سندھ؛ ورکرز ویلفیئر بورڈ اجلاس میں مالی سال 2025-26 کا بجٹ منظور
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
کراچی:
ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ کے اجلاس میں نئے مالی سال 2025-26 کے بجٹ کی منظوری دی گئی جس میں سرمایہ کاری اور منصوبوں سے متعلق تجاویز زیر غور آئیں۔
وزیر محنت وافرادی قوت و چیئرمین ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ شاہد تھہیم کی زیر صدارت ورکرز ویلفیئر بورڈ کا 33واں اجلاس منعقد ہوا جس میں سیکریٹری محنت رفیق قریشی، کمشنر سندھ ریونیو بورڈ، آجر و اجیر نمائندوں، فنانس ڈیپارٹمنٹ کے نمائندےاور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام نے شرکت کی۔
اجلاس میں پچھلے مالی سال کے دوران مکمل ہونے والے فلاحی اقدامات پر بھی تفصیلی بریفنگ دی۔
سیکریٹری رفیق قریشی نے بریفنگ میں بتایا کہ گزشتہ بجٹ میں کئی اہم اہداف مکمل کیے جن میں ورکرز ویلفیئر بورڈ کے لیے مستقل ہیڈ آفس کی خریداری، تمام شعبوں کی ڈیجیٹلائزیشن کی منظوری، 10 ہزار صنعتی خواتین ورکرز کو ای بائیکس کی فراہمی سے متعلق اسکیم کی منظوری، حادثاتی ہیلتھ انشورنس اسکیم کا اجراء، لیبر کالونیوں اور تعلیمی اداروں کی بحالی، اور صنعتی کارکنوں میں سلائی مشینوں کی تقسیم سے متعلق اسکیم کی منظوری شامل ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ ایکسیڈینٹل ہیلتھ انشورنس اسکیم بھی متعارف کروا رہے ہیں جس میں محنت کشوں کو سالانہ 7 لاکھ روپے تک کی ہیلتھ انشورنس حاصل ہوگی جس سے پورے ملک میں 270 اسپتالوں میں علاج ممکن ہوگا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت کے مطابق ڈیتھ گرانٹ کی رقم 7 سے 10 لاکھ روپے اور شادی گرانٹ کی رقم بھی 3 سے 5 لاکھ روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سیکریٹری رفیق قریشی نے ورکرز ویلفئیر بورڈ کی سرمایہ کاری سے متعلق تفصیلات فراہم کیں کہ سرمایہ کاری پورٹ فولیو کو بہتر بنانے کے لیے ایس ای سی پی کی منظور شدہ شریعہ کمپلائنٹ سکوک بانڈز میں 3 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی منظوری دے رہے ہیں تاکہ فنڈز کے تنوع کو یقینی بنایا جا سکے۔ اب ہر مزدور اور اُس کے اہل خانہ کا ڈیٹا نادرا اور ای او بی آئی سے منسلک ہو کر ڈیجیٹائز ہوگا۔
وزیر محنت سندھ شاہد تھہیم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ کی کارکردگی قابلِ تعریف ہے۔ گزشتہ مالی سال میں کیے گئے فلاحی اقدامات نے مزدور طبقے کو براہ راست فائدہ پہنچایا ہے اور آئندہ بھی مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں گے۔
اجلاس میں ورکرز ویلفیئر بورڈ کے 32ویں اجلاس کے منٹس کی توثیق بھی کی گئی۔ محکمہ انسداد منشیات کے تعاون سے حیدرآباد اور شہید بینظیرآباد میں نشہ بحالی مراکز کا قیام، بورڈ ممبران کی فیس، قانونی مشیروں کی فیس میں اضافہ، اور دیگر انتظامی و ترقیاتی تجاویز زیر غور آئیں۔
اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ملازمین کے لیے صحت کی سہولیات پر اخراجات کے لیے باقاعدہ معیار مقرر کیا جائے کیونکہ موجودہ نظام کے اخراجات کی کوئی حد مقرر نہیں۔ سندھ حکومت کی پالیسی کے تحت سب کے لیے یکساں ہیلتھ انشورنس کا نظام بنایا جائے گا۔
ساتھ ہی ساتھ چیئرمین اور سیکریٹری ورکرز ویلفیئر بورڈ نے متفقہ فیصلے کے تحت ملازمین کے بچوں کی تعلیمی امداد پر ہدایت دی کہ بچوں کی فیس سے متعلق یکساں منصوبہ تیار کیا جائے تاکہ تمام ملازمین کے بچوں کو برابر اور آسان تعلیمی سہولت میسر ہو۔
موجودہ بجٹ میں اسکولوں کی سولرائزیشن کا منصوبہ شامل کیا گیا، ہر سال بچوں کو دو مرتبہ یونیفارم دیے جائیں گے۔ تمام تعلیمی اداروں کو ڈیجیٹلائز کیا جائے گا۔ گورننگ باڈی نے فیصلہ کیا ہے کہ اب فلیٹس کے بجائے ورکرز کے لیے مکمل سولرائزڈ گھر تعمیر کیے جائیں گے۔ ہاؤس لون اور کار لون ایک بار جبکہ بائیک لون دو بار حاصل کیے جا سکیں گے شرط یہ ہے کہ پہلے یہ سہولت استعمال نہ کی ہو جبکہ ہر پہلو ڈیجیٹلائزڈ ہوگا۔
کمشنر سندھ ریونیو بورڈ نے انکشاف کیا کہ 53 برسوں میں ایف بی آر نے مزدوروں کے فنڈز کی مد میں مجموعی طور پر 350 ارب روپے جمع کیے جبکہ سندھ کو صرف 22.
اس اہم انکشاف پر وزیرِ اعلیٰ سندھ کا وزیراعظم کو ارسال کیا گیا باضابطہ خط بھی اجلاس میں پیش کیا گیا جس میں اس غیر منصفانہ تقسیم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ سندھ کے مزدوروں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔
سیکریٹری رفیق قریشی نے جواب دِیا کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ اسلام آباد کے اجلاس میں یہ اعتراض اٹھا چکا ہوں کہ سندھ کے ساتھ باقی صوبوں کے مقابلے میں نا انصافی ہوتی آئی ہے، 2014-15 کے بعد سندھ کو کوئی فنڈ نہیں دیا گیا جبکہ باقی صوبوں کو بروقت فنڈز جاری ہوئے۔
اجلاس کے اختتام پر تمام ممبران نے وزیر محنت اور سیکریٹری محنت کی کاوشوں کو سراہا اور ان کے فیصلوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ورکرز ویلفیئر بورڈ ہیلتھ انشورنس سرمایہ کاری رفیق قریشی کی منظوری اجلاس میں مالی سال کیا گیا کے لیے
پڑھیں:
پنجاب اسمبلی: ایک سال کے اندر 17 پرائیویٹ یونیوسٹیز کے بل کیسے منظور ہوئے؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس وقت پبلک سیکٹر کی 160 یو نیورسٹیز بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں۔ پنجاب میں 109 پرائیویٹ یونیورسٹیز الگ سے تعلیم کے میدان میں کام کر رہی ہیں۔
پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز بنانے کے لیے پنجاب حکومت نے رولز میں بھی نرمی کر رکھی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹی کے لیے سب سے اہم شرط تھی کہ جہاں بھی یونیورسٹی بنے گی اس کی کم سے کم جگہ 10 ایکڑ مختص کی جائے گئی۔ اور وہ 10 ایکڑ جگہ ایک ہی جگہ پر ہو، مگر اب رولز کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اگر 3 ایکڑ زمین شہر میں موجود ہے اور 70 ایکٹر زمین کسی اور جگہ پر یو نیورسٹی کے نام پر رکھی ہوئی ہے تو نئی یونیورسٹی بن سکتی ہے۔ ایک ہی جگہ پر 10 ایکڑ زمین ہونا لازمی شرط اب نہیں رہی۔ اگر کسی کے پاس اپنی زمین نہیں ہے تو وہ لیز پر زمین لے کر بھی یونیورسٹی بنا سکتا ہے۔ جس کے بعد پنجاب اسمبلی میں 2024 سے لے کر جولائی 2025 تک 17 پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے بل ایوان سے منظور کروائے گئے ہیں۔ 2024 میں 3 پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز کے ترمیمی چارٹر منظور کیے گئے مگر 2025 میں 7 ماہ کے اندر 14 نئی یونیورسٹیوں کے قیام اور بعض ترمیمی بل منظور کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے پنجاب اسمبلی: لیگی ایم پی اے نے اپنے ہی وزیر کیخلاف تحریک استحقاق جمع کردی، وجہ کیا بنی؟
2024 میں پرائیویٹ سیکٹر کی لاہور لیڈز یونیورسٹی (ترمیمی) بل، سینیٹ ہل یونیورسٹی بل۔ انسٹی ٹیوٹ آف سدرن پنجاب ملتان (ترمیمی) بل۔ 2025 میں اے جی این یونیورسٹی بل، ایشین یونیورسٹی فار ریسرچ اینڈ اڈوانسمنٹ بل ، مصرت انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی بل، دی ٹائمز انسٹیوٹ ملتان بل، مکبر یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، گجرات بل، رائت بہرہ پروفیشنل یونیورسٹی، ہوشیارپور بل، گلوبس یونیورسٹی کمالیہ بل سمیت دیگر یونیورسٹیوں کے بل منظور کیے گئے۔
یہ تمام بلز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پرائیویٹ ممبرز ڈے پر پیش ہوئے اور ان کو منظور کر لیا گیا۔
