پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(8)
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم پر اسوقت کافی اعتراضات، اشکالات، تنقیدی نکتہ نگاہ رکھنے والے کرتے ہیں، ان میں کوئی اور نہیں، مجلس میں آغاز کے دنوں کے دوستان بھی ہیں، ذمہ داریان ادا کرنیوالے بھی ہیں، اہم امور اپنے ہاتھوں سے انجام دینے والے اندرون و بیرون ملک میں انکی بہت اچھی تعداد موجود ہے۔ انکے مطابق یہ تنظیم پہلے جمود کا شکار ہوئی تھی، اب محدودیت کا شکار ہوچکی ہے۔ محدودیت کا شکار اس عنوان سے شاید کہ ایک طرف اسکے عہدیداران محدود، مخصوص چہرے ہیں تو دوسری جانب اسکی یونٹ، اضلاع، حتیٰ صوبائی تنظیمیں بھی سکڑ چکی ہیں، جبکہ بعض ناقدین کے بقول انکے مسئولین کی ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں، شہید الحسینی کے نام پر معرض وجود میں آنیوالا قومی پلیٹ فارم اب ایک سیاسی شخصیت کے گرداب میں پھنس چکا ہے، جسکو اس مرحلہ پر چھوڑنا سیاسی موت دکھتا ہے تو اس کیساتھ رہنا قوم و ملت کو قبول نہیں۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
مجلس وحدت مسلمین کی تشکیل، تاسیس چونکہ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ کے طوفان اور شدید لہر میں ہوئی تھی، اس قومی پلیٹ فارم کو جیسے ہی مواقع ملے تو مجلس نے میڈیا اور دیگر حلقوں میں قوم کی آواز پہنچانے کا کام موثر انداز میں کیا۔ اپنے آغاز میں ہی برسی کے موقع پر اسلام آباد میں احتجاجی کانفرنس اور ریلی اور جب بات زیادہ بڑھی تو دھرنوں سے بھی گریز نہیں کیا۔ لہذا عام و خواص میں مجلس کا تاثر دھرنوں والی جماعت کے طور پر ہوگیا تھا۔ دھرنوں اور احتجاج کا مجلس کے پلیٹ فارم کو یہ فائدہ ہوا کہ اہل تشیع کا پلیٹ فارم میڈیا پر چھا گیا۔ میڈیا پر قائدین کے انٹرویوز، پرائم ٹائم میں پروگراموں میں شرکت اور نمائندگی ہوئی۔ بالخصوص کوئٹہ کے 2013ء کے دھرنے، جب ایک سو سے زیادہ میتیں روڈز پر پڑی تھیں، شہداء کے ورثاء دفنانے سے انکاری تھے۔ مجلس وحدت مسلمین نے ان دھرنوں کو خوب پھیلایا اور اس وقت تقریباً پاکستان بھر کے علاوہ دنیا کے دیگر کئی ایک ممالک میں بھی احتجاج ہوا۔ نتیجتاً اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانے کا ٹارگٹ حاصل کیا گیا۔
رئیسانی کی حکومت کو چلتا کرنا اہل مجلس کا آج بھی فخر ہے، مگر اس کیساتھ ساتھ آج پی ٹی آئی حکومت کے پی کے میں جو گھنائونا کردار پاراچنار کے مسائل کے حوالے سے اداکر رہی ہے، اس کیساتھ بھرپور روابط رہتے ہیں، یہ ایک ایسا اعتراض ہے، جو آج بھی قوم و ملت بالاخص اہل پاراچنار اٹھاتے رہتے ہیں کہ آخر رئیسانی اور گنڈا پور حکومت میں کیا فرق ہے کہ وہاں تو حکومت گرا کر آرمی کو حکومت قائم کرنے کا مطالبہ اور گورنر راج لگوایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اکتوبر 2024ء سے آج تک ٹل پاراچنار روڑ بندش کا شکار ہے۔ اس راستے میں بیسیوں جانیں جا چکی ہیں۔ پانچ لاکھ کی آبادی شدید ترین مشکلات کا شکار ہے اور ان کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی، مگر شیعہ قومی قیادتیں مصلحت کا شکار ہیں اور اہل کرم اہل پاکستان کی میں موجود قائدین کی طرف نگاہیں جما کے بیٹھے ہیں۔
بذات خود آغا مزمل جو مجلس کے پلیٹ فارم سے سٹی ناظم تھے، انہیں صوبائی گورنمنٹ نے جھوٹے مقدمات میں گرفتار کر رکھا ہے۔ اہل پاراچنار اور دیگر لوگ سوال کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ ابھی تک عمران خان کی پارٹی کی صوبائی گورنمنٹ کیوں قائم ہے؟ اس کو گرانے کیلئے دھرنے کیوں نہیں اور کے پی کے میں حکومت آرمی کے حوالے کیوں نہیں کی جاتی، جب اصل حکمران وہی ہیں تو انہیں کے حوالے کر دی جائے، جیسے بلوچستان کی کروا کر فخریہ کریڈٹ لیا جاتا ہے۔ ہم ذکر کر رہے تھے کہ مجلس سے پہلے اہل تشیع میڈیا سے آوٹ ہوچکے تھے، مجلس نے وقت کیساتھ ساتھ اپنی میڈیا ٹیمز کو کافی ایکٹو اور موثر کیا۔ یوں اہل تشیع کی آواز جو میڈیا میں دب گئی تھی، وہ لوگوں تک پہنچنے لگی۔ مجلس نے اپنا ایک اخبار، ہفت روزہ "وحدت" شروع کیا، جو پورے پاکستان میں سرکولیٹ ہوتا تھا، اب کافی عرصہ ہوا بند ہے۔ اسی طرح ایک مجلہ "بصیرت" کے نام سے تھا، جو اس وقت نظر نہیں آتا، اب شاید احباب مجلس کو ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں۔
اب میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا، سوشل میڈیا کا زمانہ آگیا ہے۔ مجموعی طور پر بھی دینی، سیاسی جماعتوں کی زیادہ تو کوشش قومی میڈیا، سوشل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا پر رہتی ہے۔ قائدین کی تصویریں، ان کی پوسٹس، ان کے رنگین بیانات جب سوشل میڈیا پر گروپوں میں چلتے ہیں تو انہیں یہی اچھا و بھلا محسوس ہوتا ہے۔ لہذا قائدین بھی اسی ڈگر اور ذریعہ کو پسند کرتے ہیں، جبکہ مجلے اور اخبارات میں تربیتی مواد بھی ہوتا ہے۔ مرکزی سطح پر پہنچ جانے والے عہدیداران کو تو تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی، تربیت حاصل کرکے ہی پہنچتے ہیں۔ شاید جماعت اسلامی ہی واحد پاکستانی جماعت ہے، جہاں جہاں ذمہ داران کو تربیتی مراحل سے گذار کر اوپر کی سطح پر لایا جاتا ہے، باقی بہت سی جماعتیں شاید ایسا نہیں کرتیں، بلکہ سیاسی جماعتوں میں تو خوش آمد اور پیسہ چلتا ہے، جو زیادہ خرچ کرتا ہے اور قائدین کی خوشامد کرنے کا ماہر ہوتا ہے، وہ اوپر پہنچ جاتا ہے۔
مجلس نے سب سے پہلے 2013ء کے جنرل ایکشن میں حصہ لیا تھا، جس میں مختلف قومی، صوبائی اسمبلی کیلئے امیدوار کھڑے کیے گئے، اگرچہ اس وقت آغاز سفر تھا تو وہ کامیابی نہیں ملی، جسے بہت زیادہ سراہا جا سکے، مگر مجلس اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگئی کہ وہ الیکشن کی پارٹی بھی ہے اور اس کا ووٹ بنک اور امیدوار بھی ہیں۔ اس کا فطری فائدہ مستقبل میں ہی ملنا تھا۔ آج جو کچھ مجلس پارلیمانی حلقوں میں مقام رکھتی ہے، اسی الیکشن کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ آج مجلس کی قومی اسمبلی حلقہ نمبر 37 کرم ڈسٹرکٹ سے سیٹ ہے، ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ پنجاب میں بھی ہے، جبکہ جی بی اسمبلی میں میثم کاظم بہترین اپوزیشن لیڈر کے طور پر پہچان رکھتے ہیں، جبکہ 2024ء کے سینیٹ کے انتخابات میں سابق سیکریٹری جنرل اور موجودہ چیئرمین و سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری پنجاب سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے،جو اس وقت اپوزیشن کے تحریک بحالی آئین اتحاد میں اہم شخصیت کے طور پر پہچان رکھتے ہیں۔
