ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔ادب کی ہمہ گیر شخصیت
اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT
انورسدید
(اردو کے معروف ادیب اور ممتاز نقاد کی تاریخ وفات(3 ؍اگست 2013ء) کی مناسبت سے)
ـ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں احمد زین الدین مدیر روشنائی کو فون کیا تو دوسری طرف سے لرزتی ہوئی غم زدہ آواز آئی انور سدید! ہم سب کے دوست ڈاکٹر فرمان فتح پوری وفات پا گئے ۔۔یہ خبر بڑی المناک تھی۔ سن کر دل زور سے دھڑکا اور پھر یوں محسوس ہوا کہ میرا دل آہ و زاری کر رہا ہے ۔ خون کے آنسو بہارہا ہے میں فون پر زین سے سے بات نہ کرسکا۔ آنکھوں کے سامنے کسی ادبی تقریب کی وہ تصویر پھرنے لگی جس میں فرمان فتح پوری اگلی نشست پر بیٹھے تھے لیکن نحیف و نزار نظر آرہے تھے ۔ ضعیفِ عمر ان کے چہرے سے عیاں تھا۔ میں نے اسی روز شام کو فون پر ان سے ملاقات کی تو آواز بڑی توانا محسوس ہوئی، ذہنی طور پر بھی کسی قسم کی کمزوری کا احساس نہ ہوا۔ میں نے مسرت کا اظہار کیا تو افسردہ لہجے میں بولے ….
دوا اور دعا پر زندہ ہوں
لیکن آج دوائیں غیر موثر اور دعائیں قبولیت سے محروم ہوگئی تھیں۔ اردو ادب کی محفل سے وہ شخص اٹھ کر چلا گیا جو ممتاز نقاد تھا،اعلیٰ محقق تھا، لسانیات کا ماہر اور لفاظ کے لغوی معانی کے علاوہ مجازی مفاہیم کا بھی شناسا تھا ۔ انہوں نے ادب کے مختلف موضوعات پر منفرد انداز میں کتابیں تالیف کی۔ رسالہ نگار کی ادارت کے علاوہ ہر سال نیاز فتح پوری یادگاری لیکچروں کا سلسلہ جاری رکھا اور کراچی یونیورسٹی میں سینکڑوں طالب علموں کو اردو ادب کی تعلیم دی ان کے ذوق و شوق کو سنوارا۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات نویسی میں راہنمائی کی اور معاشرے کے ہزاروں لوگوں کو اپنے بے پایاں خلوص اور ایثار سے نوازا۔ بلاشبہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو ادب کے رشتوں کو خون کے رشتوں پر فوقیت دیتے ہیں اور نسبتیں قائم رکھتے ہیں۔3اگست2013 کو ان کی وفات اردو ادب اور معاشرے کیلئے ایک عظیم سانحہ تھا۔ انہوں نے اس جہان میں 87برس سے زائد عرصہ گزارا لیکن وہ سچے ادیب تھے اور ادیب کی عمر دنو ں اور برسوں کے پیمانے سے ماپی نہیں جاسکتی۔مجھے یوں محسوس ہوا جیسے فرمان فتح پوری کم عمری میں فوت ہوگئے ہیں۔ موت نے انہیں جلدی شکار کرلیا ہے ۔ ہائے ، ہائے !
