مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس کی سماعت سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کی نے اہم فیصلہ جاری کردیا ہے، جس کے مطابق محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں ہوسکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی کے اسکوپ پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نظرثانی آرٹیکل 188 اور رولز کے تحت ہی ہو سکتی ہے، نظرثانی کے لیے فیصلے میں کسی واضح غلطی کی نشاندہی لازم ہے۔

c.

r.p._5_2023 by Asadullah on Scribd

جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ ون نے فیصلہ جاری کیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں ہوسکتا، نظرثانی کیس میں فریق پہلے سے مسترد ہوچکا نکتہ دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا، نظرثانی کی بنیاد یہ بھی نہیں بن سکتی کہ فیصلے میں دوسرا نکتہ نظربھی شامل ہوسکتا تھا۔

فیصلے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 22 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں، ان زیر التواکیسز میں بڑا حصہ نظرثانی درخواستوں کا بھی ہے، من گھڑت قسم کی نظرثانی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جسٹس شاہد بلال حسن جسٹس محمد علی مظہر جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جسٹس شاہد بلال حسن جسٹس محمد علی مظہر جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ جسٹس منصور علی شاہ نظرثانی کی بنیاد سپریم کورٹ

پڑھیں:

طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

امانت گشکوری: طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ ،سپریم کورٹ نے والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن نہ دینے کا سرکلر کالعدم قرار دے دیا.

تفصیلات کےمطابق جسٹس عائشہ ملک نے 10 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا، ریمارکس میں سپریم کورٹ نے کہا بیٹی کی پنشن شادی کی حیثیت پر نہیں حق کی بنیاد پر دی جائے گی، بیٹی کی پنشن کے لئے والد کی وفات سے پہلے یا بعد کا معاملہ غیر متعلقہ ہے۔

پھپھو کی خواہش پوری نہ ہوسکی بھتیجے پاکستان نہیں آ رہے:عظمیٰ بخاری

سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا تھا کہ پنشن خیرات نہیں ، سرکاری ملازم کا قانونی حق ہے،عدالت عظمیٰ نے والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن نہ دینے کا سرکلر کالعدم قرار دے دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پنشن کا حق اہلخانہ کو منتقل ہوتا ہے اور اس میں تاخیر جرم ہے،خواتین کی پنشن کا انحصار صرف مالی ضرورت پر ہونا چاہیے شادی کی حیثیت پر نہیں۔

سندھ حکومت کا 2022 کا امتیازی سلوک والا سرکلر غیر قانونی ہے،پنشن خیرات یا بخشش نہیں بلکہ آئینی اور قانونی حق ہے،پاکستان بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کے باوجود صنفی مساوات میں بدترین رینکنگ پر ہے،پاکستان کا صنفی مساوات میں 148 ممالک میں سے آخری نمبر ہے۔

مودی سرکار کاایک اور نام نہاد فالس فلیگ’’آپریشن مہادیو‘‘ بری طرح بے نقاب   

درخواست گزار صورت فاطمہ نے والد کی پنشن دوبارہ شروع کرنے کی درخواست دی تھی، سندھ ہائیکورٹ لاڑکانہ بینچ  نے درخواست منظور کی تھی

سندھ ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف سندھ حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کا طلاق یافتہ بیٹی کو والد کی پینشن حق کی بنیاد پر دینے کا فیصلہ
  • سپریم کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹی کو  والد کی  پینشن شادی کی حیثیت سے نہیں بلکہ حق کی بنیاد پر دینے کا فیصلہ جاری کردیا
  • طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
  • سپریم کورٹ: طلاق یافتہ بیٹی کی پنشن پر اہم فیصلہ آگیا
  • سپریم کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے سےمتعلق فیصلہ جاری کر دیا
  • سپریم کورٹ کا طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے بڑا فیصلہ 
  • سپریم کورٹ کا طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے بڑا فیصلہ
  • توہینِ مذہب کے الزامات کی تحقیقات پر کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ معطلی کا تحریری حکم نامہ جاری
  • سپریم کورٹ، پنشنر کی وفات کے بعد مطلقہ بیٹی کا پنشن حق بحال
  • سپریم کورٹ کے 2ایڈہاک ججز مدت پوری ہونے پرعہدے سے سبکدوش