پاک بھارت کشیدگی کے دوران جہاں ایک طرف عالمی سطح پر تشویش پائی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف ایک غیر ملکی امریکی وی لاگر نے پاکستان میں قیام کے دوران اپنی ذاتی مشاہدات اور تجربات دنیا کے سامنے لا کر ایک مختلف،مثبت اور حقیقت پر مبنی تصویر پیش کی ہے ڈریو بنسکی، جو دنیا کے درجنوں ممالک کا سفر کر چکا ہے ان دنوں شمالی پاکستان کے خوبصورت پہاڑی علاقوں میں موجود تھا جب بھارت کی جانب سے ’آپریشن سندور‘ کے تحت مبینہ حملے کیے گئے اور فضا میں کشیدگی عروج پر پہنچی اپنی ایک تازہ ویڈیو میں بنسکی نے نہ صرف اپنی موجودگی کی تصدیق کی بلکہ پاکستان میں لوگوں کی مہمان نوازی امن پسندی اور حوصلہ افزائی سے متعلق خیالات کا بھی بے باکی سے اظہار کیا انہوں نے کہا: میں ابھی پاکستان میں پھنس چکا ہوں کیونکہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے تمام ہوائی اڈے بند ہو گئے ہیں لیکن میں محفوظ ہوں شکر گزار ہوں اور شمالی علاقوں کی مزید کھوج کے لیے پُرجوش ہوں ویڈیو میں نہ صرف پاکستانی عوام کے پرامن مظاہرے دکھائے گئے، بلکہ بنسکی نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ یہاں زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے دکانیں کھلی ہیں بچے اسکول جا رہے ہیں لوگ ہنس رہے ہیں یہ سب کچھ دیکھ کر محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کوئی جنگی کیفیت ہے ڈریو کا انداز بیان جہاں حیرت سے لبریز تھا، وہیں اس میں بھارتی رویے پر غیر اعلانیہ تنقید بھی تھی انہوں نے کھلے الفاظ میں کہا کہ جنگ کوئی فلمی منظر نہیں، بلکہ حقیقی زندگی کا تباہ کن باب ہے ان کے بقول امن بناؤ، جنگ نہیں انہوں نے بتایا کہ فضائی حدود کی بندش کے باعث وہ اسلام آباد سے امریکا واپس نہیں جا پا رہے اور اب وہ زمینی راستے سے کابل جانے اور وہاں سے پرواز پکڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب بھارتی میڈیا اور حکومتی حلقے جنگی فضا کو ہوا دے رہے ہیں ایسے میں ڈریو بنسکی کی گواہی عالمی برادری کے لیے ایک کھلی آنکھ ہے کہ پاکستان نہ صرف ایک محفوظ ملک ہے بلکہ یہاں کے لوگ اپنی بردباری، خلوص اور مہمان نوازی کے ذریعے دنیا کو امن کا اصل مطلب سمجھا رہے ہیں۔ یہ ویڈیو اور بیان عالمی بیانیے کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے جو بھارت کی یک طرفہ جنگی مہم جوئی کے خلاف ایک غیر جانبدار آواز کے طور پر سامنے آیا ہے۔ دنیا کو اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان جنگ نہیں، امن چاہتا ہے لیکن عزت، خودمختاری اور سلامتی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: پاکستان میں رہے ہیں

پڑھیں:

شہیدِ مقاومت کی پہلی برسی اور امت کیلئے بیداری کا پیغام

اسلام ٹائمز: سید حسن نصراللہ نے اپنی زندگی اور اپنی شہادت سے ہمیں سکھایا کہ حقیقی قربانی میں اختلافات نہیں اتحاد ہوتا ہے، خوف نہیں، حوصلہ ہوتا ہے اور مایوسی نہیں عزم ہوتا ہے۔ آج امت کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اس قربانی کو خراجِ عقیدت صرف الفاظ سے پیش نہ کرے، بلکہ عمل سے ثابت کرے، کیونکہ اگر ہم آج اس راستے پر متحد ہو جائیں تو بلاشبہ ہم ظلم کی جڑوں کو ختم کرسکتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ مسلمانو اب جاگو، اب اٹھو، اب متحد ہو کر ظلم کے سامنے ڈٹ جاؤ، کیونکہ بلاشبہ، ظلم بڑھتا ہے تو مٹتا بھی ہے، لیکن مٹانے کے لیے ہمیں قدم آگے بڑھانا ہوگا۔ تحریر: محمد حسن جمالی