فرمان صاحب کا خاندانی نام سید دلدار علی تھا۔ وہ 26جنوری1926 کو فتح پور(سہوہ) کے ایک حنفی سید خاندان میں پیدا ہوئے ۔ ان کے بچپن میں سہوہ میں ہیضہ پھیلا تو ان کے بڑے بھائی اس مرض میں انتقال کرگئے ان کے والد یہ صدمہ برداشت نہ کرسکے اور اسی غم میں فوت ہوگئے ۔اس وقت ان کی عمر سات سال تھی ابتدائی تعلیم نواحی گاں کے ایک مدرسے میں حاصل کی جہاں پڑھنے کیلئے سائیکل پر جاتے تو ان کا چچا زاد بھائی فرمان علی ان کے ساتھ ہوتا۔ ایک دن فرمان علی کو بخار نے دبوچ لیا تو سید دلدار علی اکیلے اسکول گئے وہیں خبر ملی کہ فرمان علی جن سے انہیں گہری انسیت تھی تھی فوت ہوگئے ہیں۔ ان کی موت کا صدمہ اتنا گہرا تھا کہ دلدار علی نے فرمان کو اپنے نام کا حصہ بنالیا۔ مڈل کے درجے میں ہی انہیں کتابیں پڑھنے کی لگن لگ گئی اور لکھنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا چنانچہ انہوں نے اپنا پورا قلمی نام سید دلدار علی فرمان فتح پوری اختیار کیا جو بعد میں صرف فتح پوری رہ گیا ۔ گویا اصل نام دفتری کاغذوں میں دفن ہوگیا نسبتی نام زندہ رہا اسی کو قبولِ عام حاصل ہوا۔
فرمان صاحب کے والد نوجوانی میں پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوئے اور سب انسپکٹر کی حیثیت میں ریٹائر ہوگئے ۔ حنفی نے سادات خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے دیانتداری اور فرض شناسی کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔ عام لوگوں کی نظر میں امیر تھے لیکن اپنی متوسط الحالی میں اس بھر کو ٹوٹنے نہ دیا۔ والد کی وفات کے بعد حالات دگرگو ں ہوگئے ۔ ماں نے گھر کو خوبصورتی سے سنبھالا اور بچو ں کی پرورش اعلیٰ قدروں پر کی۔ فرمان نے لکھا ہے :
لوگ سمجھتے تھے کہ ہمارے والد پولیس میں تھے لہٰذا بہت مال ہوگا۔ لیکن ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔اماں ہمیں سمجھاتی تھیں کہ کسی کو نہ بتایا کہ ہم غریب ہیں۔ لوگ مذاق اڑائیں گے کوئی روپیہ مانگنے آئے تو وہ دے دیتی تھیں ہم کہتے اماں ہماری تو خود بری حالت ہے آپ روپیہ کیوں دیتی ہیں۔ وہ جواب دیتیں نہ دو گے تو لوگوں میں عزت ختم ہوجائے گی بھرم رکھا ہوا تھا ۔
اپنے کنبے کی کفالت کیلئے فرمان صاحب نے میٹرک اوّل درجے میں پاس کرنے کے بعد مسلم ہائی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت اختیار کرلی۔ اپنے ادبی مزاج کی وجہ سے انہوں نے سکول میں مشاعرے اور تقریری مقابلے کرائے ۔ ادبی میگزین جاری کیا اور تحریکِ پاکستان پر نظمیں لکھیں جو دہلی کے اخبارات وحدت اور الامان میں چھپتیں اور مسلم لیگ کے جلسوں میں پڑھی جاتی تھیں۔ شاعری کا یہ ذوق عمر بھر ان کے ساتھ رہا لیکن جب تحقیق و تنقید کی طرف آئے تو شاعری پس منظر میں چلی گئی۔
فرمان صاحب نے ایف اے کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت میں الہ آباد بورڈ سے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرلیا۔ نائب تحصیل داری کے امتحان میں کامیاب ہوگئے لیکن سی آئی ڈی کی خفیہ رپورٹ ان کے خلاف تھی۔ اس لیے یہ ملازمت نہ ملی ۔1950میں بی اے کرلیا۔ اس دوران شادی ہوگئی ۔ ایک سال قبل ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ فرمان صاحب نے ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات دگرگوں دیکھے تو پاکستان آگئے ۔ کراچی میں انہیں لوئر گریڈ کلرک کی ملازمت ملی اور نا آسودگی محسوس کی تو اکاونٹنٹ کا امتحان پاس کرکے اے جی پی آر میں ایک بہتر پوسٹ پر تقرری ہوگئی ،اس دور کا اہم واقعہ یہ ہے کہ فرمان صاحب نے کراچی میں ایک بڑا مشاعرہ کرایا جس کی صدارت کیلئے نیاز فتح پوری کو مدعو کیا۔ ہندوستان سے جوش ملیح آبادی، فراق گورکھ پوری، نواب جعفر علی اثر اور جگر مراد آبادی نے شرکت کی۔اس مشاعرے نے فرمان صاحب کو ادبی، سماجی اور تہذیبی حلقوں میں متعارف کرادیا اور ان کے اس مضمون کو بھی بہت شہرت ملی جو انہوں نے رسالہ نگار میں سیداحتشام حسین کے اس مقالے کے جواب میں لکھا تھا جس میں انہوں نے اردو کا رسم الخط تبدیل کرکے دیوناگری رسم الخط اختیار کرنے کی تجویز دی تھی۔ احتشام حسین کی رائے میں ہندوستان میں اردو کو زندہ رکھنے کیلئے دیو نگری رسم الخط قبول کرنا ضروری تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرمان صاحب کے جوابی مضمون کی احتشام صاحب نے بھی تعریف کی ۔فرمان صاحب نے ڈاکٹر طاہر مسعود کو ایک انٹرویو میں بتایا۔
اس مضمون نے مجھے عاملوں کی بڑی محفلوں میں داخل کردیا۔ مجھے اس سے شہرت ملی یوں تنقیدی اور ادبی مضامین لکھنے لکھانے کا سلسلہ چل نکلا۔ان کے یہ مضامین نگار اور ادب لطیف میں شائع ہوتے تھے جن کے مدیران نیاز فتح پوری اور مرزا ادیب تھے ۔ فرمان فتح پوری نے اپنے ادبی ذوق کی پرورش کا سلسلہ نوجوانی کے دور میں جاری رکھا تو انہوں نے اپنے سماجی ارتقائکو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ کراچی میں ہی انہوں نے قانون کا امتحان پاس کیا لیکن وکالت کے عملی پیشے کی طرف نہیں آئے اور ادب نے ان کی توجہ زیادہ حاصل کی۔ تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو بھی جاری رکھا اور 1958میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کا امتحان اوّل بدرجہ اول پاس کیا۔اس سے قبل انہوں نے ایل ایل بی اور جی ٹی میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کی تھی لیکن فرمان صاحب نے کراچی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ لیکچرار کی ملازمت کو ترجیح دی اور پھر یہیں سے اردو میں منظوم داستانیں کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری 1958 میں حاصل کی۔ کراچی یونیورسٹی سے ڈی بٹ کی پہلی ڈگری حاصل کرنے کااعزاز بھی انہیں کو حاصل ہے ۔ ان کی عالمانہ تحقیقی کتاب کا عنوان تھا اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے جامعہ کراچی میں تقریباً تیس برس تک خدمات انجام دیں اور شعبہ اردو کے صدر کے عہدے تک پہنچے ۔1958 میں انہیں اردو ڈکشنری بورڈ کا چیف ایڈیٹر اور سیکرٹری مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے اعلیٰ خدمات انجام دیں۔
علمی،ادبی،تحقیقی،تنقیدی،تدریسی اور تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا ایک اور کارنامہ برصغیر کے ممتاز ادبی جریدہ نگار کی ادارت ہے جو ان کے زمانہ وفات تک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی۔ رسالہ نگار نیاز فتح پوری نے آگرہ سے 1922 میں جاری کیا تھا تھا۔ روشن خیالی اور فرد افروزی کی تحریک کا نقیب یہ رسالہ پورے ملک میں بڑی دلچسپی سے پڑھاجاتاتھا۔ 1927سے 1962 تک اس کی اشاعت لکھنو سے ہوتی رہی۔1950میں نیاز فتح پوری نے ہندوستان میں اردو رسم الخط کی بحث پر فرمان فتح پوری کا ایک مضمون شائع کیا تو یہ دونوں کا پہلا رابطہ تھا جسے سرور ایّام کے ساتھ ترقی ملتی گئی۔ حتیٰ کہ فرمان صاحب نے نگار کراچی سے شائع کرنے کی اجازت چاہی تو نیاز صاحب نے اس تجویز کو بخوشی قبول کرلیا۔ کراچی سے نگار نام کا ایک فلمی رسالہ پہلے بھی شائع ہوتا تھا۔قانونی ضابطے کے مطابق ایک ہی نام کے دو پرچے جاری کیے جاسکتے تھے ۔اس لئے فرمان صاحب نے پاکستان کا سابقہ نگار کے ساتھ منسلک کردیا۔ نگار پاکستان کا پہلا پرچہ کراچی سے جنوری 1962 میں چھپا اور یہ نگار لکھن کا چربہ تھا۔ یعنی لکھن سے نیاز صاحب نگار کی کاپیاں بھجوا دیتے تھے اور یہ پاکستان میں فرمان صاحب چھاپ کر شائع کردیتے تھے ۔1964میں نیاز صاحب کراچی آگئے تو نگار بند ہوگیا۔ نیاز فتح پوری 1966میں انتقال کرگئے تو اپنے وصیت نامے میں نگار کے علاوہ اپنے تمام معاملات کا ذمہ دار فرمان صاحب کو بنا گئے ۔ انہوں نے لکھا: مجھے اس وصیت نامے کا علم ہوا تو میں بہت رویا۔۔۔کیسے عجیب لوگ تھے کہ اپنی زندگی میں انہوں نے اپنی بے پناہ محبت کا ذرہ بھر احساس نہیں ہونے دیا تھا۔۔۔۔مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ بڈھا مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے۔۔۔۔میں نے ان کی وصیت کے بعد ان کے بچو ں کی تعلیم و تربیت سے لیکر شادی بیاہ تک کے تمام معاملات خود ہی طے کرائے ۔ ان کے بچے بھی نہایت لائق ثابت ہوئے اورآج وہ نہایت اعلیٰ مقام پر ہیں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی علمی،ادبی اور تصنیفی فتوحات کا دائرہ وسیع ہے ۔ ان کی کتابیں اب ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا کیلئے مستندحوالے کا کام دیتی ہیں چند مشہور کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں:
اردو کی منظوم داستانیں۔۔۔اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری۔۔۔اقبال سب کیلئے ۔۔۔ رباعی کا فنی اور تاریخی ارتقاء۔۔۔اردو کی نعتیہ شاعری۔۔۔ ہندو مسلم متنازع، ہندو مسلم سیاست کی روشنی میں۔۔۔میر انیس۔ حیات و شاعری۔۔۔غالب شاعر امروز رزدا۔۔۔ اردو افسانہ اور افسانہ نگار۔۔ نیا پرانا ادب۔۔۔ نیاز فتح پوری دیدہ دشنیدہ۔۔۔فن تاریخ گوئی اور اس کی روایت۔۔۔قمر زمانی بیگم۔۔۔ نواب مرزا شوقی کی مثنوہاں۔۔۔تحقیق ،تنقید ۔۔۔ زبان اور اردو زبان۔۔۔اردو املا اور رسم الخط۔۔۔تاویل و تعمیر۔۔۔ارمغان لوکل پرشاد وغیرہ۔
ان کتابوں کے علاوہ ان کے بہت سے مقالات مختلف ادبی رسائل و جرائد میں پڑے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی علمی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز عطا کیا۔ ان کے شاگردوں کا دائرہ بہت وسیع تھا اور حد یہ ہے کہ ان کے پڑھائے ہوئے اب خود کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ادب کے اساتذہ ہیں۔ ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ یونیورسٹی میں نئی کلاس آئی توذہین طلباء کو چھانٹ لیتے اور پھر ان کی ادبی تربیت میں خصوصی دلچسپی لینے لگتے اور ان کے باطن سے حقیقی ادیب ہی برآمد نہ کرتے بلکہ انہیں ادب کا معلم بننے کی تربیت بھی دیتے ۔ اس لحاط سے ان کا فیض عام ان کی وفات تک جاری رہا اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا ان سے استفادہ کرتے رہے ۔ انہیں شکوہ تھا کہ آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے لیکن سنجیدہ ادب پڑھنے والوں کی تعداد نسبتاً کم ہوتی جارہی ہے اور تفریحی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ان کی رائے میں تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے ، حکومت کیلئے تعلیم اور صحت دو شعبے ایسے ہیں جو صنعت بخش نہیں لیکن قوم کے شعور کو روشن کرتے اور صحت مندبناتے ہیں لیکن حکومت تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ہی نظرانداز کر رہی ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ تنگ نظری میں اضافہ ہورہا ہے اور قوم ذہنی طورپر بیمار ہوتی جارہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ایم فل اورپی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرنے والوں سے مطمئن نہیں تھے اور کہتے تھے کہ ایم اے کی تعداد محدود ہونی چاہئے دنیا کے کسی ملک میں اعلیٰ تعلیم ضروری نہیں ہوتی۔ اعلیٰ تعلیم صرف اعلیٰ ذہنوں کو دینی چاہئے لیکن اب ڈگریاں تعلقات اور دبا ؤکے تحت دے دی جاتی ہے ۔اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈگری یافتہ لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن علم و ادب اور تحقیق و تنقید کا صحیح ذوق رکھنے والوں کی تعداد کم ہورہی ہے ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمہ گیریت کی روایت کو زندہ رکھنے والے فرمان فتح پوری 3اگست کو اس دنیا سے اٹھ گئے تو اب کراچی کی ادبی رونق میں شدیدکمی پیدا ہوگئی ہے ۔اب شاید نگارجاری نہ رہے اور ہر سال منعقد ہونے والے نیاز یادگاری لیکچر کا سلسلہ بھی بندہوجائے ۔فرمان فتح پوری کی وفات پر غم کا جتنا اظہار کیاجائے کم ہے ۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کراچی یونیورسٹی نیاز فتح پوری فتح پوری نے ایم فل اور دلدار علی کا امتحان کراچی میں پی ایچ ڈی کی تعداد کہ فرمان رسم الخط انہوں نے کے علاوہ کا سلسلہ یہ ہے کہ کی وفات کے ساتھ حاصل کی رہا ہے رہی ہے
پڑھیں:
رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر
اُردو ادب کے ایسے شعرائے کرام جنھوں نے اپنی بساط و توفیق کے مطابق صنفِ نعت کو نئی نئی جہات سے دیکھا اور نئے نئے تجربات سے نکھارا، اُن میں پاکستان کے معروف نعت گو شاعر اقبال عظیم بھی شامل ہیں، جو آٹھ جولائی 1931 میرٹھ ، یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی وطن قصبہ انبہٹہ، ضلع سہارن پور ہے۔
ان کو ننھیال اور ددھیال دونوں جانب سے ادبی ماحول وراثت ملا۔ ان کے نانا ادیب میرٹھی اپنے وقت کے معروف شاعر یزدانی میرٹھی کے شاگرد تھے۔ وہ صاحبِ دیوان غزل گو شاعر تھے۔ اقبال عظیم کے دادا سید فضل عظیم فضلؔ، اُردو اور فارسی زبان کے نعت گو شاعر تھے۔
اُن کے والد سید مقبول عظیم عرشؔ پولیس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ وہ بھی اُردو کے بہترین غزل گو شاعر تھے۔ ان کے برادر بزرگ سید وقار عظیم برصغیر کے بلند مرتبہ تنقید نگار اور ماہرِ تعلیم اور درجنوں تصانیف کے مصنف تھے۔
اقبال عظیم کا نام علمی و ادبی دنیا میں اہم ہے۔ ادبی دنیا میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انھوں نے نظم و نثر میں طبع آزمائی کی اور کئی فن پارے تخلیق کیے اب تک اُن کے کئی شعری مجموعے اور نثرکی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، جن میں مشرقی بنگال میں اُردو ( لسانی وا دبی تذکرہ)، مضراب (غزلوں کا پہلا مجموعہ)، مضراب و رباب (غزلوں کا دوسرا مجموعہ)، لب کشا (نعتیں اور غزلیں)، نادیدہ (غزلیں)، چراغِ آخرِ شب، ماحصل ( کلیاتِ غزل)، اقبال عظیم (حیات و ادبی خدمات)، قاب قوسین ( نعتوں کا مجموعہ)، پیکرِ نور، زبورِ حرم قابلِ ذکر ہیں۔
ان کا تعلق شاعری کی کلاسیکی روایت سے تھا جب کہ انھوں نے نعت گوئی میں منفرد مقام حاصل کیا۔ وہ اپنی نعتوں میں عمدہ خیالات، حسین تراکیب، نادر الفاظ، نایاب تشبیہات اور اچھوتے استعارات کا بہترین استعمال کرتے۔ ان کی مشہورِ زمانہ نعت کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
اقبال عظیم نعتیہ شاعری کی دنیا میں ایک خوشبو کی مانند تھے۔ انھوں نے اپنی نعتوں میں بہت سی احادیثِ مبارکہ کا مفہوم بھی بیان کیا ہے اور قرآنی تلمیحات کے پہلو بہ پہلو احادیث کے اشارے بھی ان کے نعتیہ کلام کا طرئہ امتیاز ہیں۔
اقبال عظیم اپنے عہد کے قادر الکلام شاعر تھے اور دنیائے غزل میں ایک مسلمہ حیثیت کے حامل بھی تھے لیکن نعت گوئی یعنی حضورؐ کی محبت ان سارے معاملات میں سبقت لے گئی اور وہ حضورؐ کی محبت میں سرشار و مخمور زندگی کے آخری ایام تک مدحتِ سرکارِ دور عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ترانے گاتے رہے۔
’’ ماحصل‘‘ یہ اقبال عظیم کا ’’ کلیاتِ غزل‘‘ ہے، جس کے پہلے ایڈیشن میں حمد، مناجات ، قطعات، نعتیں اور غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس کلیات کو بزم خدام الاادب نئی دہلی سے شایع کیا گیا۔
’’رنگ ادب‘‘ کے اقبال عظیم نمبر میں اقبال عظیم بہ حیثیت غزل گو حصے میں اجازت طلبی، اجازت نامہ خطوط کے بعد پہلا مضمون پروفیسر نظیر صدیقی کا پڑھنے کو ملتا ہے، جس میں وہ اقبال عظیم کی غزل گوئی کے بارے میں کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے کہ ’’ اقبال عظیم بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں، وہ غزل اور شاعری کے فنی اور جمالیاتی مطالبات کو نہ صرف اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ ان سے عہدہ برآ ہونے میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہے ہیں۔
اپنی شاعری میں انھوں نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ وطن کے المیے کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور اس موضوع پر جتنے خوبصورت اور موثر شعر کہے ہیں، اس کی مثال موجودہ پاکستانی شاعری میں کم ملے گی اور مشکل سے ملے گی۔
غالباَ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’مضراب‘‘ فکر وفن دونوں کے اعتبار سے اُردو شاعری کے سرمائے میں ایک اہم اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔‘‘ جب کہ پروفیسر نظیر صدیقی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، سید محمد ابو الخیرکشفی، ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سلیم احمد، جسٹس نور العارفین، ابوالبیان ظہور احمد فاتح، ڈاکٹر رانا خالد محمود قیصر، نسیمِ سحر، روبینہ شاد و دیگر اہلِ قلم کے مضامین شامل ہیں۔
ان کی غزلوں کے بہت سے اشعار میں متصوفانہ افکار کی جھلک بھی دیکھنے کو ملتی ہے جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال عظیم ایک صوفی شاعر تھے۔
