اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 مئی 2025ء) امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا کہنا ہے کہ بھارت اورپاکستان کے درمیان کا تنازعے سے "بنیادی طور پر ہمارا کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے" اس لیے وہ اس میں برہ راست مداخلت سے گریز کرے گا۔ البتہ صدر ٹرمپ اور وینس نے دونوں ممالک کو کشیدگی کم کرنے کو کہا ہے۔

گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے پر زور دیتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی پیش کی تھی، جسے بھارت نے دبے الفاظ میں مسترد کر دیا۔

بھارت پاک کشیدگی: فوجی تنصیبات پر حملوں کا دعوی پاکستان کی تردید

جے ڈی وینس نے کیا کہا ہے؟

امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے فوکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران بھارت اور پاکستان کے تنازعے پر کہا، "ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ وہ تھوڑا سا تناؤ کم کریں، لیکن ہم جنگ کے بیچ میں نہیں پڑنے والے ہیں، جس کا بنیادی طور پر ہم سے کوئی کام نہیں ہے اور اس کو کنٹرول کرنے کی امریکہ کی صلاحیت سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

(جاری ہے)

"

ان کا مزید کہنا تھا، "آپ جانتے ہیں کہ امریکہ بھارتیوں کو ہتھیار ڈالنے کا نہیں کہہ سکتا۔ ہم پاکستانیوں سے بھی ہتھیار ڈالنے کو نہیں کہہ سکتے ہیں۔ تو اس طرح ہم سفارتی چینلز کے ذریعے اس کی پیروی جاری رکھیں گے۔"

امریکی نائب صدر نے مزید کہا، "ہماری امید اور ہماری توقع یہی ہے کہ یہ ایک وسیع تر علاقائی جنگ یا خدا نہ کرے، ایک جوہری تنازعہ میں تبدیل نہ ہو جائے۔

۔۔۔۔ ابھی تک ہمیں نہیں لگتا کہ ایسا ہونے والا ہے۔"

پاک بھارت جنگ: نواز شریف خاموش کیوں؟

وینس کا کہنا تھا، "میرے خیال میں سفارت کاری کا کام، بلکہ بھارت اور پاکستان میں ٹھنڈے سروں کا کام، یہ یقینی بنانا ہے کہ یہ ایٹمی جنگ نہ بن جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یقیناً یہ تباہ کن ہو گا۔"

واضح رہے کہ اس سے پہلے بدھ کے روز اوول آفس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ "میری حیثیت یہ ہے کہ میری دونوں کے ساتھ بنتی ہے۔

میں دونوں کو اچھی طرح جانتا بھی ہوں اور میں انہیں مل کر کام کرتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں انہیں رکتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں اور امید ہے کہ وہ اب رک جائیں گے۔"

تاہم دونوں ممالک میں کشیدگی کم ہونے کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور دونوں جانب سے حملوں کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔

’پاکستان پر ڈرون حملے‘، اشتعال دلانے کی بھارتی کوشش؟

ٹرمپ نے ان حالیہ واقعات کو "بہت خوفناک" قرار دیتے ہوئے کہا، "میں اسے رکتا دیکھنا چاہتا ہوں۔

اور اگر میں مدد کے لیے کچھ کر سکتا ہوں، تو میں ضرور کروں گا۔"

منگل کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر نے پاکستان پر بھارت کے میزائل حملوں کو "شرمناک" قرار دیا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ صورت حال میں تیزی سے کمی آئے گی۔

اس دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان ایل او سی پر بدستور شدید شیلنگ کا سلسلہ جاری ہے اور کشیدگی کے سبب بھارت کے دو درجن سے زیادہ ایئر پورٹ جمعے کے روز بھی بند ہیں، جس سے فضائی سروسز بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔

پاکستان کے ممکنہ حملے کے تناظر میں بھارت کی تیاریاں

کشیدگی کے سبب دارالحکومت دہلی میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے اور تمام سول سرکاری ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ دہلی میں ضلع مجسٹریٹ اپنے ماتحتوں کے ساتھ میٹنگ کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں صحت اور آفات سے نمٹنے کی تیاریوں کا جائزہ لیا جا سکے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے سبب بھارتی بازار حصص میں جمعے کے روز آٹھ سو پوائنٹس سے زیادہ کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارت اور پاکستان کے پاکستان کے درمیان بھارت کے ہیں کہ

پڑھیں:

