Express News:
2025-08-03@00:28:13 GMT

بارشیں اورسیلاب: قدرتی آفات میں تیزی

اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT

گزشتہ دہائی میں دنیا بھر میں شدید بارشوں اور تباہ کن سیلابوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، وہ مظاہرجو کبھی صدیوں میں ایک بار ہوتے تھے، اب ہر چند سال بعد دہرائے جا رہے ہیں۔

 کیا یہ قدرت کا معمول ہے یا موسمیاتی تبدیلی کی ہولناک حقیقت؟ پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، یورپ، کینیڈا اور افریقہ،کہیں زمین دھنس رہی ہے تو کہیں پانی سب کچھ بہا لے جا رہا ہے۔ کیا ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ’’ قدرتی آفت‘‘ محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک مسلسل خطرہ بن چکی ہے؟عالمی سطح پر بارشوں اور سیلابوں میں ہونے والے اضافے کے بارے میںاقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ’’ اسٹیٹ آف دی کلائمیٹ 2024 کے مطابق 2023 میں دنیا بھر میں بارش کے ریکارڈ ٹوٹے۔

ورلڈ بینک کے مطابق 2020 سے 2024 کے درمیان جنوبی ایشیا میں اوسطاً ہر سال پانچ بڑے سیلاب آ چکے ہیں، جن کی شدت اور تباہی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔بین ا لحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی چھٹی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج نے عالمی درجہ حرارت کو 1.

2°C بڑھا دیا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ ہوا کے نظام، بارش کے پیٹرن اور سمندری بخارات کو متاثر کر رہا ہے، جس سے شدید بارشوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گرم فضا میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں تھوڑی دیر میں انتہائی شدت کی بارش ہو سکتی ہے جسے ’’ کلائوڈ برسٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

 یہ مظاہر نہ صرف ہنگامی صورتحال پیدا کرتے ہیں بلکہ زراعت، صحت اور پانی کی فراہمی جیسے شعبے بھی اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات کا سامنا دنیا بھرکو ہے، مگر ان کا بوجھ سب پر برابر نہیں پڑتا۔ افریقی ممالک، لاطینی امریکا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک ان آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، حالانکہ ان کا کاربن اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

رواں سال بھی دنیا کے لیے موسمیاتی آفات کا ایک اور درد ناک باب ثابت ہو رہا ہے۔ شدید بارشیں، تباہ کن سیلاب،گلیشیئر پھٹنے کے واقعات اور زمین کھسکنے جیسے مظاہر اب محض علاقائی خبریں نہیں رہیں، بلکہ ایک عالمی چیلنج بن چکے ہیں۔ ایشیا ئی ممالک سے لے کر افریقا، امریکا سے چین تک، قدرتی آفات نے ہزاروں جانیں لے لی ہیں، لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا ہے، اور اربوں ڈالرکے معاشی نقصانات کا سبب بنی ہیں۔

 ان واقعات نے ایک بار پھر موسمیاتی تبدیلی کے عالمی خطرے کی حقیقت کو اجاگرکردیا ہے۔2025 کا مون سون پاکستان، بھارت اور نیپال کے لیے بھی مہلک ثابت ہوا۔ پاکستان میں کلاؤڈ برسٹ، گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ اور تیز بارشوں نے 293 جانیں لے لیں اور 600 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور پنجاب کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

کئی علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، جب کہ فصلیں، پل اور سڑکیں مکمل تباہ ہو گئیں۔ قدرتی آفات کی شدت اپنی جگہ، مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں شہری منصوبہ بندی اور واٹر مینجمنٹ کی کمزوری اس تباہی کو دوچند کر دیتی ہے۔کراچی میں نالوں پر تجاوزات، لاہور میں سیوریج نظام کی تباہی، اور شمالی علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی وہ عوامل ہیں جو بارش کو سیلاب میں بدل دیتے ہیں۔

