بھارت نے ڈیم بنایا تو اسے ہٹ کریں گے، ناصر شاہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
کراچی: وزیر توانائی سندھ ناصر شاہ نے کہا ہے کہ قیادت کا فیصلہ ہے بھارت نے ڈیم بنایا تو ہم اسے ہٹ کریں گے۔ پاکستان اور بھارت ایٹمی قوتیں ہیں۔ پاکستان جنگ نہیں چاہتا۔ جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور مقابلہ کریں گے۔
وزیرتوانائی سندھ ناصرحسین شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی سے پیغام گیا جب ملک کی بات ہوگی تو ہم سب ایک ہیں، پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں، بھارت نے حملہ کیا تو مقابلہ کریں گے۔
ناصرحسین شاہ نے کہا کہ دشمن صرف گیدڑ بھبکیاں دے رہا ہے، پاکستانی پرامن قوم ہے، جنگ نہیں چاہتی، جنگ مسلط کی گئی تو پاکستانی لڑنا جانتے ہیں۔
وزیر توانائی نے کہا کہ ملک کی حفاظت کیلئے قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے، جب بھی پاکستان میں دہشت گردی ہوئی بھارت کی مذمت نہیں آئی، پیپلز پارٹی نے پہلے دن سے ہی کینالز کا معاملہ اٹھایا۔
ناصرحسین شاہ نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے کینالز کے معاملہ پر خط لکھا ہوا تھا، ہمیں امید تھی کینالز نہیں بنیں گی، کہہ چکے تھے اس طرح کی بات ہوتی ہے تو وفاق کا ساتھ نہیں دیں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کریں گے کہا کہ شاہ نے نے کہا
پڑھیں:
بھارت کی سیاسی اور سفارتی مشکلات
بھارت کی پاکستان مخالف مہم جوئی ، جنگی جنوں اور سیاسی ایڈونچر نے اسے اپنے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سیاسی تنہائی میں مبتلا کردیا ہے۔
بھارت کی سطح پر یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ نریندر مودی کے حالیہ اقدامات نے اس کے لیے بہت سی سیاسی و سفارتی مشکلات کوبڑھادیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے نریندر مودی اور بی جے پی کی حکومت کو اپنی ہی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں سے سخت تنقید کا سامنا ہے اور مودی سمیت ان کی حکومت اپنے اوپر اٹھنے والے سوالوں کا جواب دینے میں ناکامی سے دوچارہے۔بھارت کی لوک سبھا میں پہلگام اور رافیل سمیت آپریشن مہادیوپربھارت کی حزب اختلاف کے تابڑ توڑ حملوں نے بی جے پی کی حکومت کو لاجواب کردیا ہے۔
بھارتی اپوزیشن نے بی جے پی کی حکومت کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیا ہے ۔بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے مودی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈر اور خوف سے باہر نکل کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعتراف کی تردید کرے کہ اس نے جنگ بندی کے لیے امریکی صدر سے مدد کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔اسی طرح حزب اختلاف کی جماعتوں نے مودی حکومت کی جانب سے پاکستان پر حملہ اور ان کی نااہلی سمیت کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر کڑی تنقید کی ہے۔
بھارت کے لیے یہ مسئلہ محض مخالف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پہلگام واقعہ کی بنیاد پر پاکستان پر حملہ آور ہونے یا جنگ بندی میں پہل کرنے پر سخت تنقید کا مسئلہ ہے۔
ان کے بقول بھارت کے پاس پہلگام واقعہ پر ایسے کوئی ٹھوس شواہد نہیں تھے جو یہ ثابت کرسکتے تھے کہ پہلگام واقعہ میں پاکستان ملوث تھا۔بھارت کی اپوزیشن جماعت کے راہنما فرانسز جارج نے کہا کہ دنیا چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ پاکستان نے کم از کم بھارت کے تین رافیل، ایس یوتھرٹی ایم کے آئی ،اور ایک ایم آئی جی ٹوینٹی نائن مار گرائے ہیں ۔مگر وزیر دفاع کہتے ہیں کہ ہم سے سوال نہ پوچھیں کہ ہمارے کتنے طیارے گرے ہیں بلکہ یہ پوچھیں کہ ہم نے اپنا مقصد پورا کیا ہے یا نہیں ۔
