دھڑکتے دلوں کاعہد۔۔۔اتحادکی صدا
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
ہرعہدکی پیشانی پرکچھ سوال وقت کی آگ میں کندہ ہوتے ہیں،سوال جوصرف زخم نہیں ہوتے ، سمت کاتقاضاہوتے ہیں۔جب قومیں خواب بھول بیٹھیں، جب ملتیں نقشِ پاکی بجائے زنجیروں کاتعاقب کرنے لگیں،اورجب دل ایمان کے بجائے قومیتوں میں تقسیم ہوجائیں،توتب ایک صدااٹھتی ہے جورگِ جاں میں لرزہ پیداکرتی ہے۔ یہ تحریرایسی ہی ایک صداہے،تاریخ کے سینےمیں گونجتی ہوئی،شعورِامت کوجھنجھوڑتی ہوئی۔یہ محض الفاظ کامجموعہ نہیں، بلکہ اس خواب کی تجدید ہے جو بدرکی خاک پرابھرکرمکہ کوجھکاگیا،جواندلس کے ساحلوں سے نکل کردجلہ وفرات میں بہا،جو قسطنطنیہ کی فصیلوں سے ٹکراکروقت کی کروٹ بدل گیا۔
یہ وہ بیانیہ ہے جوامتِ محمدیہﷺکومحض ماضی کے فخرمیں نہیں،مستقبل کی تعمیر میں یکجادیکھناچاہتا ہے۔ یہ وہ دستک ہے جو دروازے پرنہیں،دلوں پر دی جارہی ہے۔یہ وہ پکارہے جوہراس فردکو مخاطب کرتی ہےجو اپنے سینے میں ایمان کی آخری چنگاری محسوس کرتاہے، خواہ وہ عالم ہویاعامی ،نوجوان ہویابزرگ،مشرق میں ہویامغرب میں۔یہ تحریر، یہ تمہیدایک اعلانِ عہدہے،ایساعہدجو کانفرنسوں کی رسمی قراردادوں سے نہیں،دلوں کی گہرائی سے نکلاہے۔ایساعہدجو ’’امتِ واحدہ ‘‘کے اس خواب کوتعبیردیناچاہتاہے جسے صدیوں سے سازشوں، جنگوں اورتفرقوں کی دھول نے ڈھانپ رکھاہے۔
تاریخ کی بھری پری شاہراہ پرجب کبھی سلطنتیں لرزیں اورجمہوریتیں متزلزل ہوئیں،تویہ زوال اکثرنعرہ ہائے جمہوریت سے نہیں، بلکہ شمشیروسنان کی جھنکارسےہوا۔آج جب بھارت میں انتخابات کاشوربلندہے اور قوم پرستی کی آگ بھڑک رہی ہے،ایک اوربھیانک ارتعاش سنائی دےرہاہے وہی جسےہم جنگ کاپیش خیمہ کہتے ہیں۔وزیراعظم نریندر مودی ،جو سیاست کوتماشہ بنانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں،اس بارنہ صرف ووٹ، بلکہ اقتدارکی خاطر،ایٹمی کھیل کو سڑک پرلانے کوآمادہ نظرآتے ہیں۔یادرہے،یہ کوئی روایتی سیاسی ہتھکنڈہ نہیں، یہ تاریخ سے انحراف، اخلاقی انکار،اورکروڑوں جانوں کے مقدرسے ظالمانہ کھلواڑہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی قوتیں،اور دونوں کے دامن میں ماضی کی تلخیاں۔اگریہ آتشیں کھیل واقعی بھڑک اٹھاتو اس کی تپش صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہے گی،بلکہ تہذیب کی بنیادیں بھی اس میں جھلس جائیں گی۔
جب جمہوریت کاہجوم میدانِ جنگ میں تبدیل ہوجائے،اورووٹوں کاتماشاتوپوں کے دہانے سے سجادیاجائے،تویہ صرف سیاست کی تذلیل نہیں بلکہ انسانیت کی بربادی کاپیش خیمہ بن جاتاہے۔ نریندر مودی کی زیرِقیادت بھارتیہ جنتا پارٹی آج جس راہ پرگامزن ہے،وہ نہ صرف جنوبی ایشیابلکہ عالمی امن کوایٹمی دھوئیں کی لپیٹ میں دھکیلنے کاعندیہ دے رہی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ فسطائیت جب سیاسی بحرانوں کاشکارہو،توقوم پرستی کے افیون سے عوام کو مدہوش کرکےجنگ کانعرہ بلندکرتی ہے۔ہٹلرنے بھی یہی کیا،مسولینی نے بھی یہی راہ اپنائی،اوراب مودی بھی اسی آتش فشاں کےدہانے پرکھڑاغرارہا ہے۔مگرفرق صرف یہ ہے کہ آج بھارت اور پاکستان ،دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اوراس بارخون کی ہولی صرف خنجرسے نہیں، تابکاری شعلوں سے کھیلی جائے گی۔
