سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی دینے کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کو ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے جب کہ دوران سماعت ججز نے بڑے سوالات اٹھائے اور اہم ریمارکس دیے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔

ان کے علاوہ جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس باقر نجفی بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

وکیل ن لیگ حارث عظمت نے کہا کہ خصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق نہیں تھی، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے، آپ کی نظرثانی کی بنیاد کیا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے آراو کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا۔

حارث عظمت وکیل ن لیگ نے کہا کہ پی ٹی آئی وکلا کی فوج تھی ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیا، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں؟ کیا سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسے جانے دیتے؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سارے نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیا تھا، جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ آپ نظر ثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں، آپ نظر ثانی کی گراونڈز نہیں بتا رہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا؟ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست آج لگی ہوئی ہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے مسلم لیگ (ن) کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں اسے چھوڑ دیں، سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا، آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے، جو باتیں آپ بتا رہے ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں۔

جسٹس عقیل عباسی نے ن لیگ کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے، آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دیں، آپ اس فیصلے سے کیسے متاثر ہیں پہلے یہ بتاٸیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل دیے، جسٹس ہاشم کاکڑ نے سوال کیا کہ کیا آپ نے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے؟ آپ ہاں یا نہ میں اس سوال کا جواب دیں، وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ ہم نے ایک پیرااگراف کی حد تک عمل کیا ہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کیا یہ آپ کی منشا مرضی کی بات ہے کہ کس پیراگراف پر عمل کریں گے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیس کو چھوڑیں یہ آپ سپریم کورٹ کو لے کہاں جا رہے ہیں؟ کل کسی کو پھانسی کی سزا دیں تو کیا وہ کہے گا بس سر تک پھندا ڈال کر چھوڑ دیا؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کی پٹیشن پڑھی، اس کے قابل سماعت ہونے پر میرا سوال ہے، جسٹس عقیل عباسی نے سوال کیا کہ آپ کیخلاف توہین عدالت کی درخواست اٹھا لیں تو کیا آپ اس کیس میں دلائل دے سکیں گے؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیا عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہوا؟ حارث عظمت نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں، الیکشن کمیشن کا وکیل بتا سکتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ رولز آئینی بینچ پر لاگو ہوتے ہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر روسٹرم آئے، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آپ اس فیصلے سے کیسے متاثرہ ہیں؟ آپ کو مرکزی کیس میں بھی کہا گیا تھا کہ آپ کا رویہ پارٹی کا ہے، آپ نے جس فیصلے پر عمل نہیں کیا اس پر نظرثانی مانگ رہے ہیں؟ آپ کا کام الیکشن کا انعقاد کروانا ہے، آپ اس کیس میں پارٹی کیسے بن سکتے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ مجھے پشاور ہائیکورٹ میں فریق بنایا گیا تھا اس لیے میں سپریم کورٹ آیا،جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ آئینی ادارہ ہیں، سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کی، آپ کو تشریح پسند نہیں آئی اور دوبارہ سپریم کورٹ آ گئے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا ہے؟ اگر الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عمل کیا ہے تو ٹھیک ورنہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہمارے فیصلے پر عمل ہوگا؟

سکندر بشیر نے مؤقف اپنایا کہ ہم فیصلے پر جزوی طور پر عمل کر چکے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ فیصلے پر عملدرآمد میں پک اینڈ چوز نہیں کر سکتے، جو حصہ آپ کو پسند آیا آپ نے اس پر عمل کیا جو پسند نہیں آیا اس پر عمل نہیں کیا۔

سکندر بشیر نے کہا کہ پی ٹی آئی پشاور ہائیکورٹ میں پارٹی نہیں تھی، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ پہلے آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نہ سن لیں؟ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا، آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست زیر التوا ہے، اگر آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چلائی جائے تو آپ نظرثانی مانگیں گے؟

سکندر بشیر نے کہا کہ ہم نے عدالتی فیصلے پر عمل کر دیا ہے، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا، ایسی بات نہ کریں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کو کہاں لے کر جا رہے ہیں؟ سپریم کورٹ کسی کو سزائے موت سنائے اور اس کے گلے میں پھندا ڈال دیں اور آگے کچھ نہیں کریں گے؟

سکندر بشیر نے مؤقف اپنایا کہ میں نے کوئی نکتہ نہیں پڑھا اور آپ نے اپنا ذہن بنا لیا، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ مجھے مت بتائیں مجھے کیا کرنا ہے۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں نظرثانی درخواستوں پر سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

عدالت عظمیٰ نے نظرثانی درخواستیں ابتدائی سماعت کیلئے منظور کرلیں، 11 ججز کی اکثریت نے فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔

جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ میں تینوں نظرثانی کی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیکر خارج کرتی ہوں، میں اس پر تفصیلی وجوہات جاری کرونگی۔

جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ میری بھی یہی رائے ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست جسٹس جمال مندوخیل نے خلاف توہین عدالت کی جسٹس عقیل عباسی نے فیصلے پر عملدرآمد نے فیصلے پر عمل پر عمل نہیں کیا الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کیا کہ کیا کیس میں عمل کیا رہے ہیں کے خلاف کے وکیل کیا ہے

پڑھیں:

وقف املاک کی رجسٹریشن میں توسیع کیلئے اسد الدین اویسی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں سماعت متوقع

ایڈووکیٹ پاشا نے قبل ازیں عدالت سے متفرق درخواست کی سماعت کرنے پر زور دیا تھا جس میں وقف املاک کے رجسٹریشن کیلئے وقت میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کی درخواست پر سماعت کے لئے رضامندی ظاہر کی اور دوبارہ لسٹ کرنے پر اتفاق کیا جس میں امید (UMEED) پورٹل کے تحت "وقف بائی یوزر" سمیت تمام وقف املاک کے لازمی رجسٹریشن کے لئے وقت میں توسیع کی درخواست کی گئی ہے۔ قبل ازیں بنچ نے مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی اور دیگر کی عرضی کو اس معاملے پر 28 اکتوبر کو غور کے لئے لسٹ کیا تھا۔ تاہم اس پر سماعت نہیں ہو سکی۔ اسد الدین اویسی کی طرف سے ایڈووکیٹ نظام پاشا عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) بی آر گوائی اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بنچ پر زور دیا کہ اس معاملے کی فوری سماعت کی جائے کیونکہ اس سے پہلے کی تاریخ پر اس کی سماعت نہیں ہو سکتی تھی۔ اسد الدین اویسی کے وکیل نے کہا کہ وقف کی لازمی رجسٹریشن کے لئے چھ ماہ کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے، جس پر سی جے آئی نے کہا کہ ہم جلد ایک تاریخ دیں گے۔

15 ستمبر کو ایک عبوری حکم میں سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کی چند اہم دفعات کو روک دیا، جس میں یہ شق بھی شامل ہے کہ صرف کم از کم پانچ برسوں سے باعمل مسلمان ہی جائیداد وقف کر سکتے ہیں۔ حالانکہ عدالت نے پورے قانون پر روک لگانے سے انکار کر دیا اور اس کے حق میں آئین کے مفروضے کا خاکہ پیش کیا۔ وہیں عدالت نے نئے ترمیم شدہ قانون میں "وقف بائی یوزر" کی شق کو حذف کرنے کے مرکز کے فیصلے کو بھی تسلیم کیا۔ وقف بائی یوزر سے مراد وہ عمل ہے جہاں کسی جائیداد کو مذہبی یا خیراتی وقف (وقف) کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ جائیداد کے استعمال کی بنیاد پر اسے وقف تصور کیا جاتا ہے، چاہے مالک کی طرف سے وقف کا کوئی رسمی، تحریری اعلان نہ ہو۔

ایڈووکیٹ پاشا نے قبل ازیں عدالت سے متفرق درخواست کی سماعت کرنے پر زور دیا تھا جس میں وقف املاک کے رجسٹریشن کے لئے وقت میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وقف املاک کے رجسٹریشن کے لئے ترمیم شدہ قانون میں چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا اور پانچ مہینے فیصلے کے دوران گزر گئے، اب ہمارے پاس صرف ایک مہینہ باقی ہے۔ مرکز نے تمام وقف املاک کو جیو ٹیگ کرنے کے بعد ڈیجیٹل انوینٹری بنانے کے لئے چھ جون کو یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ، ایمپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ (UMEED) ایکٹ کا مرکزی پورٹل شروع کیا۔ امید پورٹل کے مینڈیٹ کے مطابق، ملک بھر میں تمام رجسٹرڈ وقف املاک کی تفصیلات چھ ماہ کے اندر لازمی طور پر اپ لوڈ کی جانی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کی کینٹین میں گیس سلنڈر کا دھماکا،12افراد زخمی
  • جرمانہ ادا کرنے سے جرم ختم نہیں ہوجاتا،جسٹس شفیع
  • وقف املاک کی رجسٹریشن میں توسیع کیلئے اسد الدین اویسی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں سماعت متوقع
  • سپریم کورٹ بار: نو منتخب اور رخصت ہونے والی کابینہ کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات
  • سپریم کورٹ کا 24سال بعد فیصلہ، ہائیکورٹ کا حکم برقرار،پنشن کے خلاف اپیل مسترد
  • سپریم کورٹ میں خانپور ڈیم کیس کی سماعت، ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری کر دیا
  • خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس
  • سپریم کورٹ کراچی رجسٹری  نے ڈاکٹر کے رضاکارانہ استعفے پر پنشن کیس کا24سال بعد فیصلہ سنا دیا
  • سپریم کورٹ؛ خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ کے فریقین کو نوٹسز جاری