Daily Ausaf:
2025-05-06@13:48:23 GMT

دھڑکتے دلوں کاعہد۔۔۔اتحادکی صدا

اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT

ہرعہدکی پیشانی پرکچھ سوال وقت کی آگ میں کندہ ہوتے ہیں،سوال جوصرف زخم نہیں ہوتے ، سمت کاتقاضاہوتے ہیں۔جب قومیں خواب بھول بیٹھیں، جب ملتیں نقشِ پاکی بجائے زنجیروں کاتعاقب کرنے لگیں،اورجب دل ایمان کے بجائے قومیتوں میں تقسیم ہوجائیں،توتب ایک صدااٹھتی ہے جورگِ جاں میں لرزہ پیداکرتی ہے۔ یہ تحریرایسی ہی ایک صداہے،تاریخ کے سینےمیں گونجتی ہوئی،شعورِامت کوجھنجھوڑتی ہوئی۔یہ محض الفاظ کامجموعہ نہیں، بلکہ اس خواب کی تجدید ہے جو بدرکی خاک پرابھرکرمکہ کوجھکاگیا،جواندلس کے ساحلوں سے نکل کردجلہ وفرات میں بہا،جو قسطنطنیہ کی فصیلوں سے ٹکراکروقت کی کروٹ بدل گیا۔
یہ وہ بیانیہ ہے جوامتِ محمدیہﷺکومحض ماضی کے فخرمیں نہیں،مستقبل کی تعمیر میں یکجادیکھناچاہتا ہے۔ یہ وہ دستک ہے جو دروازے پرنہیں،دلوں پر دی جارہی ہے۔یہ وہ پکارہے جوہراس فردکو مخاطب کرتی ہےجو اپنے سینے میں ایمان کی آخری چنگاری محسوس کرتاہے، خواہ وہ عالم ہویاعامی ،نوجوان ہویابزرگ،مشرق میں ہویامغرب میں۔یہ تحریر، یہ تمہیدایک اعلانِ عہدہے،ایساعہدجو کانفرنسوں کی رسمی قراردادوں سے نہیں،دلوں کی گہرائی سے نکلاہے۔ایساعہدجو ’’امتِ واحدہ ‘‘کے اس خواب کوتعبیردیناچاہتاہے جسے صدیوں سے سازشوں، جنگوں اورتفرقوں کی دھول نے ڈھانپ رکھاہے۔
تاریخ کی بھری پری شاہراہ پرجب کبھی سلطنتیں لرزیں اورجمہوریتیں متزلزل ہوئیں،تویہ زوال اکثرنعرہ ہائے جمہوریت سے نہیں، بلکہ شمشیروسنان کی جھنکارسےہوا۔آج جب بھارت میں انتخابات کاشوربلندہے اور قوم پرستی کی آگ بھڑک رہی ہے،ایک اوربھیانک ارتعاش سنائی دےرہاہے وہی جسےہم جنگ کاپیش خیمہ کہتے ہیں۔وزیراعظم نریندر مودی ،جو سیاست کوتماشہ بنانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں،اس بارنہ صرف ووٹ، بلکہ اقتدارکی خاطر،ایٹمی کھیل کو سڑک پرلانے کوآمادہ نظرآتے ہیں۔یادرہے،یہ کوئی روایتی سیاسی ہتھکنڈہ نہیں، یہ تاریخ سے انحراف، اخلاقی انکار،اورکروڑوں جانوں کے مقدرسے ظالمانہ کھلواڑہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی قوتیں،اور دونوں کے دامن میں ماضی کی تلخیاں۔اگریہ آتشیں کھیل واقعی بھڑک اٹھاتو اس کی تپش صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہے گی،بلکہ تہذیب کی بنیادیں بھی اس میں جھلس جائیں گی۔