آج امت مسلمہ ایک سنجیدہ موڑ پر کھڑی ہے۔ سید حسن نصراللہ کی شہادت کی پہلی برسی قریب ہے اور یہ دن صرف ایک یادگار نہیں، بلکہ ایک بیدار کرنے والی صدا ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے، جس میں تاریخ کے صفحات سرخ ہو جاتے ہیں اور ہر مسلمان کے دل میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا ہم اس قربانی کو صرف یاد رکھیں گے یا اس کی روشنی میں اپنی بقاء کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔؟ شہید کی پہلی برسی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قربانی صرف ایک لمحے کا جذبہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل عزم ہے، جو نسلوں کو جیتی جاگتی تاریخ عطا کرتا ہے۔ یہ دن ہمیں چیلنج دیتا ہے کہ ہم اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں، کیونکہ سید حسن نصراللہ کی راہ یقیناً امت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

سید حسن نصراللہ نے اپنی پوری زندگی اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کی سب سے بڑی آرزو مقامِ شہادت کا حصول تھا، جو بالآخر پوری ہوگئی۔ "عاشَ سعیداً وماتَ سعیداً"ان کی شہادت حزب اللہ کے لیے مزید تقویت کا باعث بنے گی، ان کے پیروکاروں میں مقاومت کا عزم پختہ ہوگا، ان میں اصولوں پر قائم رہنے کی ہمت بڑھے گی اور وہ فلسطین کی آزادی و دفاع کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ مضبوطی کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہیں گے۔ شہید کے پاکیزہ لہو کی قربانی دنیا کی مظلوم قوموں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ مزاحمتی تحریک کا سفر مشکلات و صعوبتوں سے بھرا ہوتا ہے اور جتنی زیادہ فداکاری ہوگی، منزل مقصود اتنی ہی جلد حاصل ہوگی۔

سید حسن نصراللہ کی شہادت کا ایک بڑا پیغام یہ ہے کہ استکباری قوتوں کے خلاف جدوجہد ہی مسلمانوں کی عزت و سربلندی کا راز ہے۔ ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنا ہر غیرت مند مسلمان کا فریضہ ہے۔ سید حسن نصراللہ نے غزہ کے دفاع میں اپنی جان کا نذرانہ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ شیعہ مراجع عظام کا اہلسنت کو اپنا بھائی کہنا صداقت پر مبنی ہے۔ شیعوں کے لیے اہلسنت کی جان، مال اور عزت اتنی ہی عزیز ہے، جتنی کہ شیعوں کی عزیز ہے۔ یہ قربانی مسلمانوں کو اجتماعی ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے اور یہ سبق دیتی ہے کہ شیعہ و سنی کی چار دیواری پھلانگ کر ایک دوسرے کا دست و بازو بننا اور اپنے مشترکہ دشمن امریکہ و اسرائیل کے خلاف متحد ہونا ضروری ہے۔

بدقسمتی سے اہلسنت کی اکثریت تکفیری پروپیگنڈے کے زیر اثر غزہ کے مظلوم عوام سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔ تکفیریوں نے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ فکری بیج بو دیا ہے کہ اگر اہلسنت غزہ کی حمایت کریں گے تو وہ ایران اور حزب اللہ کی طاقت کو بڑھائیں گے اور اس سے سنیوں کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان جیسے ممالک میں اہلِ سنت امریکہ و اسرائیل کے دباؤ کے تحت غزہ کے مسئلے سے لاتعلق ہیں۔ مولویوں کا اثر و رسوخ، مالی امداد کے سیاسی تعلقات اور عوام کی عام بے خبری اس خاموشی کو بڑھا رہے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کی موجودگی لبنان میں ایک طاقتور علامت تھی۔ ان کی قیادت میں حزب اللہ نے اسرائیل کے مقابلے میں کئی کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کی شہادت ایک امتحان ہے۔ ان کی شہادت سے اسرائیل کو شاید جشن منانے کا موقع ملا ہو، لیکن حقیقت میں اس نے اپنی ہی قبر کھودی ہے۔ حزب اللہ مزید طاقتور ہو کر سامنے آرہی ہے۔

امت کو اپنی حفاظت کے لیے بیدار ہونا ہوگا۔ ظلم کا مقابلہ نہ کرنا بھی ظلم ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی سفاکیت اور بے رحمی تاریخ میں بدترین مثال ہے۔ نہتے عوام پر بمباری، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا انسانی ضمیر کو جھنجوڑ دینے والا عمل ہے۔ اس کے باوجود بہت سے اہلِ سنت خاموش ہیں اور بعض مذہبی رہنماء ان مظالم کی مذمت سے گریزاں ہیں۔ یہ خاموشی بہت بڑا المیہ ہے۔ یہ  سوال ہر مسلمان کے ضمیر پر گونج رہا ہے کہ کیا امت اب بھی خاموش رہے گی یا اس شہیدِ مقاومت کے لہو سے بیدار ہوگی۔؟ سید حسن نصراللہ کی شہادت کی پہلی برسی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ ظلم کے سامنے خاموشی جرم ہے اور وحدت ہی مسلمانوں کی بقاء کا راز ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امت اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائے اور مزاحمت کے اس سفر کو جاری رکھے، کیونکہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔

سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی پہلی برسی کا موقع امت مسلمہ کو ایک بار پھر یاد دلایا جا رہا ہے کہ سید حسن نصراللہ صرف ایک انسان نہیں تھے، بلکہ وہ ایک تحریک، ایک عزم اور ایک روشنی تھے، جو امت کے ہر گوشے کو جگانے کی قوت رکھتے تھے۔ ان کی قربانی صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ پیغام ہے کہ آزادی اور حق کی راہ میں جان کا نذرانہ دینا انسانی عظمت کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ آج جب ہم ان کی پہلی برسی کے قریب ہیں تو یہ صرف ایک یادگار دن نہیں بلکہ ایک بیداری کا دن ہونا چاہیئے۔ اس سنہری موقع ہر ہمیں سوچنا چاہیئے کہ ہم ان کی راہ پر چلتے ہوئے ظلم کے خلاف متحد ہو جائیں گے یا خاموشی اختیار کر کے اپنی نسلوں کے حق میں ایک بڑا فکری نقصان قبول کریں گے۔

سید حسن نصراللہ نے اپنی زندگی اور اپنی شہادت سے ہمیں سکھایا کہ حقیقی قربانی میں اختلافات نہیں اتحاد ہوتا ہے، خوف نہیں، حوصلہ ہوتا ہے اور مایوسی نہیں عزم ہوتا ہے۔ آج امت کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اس قربانی کو خراجِ عقیدت صرف الفاظ سے پیش نہ کرے، بلکہ عمل سے ثابت کرے، کیونکہ اگر ہم آج اس راستے پر متحد ہو جائیں تو بلاشبہ ہم ظلم کی جڑوں کو ختم کرسکتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ مسلمانو اب جاگو، اب اٹھو، اب متحد ہو کر ظلم کے سامنے ڈٹ جاؤ، کیونکہ بلاشبہ، ظلم بڑھتا ہے تو مٹتا بھی ہے، لیکن مٹانے کے لیے ہمیں قدم آگے بڑھانا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • شہیدِ مقاومت کی پہلی برسی اور امت کیلئے بیداری کا پیغام
  • پاکستان سعودیہ صرف دفاعی تعاون نہیں بلکہ اسلامی عسکری اتحاد کی جانب نمایاں قدم ہے، ایاز میمن
  • چین کا عظیم کارنامہ: دنیا کا بلند ترین پل 28 ستمبر سے ٹریفک کے لیے کھلے گا
  • یانگو کیساتھ محفوظ سفر اور زیادہ آمدنی: پارٹنر ڈرائیور بننے کے 6 اہم فوائد
  • یانگو کے ساتھ محفوظ سفر اور زیادہ آمدنی
  • امریکی صدر دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں، پاکستان، بھارت جنگ بند کرانے پر شکریہ: وزیراعظم
  • دور ہوتی خوابوں کی سرزمین
  • سعودی عرب کے قومی دن پر سینیٹر طلحہ محمود کا پیغام
  • پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سکھ برادری کو وزیر بنایا؛یہاں اقلیتیں محفوظ ہیں ؛ صوبائی وزیر رمیش سنگھ اروڑہ
  • ٹک ٹاک کے امریکی آپریشنز کی خریداری، دنیا کے تین بڑے نام شامل