’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

میں: آج کے عنوان سے مجھے ماضی کے کئی ایسے واقعات یاد آرہے ہیں، جب ہم بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھے مگر ہم کبھی اپنے بیرونی آقائوں کی جھوٹی یقین دہانیوں اور چکنی چپڑی باتوں میں آگئے اور کبھی اپنی بزدلی کو مصلحت کا نام دے کر چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔
وہ: ایسا پہلی بار تو شاید سن ۴۸ء میں ہوا جب کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے بعد فوج کے ساتھ مل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے مجاہدین کشمیر میں داخل ہوکر مسلسل آگے بڑھتے گئے مگر بھارت اقوام متحدہ چلا گیا اور اس نے پاکستان کو خبردار کیا کہ بس رک جائیں اب ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ اور اس کی جانب سے رائے شماری کا لولی پاپ دیے جانے پر ہم پیچھے ہٹ گئے اور جتنا کشمیر حاصل کرسکے وہ آج آزاد کشمیر کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔
میں: خیر اس وقت ہم بھارت کے ساتھ کسی بڑی جنگ کے متحمل ہو بھی نہیں سکتے تھے۔ نو آزاد پاکستان کو نہ جنگی وسائل میسر تھے اور نہ ہی خاطر خواہ فوجی قوت۔ شاید دور اندیشی کا تقاضا یہی تھا کہ معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کرلیا جائے جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے برسوں گزرنے جانے کے بعد بھی پیدا نہ ہوسکی۔ اور اقوام متحدہ کی طفل تسلیوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو ہمیشہ کے لیے فائلوں، عرضیوں اور یادداشتوں کی نذر کردیا۔
وہ: اسی طرح سن ۶۲ء میں چین انڈیا جنگ کے موقع پر چین کے اشارہ دیے جانے کے باوجود پاکستان امریکا کے فریب میں آگیا جب اس نے کہا ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ امریکا بیچ میں پڑ کے اس مسئلے کو حل کرے گا اور یوں کشمیر حاصل کرنے کا سنہری موقع ہم نے اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔ پھر چین انڈیا جنگ کے خاتمے کے بعد کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے مابین جو نام نہاد مذاکرات ہوئے وہ چائے بسکٹ کی پارٹیوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ تب پاکستان کو اپنی کم عقلی کا احساس ہوا تو جذبات اور غصے میں آکر انڈیا کے خلاف آپریشن جبرالٹر کا آغاز کردیا جو ۶۵ء کی جنگ کا باعث بنا۔ ۷۱ء میں آدھا پاکستان گنوایا، ۹۰ ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بے غیرتی کا طوق گلے میں لٹکا کر ’’ شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ کا نعرہ لگایا۔
پھر روس کی افغانستان پر یلغار کے وقت ۸۰ء میں امریکی صدر ریگن نے جنرل ضیا سے کہا کہ ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ مگر جیسا ہم کہیں گے ویسا آپ ضرور کریں گے اور ہم نے خاموشی سے سرتسلیم خم کردیا۔ اور پھر نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے کورنش بجالانے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ۹۹ء میں کارگل جنگ چھیڑ کر کشمیر حاصل کرنے کا ایک اور موقع ایک بار پھر کھودیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سر جھکا کر امریکی صدر کلنٹن کے روبرو پیش ہوئے اور ہم نے ایک بار پھر ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ کا حکم سن کر سیکڑوں جانیں گنوائیں اور خاموشی کے ساتھ کارگل سے واپسی کی راہ لی۔
میں: میرے خیال سے کارگل سے پسپائی اس لیے بھی ضروری تھی کہ اس وقت دونوں پڑوسی ملک ایٹمی طاقت بن چکے تھے لہٰذا خطے کے لیے ایسی کوئی بھی جنگ شدید خطرناک ہوسکتی تھی۔
وہ: پاکستان بھارت کی دیرینہ چپقلش اور دشمنی کی وجہ سے یہ خطرہ تو اس خطے پر ہمیشہ منڈلاتا رہے گا، لہٰذا مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور فوری حل از حد ضروری ہے۔ ورنہ ایک ملک اس مسئلے کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنائے رکھے گا اور دوسرا محض زبانی جمع خرچ کی بنیاد پر سفارتی سطح پر چند بیانات دینے کے علاوہ کبھی کوئی پیش قدمی نہیں کرے گا۔ تمہیں یاد ہوگا ۲۰۱۹ء میں جب ہمیں ایک بار پھر کشمیرکے مسئلے پر آواز بلند کرنے اور آگے بڑھ کرکچھ کرنے کا موقع ملا تھا، جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے بھارت کا مستقل حصہ قرار دے دیا۔ اس وقت وزیراعظم عمران خان نے کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے پورے ملک میں Kashmir Hour منانے کا فیصلہ کیا جس میں ہر پاکستانی اپنے گھر اور دفتر سے باہر آکر آدھے گھنٹہ احتجاج کرے گا۔ پر مشکل یہ تھی کہ ہم اس سے زیادہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے کیوں کہ بھارت کے اس اقدام سے ایک ماہ پہلے اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ امریکا میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے گئے تھے جس میں ٹرمپ نے انہیں کشمیر کے حوالے سے بھارت کے اس ممکنہ اقدام سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے جواب میں کچھ نہ کرنے کی ضمانت مانگی تھی اور کہا تھا کہ بھارت یہ ارادہ رکھتا ہے مگراس کے ردعمل میں آپ کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کریں گے یعنی ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘۔ اور ایک طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق بالکل ایسا ہی ہوا۔
میں: تم آخر کہنا کیا چاہ رہے ہو؟
وہ: ابھی گزشتہ ہفتے موجودہ آرمی چیف، وائٹ ہائوس میں مدعو تھے۔ جو بلاشبہ پاکستان کی انڈیا کے خلاف حالیہ جنگی سبقت کے تناظر میں ایک اور بڑی سفارتی کامیابی ہے اور ٹرمپ کے بیان نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ یقینا اس نے پاکستان کے قدمیں اضافہ کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن اس ملاقات نے ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہے اور ایک ایٹمی طاقت بھی، اور امریکا یہ بالکل نہیں چاہے گا کہ پاکستان اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف ایران کی جنگی حوالے سے کوئی مدد کرے۔ یہ ظہرانہ شاید پاکستان کو یہی باور کرانے کے لیے تھا کہ اسرائیل کے خلاف آپ ایران کی حمایت فقط سفارتی سطح تک محدود رکھیں گے اس سے زیادہ ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ اور ہم شاید برسوں سے اپنی اس روش پر اسی طرح قائم ہیں یعنی ہمارا جواب جی بہت بہتر کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اور پھر اتنی عزت افزائی اور پذیرائی کے بعد کیا ہم امریکا کے لیے اتنا بھی نہیں کریں گے۔
میں: لیکن یہ سب تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو؟
وہ: نہیں میں تو ماضی کے تجربات کی بنیاد پر صرف یہ خیال ظاہر کررہا ہوں، کیوں کہ ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی فضائیہ کی جنگی صلاحیت دنیا میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اور موجودہ دور میں کسی بھی ملک کے لیے جنگی برتری صرف اور صرف میزائل ٹیکنالوجی اور فضائی مہارتوں پر منحصر ہے۔ لیکن ایک خیال پھر بھی ذہن میں باربار پیدا ہورہا ہے کہ کیا ہم امریکا کے سامنے اتنی زبان کھولنے کی بھی جسارت نہیں کرسکتے کہ اگر آپ فلسطین اور ایران کے خلاف اسرائیل کی کھلم کھلا سیاسی حمایت اور بے دریغ عسکری مدد کرسکتے ہیں تو پھر پاکستان اپنے مسلم برادر ملک ایران کے ساتھ صف آرا کیوں نہیں ہوسکتا۔ بقول شاعر
آپ کچھ بھی نہیں کریں گے جناب
بس وہی جو بھی ہم کہیں گے جناب
آپ ایسے ہی جی حضور رہیں
ساتھ ہم بھی یونہی رہیں گے جناب

 

متعلقہ مضامین

  • ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘
  • اسرائیل کیساتھ کھڑے ہونے والے ٹرمپ بھارت کیساتھ کیوں کھڑے نہیں ہوئے، سنجے راؤت
  • ایران پر فضائی حملے: امریکہ کی کوئی مدد نہیں دی، پاکستان
  • برطانوی وزیراعظم اور سلطان عمان کے درمیان مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر گفتگو
  •   جنگ ایران سے نہیں، اُسکے جوہری پروگرام سے ہے، جے ڈی وینس
  • ایران پر امریکی حملہ، کیا پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا؟
  • فیلڈ مارشل کا دورہ امریکہ : بھارت میں صف ماتم
  • پاکستان کا صدر ٹرمپ کو نوبیل پرائز کیلئے نامزد کرنے کی سفارش کا فیصلہ
  • امریکی مداخلت سے تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے‘لیاقت بلوچ
  • پاک بھارت کشیدگی کے بعد سیزفائر کی درخواست کس نے کی؟ وزرات خارجہ بتا دیا