یوں مجلس وحدت مسلمین شاید پہلی شیعہ نمائندہ جماعت ہے، جس کے نمائندے اس جماعت کے نام سے پارلیمنٹ کا حصہ بنے ہیں اور اس طرح انہوں نے یہ سوچ اور تفکر کو ختم کیا ہے کہ شیعہ نام کی جماعت سے اسمبلی چاہے صوبائی ہو یا قومی میں نہیں پہنچ سکتے۔ یاد رہے کہ مجلس کے سید محمد رضا بلوچستان اسمبلی کے صوبائی رکن منتخب ہوئے تھے اور بعد ازاں انہیں وزارت کا قلم دان بھی ملا تھا۔ اسمبلیوں میں ہونے کے باوجود شیعہ مسائل حل نہیں ہوتے تو اس کا پریشر بھی مجلس پر آنا فطری عمل ہے۔ اس وقت تشیع کے جو مسائل ہیں، ان میں سب سے اہم فوری مسئلہ پاراچنار کرم ایجنسی کا مسئلہ ہے۔ دوسرا شیعہ جوانان کو جبری گمشدہ کرنے کا ہے، تیسرا مسئلہ بہت سے لوگوں کے اوپر بے گناہ کیسز ہیں، بہت سے گرفتار بھی ہیں، جن کے کیسز عدالتوں میں ہیں۔
ان کا کوئی پرسان حال نہیں اور بہت سے لوگ سی ٹی ڈی نے فورتھ شیڈول میں ڈال رکھے ہیں، فورتھ شیڈول والوں کی زندگی اجیرن رہتی ہے۔ اسمبلیوں کا حصہ ہونا، جی بی اسمبلی، پارلیمنٹ کا حصہ ہونا بے شک اپوزیشن میں بھی ہوں تو بہت سے کام نکل آتے ہیں، اس کیلئے ایک پولیٹیکل سیکریٹریٹ ہوتا ہے، دفتروں میں بیٹھ کر بھی سینیٹر اور اسمبلی ممبران کے سیکرٹری کے طور پر بہت سے مسائل ٹیلی فون کے ذریعےحل کروا لیتے ہیں۔ ابھی تک سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، جناب ایم این اے انجینئر حمید حسین اور جی بی اسمبلی کے نمائندگان کا اسلام آباد میں سیکرٹریٹ ابھی تک تو سامنے نہیں آیا، ہاں مجلس وحدت مسلمین کا مرکزی دفتر اپنی جگہ فعالیت رکھتا ہے، جس کا دائرہ الگ ہے۔
بلا شبہ ملکی و عالمی سطح پر مجلس وحدت مسلمین اپنی شناخت و تعارف بنا چکی ہے، اسلام آباد کے سفارتی حلقے بھی مجلس کو یاد کرتے ہیں، مگر یہ بات بہت واضح ہے کہ مجلس کا تنظیمی نیٹ ورک اپنے آغاز کی بہ نسبت بہت کمزور اور سکڑ چکا ہے۔ اضلاع کی عدم فعالیت بہت واضح ہے، حتیٰ بہت سے اضلاع میں ذمہ داران، کابینہ تک نہیں ہیں، لوگوں کا رجحان بلا شبہ مجلس کی جانب بہت زیادہ ہوا تھا، اس میں، شہداء کے خون ک تاثیر، ان کیلئے دیئے گئے دھرنے، مرکزی قیادت کے دورہ جات، اضلاع کے پروگراموں میں مرکزی قائدین کی شرکت اور مسلسل روابط تھے، مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ شاید مرکزی قائدین بالخصوص سابق سیکرٹری جنرل اور موجودہ چیئرمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کو اسلام آباد میں محدود کر دیا گیا ہے، نا جانے یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے، سکیورٹی مسائل ہیں یا صوبائی ذمہ داران ان کے دوروں کا انتظام کرنے سے قاصر ہیں۔
اس پالیسی کے اثرات بہرحال تنظیمی نیٹ ورکنگ اور اضلاع کی عدم فعالیت کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں، اس جانب بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔ اب مجلس وحدت نئی جماعت نہیں رہی کہ اسے لوگ معافی دے دیں گے، ابھی حالیہ دنوں میں ہی اس نے اپنا سولہواں سالانہ مرکزی کنونشن منعقد کیا ہے، جس میں علامہ راجہ ناصر عباس ایک بار پھر چیئرمین چنے گئے ہیں۔ چونکہ اضلاع میں تنظیمیں نہیں تو تنظیمی اجلاس و تربیت بھی نہیں اور ان اضلاع کے مسائل حل کروانے کا سلسلہ تو وجود ہی نہیں رکھتا۔ مجلس وحدت مسلمین پر اس وقت کافی اعتراضات، اشکالات، تنقیدی نکتہ نگاہ رکھنے والے کرتے ہیں، ان میں کوئی اور نہیں، مجلس میں آغاز کے دنوں کے دوستان بھی ہیں، ذمہ داریان ادا کرنے والے بھی ہیں، اہم امور اپنے ہاتھوں سے انجام دینے والے اندرون و بیرون ملک میں ان کی بہت اچھی تعداد موجود ہے۔