جب جمہوریت کاہجوم میدانِ جنگ میں تبدیل ہوجائے،اورووٹوں کاتماشاتوپوں کے دہانے سے سجادیاجائے،تویہ صرف سیاست کی تذلیل نہیں بلکہ انسانیت کی بربادی کاپیش خیمہ بن جاتاہے۔ نریندر مودی کی زیرِقیادت بھارتیہ جنتا پارٹی آج جس راہ پرگامزن ہے،وہ نہ صرف جنوبی ایشیابلکہ عالمی امن کوایٹمی دھوئیں کی لپیٹ میں دھکیلنے کاعندیہ دے رہی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ فسطائیت جب سیاسی بحرانوں کاشکارہو،توقوم پرستی کے افیون سے عوام کو مدہوش کرکےجنگ کانعرہ بلندکرتی ہے۔ہٹلرنے بھی یہی کیا،مسولینی نے بھی یہی راہ اپنائی،اوراب مودی بھی اسی آتش فشاں کےدہانے پرکھڑاغرارہا ہے۔مگرفرق صرف یہ ہے کہ آج بھارت اور پاکستان ،دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اوراس بارخون کی ہولی صرف خنجرسے نہیں، تابکاری شعلوں سے کھیلی جائے گی۔
جہاں توپ وتفنگ کی گرج سنائی دیتی ہے، وہاں ایک اورمحاذ خامشی سے قائم ہے جب پانی کامحاذ،جب دریاہتھیاربن جائیں توقوموں کی بربادی کا آغازہوجاتاہے۔سندھ طاس معاہدہ، جوکبھی برصغیر کے عقل مندوں کاشاہکارسمجھا جاتاتھا، اب سیاسی خودغرضی کی بھینٹ چڑھتا جارہاہے ۔ مودی حکومت، جو داخلی ووٹ بینک کی ہوس میں اندھی ہوچکی ہے، پاکستان کے دریائوں پرہاتھ ڈالنےکی تیاری میں ہےگویاکسی قوم کی سانسوں کو بندکردینامقصودہو۔یعنی ایٹمی سائے میں ناچتی خنجرکی نوک پرانتخابی مہم کاآغاز ہے۔
یہ خاموش جنگ بندوق سے نہیں،بلکہ بوند بوندخشک ہوتے کنوئوں،مرجھاتے کھیتوں اوربے رونق گائوں کی صورت لڑی جارہی ہے۔ کیایہ ستم صرف پاکستان پر ہے؟ ہرگزنہیں،یہ وہ آگ ہے جواگربھڑکی،توپوراخطہ اس کی لپیٹ میں آئے گا۔
پاکستان،جوپہلے ہی معاشی،سیاسی اور ماحولیاتی بحرانوں سےدوچارہے،اب بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کاسامناکررہاہے۔سندھ طاس معاہدہ،جوکبھی عالمی سفارت کاری کی دانشمندی کی علامت سمجھاجاتا تھا، آج مودی حکومت کی تنگ نظرقوم پرستی کی ضدکی نذرہوتاجارہاہے۔یہ محض نہروں کامسئلہ نہیں،یہ پاکستان کی شہ رگ پرہاتھ ڈالنے کی کوشش ہے۔پانی پریہ ایٹمی جنگ خاموش بربادی کاایساآغازہے جودنیاکوتاریک کرسکتا ہے۔ کیاعالمی برادری نہیں جانتی کہ پانی سےزیادہ قیمتی اب کوئی وسیلہ نہیں؟کیااقوامِ متحدہ کے ایوان اتنے بےحس ہوچکے ہیں کہ وہ بھارت کے ہاتھوں خطے کوایک ’’ایٹمی واٹروار‘‘کی طرف بڑھتادیکھ کربھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟
ادھرایک اورگٹھ جوڑتاریخ کے صفحات پرنئی سیاہی سے لکھاجارہاہے ،بھارت اوراسرائیل کاباہمی اتحاد۔ایک،مشرق وسطیٰ میں ظلم کااستعارہ ،دوسرا،جنوبی ایشیامیں بالادستی کامتمنی۔ غزہ میں بچوں کےلاشے گرتے ہیں اورکشمیرمیں سناٹابولتا ہے مگردونوں جگہ یکساں سوچ، یکساں ظلم،اور یکساں جوازسنائی دیتاہے: دہشت گردی کے خلاف جنگ۔اسرائیل نہ صرف اپنےاسلحے بلکہ اپنے نظریات کے ساتھ بھارت کے شانہ بشانہ کھڑاہے۔یہ صرف ہتھیاروں کی شراکت نہیں؛یہ اخلاقی زوال کا اشتراک ہےایک ایسافکری محورجوآزادی کوجرم،اور ظلم کوحق سمجھتاہے۔ گویاصہیونی سائےتلے دہلی،تل ابیب، واشنگٹن کی نئی شیطانی مثلث وجودمیں آچکی ہے۔عالمی ضمیر کہاں ہے؟اورمغرب؟وہ اقوام جوخودکو انصاف کا علمبردار کہتی ہیں وہ کہاں ہیں؟جنہوں نے اقوام متحدہ کی چھت تلے قیامِ امن کے عہدباندھے تھے،آج وہ خامشی کی چادرتانے بیٹھے ہیں۔