جہاں توپ وتفنگ کی گرج سنائی دیتی ہے، وہاں ایک اورمحاذ خامشی سے قائم ہے جب پانی کامحاذ،جب دریاہتھیاربن جائیں توقوموں کی بربادی کا آغازہوجاتاہے۔سندھ طاس معاہدہ، جوکبھی برصغیر کے عقل مندوں کاشاہکارسمجھا جاتاتھا، اب سیاسی خودغرضی کی بھینٹ چڑھتا جارہاہے ۔ مودی حکومت، جو داخلی ووٹ بینک کی ہوس میں اندھی ہوچکی ہے، پاکستان کے دریائوں پرہاتھ ڈالنےکی تیاری میں ہےگویاکسی قوم کی سانسوں کو بندکردینامقصودہو۔یعنی ایٹمی سائے میں ناچتی خنجرکی نوک پرانتخابی مہم کاآغاز ہے۔
یہ خاموش جنگ بندوق سے نہیں،بلکہ بوند بوندخشک ہوتے کنوئوں،مرجھاتے کھیتوں اوربے رونق گائوں کی صورت لڑی جارہی ہے۔ کیایہ ستم صرف پاکستان پر ہے؟ ہرگزنہیں،یہ وہ آگ ہے جواگربھڑکی،توپوراخطہ اس کی لپیٹ میں آئے گا۔
پاکستان،جوپہلے ہی معاشی،سیاسی اور ماحولیاتی بحرانوں سےدوچارہے،اب بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کاسامناکررہاہے۔سندھ طاس معاہدہ،جوکبھی عالمی سفارت کاری کی دانشمندی کی علامت سمجھاجاتا تھا، آج مودی حکومت کی تنگ نظرقوم پرستی کی ضدکی نذرہوتاجارہاہے۔یہ محض نہروں کامسئلہ نہیں،یہ پاکستان کی شہ رگ پرہاتھ ڈالنے کی کوشش ہے۔پانی پریہ ایٹمی جنگ خاموش بربادی کاایساآغازہے جودنیاکوتاریک کرسکتا ہے۔ کیاعالمی برادری نہیں جانتی کہ پانی سےزیادہ قیمتی اب کوئی وسیلہ نہیں؟کیااقوامِ متحدہ کے ایوان اتنے بےحس ہوچکے ہیں کہ وہ بھارت کے ہاتھوں خطے کوایک ’’ایٹمی واٹروار‘‘کی طرف بڑھتادیکھ کربھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟
ادھرایک اورگٹھ جوڑتاریخ کے صفحات پرنئی سیاہی سے لکھاجارہاہے ،بھارت اوراسرائیل کاباہمی اتحاد۔ایک،مشرق وسطیٰ میں ظلم کااستعارہ ،دوسرا،جنوبی ایشیامیں بالادستی کامتمنی۔ غزہ میں بچوں کےلاشے گرتے ہیں اورکشمیرمیں سناٹابولتا ہے مگردونوں جگہ یکساں سوچ، یکساں ظلم،اور یکساں جوازسنائی دیتاہے: دہشت گردی کے خلاف جنگ۔اسرائیل نہ صرف اپنےاسلحے بلکہ اپنے نظریات کے ساتھ بھارت کے شانہ بشانہ کھڑاہے۔یہ صرف ہتھیاروں کی شراکت نہیں؛یہ اخلاقی زوال کا اشتراک ہےایک ایسافکری محورجوآزادی کوجرم،اور ظلم کوحق سمجھتاہے۔ گویاصہیونی سائےتلے دہلی،تل ابیب، واشنگٹن کی نئی شیطانی مثلث وجودمیں آچکی ہے۔عالمی ضمیر کہاں ہے؟اورمغرب؟وہ اقوام جوخودکو انصاف کا علمبردار کہتی ہیں وہ کہاں ہیں؟جنہوں نے اقوام متحدہ کی چھت تلے قیامِ امن کے عہدباندھے تھے،آج وہ خامشی کی چادرتانے بیٹھے ہیں۔
برک کاوہ جملہ یادآتاہے،شرکی فتح کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اچھے لوگ خاموش رہیں۔
آج وہی خامشی،پورے وقارکے ساتھ، مغرب کے ہونٹوں پرطاری ہے کیونکہ بھارت چین کے مقابلےمیں مغرب کے لئےایک تزویراتی مہرہ ہے،اوراسرائیل ان کادیرینہ اتحادی۔ لہٰذااخلاقی قدریں تجارتی مفادات کے نیچے دفن ہوچکی ہیں۔
ایران اورپاکستان،دونوں، اس وقت اسرائیلی جارحیت کی مخالفت میں نمایاں صفوں میں کھڑے ہیں۔اسرائیل جس طرح فلسطین کوخون میں نہلا رہا ہے اوربھارت کے ساتھ عسکری اتحادقائم کرکے ہندو صہیونیت کاایک نیاباب رقم کررہاہے،وہ مسلم دنیاکوایک مشترکہ محاذ کی دعوت دےرہاہےیایوں کہیے،ایک تاریخی ذمہ داری سونپ رہاہے۔جب بھارت،اسرائیلی اسلحہ، اسرائیلی ٹیکنالوجی اور اسرائیلی ذہنیت کے ساتھ سرحد پر آکھڑاہوتا ہے ،تو یہ محض دوہمسایہ ممالک کی چپقلش نہیں رہتی یہ ایک تہذیبی معرکہ بن جاتاہے،جہاں ایک طرف طاقت کاغرورہے اوردوسری طرف صبر،عقل اوراصول۔
عالمی طاقتوں کی خاموشی،درحقیقت ایک متعین پالیسی ہے مشرق وسطیٰ میں تیل اوراسلحے کے سودے اورجنوب ایشیاء میں چین کو گھیرنے کی حکمت عملی، اخلاقیات کے ہراصول کو روندتے ہوئے آگے بڑھتی جارہی ہے۔یہ اقوامِ متحدہ نہیں،اقوامِ مفادات کادورہے اور عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لئے حق،سچ اورصداقت کا آئینہ دیکھنے سے قاصراوراندھی ہو چکی ہیں۔
یہ وہ دورہے جہاں اسرائیل کوغزہ پربمباری کے بعد’’اپنےدفاع کا حق‘‘ دیاجاتا ہے، مگر فلسطینیوں کے بچوں کی لاشوں پرنہ کوئی قرار دادپیش ہوتی ہے نہ تعزیت۔یہی رویہ اب پاکستان اورایران کے خلاف بھی اپنایاجارہاہے،یہ کوئی نئی بات یاتماشہ نہیں،اس سے قبل پچھلی چاردہائیوں سے افغانستان میں ظلم ودرندگی کاننگاناچ کرنے والی قوتیں کس قدر ذلیل ورسواہوکر نکلیں ہیں اوراب بھی ان کایہی حال ہوگاگویامظلوم کاجرم صرف یہ ہے کہ وہ مزاحمت کرتاہے۔
ایران،شہیدرجائی کی بندرگاہ کی راکھ سے بصیرت کی قندیلیں روشن کر رہا ہے۔ پاکستان،غزہ اور کشمیرکے زخموں کوسینے میں چھپائے،غیرت وحمیت کی تلوارتھامے کھڑاہے۔ان دونوں ممالک کے درمیان اتحادکی جوپکارآج سنائی دے رہی ہے ، وہ وقت کی سب سے اہم صدائیں ہیں۔ ایران، افغانستان اورپاکستان میں خاکسترمیں چمکتی روشنی سے انہیں خوف آرہاہے،اسی لئے یہ ان تینوں ممالک کو آپس میں مل بیٹھ کرکسی بھی اتحادمیں رکاوٹ بن کراپنے مفادات کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ ہواور بھارتی کوششوں سے اس میں سیاست نہ گھسیٹی جائے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے بریانی بنے اور اس میں گوشت نہ ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ بریانی خوشبو دیتی ہے اور بھارت کی سیاست میدان میں بدبو۔
آخر کب تک پاکستان ہی کھیلوں میں ’مہان اسپورٹس مین اسپرٹ‘ دکھاتا رہے اور بھارت بار بار سیاست کی جھاڑو پھیرتا رہے؟
ذرا کھیلوں کے مقابلوں کی ایک فہرست تو بنائیں اور دیکھیں کہ جہاں جہاں پاکستان کی شرکت ہوتی ہے تو کیسے بھارتی حکام کھیل سے کھلواڑ میں لگ جاتے ہیں۔ اور کرکٹ میں سیاست تو بھارتیوں کو محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔
لگتا ہے بھارتی بورڈ نے کرکٹ کے ضابطے کی کتاب کو الماری میں رکھ کر سیاست کا منشور لا کر پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ٹاس کے وقت ہاتھ ملانے سے انکار، میچ کے بعد کھلاڑیوں کو ڈریسنگ روم میں بند کرنا اور پھر فتح کو فوج کے نام کر دینا۔ یہ کھیل کم اور نالی کے کنارے لگایا گیا سیاسی پوسٹر زیادہ لگتا ہے۔
اینڈی پائی کرافٹ یا بھارتی پائی کرافٹ؟پی سی بی کا موقف بالکل درست ہے۔ میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کھیل کی اسپرٹ کے بجائے بھارتی ’اِسپرٹ‘ میں زیادہ ڈوبے نظر آئے۔
