15 گھنٹے کی پریس کانفرنس، مالدیپ کے صدر نے ورلڈ ریکارڈ توڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے ہفتہ کے روز ایک غیر معمولی اور طویل پریس کانفرنس کے ذریعے عالمی ریکارڈ قائم کیا، جو لگ بھگ 15 گھنٹے جاری رہی۔ صدر معیزو نے یہ سیشن مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے شروع کیا جو آدھی رات سے بھی آگے تک جاری رہا۔ اس طویل ترین پریس کانفرنس میں صدر نے لگاتار صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیے، جن میں سے متعدد سوالات عوام کی جانب سے بھیجے گئے تھے۔
طویل کانفرنس کا پرانا ریکارڈ توڑ دیا
صدر کے دفتر کے مطابق، معیزو کی یہ پریس کانفرنس دنیا کی طویل ترین صدارتی پریس کانفرنس بن گئی ہے۔ اس سے قبل 2019 میں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے 14 گھنٹے کی پریس کانفرنس کی تھی، جو اس وقت کا ریکارڈ تھا۔ اس سے بھی پہلے بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے 7 گھنٹے سے زائد کی پریس کانفرنس کی تھی۔
صحافت کی آزادی میں بہتری
اس پریس کانفرنس کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ صدر معیزو نے اس بات کو اجاگر کیا کہ مالدیپ نے رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے 2025 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں دو درجے ترقی کرتے ہوئے 180 ممالک میں سے 104ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ صدر نے اسے اپنی حکومت کی میڈیا دوستی اور شفاف طرز حکمرانی کا مظہر قرار دیا۔
بھارت مخالف بیانیے سے پسپائی
صدر معیزو، جو نومبر 2023 میں اقتدار میں آئے، اپنے ’انڈیا آؤٹ‘ مؤقف کے لیے مشہور تھے۔ تاہم، اس پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے بھارت سے متعلق اپنی سابقہ سخت پوزیشن میں نرمی ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت کی طرف سے بھارت کے ساتھ کیے گئے فوجی معاہدوں پر بات چیت جاری ہے، اور کوئی سنگین مسئلہ درپیش نہیں۔
انہوں نے کہا، ’دو طرفہ بات چیت جاری ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں وعدے کے مطابق معاہدوں کو ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، مگر کچھ رازداری کے مسائل ہیں۔‘
اپوزیشن کا ردعمل
صدر کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے، سابق وزیر خارجہ اور اپوزیشن جماعت ایم ڈی پی کے رہنما عبداللہ شاہد نے صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر معیزو نے 2023 کے انتخابی مہم کے دوران جھوٹے دعوے کیے تھے کہ بھارت کے ساتھ معاہدے مالدیپ کی خودمختاری کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
شاہد نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا، ’سالوں تک جھوٹے دعوے کرنے کے بعد، صدر معیزو اب تسلیم کر رہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ معاہدوں میں کوئی سنگین مسئلہ نہیں۔ انہیں عوام اور بھارت دونوں سے معافی مانگنی چاہیے۔‘
صدر محمد معیزو کی 15 گھنٹے طویل پریس کانفرنس نہ صرف عالمی سطح پر خبروں کا مرکز بنی بلکہ اس میں داخلی و خارجی پالیسیوں پر ان کے بدلتے مؤقف بھی نمایاں ہوئے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پریس کانفرنس کے صدر
پڑھیں:
آبی تنازعہ‘ خطے میں ورلڈ آرڈر کو خراب کرنے کی مثال قائم ہو گئی: بی بی سی
اسلام آباد(کے پی آئی)پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی پر تنازعہ کھڑا ہونے سے ورلڈ آرڈر کو خراب کرنے کی خطے میں ایک مثال قائم ہو جائے گی۔ پاکستان اور بھارت کے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حالیہ کشیدگی اب براہ راست پانی کے مسئلے سے جڑی ہے اور یہی مسئلہ اس کا رخ طے کر سکتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کے بعد بھارت نے دگیر اقدامات کے ساتھ ساتھ دہائیوں پرانے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا تھا اس اعلان نے پاکستان کے ساتھ پہلے سے موجود کشیدہ تعلقات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ یہ معاہدہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ان دو حریفوں کے درمیان تعاون کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا تھا۔ہرین کے بقول دونوں ملکوں میں صرف سفارتی ہی نہیں بلکہ سٹریٹجک اور عسکری سطح پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان نے جواب میں کہا تھا کہ کہ اگر انڈیا نے دریاں کا بہا روکا یا ان کا رخ موڑا تو اسے جارحیت تصور کیا جائے گا اور یہ کہ پاکستان پانی کو قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے۔دونوں طرف سے سخت زبان میں تنا بھرے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں اور اب یہ سوال زور پکڑ رہا ہے کہ کیا جنوبی ایشیا میں اگلا تنازع علاقے یا مذہب پر نہیں بلکہ پانی پر ہو گا؟لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ہی ایک باقاعدہ جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ ابھی فوری طور پر پانی نہیں روکا جا سکتا۔ نہ ہی اتنے بڑے دریاں کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ تاہم مستقبل میں یعنی آئندہ 15، 20 سالوں میں انڈیا ان تین دریاں پر کئی سو ڈیم بنا سکتا ہے جن کی منصوبہ بندی پہلے ہی انھوں نے کی ہوئی ہے اور تب پاکستان کو پانی کا بڑا مسئلہ ہوگا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر دیکھا جائے تو ہم ایک باقاعدہ بڑی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ پاکستان کے معاشی حالات بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اور نہ ہی جنگ سے وہ مقصد حاصل ہو گا جو پاکستان حاصل کرنا چاہتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس مسئلے کا حل صرف سفارتی طور پر ہی ڈھونڈنا پڑے گا اور فوری طور پر اس معاملے پر عالمی سطح پر ایک سخت موقف اختیار کرنا پڑے گا۔سینیئر تجزیہ کار عامر ضیا بھی اس موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابھی فوری طور پر دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی بنیاد پر جنگ ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ابھی زیادہ خطرہ اس بات کا ہے کہ پہلگام میں ہونے والے واقعے کے پس منظر میں انڈیا کوئی کارروائی کر سکتا ہے، مگر پانی کے مسئلے پر جنگ فی الحال نہیں ہو گی۔وہ کہتے ہیں کہ ابھی انڈیا کے پاس وسائل نہیں کہ وہ پانی روک سکے۔ لیکن اگر انڈیا اس معطلی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو مستقبل میں یہ دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا تنازعہ بن جائے گا۔ اور پھر پاکستان کا ردعمل بھی آئے گا۔