رنگِ ادب کے اس خاص شمارے میں اقبال عظیم بہ حیثیت نعت گو حصے میں صفحہ نمبر ۱۳۵ پر اقبال عظیم کا مضمون ’’ سخن گسترانہ‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے جب کہ دیگر قلم کاروں میں نا صر حیات، ابو الاثر حفیظ جالندھری، ڈاکٹر سید محمد ابوالخیرکشفی، احسان دانش، اے کے سومار، سید وقار احمد رضوی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر علی حیدر ملک، سید صبیح الدین صبیح رحمانی، اکرم کنجاہی، نسیمِ سحر، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور مجھ خاکسار سمیت بہت سے قلم کاروں کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔
’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں ڈاکٹر انور سدید کا مضمون بعنوان ’’ بینائی سے محروم اور بصیرت سے سرفراز شاعر اقبال عظیم‘‘ ، ابنِ انشاء کا ’’دخل در معقولات‘‘، مولانا ماہر القادری کا ’’ اقبال ہماری نظر میں‘‘ جس میں وہ صفحہ نمبر ۲۷۶ پر لکھتے ہیں کہ ’’ اقبال عظیم پر شعر کا نزول نہیں ہوتا یعنی جسے ’’آمد‘‘ کہتے ہیں وہ حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ وہ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ خیال، جذبہ یا احساس پہلے ان کے وجود کا مکمل جز بن جائے۔‘‘ محمد طفیل کی ’’کچھ باتیں اقبال عظیم کے بارے میں‘‘ یہ مضمون پڑھنے سے خاص تعلق رکھتا ہے۔
’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر ساجد امجد، پروفیسر ہارون الرشید، ڈاکٹر عنبر عابد، مولانا محی الدین انصاری ودیگر کے مضامین شاملِ اشاعت ہیں جب کہ ایس اے مینائی، انوار عنایت اللہ کے انگریزی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔
رنگِ ادب کے ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ کے صفحہ نمبر337 پر خطوط اور پیغام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں کمال الدین ظفر، سعید صدیقی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر جمیل جالبی، فضل الرحمن، ابوالخیر کشفی اور سید ثروت ضحی کے خطوط اور پیغامات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح منظوم خراجِ تحسین بھی اقبال عظیم کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔ سہیل غازی پوری کے دواشعار:
نعت گوئی میں جو مشہور تھے اقبال عظیم
ہاں! غزل سے بھی کہاں دور تھے اقبال عظیم
ان کی آنکھوں میں بصارت کی کمی تھی لیکن
یہ بھی سچ ہے دلِ پُرنور تھے اقبال عظیم
’’رنگِ ادب‘‘ کے اس خاص اور تاریخی کارنامے میں ’’ اقبال عظیم کی نگارشات نثری اور شعری دونوں کو آخری چند صفحات میں شامل کیا گیا ہیں۔ رنگ ادب کا ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ موجودہ اور آنیوالے صدیوں تک اقبال عظیم پر تخلیقی جہتوں سے سراب ہونیوالے اہلِ علم و ادب، شائقین وقارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فن اور مشاہیرِ اُردو ادب کے ساتھ ساتھ تشنگانِ علم اور طالبانِ ادب اور محققین کے بھی کام آتا رہے گا۔
’’رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر ‘‘خوبصورت سر ورق کے ساتھ368 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم جلد میں شاعر علی شاعر کو اپنے ادارے رنگِ ادب سے شایع کرنے کا اعزاز حاصل ہُوا ہے، ایسے بہت سے اعزازات کے وہ پہلے بھی حق دار قرار پا چکے ہیں۔
آخر میں جاتے ہوئے میں رنگِ ادب کی تمام ٹیم اور اقبال عظیم کے فرزند شاہین اقبال کو اس خوبصورت اشاعت پر ڈھیروں مبارکباد کے گلدستے پیش کرتا ہوں۔