 ڈھاکا، جکارتہ اور منیلا جیسے شہروں میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں آبادی کا دباؤ، ناقص ڈرینج سسٹم اور غیر رسمی آبادیاں سیلابی پانی کو تباہی میں بدل دیتی ہیں۔ لاس اینڈ ڈیمج فنڈ جیسے عالمی مالی وعدے تاحال عمل میں نہیں آ سکے، جس کی وجہ سے متاثرہ ممالک کو ریلیف اور بحالی کے لیے قرضوں پر انحصارکرنا پڑتا ہے۔

ماحولیاتی انصاف کی غیر موجودگی اس عالمی مسئلے کو ایک اخلاقی بحران میں بدل رہی ہے۔ شدید بارشیں اور مہلک سیلاب اب محض ’’ قدرتی آفت‘‘ نہیں رہے، بلکہ یہ موسمیاتی بحران کی واضح علامت ہیں۔ یہ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ اقتصادی، سماجی اور انسانی بحران ہے۔

 پاکستان جیسے ملک کے لیے، جہاں پہلے ہی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، موسمیاتی تبدیلی کسی خاموش طوفان سے کم نہیں۔ سوال صرف یہ نہیں کہ اگلا سیلاب کب آئے گا، بلکہ یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کتنا تیار ہیں؟ اور کیا دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی انصاف کے لیے اپنی اخلاقی ذمے داری ادا کریں گے؟

2025 کی ان آفات نے ہمیں خبردار کر دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب مستقبل کی بات نہیں بلکہ حال کا المیہ ہے، اگر عالمی برادری، ترقی یافتہ ممالک، اور مقامی حکومتیں فوری اور مشترکہ اقدامات نہیں کرتیں تو آنے والے برس مزید خونی اور تباہ کن ثابت ہوں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی قدرتی ا فات رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

فلسطینی ریاست کے لیے پیش رفت، خوش آیند

فرانس،کینیڈا، برطانیہ اور مالٹا کے اعلان کے بعد آسٹریلیا نے بھی جلد ازجلد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیدیا۔کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا اقدام اسرائیل فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کی امیدوں کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔

 دنیا اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے جہاں انصاف، انسانیت اور عالمی ضمیر کا سخت امتحان جاری ہے۔ فلسطین کا مسئلہ محض ایک سیاسی تنازعہ نہیں بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق، ریاستی خود مختاری اور عالمی انصاف کے اصولوں سے جڑا ہوا ایک المیہ ہے جوگزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے فلسطینی عوام مسلسل ظلم، جبر، جبری بے دخلی، محاصرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔

ان کے پاس اپنی ریاست نہیں، تحفظ نہیں، آزادی نہیں اور نہ عالمی اداروں کی موثر حمایت ہی۔اس پس منظر میں حالیہ چند ہفتوں کے دوران عالمی برادری کی جانب سے ایک خوش آیند پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ فرانس،کینیڈا، برطانیہ، آئرلینڈ اور اسپین سمیت کئی یورپی ممالک نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ محض رسمی اعلان نہیں بلکہ یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ فلسطینی عوام بھی اتنے ہی باوقار اور حقوق کے حقدار ہیں جتنے کہ دنیا کی دیگر اقوام۔ ان ممالک کی جانب سے یہ اقدام ایک واضح پیغام ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی اختیارکرنا اب مزید قابلِ قبول نہیں۔

اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے 7 اکتوبر 2023 سے غزہ پر ایک ہولناک حملہ جاری رکھا ہوا ہے، جس میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، اس مسلسل بمباری نے غزہ کی پٹی کو تباہ کر دیا ہے اور خوراک کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔گزشتہ نومبر، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔ اسرائیل کو غزہ پر اپنی جنگ کے باعث بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔

چین نے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رسائی کی اجازت دے، اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی حمایت کو بھی دہرایا ہے۔ادھر فلسطینی قیادت کو بھی اپنا داخلی جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان اختلافات نہ صرف فلسطینی عوام کی جدوجہد کو کمزورکرتے ہیں بلکہ عالمی حمایت کو بھی منتشر کرتے ہیں۔ اگر فلسطینی قیادت اس وقت ایک مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہوجائے، تو یہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک مثبت پیغام ہوگا کہ فلسطینی اپنی ریاستی خودمختاری کے لیے متحد ہیں۔