اسی طرح بھارت سے یہ سوالات بھی پوچھے جارہے ہیں کہ پہلگام واقعہ پر بھارت نے کیا کچھ کھویا ہے اور ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز فوراً کیوں قبول کی۔اگر دہشت گرد وہی تھے جن کا نام پہلے دن پولیس نے دیا تھا تو این ای آئی نے ان کی تردید کیوں کی ۔اگر تردید کی تو پھر تین ماہ بعد وہی لوگ دہشت گرد کیسے بن گئے اور اگر ابو حمزہ اور زاکر وغیرہ کل تک بھارتی میڈیا کے مطابق ہلاک ہوچکے تھے تو پھر آج امیت شاہ افغان اور جابر نامی لوگوں کے نام کیوں لے رہا ہے۔سب سے بڑھ کر چاکلیٹ کو بطور ثبوت پیش کرنے والی این آئی اے کو کوئی مصدقہ تحقیقاتی ایجنسی کیسے تسلیم کرے جب کینیڈا حکومت اور خود بھارتی عدالت ممبئی دھماکوں کیس میں ان کی تفتیش کو ردی کی ٹوکری میں ڈال چکی ہو۔
اسی طرح سے سفارتی محاذ پر بھارت کو اپنے بیانیہ کی سیاسی ناکامی کا سامنا ہے اور جو پارلیمانی وفد بھارت نے عالمی دنیا میں اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لیے بھیجا تھا اسے بھی مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے۔سب سے زیادہ پریشانی بھارت کے لیے امریکی صدر کا وہ طرز عمل ہے جو بھارت کی مخالفت میں اور پاکستان کی حمایت میں بالادست نظر آتا ہے۔
بھارت کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ اس کا اسٹرٹیجک اور اہم پارٹنر امریکا کا جھکاؤ پاکستان کی حمایت میں بڑھ رہا ہے اور اس میںغیر معمولی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان جو اہم تجارتی معاہدہ ہونے جارہا ہے اس پر بھی بھارت میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔امریکی صدر کے بقول واشنگٹن اور اسلام آباد تیل کے بڑے ذخائر کی ترقی کے لیے مل کر کام کریں گے۔
امریکی صدر کے اس بیان پر روس سے مسلسل فوجی ساز وسامان اور تیل خریداری پر انڈیا کو جرمانہ بھی دینا ہوگا اور ایران سے تیل خریدنے والی سات بھارتی کمپنیوں پر پابندی اور نئے امریکی ٹیرف پر بھارت کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔ بھارت کو اس بات پر بھی پریشانی ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ اچانک امریکا کو بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی ضرورت پڑگئی ہے اور بھارت اس کی ترجیحات میں پیچھے نظر آتا ہے۔
پاکستان کے فوجی سربراہ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ بھارت کی پاکستان مخالف حالیہ مہم جوئی کی ناکامی کے بعد اسے اس کی پراکسیزجو بلوچستان اور پختونخواہ میں جاری ہیں اسے بھی ہائبرڈ جنگ میں ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ معرکہ حق میں شکست کے بعد بھارت نے پاکستان میں اپنی پراکسی جنگ بڑھا دی ہے اور فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان اس کے مہرے بنے ہوئے ہیں اور ہمیں اس سے ہر سطح پر خبردار رہنا ہوگا۔بھارت میں اس بات پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ اس علاقائی سیاست میں جو اس کی سیاسی سطح پر حاکمیت کا تاثر یا امیج بنا ہوا تھا وہ عالمی اور علاقائی سیاست میں کمزور ہوا ہے اور پاکستان کی علاقائی اور عالمی حیثیت میں اضافہ ہوا ہے جو یقینی طور پر بھارت کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔اسی طرح بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی عالمی سطح پر دفاعی صلاحیتوں کا اعتراف بھی یقیناً بھارت کے لیے بڑا سیاسی دھچکا ہے۔
کیونکہ بھارت تو پاکستان کے خلاف اپنی مہم جوئی کی بنیاد پر ایک عالمی تصور یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ وہ ہی اصل طاقت ہے اور بڑی طاقتوں کو ہماری طرف ہی دیکھنا ہوگا۔لیکن اب بھارت کی صورتحال وہ نہیں ہے جو پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے کی تھی اور اب پاکستان اس کے مقابلے میں ایک نئی دفاعی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔
پاکستان کو اب بھی بھارت سے خبردار رہنا ہوگا جو پاکستان کی مخالفت میں اور زیادہ آگے بڑھ گیا ہے۔کیونکہ بھارت کوپاکستان کی مضبوطی اور عالمی سطح پر اس کی قبولیت کسی بھی طور پر قبول نہیں ۔