کرنا تھا۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے اس کامیاب تجربے پر سائنسدانوں، انجینئرز اور دیگر متعلقہ ٹیموں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
یہ تجربہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب پاکستان نے ''معتبر انٹیلی جنس‘‘ کی بنیاد بھارت کی جانب سے ممکنہ فوجی کارروائی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے چند روز قبل کہا تھا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان ''بہت سخت‘‘ جواب دے گا۔(جاری ہے)
اس میزائل تجربے کی اہمیتیہ میزائل بھارت کے ساتھ سرحدی علاقوں کی طرف فائر نہیں کیے جاتے بلکہ ایسے تجربات عام طور پر بحیرہ عرب یا جنوب مغربی بلوچستان کے صحراؤں میں کیے جاتے ہیں۔
اسلام آباد کے سکیورٹی تجزیہ کار سید محمد علی نے بتایا کہ ابدالی میزائل کا نام ایک ممتاز مسلم فاتح کے نام پر رکھا گیا ہے، جو اس کی علامتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔پاکستان اور بھارت کی فوجی قوت ایک نظر میں
انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''اس تجربے کا وقت موجودہ جیو پولیٹیکل تناظر میں انتہائی اہم ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربہ بھارت کے لیے ایک تزویراتی پیغام ہے، خاص طور پر اس وقت، جب بھارت نے ایک اہم واٹر شیئرنگ معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی دی ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی طرف سے اس وقت ابدالی میزائل کا تجربہ نہ صرف اس کی فوجی تیاریوں کا حصہ ہے بلکہ بھارت کے لیے ایک واضح پیغام بھی ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ 450 کلومیٹر کی رینج والا یہ میزائل بھارت کے کئی ''اہم شہروں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے‘‘ کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کے جدید نیویگیشن نظام نے اس کی درستی اور اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان کی جانب سے فوجی تیاریوں اور میزائل تجربے پر زور دینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنا رہا ہے۔ بھارت نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
بھارت کے ساتھ کشیدگی اور فوجی تیاریاںپاکستان کی فوج نے بھارت کے ساتھ تناؤ کے پیش نظر اپنی تیاریوں کو مزید تیز کر دیا ہے۔
جمعے کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے اعلیٰ فوجی کمانڈرز کے ایک اجلاس کی صدارت کی، جس میں ''پاک-بھارت موجودہ تعطل‘‘ پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ فوج کے ایک بیان کے مطابق جنرل منیر نے تمام محاذوں پر ''ہائی الرٹ رہنے اور فعال تیاری‘‘ کی اہمیت پر زور دیا۔دوسری جانب بھارت نے بھی پہلگام حملے کے بعد اپنی فوجی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ انہوں نے اپنی فوج کو ''مکمل آپریشنل آزادی‘‘ دی ہے اور پہلگام حملہ کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اس حملے کی پشت پناہی کرنے والوں کا ''زمین کے کناروں تک‘‘ تعاقب کیا جائے گا۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والا حالیہ حملہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا ایک بڑا محرک بنا ہے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا جبکہ پاکستان نے اس حملے میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
بھارتی دفاعی ذرائع کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر مسلسل نو راتوں سے فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے۔
ادارت: عاطف بلوچ