آج اگر تقویم کے صفحے پر امجد اسلام امجد کا نام لکھا ہو، تو یہ محض ایک تاریخ نہیں بلکہ اردو ادب کی نثر و نظم میں گونجتی ایک صدائے جاوید ہے۔ 4 اگست، وہ دن جب ایک شاعر، ڈرامہ نگار، مترجم، نقاد اور درد آشنا انسان نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ آج ان کی سالگرہ ہے، اور اگرچہ وہ اب اس دنیا میں نہیں، مگر ان کی شاعری کی دھیمی خوشبو، ان کی نثر کی تہذیب، اور ان کے لہجے کی مٹھاس اب بھی ہماری سانسوں میں بسی ہوئی ہے۔
امجد اسلام امجد وہ نام ہے جس نے لفظ کو احترام دیا، جذبے کو وقار بخشا، اور نظم کو وہ نئی دھج عطا کی جو اس سے پہلے کم ہی دیکھنے کو ملی۔ ان کی تحریروں میں جو سچائی ہے، جو سماجی بصیرت اور اندر کی روشنی ہے، وہ قاری کے دل کو نہ صرف چھوتی ہے بلکہ دیر تک وہیں ٹھہری رہتی ہے۔ انہوں نے محبت، ہجرت، جدائی، وقت اور معاشرتی بے حسی کو جس ہنر مندی سے بیان کیا، وہ صرف ایک فنکار کی نہیں بلکہ ایک درد مند انسان کی گواہی ہے۔
ان کا تعلق لاہور سے تھا، مگر ان کی شاعری کی حد بندی نہ مشرق جانتی تھی، نہ مغرب۔ ہندوستان کے مشاعروں میں ان کے اشعار پر جو سماں بندھتا تھا، وہ صرف لفظوں کی فتح نہیں تھی، یہ دلوں کی تسخیر تھی۔ ان کی آواز، ان کا اعتماد، ان کی متانت، ان کے لہجے کا وقار، سب کچھ مل کر ایک ایسا منظر بناتے تھے جو سننے والے کے اندر دیر تلک گونجتا رہتا۔
ان کے ڈرامے ’وارث‘، ’فشار‘ اور ’دن‘ جیسے شاہکار، نہ صرف ٹیلی ویژن کے عہد کی شناخت بنے بلکہ ہمارے سماج کی سچائیاں بھی آئینہ ہوئیں۔ وہ کہانی لکھتے تھے مگر دراصل زندگی کو نچوڑ کر پیش کرتے تھے۔ ان کے کردار محض تخیل نہیں ہوتے تھے، وہ ہمارے آس پاس کے انسانوں کی آوازیں ہوتے تھے۔
امجد صاحب نے ترجمہ نگاری میں بھی خود کو منوایا۔ پابلو نرودا اور نجیب محفوظ جیسے بڑے ادیبوں کی تخلیقات کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال کر انہوں نے عالمی ادب کو مقامی ذائقہ دیا اور ثابت کیا کہ ادب سرحدوں کا پابند نہیں ہوتا۔
وہ محض شاعر یا ادیب نہیں تھے، وہ ہمارے عہد کا اخلاقی حافظہ تھے۔ انہوں نے کبھی اپنی شاعری کو دکھاوا نہیں بنایا، بلکہ اسے ایک روحانی تجربہ بنایا۔ ان کی شخصیت میں جو وقار، جو انکساری اور جو ظرف تھا، وہ آج کے ہنگامہ خیز ماحول میں مفقود ہوتا جا رہا ہے۔
آج جب ہم ان کا یومِ پیدائش مناتے ہیں، تو یہ صرف ایک ادیب کی یاد نہیں بلکہ اس تہذیب، اس جمالیاتی ذوق، اور اس سچائی کی یاد ہے جس کی ہمیں اب بھی ضرورت ہے۔
امجد اسلام امجد ہر اس دل میں زندہ ہیں جو لفظ سے محبت کرتا ہے، جو معنی کی تلاش میں سرگرداں ہے، اور جو حسنِ اظہار کو زندگی کا زادِ راہ مانتا ہے۔ خدا کرے، امجد صاحب کے لفظ ہمیشہ اسی طرح مہکتے رہیں اور ہم اسی خوشبو سے زندہ رہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امجد اسلام امجد مشکورعلی وارث وی نیوز امجد اسلام امجد
پڑھیں:
صبح صبح دعائیہ کلمات کے پیغامات اور ہم
صبح صبح انفرادی طور پر اور گروپ میں اجتماعی طور پر اس قدر نیک افعال، اعمال اور دعائیہ کلمات کے پیغامات کی بھرمار ہوتی ہے کہ آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اتنے سارے نیک لوگ معاشرے میں کہاں رہتے ہیں؟
اگر وہ اسی معاشرے میں رہتے ہیں تو معاشرے کا یہ حال کیوں ہے؟ اگر آپ کی عبادات مسجد کے باہر آپ کے روزمرہ کے افعال میں نظر نہیں آتی تو اسے عادت یا عادات تو کہا جاسکتا ہے عبادت یا عبادات نہیں کہہ سکتے۔
