بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا ہے کہ بھارت کی سرحدوں سے پڑوسی ممالک میں جانے والا پانی روک دیا جائے گا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ اس کا مقصد بھارت کا پانی صرف اور صرف ملک کے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔

وزیراعظم مودی جو ہندو ووٹرز کے جذبات اکسا کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کا نام لیے بغیر پانی روکنے کی دھمکی دی ہے۔

مودی کی تازہ دھمکی کے بعد پاکستانی صوبے پنجاب کے وزیر آبپاشی کاظم پیرزادہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ چناب دریا کے بہاؤ میں غیر معمولی اور غیر فطری تبدیلی دیکھی ہے۔

بھارتی وزیراعظم کا یہ بیان اُس وقت آیا ہے جب پہلگام واقعے میں انٹیلی جنس کی ناکامی اور ناقص سیکیورٹی کا ملبہ بھی وہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یاد رہے اس بیان سے چند روز قبل بھارت نے پاکستان کے ساتھ 65 سال پرانے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر دیا تھا۔

یہ معاہدہ ان دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق تھا جو پاکستان کی زراعت اور پانی کی ضروریات کے لیے نہایت اہم ہیں۔

جس پر پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے اس کے دریاؤں کے بہاؤ میں مداخلت کی تو اسے "اعلانِ جنگ" تصور کیا جائے گا۔

مودی کے اس بیان کے بعد جناح انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق، بھارت کی طرف سے 26 اپریل کو اچانک بڑی مقدار میں پانی چھوڑا گیا، جس سے آزاد کشمیر میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت، چناب، جہلم اور سندھ کے دریا پاکستان کے کنٹرول میں تھے، جبکہ راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو دیے گئے تھے۔

اب، معاہدے کی معطلی کے بعد خطے میں آبی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو نہایت کشیدہ قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک پر تحمل سے کام لینے اور تناؤ میں کمی کرنے پر زور دیا تھا۔

واضح رہے کہ بھارت پہلے بھی 2016 میں ایسا ہی اشارہ دے چکا ہے جب وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔

 تاہم یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت خود بھی ایک ڈاؤن اسٹریم ریاست ہے، کیونکہ چین کے زیر انتظام تبت سے برہم پتر دریا نکلتا ہے، جو بھارت کے شمال مشرقی علاقوں سے ہوتا ہوا بنگلا دیش کی طرف بہتا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

’بھارت غیرممالک میں مداخلت کا مرتکب‘، کینیڈین انٹیلیجنس ایجنسی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جون 2025ء) خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق کینیڈین انٹیلیجنس ایجنسی کی طرف سے شائع ہونے والی یہ رپورٹ مودی اور کارنی کی البرٹا میں ملاقات اور دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے وعدے کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی ہے۔

دونوں حکومتوں نے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات اور بات چیت کو تعمیری قرار دیا تھا۔

بات چیت میں دونوں رہنماؤں نے ان اعلیٰ سفارت کاروں کو بحال کرنے پر اتفاق کیا، جن کو انہوں نے 2023 میں باہمی سخت کشیدگی کے درمیان واپس بلا لیا تھا۔

بھارت اور کینیڈا کی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش

اس ملاقات کے بعد کارنی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے ’’باہمی احترام، قانون کی حکمرانی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے اصول کے عزم پر مبنی کینیڈا اور بھارت کے تعلقات کی اہمیت کا اعادہ کیا۔

(جاری ہے)

‘‘

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ کارنی اور مودی نے، ’’دونوں ممالک میں شہریوں اور کاروباری اداروں کی باقاعدہ خدمات کو بحال کرنے کے مقصد سے یہ فیصلہ کیا ہے۔‘‘

کیا وزیر اعظم مودی سکھ رہنما کے قتل کی سازش سے آگاہ تھے؟

تاہم، روئٹرز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مودی کو جی 7 میں مدعو کرنے پر وزیر اعظم کارنی کو کینیڈا کی سکھ برادری کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

خیال رہے کینیڈا اور بھارت کے تعلقات اس وقت سے کشیدہ ہیں جب 2023 میں سابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا میں ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کی حکومت کے ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ مودی کی حکومت نے نجر کے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیا اور کینیڈا پر سکھ علیحدگی پسندوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے کا الزام لگایا۔

انٹیلیجنس رپورٹ میں کیا ہے؟

کینیڈین انٹیلیجنس ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹرانس نیشنل جبر ’’کینیڈا میں بھارت کی سرگرمیوں میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔‘‘ حالانکہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین کینیڈا کے لیے سب سے بڑا انسداد انٹیلیجنس خطرہ ہے اور اس میں روس، ایران اور پاکستان کا نام بھی لیا گیا ہے۔

کیا سکھوں کے الگ وطن خالصتان کا نظریہ اب بھی زندہ ہے؟

کینیڈین سکیورٹی انٹیلیجنس سروس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’بھارتی اہلکار، بشمول ان کے کینیڈا میں مقیم پراکسی ایجنٹ، بہت سی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو کینیڈین کمیونٹیز اور سیاست دانوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اور ’’یہ سرگرمیاں کلیدی مسائل پر کینیڈا کی پوزیشن کو بھارت کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتی ہیں، خاص طور پر اس حوالے سے کہ بھارتی حکومت کینیڈا میں مقیم ایک آزاد وطن کے حامیوں کو کس طرح دیکھتی ہے, جسے وہ خالصتان کہتے ہیں۔‘‘

کینیڈا میں بھارتی ہائی کمیشن نے اس رپورٹ پر فوری طور پر تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • مودی کے برے دن شروع
  • ’بھارت غیرممالک میں مداخلت کا مرتکب‘، کینیڈین انٹیلیجنس ایجنسی
  • میٹا کا اسکیل اے آئی کمپنی سے 10ارب ڈالر کے معاہدے پر غور
  • نریندر مودی پر اب کون اور کیسے بھروسہ کرے گا، سنجے راوت
  • وزارت خزانہ کے ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ ایک ارب ڈالر کے فنانسنگ معاہدے پر دستخط
  • پاکستان اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے درمیان ایک ارب ڈالر کا فنانسنگ معاہدہ طے
  • مسئلہ کشمیر پر  بھارت نے کبھی ثالثی قبول نہیں کی، نہ آئندہ کرے گا، مودی کا ٹرمپ کو جواب
  • بھارت مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی قبول نہیں کرے گا
  • بھارت مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی قبول نہیں کرے گا، مودی کا ٹرمپ کو پیغام 
  • بھارت اور کینیڈا کی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش