Express News:
2025-08-08@01:54:14 GMT

9 مئی2025: دوسری تلخ’’ سالگرہ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرے سے گہرے زخم بھی بھر جاتے ہیں، مگر ان کے نشانات باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ نشان ہمیں زخموں سے جُڑے گزرے ہُوئے تلخ لمحات اور سانحات کی یاد دلاتے ہیں۔ 9مئی 2023 کے سانحات بھی ایسے ہی زخم ہیں جو دو سال گزرنے پر بھر تو گئے ہیں ، مگر ان کے نشان باقی ہیں ۔ 9مئی کے واقعات و سانحات کی بازگشت ہنوز ہماری سیاست و عدالت کے ایوانوں میں سنائی دے رہی ہے ۔ مثال کے طور پر 5مئی2025 کو پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ میں اٹارنی جنرل آف پاکستان(منصور عثمان اعوان) نے اپنے بیان میں کہا:’’9مئی2023 کو ملک بھر میں، 4گھنٹوں کے دوران، 39حساس اور فوجی تنصیبات پر حملے ہُوئے ۔

لاہور کور 3گھنٹے تک غیر فعال رہی ۔( بعد ازاں اِس) غفلت پر کور کمانڈر (لاہور)سمیت 3فوجی افسران( جن میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک بریگیڈئر اور ایک لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں) کو بغیر پنشن ریٹائر کیا گیا۔ 14افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔‘‘ اٹارنی جنرل صاحب نے یہ الفاظ اُس وقت ادا کیے جب سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کررہی تھی۔ اِن اپیلوں کا تعلق 9مئی کے حملوں ہی سے بتایا جاتا ہے ۔اور اب 7مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اکثریتی شارٹ آرڈر میں جو فیصلہ صادر فرمایا ہے (آرمی ایکٹ کی اصل شکل میں بحالی) ، اِس سے 9مئی کے ملزمان کے لیے مسائل پیدا ہوں گے ۔

9مئی کے سانحات کو گزرے 730دن ہو چکے ہیں،مگر تلخ یادیں مدہم نہیں پڑ سکی ہیں۔آج بھی ہم اِس دن کے باطن سے جنم لینے والے متعدد اور متنوع سانحات کو بھگت رہے ہیں ۔ 9مئی 2023 کوبانی پی ٹی آئی کی گرفتاری پر (بے جا) ردِ عمل میں بانی پی ٹی آئی کے عشاق اور وابستگان نے وطنِ عزیز میں تباہی اور نفرت کے کئی اَلاؤ دہکا ڈالے۔

ہمارے قومی و عسکری شہدا اور ہیروز کی کئی یادگاروں کی توہین کی گئی ۔ کئی سرکاری عمارات کو نذرِآتش کیا گیا ۔ لاہور میں بانیِ پاکستان ، حضرت قائد اعظم محمد علی جناح، کی تاریخی رہائش گاہ پر حملہ تو ایسا سانحہ تھا کہ اس کی یاد سے آج بھی دل دہل دہل جاتے ہیں۔ 9مئی کے سانحات کے پس منظر میں ، ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں وقوع پذیر ہونے والی کس کس تباہی اور بربادی کا تذکرہ کیا جائے ؟اِن بربادیوں اور تباہیوں پر خاص طور پر بھارت میں جشن منائے گئے ۔ بھارتی میڈیا اور سیاستدان آج بھی ہمیں9مئی کے واقعات و سانحات کی یاد دلا کر مطعون بھی کرتے ہیں اور نادم بھی۔

آج پھر9مئی ہے ۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے آج تک، آن دی ریکارڈ، کبھی 9مئی کے سانحات کی مذمت کی ہے نہ اِس کے ذمے داران کی لفظی گوشمالی۔ پی ٹی آئی کے دیگر متعدد نمایاں لیڈرز بھی 9مئی کے واقعات کی مذمت کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔ جب تک بانی صاحب مذمت نہیں کرتے، دیگر لیڈران بھی مذمت کے لیے تیار نہیں ۔اُن کا خیال ہے کہ وہ مذمت کرکے اپنا سیاسی کیریئر تباہ نہیں کرسکتے ۔

افسوس !وطن کی سالمیت اور سلامتی کے بالمقابل اپنے سیاسی کیریئر کی اس قدر فکر؟9مئی کے سانحات کے بعد متعدد پی ٹی آئی وابستگان حوالہ زندان ہیں۔بہت سوں کو عدالتیں رہا اور ضمانتیں دے چکی ہیں۔ابھی چند دن قبل پی ٹی آئی کے زندانی سینیٹر ، اعجاز چوہدری ، نے عدالت سے ضمانت پائی ہے ۔ شاہ محمود قریشی( سابق وزیر خارجہ) ، ڈاکٹر یاسمین راشد( سابق سینئر صوبائی وزیر صحت) اور عمر سرفراز چیمہ ( سابق گورنر پنجاب) ایسے کئی پی ٹی آئی رہنما ہنوز جیلوں میں ہیں ۔

دو برس ہو چلے ہیں،بانی صاحب بھی جیل میں قید ہیں۔اُنہیں کئی مقدمات کی پاداش میں عدالتوں نے قیدو بند کی سزائیں سنائی ہیں ۔ 9مئی کے سانحات اُن کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہے ہیں۔ اڈیالہ جیل سے مبینہ طور پر ، اُن سے منسوب، یہی آواز آتی ہے : ڈِیل نہیں کروں گا، عدالتوں کے توسط سے باعزت رہا ئی پاؤں گا۔ویسے یہ حقیقت ہے کہ9مئی کا مبینہ’’غدر‘‘ مچا کر بانی پی ٹی آئی نے جو مقاصد و اہداف حاصل کرنا چاہے تھے، سب میں ناکام و نامراد ہُوئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اُن کی حکومتی پارٹی اور اُن کے وزیر اعلیٰ نے لاہور اوروفاق پر متعدد یلغاریں بھی کرکے دیکھ لی ہیں، مگر گوہرِ مقصود ہاتھ نہیں آ سکا ہے ۔

بانی پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر عالمی صحافتی اداروں میں مضامین لکھ لکھ کر اور اپنی ’’مظلومیت‘‘ کی داستانیں سنا سنا کر بھی دیکھ لی ہے، لیکن کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے پر بھی کئی اُمیدیں وابستہ کی گئیں ، لیکن کوئی ایک اُمید بھی بَر نہیں آئی ۔ واشنگٹن میں پی ٹی آئی کے مہنگے لابیسٹ بھی بانی پی ٹی آئی کے کام نہیں آ سکے ۔برطانیہ اور امریکا میں پی ٹی آئی کے (پاکستانی) وی لاگرز نے شہباز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لاتعداد بد کلامیاں و غلط بیانیاں بھی کرکے دیکھ لی ہیں ، لیکن یہ مذموم بیانیئے بانی پی ٹی آئی کے کسی کام نہیں آ سکے ۔ وہائیٹ ہاؤس کے ترجمان اور پریس کانفرنسیں بھی ثابت کررہی ہیں کہ کوئی بھی بانی کے حق میں لب کشائی کرنے پر تیار نہیں ہے ۔

5مئی کو امریکا کے سب سے طاقتور اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے ایک مفصل آرٹیکل شائع کیا ہے۔ یہ آرٹیکل Pakistan,s Most Powerful Man Steps Out of the Shadows to Confront Indiaکے زیر عنوان پرنٹ ہُوا ہے ۔اِس مضمون کا چند لفظی خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان آرمی چیف ، جنرل عاصم منیر، جرأتمند جرنیل ہیں اور وہ ایک طاقتور فرد کی حیثیت سے بھارت کے مقابل آ کھڑے ہُوئے ہیں ۔ امریکی اخبار کے تجزیہ نگار نے دل کھول کو جنرل عاصم منیر کی تعریف و تحسین کی ہے ۔نیویارک ٹائمز میں مذکورہ آرٹیکل ایسے ماحول میں شائع ہُوا ہے جب امریکا میں آباد بانی پی ٹی آئی کے وابستگان وعشاق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تباہ کن ،منفی پروپیگنڈہ کررہے تھے ۔ اِس آرٹیکل نے مگر سارے پروپیگنڈہ کی ہوا نکال دی ہے۔

اُمید کی گئی تھی کہ 9مئی کے سانحات کو دو سال گزرنے کے بعد بانی پی ٹی آئی کے عشاق ہوش اور عقل کے ناخن لیں گے۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا۔ مثلاً:4مئی2025کو وفاقی وزیر اطلاعات( عطاء اللہ تارڑ)اور DGISPR(لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری) نے اسلام آباد میں ملک بھر کے سیاسی زعما کو ( پہلگام میں بھارتی فالس فلیگ اور پاک بھارت کشیدگی پر ) بریفنگ کے لیے ،اِن کیمرہ سیشن میں، مدعو کیا۔ ملک بھر کے کثیر سیاستدانوں نے شرکت کی ، مگر بانی پی ٹی آئی کے وابستگان نے شرکت سے انکار کر دیا۔

کیا اِس انکار کو ایک بار پھر، مرکزِ گریز اقدام قرار نہیں دیا جانا چاہیے ؟ آج9مئی2025 کو بانی پی ٹی آئی اوراُن کی پارٹی کو اپنے کردار پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے ۔ اُنہیں دریا کی موجوں میں واپس آنا چاہیے کہ پاکستان پر جنگ کے سائے لہرا رہے ہیںاور پاکستان بھارتی جارحیت کا دندان شکن جواب دے کر اقوامِ عالم میں سرخرو ہو چکا ہے ۔ ایسے پیش منظر میں بانی پی ٹی آئی اور اُن کے عشاق کا قومی یکجہتی میں شامل ہونے سے انکار بے معنی ضِد ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی کے 9مئی کے سانحات سانحات کی ا رٹیکل نہیں ا

پڑھیں:

پی ٹی آئی مشکل دوراہے پر

پی ٹی آئی بطور جماعت اور بانی پی ٹی آئی بطور قیادت ایک مشکل سیاسی وقت سے گزر رہے ہیں اور ان کے حامی ، سپورٹرز،ووٹرز بھی موجودہ صورتحال میں سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔کیونکہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے دروازے پی ٹی آئی کے لیے بند ہیں۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے مرکزی راہنماؤں سمیت قومی اسمبلی ، پنجاب اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کو نو مئی کے مقدمات میں دس دس برس کی قید اور نااہلی سمیت اسمبلیوں سے ان کی نشستوں سے محرومی کے بعد یقینی طور پر پی ٹی آئی کی مشکلات اور زیادہ بڑھ گئی ہیں۔

اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ آنے والے کچھ عرصے میں مزید راہنماؤں کو سزا سمیت اسمبلیوں سے نااہل کیا جا سکتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت بانی پی ٹی آئی کی شدید خواہش کے باوجود پی ٹی آئی کسی بڑی سیاسی تحریک چلانے کی نہ تو پوزیشن میں ہے اور نہ موجودہ پارٹی کی قیادت اس کی صلاحیت رکھتی ہے۔

پی ٹی آئی کا ایک مخمصہ یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنی سیاسی حکمت عملی میں جارحانہ اور مزاحمت کی سوچ رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مفاہمت کی سیاست میں انھیں اپنی خواہش کے مطابق سیاسی راستہ نہیں مل سکے گا۔ جب کہ پارٹی کی قیادت جو عملاً پارٹی چلارہی ہے، وہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتی ہے اور اس کے بقول مفاہمت سے سیاسی راستہ مل سکتا ہے۔ 

لیکن اس گروپ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی مفاہمت کی سوچ کے باوجود وہ اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے لیے کوئی راستہ تلاش نہیں کرسکے ہیں۔ مفاہمتی گروپ کی ناکامی نے بھی بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے مزاحمتی گروپ کو مایوس کیا ہے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بطور جماعت دو کشتیوں میں سوار ہے ، مفاہمت اور مزاحمت کی پالیسی ان کو مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی ہے۔

بانی پی ٹی آئی کی قید کو دو برس بیت گئے ہیں، یہ درست ہے کہ جو لوگ کہتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی جیل نہیں کاٹ سکیں گے،وہ غلط ثابت ہوئے ہیں۔ اب ان کے سیاسی مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے بڑی جرات سے جیل کاٹی ہے اوراب وہ ایک بڑا سیاسی چیلنج بن گئے ہیں۔

ان کی سیاسی مقبولیت بدستور موجود ہے ۔جو لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں عالمی دنیا اور بالخصوص امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کلیدی کردارادا کریں گے ان کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ایک طرف عالمی دنیا کی خاموشی اور دوسری طرف داخلی محاذ پر پی ٹی آئی کی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ سے دوری، بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات میں اضافہ کررہی ہے۔ان کے سیاسی مخالفین اس بات کی دہائی بھی دے رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی ، پی ٹی آئی بطور جماعت اورقومی سلامتی اکٹھے نہیں چل سکتے۔

اسی بنیاد پر کچھ لوگوں کے خیال میں بانی پی ٹی آئی کا سیاسی باب ختم ہوگیا ہے۔یہ کوئی انہونی بات نہیں، ماضی میں ہم اسی طرز کی دلیلیں بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بارے میں بھی دیا کرتے تھے ۔سیاسی قیادتیں کبھی غیر سیاسی فیصلوں ، عدالتی فیصلوں اور حکمت عملی سے ختم نہیں ہوتی اور ان کو ختم کرنے کے لیے عملاً سیاسی حکمت عملی ہی درکار ہوتی ہے۔

پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات اور پارٹی کے داخلی بحران کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ پانچ اگست کو ملک گیر تحریک کا کوئی بڑا سیاسی ماحول پیدا نہیں کرسکی اور چند ہی گھنٹوں کے احتجاج کے بعد یہ تحریک ختم کردی گئی ہے ۔اب کہا جا رہا ہے کہ کارکن 14اگست کے بعد تحریک کی تیاری کریں مگر وہ بھی کوئی سیاسی رنگ نہیں جما سکے گی۔

وہ احتجاجی تحریک جو پانچ اگست سے شروع ہونی تھی ، پانچ اگست کو ہی ختم کردی گئی۔ بالخصوص پنجاب میں ان کی احتجاجی تحریک کوئی رنگ نہیں جما سکی اور احتجاج محض کے پی کے تک محدود رہا جہاں ان کی اپنی صوبائی حکومت تھی۔ 

لیکن تمام تر ناکامیوں کے باوجود پی ٹی آئی نے کمزور ہی سہی احتجاج کرکے اپنے سیاسی وجود کو کسی نہ کسی شکل میں دکھایا بھی ہے اور اس مشکل حالات میں اتنا احتجاج بھی پارٹی کے لیے اہمیت رکھتا ہے ۔ علی امین گنڈا پور نے پانچ اگست کو بھی وہی کچھ کیا جو وہ پہلے کرتے رہے ہیں اور اب وہ بطور وزیر اعلی پارٹی پر بوجھ بن گئے ہیں اور اس کا کوئی فائدہ نہ تو بانی پی ٹی آئی کو ہورہا ہے اور نہ ہی پارٹی کو۔

پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی قیادت بھی بانی پی ٹی آئی کے لیے سیاسی بوجھ ہی بن کر رہ گئی ہے اور وہ پارٹی کے داخلی بحران کو کم یا ختم کرنے کی بجائے اس میںمزید مسائل پیدا کر رہی ہے ۔پی ٹی آئی اور بالخصوص بانی پی ٹی آئی کو اب پارٹی کی قیادت اور تنظیم کے بارے میں سخت گیر اور اہم فیصلے کرنے ہوںگے اور جو لوگ بطور عہدے دار پارٹی پر بوجھ بن گئے ہیں ان سے تنظیمی عہدے واپس لینے ہوں گے۔

ایسے لگتا ہے کہ حکومت ،اسٹیبلیشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کے تمام راستے بند ہوتے جا رہے ہیں جو قومی سیاست کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔

اب بانی پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت ضمنی انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے گی اور اس فیصلہ پر پارٹی کی تقسیم بھی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمانی سیاست کا بھی بائیکاٹ کرسکتی ہے اور اگر ایسا کرتی ہے توان کی سیاسی مشکلات کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھیں گی۔

بانی پی ٹی آئی پر دباؤ ہے کہ وہ بگاڑ ، محاذ آرائی یا مزاحمت کے بجائے خاموشی سے حالات کا مقابلہ کریں تو ان کے لیے آسانی پیدا کی جاسکتی ہے جس میں ان کی رہائی بھی شامل ہے ۔مگر بانی پی ٹی آئی شاید آمادہ نہیں ہیں۔لیکن قیادت کا اصل کام مشکل حالات میں ایسا سیاسی راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے جہاں وہ سیاست بھی کرسکیں اور اپنے سیاسی وجود کی ساکھ بھی قائم کرسکیں ۔یہ کام جہاں بانی پی ٹی آئی کو کرنا ہے وہیں خود حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی کرنا ہے تاکہ حالات نارمل ہوسکیں۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی مشکل دوراہے پر
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر دو ماہ میں دوسری بار امریکا کا دورہ کریں گے
  • عوام نے ملک بھر میں احتجاج کر کے بانی سے یکجہتی دکھائی، بیرسٹر گوہر
  • عمران خان کی رہائی کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا، مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا
  • سعدیہ اقبال کی سالگرہ آئرلینڈ کے کلونٹارف کرکٹ گراؤنڈ میں  منائی گئی
  • بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا راستہ اب کوئی نہیں روک سکتا، بیرسٹر سیف
  • احتجاج کی کال تھی لگتا ہے عوام سے زیادہ پولیس سڑکوں پر کھڑی ہے: علیمہ خان
  • احتجاج کی کال تھی لگتا ہے عوام سے زیادہ پولیس سڑکوں پر کھڑی ہے، علیمہ خان
  • ’بہت کچھ کہہ سکتا ہوں لیکن‘، اجے دیوگن نے کاجول کی سالگرہ پر کیا کہا؟
  • ’اسے بہت سنبھال کر رکھنا‘، فہد مصطفیٰ کا ثمر جعفری کو سالگرہ پر انوکھا تحفہ