میرے ایک عزیز دوست نے میری تحاریر پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ میں روزمرہ کے معروف موضوعات کو چھوڑ کر معاشرے کے حساس موضوعات پر لکھتا ہوں کہ جس پر عام طور پر لکھاری لکھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ انھوں نے تو اجتناب سے بھی سخت لفظ استعمال کیا تھا پر میں نے اجتناب پر قناعت کرلی۔ میرا جواب یہ تھا کہ اگر ہم واقعی معاشرے میں مثبت تبدیلی چاہتے ہیں تو کسی کو تو ان موضوعات کا انتخاب کرنا ہوگا، جب کہ ہمیں اس بات کی بھی آگہی ہے کہ معاشرہ ایسی نشاندہی کرنے والے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔
ایک خاتون نے اپنے شوہر کےلیے لکھا کہ ’’میرا شوہر اتنا بھی برا نہیں ہے جتنا شناختی کارڈ میں نظر آتا ہے اور اتنا اچھا بھی نہیں جتنا فیس بک پر نظر آتا ہے‘‘۔ کوئی بھی معاشرہ نہ مکمل طور پر اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر برا ہوتا ہے۔ معاشرے میں افراد کی ایک مخصوص تعداد کہ جسے critical mass کہتے ہیں اگر وہ اچھائی کی جانب راغب ہے تو وہ معاشرہ اچھا کہلائے گا اور اگر یہی کریٹیکل ماس برائی کی جانب راغب ہو تو وہ معاشرہ برا کہلائے گا۔
موجودہ حالات میں ہمارے معاشرے کو اچھا کہنا خاصا مشکل کام ہے مگر یقین مانیے ہمارا معاشرہ اتنا بھی برا نہیں۔ اشرافیہ کی چوریوں کی وجہ سے معاشرے میں جو وسائل کی قلت ہوگئی ہے اس سے مجبور ہوکر معاشرے نے موجودہ رویہ اختیار کرلیا ہے۔ اگر وسائل کی تقسیم منصفانہ ہوجائے اور عدل کا نظام یہاں رائج کردیا جائے تو اس معاشرے کو بہت کم وقت میں ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہر محلے کی مساجد میں کسی بھی نماز میں جتنے نمازی ہوتے ہیں اگر وہ سورۃ فاتحہ کا ترجمہ پڑھ لیں اور اس پر خلوص دل سے اپنی روزمرہ کی زندگی میں عملدرآمد کرنا شروع کردیں تو یہ تعداد بھی اس محلے کےلیے کریٹیکل ماس ہوگی اور اس محلے کی کایا پلٹنے کےلیے کافی ہے۔ اس طرح سے رفتہ رفتہ پورا ملک سدھارا جاسکتا ہے لیکن اگر قوم نے منافقت ہی کرنی ہے تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں اور اس کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ پھر اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔
آخر میں حسب روایت ایک کہانی اور اختتام۔ اس کہانی میں تمام لوگ بشمول میرے جو صبح بخیر اور جمعہ مبارک کے پیغامات بھیجتے ہیں، ان کےلیے سبق ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک پاکستانی نے سویڈش لڑکی سے شادی کرلی لیکن لڑکی اپنے مذہب پر ہی قائم رہی۔ شادی کے بعد پاکستانی صاحب اسے اسلام اور اسلام کی تعلیمات کے بارے میں بتاتے رہے۔ وہ اسے بتاتے کہ اسلام محبت کا دین ہے، عفو و درگزر کا مذہب ہے۔ حسن و سلوک اور حسن معاملہ کا مذہب ہے۔ نفرت اور قطع تعلقی کو اچھا نہیں سمجھتا، رحم اور برداشت کی تعلیم دیتا ہے۔ بالآخر، ایک دن اس سویڈش لڑکی نے ان تعلیمات اور اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
پاکستانی صاحب ایک بار چھٹیاں گزارنے پاکستان تشریف لائے تو اپنی سویڈش بیوی کو بھی ساتھ لیتے آئے۔ کوئی ایک ہفتہ اپنے خاوند کے گھر والوں کے ساتھ رہنے کے بعد سویڈش بی بی کہنے لگی کہ تم اپنے گھر والوں کو بھی اسلام کی تبلیغ کرو، تاکہ وہ بھی مسلمان ہوجائیں اور گھر کا ماحول بہتر ہوجائے۔
اس سے آگے شاید کچھ نہیں لکھا جاسکتا۔ کل جب آپ صبح بخیر کا پیغام بھیجیں تو اس کہانی کو ضرور یاد کیجیے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