جب ریفری ہی ڈرامہ کرے تو پھر کھیل کہاں بچے گا؟ اسی لیے پاکستان نے دو ٹوک کہہ دیا کہ، صاحب! اگر یہ میچ ریفری تبدیل نہ ہوا تو ہم بھی میچ کھیلنے نہیں آئیں گے۔ یعنی پہلی بار پاکستان نے کرکٹ کے میدان میں وہی رویہ اپنایا جو بھارت دہائیوں سے اپنا رہا ہے، بس فرق یہ ہے کہ پاکستان کی منطق میں وزن ہے، بھارت کی سیاست میں صرف خالی برتن کا ڈھکن۔
بھارتی کپتان کی اسپیچ یا فلمی ڈائیلاگ؟سوریہ کمار یادو کی تقریر تو ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی کچرا فلمی ولن ڈائیلاگ مار رہا ہو
’یہ جیت ہم بھارتی افواج کے نام کرتے ہیں۔۔۔‘
صاحب! اگر کرکٹ بھی جنگی بیانیہ بنانی ہے تو میدان میں گیند کے بجائے توپ گولے لے آئیں۔ خیر پاکستانی عوام نے سوشل میڈیا پر خوب یاد دلایا کہ اصل جنگوں میں بھارت کے ’جیت کے ڈائیلاگ‘ کہاں گم ہو گئے تھے۔
کیا وقت آگیا بھارت کو کرکٹ کے ذریعے فوجی فتوحات کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ شاید بھارتی فوجی تاریخ اتنی پھیکی اور شکست خوردہ بن چکی ہے کہ اب اس کے لیے فلموں کے بعد کھیل میں بھی کمزور ’اسپیشل افیکٹس‘ ڈالنے پڑ گئے ہیں۔
کھیل کی روایات بمقابلہ بھارتی اناہاتھ ملانے کی روایت بھارت کے لیے انا کا مسئلہ بن گئی۔ کھیل ختم ہوا تو کھلاڑی ہاتھ ملانے کے بجائے سیدھے ڈریسنگ روم بھاگ دوڑے اور پھر حیرت کرتے ہیں کہ پاکستان نے تقریبِ اختتامیہ کا بائیکاٹ کیوں کیا؟
بھائی، آئینہ دکھانے کا مزہ تب ہی آتا ہے جب سامنے والا بد شکل خود کو دیکھنے کے لیے تیار ہو۔
اصل نقصان کس کا؟یہ سب جان لیں کہ پاکستان سے نہ کھیلنے کا سب سے زیادہ نقصان بھارت کو ہوگا پاکستان کو نہیں؟ کیونکہ اسپانسرشپ کا خزانہ پاک-بھارت میچز میں ہی سب سے زیادہ بہتا ہے۔
پاکستان اگر دبنگ اعلان کر دے کہ ’بھارت کھیل کو کھیل سمجھو ورنہ ہم کھیلنا چھوڑ دیں گے‘ تو سب سے بڑا دھچکا بھارت کے ان بڑے اسپانسرز کو لگے گا جو صرف پیسے کے لیے ’مہان کرکٹ‘ کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔
پاکستان کو اب واقعی اسپورٹس مین اسپرٹ کی اسپرٹ چھوڑ کر بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دینا ہوگا۔ پاک بھارت کرکٹ نہیں ہوگی تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی اسپورٹس مین اسپرٹ کو کرکٹ کھیلنے والے ممالک اور تجزیہ کار قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔
بھارت کو پیغامبھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ رن سے جیتا جاتا ہے، ڈرامے سے نہیں۔ پاکستان نے عزت و وقار کی قیمت پر کھیلنے سے انکار کر کے بتا دیا ہے کہ کھیل کی اصل روح ابھی زندہ ہے۔
بھارت جتنا مرضی سیاست کے پتھر پھینکے، پاکستان کے پاس جواب میں کرکٹ کی گیند اور میزائل دونوں موجود ہیں۔
اب گیند بھارت کے کورٹ میں ہے، کھیلنا ہے تو کھیل کے اصولوں پر، ورنہ سیاست کے اسٹیج پر جا کر ڈھول پیٹ کر اپنی عوام کو خوش کرتے رہو۔
خیر اس کا جواب بھی ویسا ہی ملے گا جو مئی میں ملا تھا جس پرابھی تک بھارت تلمائے ہوئے ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔
wenews ایشیا کپ پاک بھارت میچ پی سی بی وی نیوز