پنجاب میں تعلیم نعروں کی حدد تک نظر آتی ہےماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر امجد مگسی کا وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے پہلے ہی پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیز کو مالی مشکلات کا سامنا ہے، ان کی فنڈنگ کم کر دی گئی ہیں جبکہ بعض یونیورسٹیوں کے فنڈز روک دئیے گئے ہیں۔ پہلے اضلاع کی سطح پر یونیورسٹیز بنائی گئیں۔ اب تحصیل لیول تک یونیورسٹیز بنائی جارہی ہیں۔ اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کے چارٹر بڑی تعداد میں منظور کروائے جارہے ہیں۔ پیسے والے لوگ اسمبلیوں سے چارٹر منظور کروا لیتے ہیں اور یونیورسٹیز بناتے نہیں ہیں۔ پھر وہ چارٹر کسی کو بیچ دیتے ہیں۔ حکومت کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ پنجاب میں تعلیم کے فروغ سے زیادہ یونیورسٹیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ معیار تعلیم کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
محکمہ تعلیم کا موقف کیا ہے؟وی نیوز نے اس حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات سے رابط کیا، انہیں سوالنامہ بھیجا گیا مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، مگر کچھ عرصہ قبل ہائر ایجوکیشن کی اسٹیڈنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ دوران اجلاس صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر نے اسٹینڈنگ کمیٹی کے عہدیداروں سے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں ایک ماہ میں 25، 25 پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے بل پاس ہوتے ہیں۔ یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ اب تو صوبہ کے لوگ چوک چوراہوں میں باتیں کر رہے ہیں کہ اسمبلی میں 2، 2 کروڑ روپے لے کر یونیورسٹیوں کے بل پاس کروائے جاتے ہیں۔ بل آنے سے قبل طے ہوتا ہے کہ بل آئے گا اور پاس ہو جائے گا۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ پرائیویٹ ممبر بل کا روٹ کیوں لیا جارہا ہے۔ ہم یونیورسٹی مالکان سے رابطے میں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بل کہاں سے آ رہے ہیں۔ 32 پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے بل 3 ہفتوں میں منظور کروائے گئے۔ پاکستان کو بنے 77 سال ہو گئے ہیں اتنے بل تاریخ میں کبھی منظور نہیں ہوئے جتنے 3 ہفتوں میں ہوئے ہیں۔
صوبائی وزیر تعلیم کے اس بیان کے بعد اراکین نے پنجاب اسمبلی میں اپنے ہی وزیر کے خلاف تحریک استحقاق جمع کروا دی۔
یہ بھی پڑھیے فروغ تعلیم کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا انقلابی فیصلے کیے ہیں؟
صوبائی وزیر تعلیم کے اس خطاب کے خلاف مسلم لیگ ن کے ایم پی اے امجد علی جاوید نے تحریک استحقاق جمع کروا رکھی ہے جس میں کہا گیا ہے پنجاب اسمبلی کے معزز اراکین کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے اور ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ یہ خطاب ایوان کی حرمت، وقار اور استحقاق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اراکین اسمبلی پر بدعنوانی کا عمومی الزام لگایا ہے اور الزام لگانے سے پہلے کوئی ثبوت بھی نہیں دیا گیا۔ اس خطاب سے ہمارا عوامی اعتماد مجروح ہوا اور ایوان کی ساکھ کو دھچکا پہنچا ہے۔
ذرائع کے مطابق تحریک استحقاق آنے کے بعد صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کے بل منظور ہونے پر خاموش ہوگئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب اسمبلی صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات