اسلام ٹائمز: انصاراللہ تحریک کے ایک رہنماء عبدالسلام جحاف نے میڈیا کو بتایا ہے کہ یمن کی مسلح افواج نے اسرائیل کے تمام ہوائی اڈوں کا مکمل محاصرہ کر لیا ہے، جس میں تل ابیب کا بن گوریون ہوائی اڈہ سرفہرست ہے۔ یہ نہ صرف ایک بے مثال تاریخی لمحہ ہے بلکہ علاقائی تصادم کے ایک نئے مرحلے کا آغاز بھی۔ انصاراللہ کے رہنماء کا کہنا تھا کہ یہ صرف علامتی عمل یا میڈیا تنازعہ نہیں، بلکہ ایک اسٹریٹجک فیصلہ ہے، جو خطے میں ایک نیا سیاسی اور فوجی نقشہ بنا رہا۔ تحریر: سید رضا میر طاہر
امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ یمن پر ایک ہزار سے زائد حملے کرچکا ہے اور اس سلسلے میں صیہونی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ یمن پر ایک ہزار سے زائد فضائی حملوں کے بعد امریکہ نہ صرف اس ملک کی مزاحمت کو روکنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اسے بھاری جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ یہ حملے بحیرہ احمر کی سلامتی اور غزہ میں ہونے والی پیش رفت پر براہ راست اثر ڈال رہے ہیں اور دوسری طرف خطے میں واشنگٹن کی فوجی حکمت عملی کی ناکامی کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ 15 مارچ 2025ء سے امریکہ نے یمنی افواج کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے یمن کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے شروع کر رکھے ہیں۔ تاہم یمنی فوج نے نہ صرف اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے بلکہ صیہونی حکومت سے وابستہ امریکی جہازوں اور کشتیوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
یمن کے بارے میں غلط فہمیاں:
امریکہ نے یمنیوں کو عرب بدو سمجھ کر ان کے خلاف جنگ شروع کی، لیکن اسے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ایک تجربہ کار قوت کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکی فوجی ناکامی:
امریکہ B-2 بمباروں اور GBU-57 بنکر کو تباہ کرنے والے بموں سمیت جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال کے باوجود یمنی مزاحمت پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے۔
بھاری جانی نقصان:
یمنی فورسز نے کم از کم 27 کی تعداد میں MQ-9 ریپر ڈرون (800 ملین ڈالر مالیت کے) اور دو امریکی F-18 جنگجوؤں کو ابھی تک مار گرایا ہے۔
بحری بیڑے کی پسپائی:
امریکہ مجبور ہوگیا ہے کہ طیارہ بردار بحری جہاز "ہیری ٹرومین" کو یمنی میزائلوں کے خوف سے یمن کے ساحل سے ایک ہزار کلومیٹر دور تعینات کرے۔
امریکہ حملے کیوں نہیں روکتا؟
1۔ صہیونی لابی کا دباؤ:
امریکا میں اسرائیلی لابی واشنگٹن کی پالیسی سازی پر سخت اثر انداز ہوتی ہے اور صیہونی حکومت پر دباؤ کم کرنے کے لیے مسلسل حملوں کا مطالبہ کرتی ہے۔
2۔ فوجی صنعتی کمپنیوں کے مفادات:
جنگ میں اضافے سے ہتھیار بنانے والوں کو فائدہ ہوتا ہے اور مسلسل تنازعات ہتھیاروں کی فروخت کے بازار کو گرم رکھتے ہیں۔ ادھر انصاراللہ تحریک کے ایک رہنماء عبدالسلام جحاف نے میڈیا کو بتایا ہے کہ یمن کی مسلح افواج نے اسرائیل کے تمام ہوائی اڈوں کا مکمل محاصرہ کر لیا ہے، جس میں تل ابیب کا بن گوریون ہوائی اڈہ سرفہرست ہے۔
یہ نہ صرف ایک بے مثال تاریخی لمحہ ہے بلکہ علاقائی تصادم کے ایک نئے مرحلے کا آغاز بھی۔ انصاراللہ کے رہنماء کا کہنا تھا کہ یہ صرف علامتی عمل یا میڈیا تنازعہ نہیں، بلکہ ایک اسٹریٹجک فیصلہ ہے، جو خطے میں ایک نیا سیاسی اور فوجی نقشہ بنا رہا۔ مبصرین اس صورتحال کو نیتن یاہو کی کابینہ پر ناقابل برداشت سیاسی اور فوجی دباؤ کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جسے پہلے ہی غزہ میں ناکامی پر شدید تنقید کا سامنا ہے اور وہ بیرونی محاذ پر خطرات کا مقابلہ کرنے کی بھی متحمل نہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ہے بلکہ ہے اور کے ایک
پڑھیں:
پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بات اسرائیل کے ایران پر حملوں کے وقت ہوئی، احمد حسن العربی
بین الاقوامی امور کے ماہر حمد حسن العربی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بات اسرائیل کے ایران پر حملوں کے وقت ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اب تک کتنے معاشی معاہدے اور اُن پر کیا پیشرفت ہوئی؟
وی نیوز کے پروگرام ’سیاست اور صحافت‘ میں گفتگو کرتے ہوئے احمد حسن العربی نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان طے پائے جانے والا معاہدہ ’ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا‘ اور یہ گلوبل جیو پالیٹکس کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ورلڈ آرڈر تبدیل ہورہا ہے اور دنیا طاقت کے ایک مرکز سے ہٹ کر طاقت کے زیادہ مراکز کی طرف جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس دوران پرانے معاہدے ختم ہوجاتے ہیں اور نئے گٹھ جوڑ اور معاہدے طے پاتے ہیں اور یہی سب کچھ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی ہوا تھا کہ سلطنت عثمانیہ ٹوٹی اور نئے معاہدے اور بارڈر بنے۔
احمد حسن العربی نے کہا کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے کبھی بھی مڈل ایسٹ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں نہیں تھا اور اسی طرح یورپ سارے کا سارا پہلے کبھی اکٹھا نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپی یونین کا وجود ہوا اور تمام ملک اکٹھے ہوگئے، ادھر مڈل ایست الگ الگ ریاستوں میں بٹ گیا۔
’یورپ بکھرنے اور اسلامی ممالک ایک ہونے جا رہے ہیں‘انہوں نے کہا کہ اب دنیا ملٹی پولرِٹی کی طرف جارہی ہے اس تبدیلی کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یورپ پھر سے ٹوٹنے اور مسلم ممالک ایک ہونے جارہے ہیں۔
مزید پڑھیے: پاکستان سعودی عرب کا ہر فورم پر بھرپور ساتھ دے گا: وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد کو یقین دہانی
ان کا کہنا تھا کہ یہ مسلم اتحاد نیتن یاہو کی مڈل ایسٹ میں بڑے پیمانے پر مداخلت کی بدولت وجود میں آئے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے سابق امریکی صدر نے بھی کہا تھا کہ نیتن یاہو اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے مڈل ایسٹ میں جنگوں پر جنگیں کر رہا ہے۔
احمد حسن العربی نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مڈل ایسٹ کو پہلے سلطنت برطانیہ اور بعد میں امریکا کہتا تھا کہ ہم آپ کو سیکیورٹی فراہم کریں گے آپ اسلحے کی فکر نہ کریں لیکن جب اسرائیل نے مڈل ایسٹ میں مختلف ملکوں پر حملے کرنا شروع کیے تو ان تمام ممالک کی سیکیورٹی گارنٹی پر سوال اٹھے۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران سعودی عرب نے اپنی سالمیت کو مقدم سمجھتے ہوئے اپنی سیکیورٹی کے لیے یہ فیصلہ کیا اور اپنے بھائی ملک پاکستان سے معاہدہ کرلیا۔
وی نیوز کے سوال کے جواب میں احمد حسن العربی نے کہا کہ یہ معاہدہ نیا نہیں اس پر بات چیت اس وقت ہی شروع ہوچکی تھی جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا۔
مزید پڑھیں: صحرا کو کیسے قابل کاشت بنائیں؟ پاکستان سعودی عرب سے مدد لینے کا خواہاں
عربوں کو اس وقت ہی اپنی سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہوچکی تھی اور کچھ ماحول بھی ایسا ہوچکا تھا کہ یہ معاہدہ ہونا ہی تھا کیونکہ پاکستان نے معرکہ حق اور آپرشن بنیان مرصوص کے ذریعے اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔
’یہ ٹاپ لیول معاہدہ ہے، گزشتہ معاہدے اس طرح منظر عام پر نہیں لائے گئےانہوں نے کہا کہ جو پاکستان اور سعودیہ کے پرانے دفاعی معاہدے تھے وہ تیسرے اور چوتھے نمبر پر آتے تھے لیکن ابھی جو معاہدہ طے پایا ہے ٹاپ لیول کا معاہدہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ اس سے قبل دونوں ممالک کے درمیان معاہدے اس طرح منظر عام پر نہیں آئے تھے جو ابھی ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا میں کبھی بھی اس طرح کا ہائی آرڈر معاہدہ کبھی بھی کسی ملک کے درمیان نہیں ہوا کہ ایک ملک کے کسی شہر پر حملہ دوسرے ملک کے شہر پر حملہ تصور کیا جائے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کو اگر بغور دیکھا جائے تو یہ معاہدہ سعودی عرب تک محدود نہیں رہے گا، باقی ممالک بھی اسی معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کے سائے تلے جمع ہوں گے اور یہ معاہدہ مسلم اتحاد کے حقیقی سفر کی طرف بڑھنے کی شروعات ہے۔