برک کاوہ جملہ یادآتاہے،شرکی فتح کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اچھے لوگ خاموش رہیں۔
آج وہی خامشی،پورے وقارکے ساتھ، مغرب کے ہونٹوں پرطاری ہے کیونکہ بھارت چین کے مقابلےمیں مغرب کے لئےایک تزویراتی مہرہ ہے،اوراسرائیل ان کادیرینہ اتحادی۔ لہٰذااخلاقی قدریں تجارتی مفادات کے نیچے دفن ہوچکی ہیں۔
ایران اورپاکستان،دونوں، اس وقت اسرائیلی جارحیت کی مخالفت میں نمایاں صفوں میں کھڑے ہیں۔اسرائیل جس طرح فلسطین کوخون میں نہلا رہا ہے اوربھارت کے ساتھ عسکری اتحادقائم کرکے ہندو صہیونیت کاایک نیاباب رقم کررہاہے،وہ مسلم دنیاکوایک مشترکہ محاذ کی دعوت دےرہاہےیایوں کہیے،ایک تاریخی ذمہ داری سونپ رہاہے۔جب بھارت،اسرائیلی اسلحہ، اسرائیلی ٹیکنالوجی اور اسرائیلی ذہنیت کے ساتھ سرحد پر آکھڑاہوتا ہے ،تو یہ محض دوہمسایہ ممالک کی چپقلش نہیں رہتی یہ ایک تہذیبی معرکہ بن جاتاہے،جہاں ایک طرف طاقت کاغرورہے اوردوسری طرف صبر،عقل اوراصول۔
عالمی طاقتوں کی خاموشی،درحقیقت ایک متعین پالیسی ہے مشرق وسطیٰ میں تیل اوراسلحے کے سودے اورجنوب ایشیاء میں چین کو گھیرنے کی حکمت عملی، اخلاقیات کے ہراصول کو روندتے ہوئے آگے بڑھتی جارہی ہے۔یہ اقوامِ متحدہ نہیں،اقوامِ مفادات کادورہے اور عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لئے حق،سچ اورصداقت کا آئینہ دیکھنے سے قاصراوراندھی ہو چکی ہیں۔
یہ وہ دورہے جہاں اسرائیل کوغزہ پربمباری کے بعد’’اپنےدفاع کا حق‘‘ دیاجاتا ہے، مگر فلسطینیوں کے بچوں کی لاشوں پرنہ کوئی قرار دادپیش ہوتی ہے نہ تعزیت۔یہی رویہ اب پاکستان اورایران کے خلاف بھی اپنایاجارہاہے،یہ کوئی نئی بات یاتماشہ نہیں،اس سے قبل پچھلی چاردہائیوں سے افغانستان میں ظلم ودرندگی کاننگاناچ کرنے والی قوتیں کس قدر ذلیل ورسواہوکر نکلیں ہیں اوراب بھی ان کایہی حال ہوگاگویامظلوم کاجرم صرف یہ ہے کہ وہ مزاحمت کرتاہے۔
ایران،شہیدرجائی کی بندرگاہ کی راکھ سے بصیرت کی قندیلیں روشن کر رہا ہے۔ پاکستان،غزہ اور کشمیرکے زخموں کوسینے میں چھپائے،غیرت وحمیت کی تلوارتھامے کھڑاہے۔ان دونوں ممالک کے درمیان اتحادکی جوپکارآج سنائی دے رہی ہے ، وہ وقت کی سب سے اہم صدائیں ہیں۔ ایران، افغانستان اورپاکستان میں خاکسترمیں چمکتی روشنی سے انہیں خوف آرہاہے،اسی لئے یہ ان تینوں ممالک کو آپس میں مل بیٹھ کرکسی بھی اتحادمیں رکاوٹ بن کراپنے مفادات کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سے نہیں کے ساتھ

پڑھیں:

سندھ میں پانی کی قلت اور نقل مکانی کا مسئلہ

صاف پانی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے کیونکہ یہ نہ صرف ہماری جسمانی صحت کے لیے اہم ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ انسانی جسم کا بڑا حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے اور صاف پانی کے بغیر صحت مند زندگی ممکن نہیں۔ پینے، کھانے پکانے، زراعت اور صفائی ستھرائی کے تمام کاموں کے لیے صاف پانی ناگزیر ہے۔ آلودہ پانی سے کئی بیماریاں اور دیگر انفیکشنز پیدا ہوتے ہیں جو انسانی جان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

 بالخصوص سندھ کے ساحلی علاقے ، حالیہ برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں، حکومتی غفلت اور قدرتی وسائل کے بے تحاشا ضیاع کی وجہ سے شدید مسائل کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان مسائل میں سب سے اہم اور سنگین مسئلہ پینے کے صاف پانی کی قلت ہے، جو نہ صرف انسانی زندگیوں بلکہ مقامی حیاتیاتی نظام کو بھی متاثر کر رہا ہے۔

پانی کی کمی کے باعث ان علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی شروع ہو چکی ہے، جو مستقبل قریب میں ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔

 سندھ کے ساحلی علاقوں جیسے کہ کیٹی بندر، جھرک، گھوڑا باری، بادین، اور ٹھٹھہ میں پینے کے پانی کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ یہ علاقے کبھی دریائے سندھ کے پانی سے بھرپور ہوا کرتے تھے، لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔

کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی چھوڑنے کی کمی کی وجہ سے سمندر کا کھارا پانی دریا میں داخل ہوگیا ہے، جس نے زیرِ زمین میٹھے پانی کو آلودہ کردیا ہے۔ سمندر کی سطح میں اضافہ اور زمین کا کٹاؤ ان علاقوں کی زرخیز زمینوں کو برباد کررہا ہے، جس سے زراعت اور پینے کے پانی کے ذرایع ناپید ہوگئے ہیں۔

 حکومتی سطح پر مناسب ڈیم، آبی ذخائر اور صاف پانی کی اسکیمیں نافذ نہیں کی گئیں، جس کا خمیازہ مقامی آبادی بھگت رہی ہے۔ پانی کی قلت اور زمین کی زرخیزی ختم ہونے کے باعث ہزاروں خاندان سندھ کے ساحلی علاقوں سے ہجرت کر رہے ہیں۔

یہ خاندان ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور دیگر علاقوں سے اندرون سندھ ہجرت کر کے میرپورخاص، عمرکوٹ، مٹیاری، نوابشاہ اور حیدرآباد جیسے علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے کیونکہ وہ اپنی زمین، مویشی اور روزگار کھو چکے ہیں۔

تھرپارکر کا علاقہ بھی پانی کی کمی سے شدید متاثر ہے۔ یہاں نہ صرف انسان بلکہ جانور بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اطلاعات آئی ہیں کہ تھر کے مختلف علاقوں میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے پچاس سے زائد مور مرگئے۔ مور، جو تھر کا خوبصورت اور مقدس پرندہ مانا جاتا ہے، اس سانحے سے تھر کے ماحولیاتی نظام کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے۔

ایسے مشکل حالات میں فلاحی تنظیموں کو آگے آنا ہوگا۔ جے ڈی سی اور دیگر این جی اوز جیسے کہ ایدھی فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر، ہینڈز اور انڈس ہاسپٹل کو چاہیے کہ وہ ان بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے خصوصی امدادی مہمات شروع کریں۔

ان خاندانوں کو رہائش، خوراک، طبی امداد اور صاف پانی کی فراہمی نہایت ضروری ہے۔جے ڈی سی اور دیگر ادارے اگر منظم انداز میں کام کریں تو وہ عارضی کیمپ قائم کر کے ان لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کی طبی نگہداشت اور تعلیم کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔سندھ کے ساحلی اور صحرائی علاقوں میں پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے فلاحی تنظیموں کو درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں۔

ہینڈ پمپس اور نلکوں کی تنصیب: گاؤں گاؤں میں ہینڈ پمپس اور نلکے لگائے جائیں تاکہ زیر زمین میٹھا پانی استعمال کیا جا سکے۔

ریورس آسموسز (RO) پلانٹس کی تنصیب:کھارے پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے RO پلانٹس لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کئی تنظیمیں پہلے سے یہ کام کر رہی ہیں، لیکن یہ دائرہ کار ابھی بہت محدود ہے۔

بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے: بارانی علاقوں میں پانی کے ذخائر اور چھوٹے ڈیم بنا کر بارش کے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

پانی کے ٹینکرز کی سہولت: جب تک مستقل بندوبست نہ ہو، تب تک پانی کے ٹینکرز کے ذریعے فراہمی یقینی بنائی جائے۔

حکومت کو چاہیے کہ صاف پانی کی اہمیت کے بارے میں ایک منظم آگاہی مہم چلائے تاکہ عوام کو صاف پانی کے استعمال، اس کی حفاظت، اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جا سکیں۔ گاؤں، قصبوں اور شہروں میں پینے کے پانی کے ذرایع اکثر آلودہ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اگر عوام کو یہ شعور دیا جائے کہ صاف پانی کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اسے محفوظ کیسے رکھا جا سکتا ہے، تو صحت کے مسائل میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔آگاہی مہم میں میڈیا، اسکولوں، مساجد اور کمیونٹی سینٹرز کا کردار بہت اہم ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پمفلٹس، اشتہارات، ڈاکیومنٹریز، اور ورکشاپس کے ذریعے ہر طبقہ فکر تک یہ پیغام پہنچائے کہ صاف پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کا تحفظ ہر شہری کی ذمے داری ہے۔

ساتھ ہی، حکومت کو پانی کے فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب اور موجودہ واٹر سپلائی سسٹم کی بہتری پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ عملی اقدامات کے ذریعے آگاہی کا پیغام مؤثر ہو سکے۔سندھ کے بارے لوگوں کو آگے آکر پانی کے حوالے سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

سندھ کے بااثر افراد، جن میں سیاستدان، جاگیردار، تاجر اور تعلیم یافتہ طبقہ شامل ہے، ان پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بحران کا ادراک کریں اور عملی اقدامات اٹھائیں۔ انھیں صرف بیانات تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ صاف پانی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری، آگاہی مہمات، اور حکومتی سطح پر دباؤ ڈالنے جیسے اقدامات کرنے چاہئیں۔

جب بااثر افراد اپنی حیثیت اور وسائل کو عوامی فلاح کے لیے استعمال کریں گے تو نہ صرف لاکھوں زندگیاں بہتر ہوں گی بلکہ ایک مثبت سماجی تبدیلی کی بنیاد بھی پڑے گی۔پانی کی قلت صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق، صحت، معیشت اور تعلیم کے مسائل سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ سندھ کے ساحلی اور صحرائی علاقوں میں پانی کی کمی نے انسانوں، جانوروں اور فطرت کو شدید متاثر کیا ہے۔ یہ ایک قومی ایمرجنسی کی صورت اختیار کرچکی ہے، جس پر فوری توجہ درکار ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے بلکہ فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر طویل مدتی پالیسی ترتیب دے۔ بصورت دیگر، آنے والے برسوں میں پانی پر جنگیں، بڑے پیمانے پر ہجرت اور انسانی جانوں کا ضیاع ناگزیر ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ہم دہشت گردی برآمد نہیں کررہے بلکہ ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں، بلاول بھٹو
  • خاموشی کی قیمت کب تک چُکائیں؟
  • یہ وقت کسی کی آزادی کا نہیں بلکہ قومی اتفاق و اتحاد کا ہے. آفتاب شیرپاﺅ
  • پاری کا سیب سسپلو، قدرت کا خوشبودار تحفہ!
  • یہ وقت کسی کی آزادی کا نہیں بلکہ قومی اتفاق و اتحاد کا ہے، آفتاب خان شیرپاؤ
  • گوجرانوالہ کے پہلوان دفاع وطن کے لیے پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ سینہ سپر
  • شاہراہ قراقرم کو حقیقت بنانے والے چینی محنت کشوں کا خاموش قبرستان
  • سندھ میں پانی کی قلت اور نقل مکانی کا مسئلہ
  • واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی ولولہ انگیز تقریب، ’ہر پاکستانی خود کو سپاہی محسوس کرتا ہے‘