ان کے مطابق یہ تنظیم پہلے جمود کا شکار ہوئی تھی، اب محدودیت کا شکار ہوچکی ہے، محدودیت کا شکار اس عنوان سے شاید کہ ایک طرف اس کے عہدیداران محدود، مخصوص چہرے ہیں تو دوسری جانب اس کی یونٹ، اضلاع، حتیٰ صوبائی تنظیمیں بھی سکڑ چکی ہیں، جبکہ بعض ناقدین کے بقول ان کے مسئولین کی ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں، شہید الحسینی کے نام پر معرض وجود میں آنے والا قومی پلیٹ فارم اب ایک سیاسی شخصیت کے گرداب میں پھنس چکا ہے، جس کو اس مرحلہ پر چھوڑنا سیاسی موت دکھتا ہے تو اس کیساتھ رہنا قوم و ملت کو قبول نہیں۔ مجلس کے عنوان سے بھی دوسرے قومی پلیٹ فارم کی طرح بہت سے ایشوز سامنے ہیں، جن میں تنقید اور تعریف کے پہلو نکلتے ہیں، ان صفحات پر شاید اس سے زیادہ گنجائش نہ ہو، یہ سلسلہ مزید بڑھایا جا سکتا ہے، اگر قارئین اس میں اپنی دلچسپی طاہر کریں تو بہت سے قومی ایشوز کو مزید کھولا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ راجہ ناصر عباس محدودیت کا شکار قومی پلیٹ فارم اسلام ا باد قائدین کی اس کیساتھ کے طور پر کرتے ہیں میڈیا پر جاتا ہے ہیں اور مجلس کے میں بھی بھی ہیں ہوتا ہے چکی ہیں اور اس میں ہی نہیں ا کے نام ہیں تو بہت سے
پڑھیں:
پی ٹی آئی کا پاک بھارت کشیدگی پر حکومتی بریفنگ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پاک بھارت کشیدگی پر حکومتی بریفنگ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کردیا۔
نجی ٹی وی آج نیوز کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں حکومت کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ترجمان شیخ وقاص اکرم کے مطابق پی ٹی آئی نے ہمیشہ ہر قسم کی دہشت گردی کی بھرپور مذمت کی ہے اور اس قومی معاملے پر یکجہتی کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے۔شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان اس وقت ناجائز طور پر قید میں ہیں تاہم انہوں نے جیل سے بھی قوم کے نام اپنے پیغامات میں دہشت گردی کی مذمت کی اور قومی اتحاد و یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا۔
ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق عمران خان کا مو¿قف خود وضاحتی ہے، جس میں جرات کے ساتھ قوم کو متحد ہونے کا پیغام دیا ہے، وہ ایک قومی رہنما کی سوچ کا عکاس ہے۔شیخ وقاص اکرم نے مزید کہا کہ تحریک انصاف ملک و قوم کے دفاع کے لئے ہر اول دستے میں کھڑی ہوگی، ساتھ ہی حکومت سے مطالبہ کیا کہ حالیہ صورتحال کے پیش نظر فوری طور پر آل پارٹی کانفرنس بلائی جائے تاکہ تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیا جا سکے۔
خیال رہے کہ پاک بھارت صورتحال پروفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ اور ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری آج سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو بریفنگ دیں گے۔وزارتِ اطلاعات کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماو¿ں کو قومی سلامتی کی صورتِ حال پر بریفنگ دی جائے گی۔
ٹرمپ کو پوپ کی حیثیت سے اپنی اے آئی تصویر پوسٹ کرنے پر تنقید کا سامنا
مزید :