بھارت نے دریاؤں کا رخ موڑا تو یہ اقدام جنگ سمجھا جائے گا، رانا ثنا ءاللہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ کاغذوں میں سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، پاکستان کے حصے کا پانی تو آ رہا ہے، اگر انڈیا نے دریاؤں کا رخ موڑا تو یہ اقدام جنگ سمجھا جائے گا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتےہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ کاغذوں میں سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، پاکستان کے حصے کا پانی آ رہا ہے، اگر انڈیا نے پاکستان کے حصے میں دریاؤں کے پانی کا رخ موڑنے کی کوشش کی تو اس کو اقدام جنگ سمجھا جائے گا۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ممبئی حملوں میں انڈیا نے پاکستان کو کوئی ثبوت نہیں دیے تھے، بھارت نے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی تھی۔
وزیراعظم کے مشیر نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان آزاد کمیشن بنایا جائے، یہ کمیشن دونوں ملکوں میں دہشت گردی کی انکوائری کرے، اس حوالے سے پاکستان نے ایک تجویز بھارت کو دی تھی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
’ نیوکلیئر توازن عالمی سلامتی کا ایک اہم جزو ‘، روس نے اپنے ایٹمی تجربات کو امریکی اقدام سے مشروط کر دیا
کریملن کے ترجمان دمیتری پسکوف نے کہا ہے کہ روس بین الاقوامی معاہدوں کے تحت نیوکلیئر ٹیسٹ پر پابندی کی اپنی ذمہ داری کو نہیں توڑے گا، تاہم اگر دیگر ممالک پابندی توڑیں تو روس بھی ٹیسٹ دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیوکلیئر ٹیسٹ کے امریکی اعلان پر روس کا سخت ردِعمل، جوابی تیاریوں کا آغاز
یہ بیان پسکوف نے اس تنازع کے بعد دیا جس کی بنیاد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر مبنی تھی کہ پینٹاگون نیوکلیئر ٹیسٹ دوبارہ شروع کرنے کی تیاری کرے۔
ٹرمپ نے روس اور چین پر ’خفیہ‘ نیوکلیئر ٹیسٹ کرنے کا الزام عائد کیا، جسے دونوں ممالک مسترد کر چکے ہیں۔
صدر ولادیمیر پوتن نے بھی روس کی بین الاقوامی معاہدے کے تحت پابندی کی پختہ وابستگی کی تصدیق کی، مگر خبردار کیا کہ اگر امریکا یا دیگر ممالک ٹیسٹ دوبارہ شروع کریں تو ماسکو مناسب جوابی اقدامات کرے گا۔
پسکوف نے کہا کہ پیوٹن نے اہلکاروں کو صرف یہ ہدایت دی تھی کہ یہ جانچیں کہ آیا نیوکلیئر ٹیسٹ کی ضرورت ہے، نہ کہ دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں:ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی دوسرا ملک ایسا کرتا ہے، تو ہم برابر کی بنیاد پر ایسا کرنے پر مجبور ہوں گے، کیونکہ نیوکلیئر توازن عالمی سلامتی کا ایک اہم جزو ہے۔
انہوں نے روس کے حالیہ نیوکلیئر پاورڈ بیوریویسٹنک کروز میزائل اور پوسائیڈن زیرِ آب ڈرون کے تجربات پر مغربی خدشات کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ ان میں کوئی نیوکلیئر دھماکا شامل نہیں تھا۔
پسکوف نے مغربی ماہرین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ نیوکلیئر ٹیسٹ اور نیوکلیئر پاورڈ سسٹمز کے تجربات میں فرق نہیں کر پا رہے اور ماسکو واشنگٹن سے وضاحت کا منتظر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایٹمی تجربات چین روس صدر ٹرمپ کریملن نیوکلیئر ہیوٹن