ایک اور تشویشناک پہلو عرب دنیا کی خاموشی ہے۔ ماضی میں فلسطین کے حق میں پرزور آوازیں اٹھائی جاتی تھیں، لیکن اب کئی عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اقتصادی و سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔

کچھ نے مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے۔ یہ رویہ فلسطینی عوام کے لیے مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔ عرب اقوام کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ صرف بیانات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے فلسطینی عوام کی حمایت کریں، انھیں سیاسی، مالی اور سفارتی مدد فراہم کریں۔عالمی ادارے جیسے اقوام متحدہ، آئی سی سی اور دیگر نے بارہا اسرائیل کے اقدامات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، لیکن ان بیانات کے باوجود اسرائیل پرکوئی مؤثر دباؤ نظر نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر بھی کوئی عملی اقدام نہ ہو، تو ان اداروں کی ساکھ اور مؤثریت کا کیا مستقبل ہوگا؟ دنیا کو اب اقوام متحدہ سے محض قراردادوں کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی توقع ہے۔

جہاں تک حل کا تعلق ہے، تو دو ریاستی حل ہی واحد قابلِ عمل اور دیرپا راستہ ہے۔ 1967 کی سرحدوں پر مبنی فلسطینی ریاست کا قیام، یروشلم کو دونوں اقوام کے لیے قابلِ قبول حیثیت دینا، مہاجرین کی واپسی یا مناسب آباد کاری اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات۔ یہ سب نکات ایسے ہیں جن پر دنیا کو متفق ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ جب تک فلسطینی عوام کو اپنی زمین، شناخت اور ریاست کا حق نہیں ملے گا، تب تک مشرق وسطیٰ میں امن ایک خواب ہی رہے گا۔آج کے جدید دور میں میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا نے عالمی رائے عامہ کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

دنیا بھر کے نوجوان، طلبہ، صحافی، فنکار اور انسانی حقوق کے کارکن فلسطین کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے، بائیکاٹ کی تحریکیں اور عالمی دباؤ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ظلم کے خلاف خاموشی کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اب عالمی سیاست دانوں کو بھی عوام کی اس بیداری کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔پاکستان، ترکی، ملائیشیا، ایران اور دیگر اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کریں۔ صرف جذباتی بیانات کافی نہیں، بلکہ عالمی اداروں میں فلسطینی عوام کی نمایندگی، عالمی عدالتوں میں اسرائیلی جرائم کی پیروی اور انسانی امداد کی فراہمی کو ترجیح دی جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کو بھی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا تاکہ فلسطینی جدوجہد کو ایک مؤثر اور مربوط پلیٹ فارم میسر آ سکے۔اس وقت فلسطینی بچے، عورتیں، بزرگ اور نوجوان ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ان کے پاس نہ وسائل ہیں، نہ اسلحہ، اور نہ ہی بین الاقوامی تحفظ۔ ان کے پاس صرف ایک ہتھیار ہے۔ ان کا عزم، ان کا ایمان، اور ان کی امید۔ لیکن امید صرف مظلوم کے بس میں نہیں ہونی چاہیے، امید ایک اجتماعی شعور کا نام ہے جسے عالمی برادری، اقوام متحدہ، مسلم دنیا اور با ضمیر انسانوں کو مل کر زندہ رکھنا ہوگا۔یہ وقت ہے کہ دنیا صرف مذمت اور بیانات سے آگے بڑھے۔ اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

فلسطین کو ایک آزاد، خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنا، اسرائیلی مظالم پر قدغن لگانا، جنگ بندی کروانا، انسانی امداد بحال کرنا، اور بین الاقوامی قوانین کی بالادستی کو یقینی بنانا، یہ سب وہ نکات ہیں جو اگر آج طے نہ کیے گئے، تو کل یہ مسئلہ ایک عالمی بحران میں تبدیل ہو جائے گا۔فلسطین کا مسئلہ آج بھی عالمی ضمیر کے لیے ایک چیلنج ہے۔ یہ صرف ایک قوم کی زمین، شناخت اور آزادی کی جدوجہد نہیں، بلکہ یہ دنیا کے لیے ایک آئینہ ہے کہ آیا ہم واقعی انصاف، انسانیت اور بین الاقوامی قانون پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں۔دو ریاستی حل، فلسطین کی آزادی، اسرائیل کی جارحیت کا خاتمہ اور امریکی و مغربی پالیسیوں میں توازن، یہ سب وہ نکات ہیں جو اگر آج طے نہ کیے گئے، تو کل نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا بھر میں بدامنی، انتہا پسندی اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دے سکتے ہیں۔

تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک امریکا جیسی بڑی عالمی طاقت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کرتی، تب تک اسرائیل کی جارحانہ روش میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نظر نہیں آتی۔ امریکا طویل عرصے سے اسرائیل کا غیر مشروط حمایتی رہا ہے۔ چاہے وہ اربوں ڈالرکی فوجی امداد ہو یا سلامتی کونسل میں فلسطین سے متعلق قراردادوں پر ویٹو، امریکا نے ہر موقعے پر اسرائیل کا ساتھ دیا ہے، اگر امریکا واقعی مشرق وسطیٰ میں امن کا خواہاں ہے تو اسے فلسطین کے ساتھ بھی وہی رویہ اختیار کرنا ہوگا جو وہ دنیا کی دیگر مظلوم اقوام کے لیے اپناتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابقہ دورِ اقتدار میں اسرائیل کو غیر معمولی حمایت حاصل رہی۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، فلسطینیوں کے خلاف امداد بند کرنا اور یک طرفہ امن منصوبہ پیش کرنا۔ یہ سب ایسے اقدامات تھے جنھوں نے نہ صرف مسئلہ فلسطین کو مزید پیچیدہ بنایا بلکہ ایک نئے عدم توازن کو بھی جنم دیا، اب جب کہ ٹرمپ دوبارہ صدارت حاصل کرچکے ہیں، تو ان کے لیے یہ ایک تاریخی موقع ہو سکتا ہے کہ وہ امریکا کی فلسطین سے متعلق پالیسی میں توازن لائیں اور دو ریاستی حل کی حمایت کریں۔

فلسطین کے مسئلے کا بہترین حل دو ریاستی فارمولا ہے، فرانس، کینیڈا، ، اسپین، برطانیہ اور آسٹریلیا نے حالیہ دنوں میں فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے، لہٰذا اب امریکا کو اسرائیل کی بے جا حمایت و سرپرستی ترک کردینی چاہیے، ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ بھی فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لیں، غزہ میں جنگ بندی کروایں اور فلسطینیوں کو جینے کا حق دلوائیں، باقی مسئلہ رہ جائے گا حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تو وہ فلسطینی خود حل کر لیں گے۔فلسطین کا مسئلہ درحقیقت ایک آئینہ ہے، جو ہر قوم، ہر ادارے اور ہر فرد کو اپنی اخلاقی حیثیت دکھا رہا ہے۔ ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ ہم اس آئینے میں کیا دیکھنا چاہتے ہیں، ظلم کی حمایت یا انصاف کی فتح؟ یہ فیصلہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے اور تاریخ ہمیں ضرور یاد رکھے گی۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں دشمن کا آخری ہتھیار بھوک
  • پائیدار ترقی میں چین کا اہم کردار ہے،اقوام متحدہ
  • کوئٹہ میں شدید گرمی کی لہر، سوئمنگ پولز کی مانگ میں اضافہ
  • فلسطینی ریاست کے لیے پیش رفت، خوش آیند
  • پاکستان اور یو اے ای کا رشتہ محض سفارتی نہیں بلکہ دلوں میں بسا بندھن ہے: نواز شریف
  • روس یوکرین جنگ: روسی فوجی تیزی سے ایڈز کا شکار ہونے لگے، ہولناک اسباب کا انکشاف
  • پنجاب ٹورازم ڈويلپمنٹ کارپوریشن کے زیر اہتمام بائیکرز اور سیاحوں کے اعزاز میں تقریب
  • پاک امریکا تجارتی معاہدے کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں تیزی
  • سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی