امریکا، بھارت اور ٹیرف کی جنگ
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اندرونی سطح پر سیاسی ہم آہنگی پیدا کرے۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے بجائے قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنایا جائے، تاکہ قومی پالیسیوں میں وسیع تر سیاسی اتفاقِ رائے پیدا ہو۔ اگر ہم داخلی طور پر کمزور رہے تو بیرونی دنیا میں ہماری آواز نہ صرف غیر مؤثر ہوگی بلکہ عالمی قوتیں ہماری اس کمزوری سے اپنے مفادات کیلئے فائدہ بھی اٹھا سکتی ہیں۔ دنیا ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، جہاں اقتصادی پابندیاں، سفارتی چالاکیاں اور اسٹریٹجک داؤ پیچ اصل ہتھیار ہیں۔ اس بدلتی دنیا میں پاکستان کو نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے بلکہ اپنی حیثیت کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ شرط صرف ایک ہے، خود مختاری، دانشمندی اور قومی وحدت۔ تحریر: نادر بلوچ
امریکا اور بھارت کے مابین پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی محض دو معیشتوں کی باہمی رسہ کشی نہیں، بلکہ اس کے پس منظر میں ایک وسیع تر عالمی حکمتِ عملی اور طاقت کے توازن کی بازترتیب کارفرما ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر یکے بعد دیگرے ٹیرف عائد کرنے، بعض مصنوعات پر پچیس فیصد تک درآمدی ڈیوٹی لگانے اور مزید سخت اقتصادی اقدامات کی دھمکی دینے کا معاملہ معمولی تجارتی چپقلش سے کہیں زیادہ گہرا اور پرمعانی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیاسی بیانیے کو "MAGA" یعنی Make America Great Again کے نعرے کے گرد استوار کیا۔ اس نعرے کی عملی تعبیر مقامی صنعتوں کی بحالی، درآمدات پر انحصار میں کمی اور روزگار کے مواقع میں اضافہ تھی۔ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکی مارکیٹ چینی اور بھارتی مصنوعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ اشیاء نہ صرف قیمت میں سستی ہیں بلکہ وہ امریکی پیداوار کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔ نتیجتاً، ملکی صنعتیں بند ہو رہی ہیں، روزگار کے مواقع سمٹتے جا رہے ہیں اور قومی سرمایہ بیرونِ ملک بہہ رہا ہے۔
اسی تناظر میں ایک چونکا دینے والا مگر غیر مبہم فیصلہ سامنے آیا کہ امریکا نے ایپل کمپنی کو بھارت میں اپنا پیداواری یونٹ بند کرنے کی ہدایت کی۔ یہ اقدام بظاہر ایک کاروباری فیصلہ لگتا ہے، لیکن دراصل یہ امریکی اقتصادی تحفظ پسندی کی پالیسی کا حصہ ہے۔ مقصد صاف ہے: ایسے ممالک میں تیار ہونے والی کم لاگت مصنوعات کو امریکی منڈی میں مہنگا کر دیا جائے، تاکہ امریکی صارفین مقامی مصنوعات کی جانب راغب ہوں اور ملکی صنعت کو سانس لینے کا موقع ملے۔ بھارت کے لیے یہ صورتحال خاصی پریشان کن ہے۔ اس کی امریکا کو برآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جبکہ امریکی مصنوعات بھارتی مارکیٹ میں محدود پیمانے پر داخل ہو پاتی ہیں۔ اس عدم توازن کو ٹرمپ انتظامیہ ایک ناقابلِ قبول خسارے کے طور پر دیکھتی ہے۔ چین کے بعد بھارت بھی اسی فہرست میں شامل ہوچکا ہے، جسے امریکا اپنے اقتصادی مفادات کے لیے خطرہ تصور کر رہا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی واضح ہے: یا تو معاہدے پر ازسرنو بات چیت کی جائے، یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہا جائے۔ یہی اس کا رویہ روس کے ساتھ بھی ہے۔
ایسے میں پاکستان کی حیثیت نہایت اہم ہوگئی ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد خطے میں پاکستان کی تزویراتی (اسٹریٹجک) اہمیت ازسرنو نمایاں ہوئی ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے معاشی تعلقات، خصوصاً سی پیک جیسے منصوبے، پاکستان کو ایک علاقائی مرکزیت فراہم کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے لیے نرم رویہ اختیار کرنا اور بھارت کو تجارتی شکنجے میں کسنا، اس امر کا مظہر ہے کہ امریکا جنوبی ایشیاء میں اپنی حکمتِ عملی کو دوبارہ ترتیب دے رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ صورتِ حال ایک اہم موقع بھی ہے اور آزمائش بھی۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا فائدہ صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے، جب اسلام آباد اپنی خودمختاری کو مجروح کیے بغیر توازن کی پالیسی اپنائے۔ اگر ہم اندرونی سیاسی عدم استحکام کے باعث یا کسی خارجی دباؤ میں آکر اپنے معدنی وسائل یا قومی مفادات ارزاں نرخوں پر پیش کرنے لگیں، تو یہ وقتی فائدہ درحقیقت طویل المدت نقصان میں بدل جائے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اندرونی سطح پر سیاسی ہم آہنگی پیدا کرے۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے بجائے قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنایا جائے، تاکہ قومی پالیسیوں میں وسیع تر سیاسی اتفاقِ رائے پیدا ہو۔ اگر ہم داخلی طور پر کمزور رہے تو بیرونی دنیا میں ہماری آواز نہ صرف غیر مؤثر ہوگی بلکہ عالمی قوتیں ہماری اس کمزوری سے اپنے مفادات کے لیے فائدہ بھی اٹھا سکتی ہیں۔ دنیا ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، جہاں اقتصادی پابندیاں، سفارتی چالاکیاں اور اسٹریٹجک داؤ پیچ اصل ہتھیار ہیں۔ اس بدلتی دنیا میں پاکستان کو نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے بلکہ اپنی حیثیت کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ شرط صرف ایک ہے، خود مختاری، دانشمندی اور قومی وحدت۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اپنے مفادات میں پاکستان دنیا میں کے لیے
پڑھیں:
بھارت روسی تیل خرید کر یوکرین جنگ میں مالی معاونت کررہا ہے، ٹرمپ کے مشیر کا الزام
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی مشیر اور وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر نے بھارت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روس سے تیل خرید کر یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں بالواسطہ طور پر مالی مدد فراہم کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس سے تیل کی خریداری امریکا اور بھارت کے تعلقات میں ’چبھتا ہوا نکتہ‘ بن چکا، مارکو روبیو
بین الاقوامی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسٹیفن ملر نے ایک انٹرویو میں کہاکہ صدر ٹرمپ کا مؤقف بالکل واضح ہے، بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری ناقابل قبول ہے، کیونکہ اس سے جنگ کو طول دینے میں مدد مل رہی ہے۔
اسٹیفن ملر کی یہ تنقید بھارت جیسے اہم امریکی اتحادی پر اب تک کی سخت ترین تنقید قرار دی جا رہی ہے۔ فاکس نیوز کے پروگرام سنڈے مارننگ فیوچرز میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہاکہ زیادہ تر لوگ یہ جان کر حیرت زدہ ہوں گے کہ روسی تیل کی خریداری میں بھارت، چین کے تقریباً برابر ہے، جو کہ انتہائی حیران کن حقیقت ہے۔
خبررساں ادارے کے مطابق واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے نے فوری طور پر اس بیان پر کوئی ردِعمل نہیں دیا۔ تاہم بھارتی حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت امریکی دباؤ کے باوجود روسی تیل کی خریداری جاری رکھے گا۔
رپورٹ کے مطابق امریکا نے روس سے توانائی اور فوجی ساز و سامان کی خریداری پر بھارت کو سخت پیغام دیتے ہوئے جمعے کے روز بھارتی مصنوعات پر 25 فیصد درآمدی ٹیکس نافذ کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، بھارت کو سختی کا سامنا
صدر ٹرمپ نے مزید انتباہ دیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین کے ساتھ امن معاہدہ نہ کیا تو روسی تیل خریدنے والے ممالک سے امریکا اپنی درآمدات پر 100 فیصد تک ٹیکس عائد کرسکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسٹیفن ملر امریکا بھارت آمنے سامنے امریکی ٹیرف امریکی صدر تیل خریداری ٹرمپ مشیر ڈونلڈ ٹرمپ روسی تیل مودی سرکار وی نیوز