’اس معاہدے پر 2 ممالک کو بہت تکلیف پہنچی‘انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد 2 ممالک کو بہت تکلیف پہنچی ہے جن میں سے ایک اسرائیل اور دوسرا بھارت ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان سعودی عرب باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیا معنی رکھتے ہیں؟
احمد حسن العربی نے کہا کہ یہ معاہدہ جنگ کرنے کے لیے نہیں بلکہ جنگ کو روکنے کے لیے ہے، معاہدے کا مقصد امن و امان کی صورتحال کو قائم رکھنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس معاہدے کے نکات خفیہ ہی رہیں تو بہتر ہیں کیونکہ اسرائیل سمیت دیگر ملکوں نے بھی اپنے معاہدے خفیہ رکھے ہوئے ہیں۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے احمد حسن نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان پیش آنے والے معاہدے کے بعد سعودی عرب اور پاکستان کے عوام بہت خوش ہیں اور دنیا بھر کا میڈیا یہ کہہ رہا ہے کہ دونوں ملکوں کا یہ ماسٹر اسٹروک ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو یہ معاہدہ کسی لسانی یا ثقافتی یا تاریخی بنیادوں پر نہیں طے پایا بلکہ اسلام کی بنیادوں پر طے پایا۔
’دیگر ممالک بھی پاکستان سے دفاعی معاہدے کریں گے‘احمد حسن العربی نے کہا کہ سعودیہ کے اس اقدام کے بعد دیگر ممالک بھی پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کے پیش نظر اس سے معاہدے کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اکانومی کافی سالوں سے گراوٹ کا شکار ہے لیکن جیو اکانومی کبھی بھی جیو اسٹریٹجک سے اوپر نہیں جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ جتنے بھی بڑے ممالک ہیں امریکا، روس اور چین ان سب نے جیو اسٹریٹجی کی بدولت ہی دنیا میں اپنی ڈھاک بٹھائی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب کا سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق
احمد حسن العربی نے کہا کہ ہم سب کے سامنے ہے کہ سعودی عرب کے پاس بہترین اکانومی ہے اور ہمارے پاس بہترین دفاعی صلاحیت ہے تو دونوں مل کر بہترین حکمت عملی کے تحت اس پر کام کرسکتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ اس معاہدے کے بعد پاکستان کی اکانومی بہت اوپر چلی جائے گی۔
ایک اور سوال کے جواب میں احمد العربی نے کہا کہ بڑے تھنک ٹینکس اس حوالے سے بات کرچکے ہیں کہ 21ویں صدی مشرق والوں کی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاور شفٹ ہورہی ہے اور اس میں کوئی دورائے نہیں ہونی چاہیے کہ 21ویں صدی مشرق کی صدی ہوگی۔
احمد حسن العربی نے کہا کہ میری رائے کے مطابق اگلے 10 سال بعد اس ملک کا مستقبل بہت اچھا ہوگا جو دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان اپنا پول سیٹ کرلے گا اور اس وقت قدرتی طور پر پاکستان کے لیے حالات خوشگوار دکھائی دے رہے ہیں اور پاکستان ان تینوں ملکوں کے درمیان اپنی جگہ بخوبی بنا رہا ہے۔
’بہترین ملٹری ڈپلومیسی نوجوانوں کا مستقبل محفوظ بنارہی ہے‘انہوں نے کہا کہ یہ بات یہاں بہت اہم ہے کہ پاکستان کی ملٹری ڈپلومیسی اس وقت بہترین حکمت عملی کے تحت پاکستان کے نوجوانوں کے مستقبل کو محفوظ بنا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ کی تفصیلات
انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسی طرح پاکستان اپنے تعلقات مزید مضبوط کرتا رہا تو اگلے 10سالوں سے پہلے ہی پاکستان اس مقام پر ہوگا کہ جس کی رائے اور ہاں یا نہ طاقتور حلقوں میں مقدم ہوگی۔
احمد حسن العربی نے کہا کہ ’اگلے 10سالوں کے دوران پاکستان کا شمار دنیا کے ان 3،4 ملکوں میں ہوگا جن کی بات کہنے سے دنیا کے فیصلے ہوتے ہیں‘۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد حسن العربی پاکستان پاکستان اور سعودی عرب دفاعی معاہدہ سعودی عرب