’نسلی تعصب دم توڑ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ نسل پرست لوگ اپنے جنازے کو کتنا مہنگا بنائیں گے؟‘۔ مارٹن لوتھر کنگ کا یہ جملہ دنیا کی تلخ حقیقتوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔
ہم ایک ایسے ترقی یافتہ دور میں جی رہے ہیں کہ جہاں انسان نے خلا کی وسعتیں ناپ لیں، جینیاتی کوڈ پڑھ لیے اور معلومات کو انگلیوں کی پوروں پر لا کھڑا کیا، مگر افسوس کہ ترقی کے اس دور میں بھی ہمارے دلوں کے اندر رنگ و نسل کی بنیاد پر نفرتوں کے کانٹے پیوست ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ جس ’نسلی امتیاز‘ کی بنیاد پر تعصب اور خونریزی برپا کی گئی، وہ ایک جھوٹ، فریب اور سراب نکلی کہ جس کی نہ کوئی سائنسی حقیقت ثابت ہوسکی اور نہ ہی فطری تقسیم۔
سویڈن کے مشہور سائنسدان ’کارل لینیئس‘ نے پہلی مرتبہ کرہ ارض پر پائی جانے والی جاندار مخلوق (انسان اور جانور) کی درجہ بندی کرنے کے لیے اُسے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا اور وہی پیمانہ لاگو کیا جو وہ نباتات کی درجہ بندی میں استعمال کیا کرتا تھا، یعنی پھول اور پودے کی ظاہری ساخت، رنگت، خوبصورتی اور لمبائی وغیر۔ اسی بنیاد پر اُس نے سفید فام انسان کو ’کو کیثوئڈ(Caucasoid)، افریقہ کے باسی کو ’نیگروئڈ‘ (Negroid) اورمشرقی ایشیائی باشندے کو ’مونگولوئڈ‘(Mongoloid) اقسام میں تقسیم کیا۔
مزید پڑھیں: بھارتی میڈیا اور ’را‘ سے منسلک اکاؤنٹس سے پاکستان مخالف گمراہ کن پروپیگنڈا جاری
انسانوں کو مختلف نسلوں میں بانٹنے کا تصور دینے والا لینیئس خود اس بات کا قائل تھا کہ شکل و شباہت کی بنیاد پر کی گئی انسانی درجہ بندی محض سہولت کی حد تک ہے اور اس کی فطرت میں کوئی بنیاد نہیں۔
لینیئس کی تحقیق کے مطابق بدھ مت کے مقدس ترین پودے (lotus) کنول کے پودے کا تعلق (water lily) آبی نرگس کے خاندان سے ہے، مگر ڈی این اے کے تقابلی تجزیے کے مطابق وہ لندن میں پیدا ہونے والے (plane tree) چنار کے درخت سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں ایک طرف شکل و صورت اور جغرافیائی بنیادوں پر کی گئی نسلی تفریق نے دقیانوسی اور نسل پرستانہ سوچ کو پروان چڑھایا وہیں جدید جینیات نے اس قسم کی درجہ بندیوں کو باطل قرار دیا اور بتایا کہ تمام بنی نوع ایک ہی جدِ امجد کی اولاد ہیں اور ان کا ڈی این اے 99.
اگر ہم اسے اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو خالق کائنات کا ارشاد ہے:’بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘ اور پھر اس پیغام کی تصدیق اُس کے منتخب کردہ بندے نے کچھ یوں کی: ’کسی عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ۔’ یہ پیغام فقط مذہبی عقیدہ نہیں تھا بلکہ آنے والے وقتوں میں انسانیت کا عالمی منشور بنا۔
مزید پڑھیں: بھارت کو جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں، پاکستان نے سلامتی کونسل کو آگاہ کردیا
ییل یونیورسٹی کے پروفیسر جوناتھن مارکس کا کہنا تھا کہ ’انسانی نسل کی کوئی حیاتیاتی حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ انسان اس طرح سے پیدا ہی نہیں ہوا کہ اسے نسلوں میں بانٹا جا سکے۔‘ انگریز مورخ ایڈورڈ آگسٹس فری مین نے آگے بڑھ کر نسل پرستی کو سائنسی اور تاریخی بنیادوں پر چیلنج کرتے ہوئے یورپ میں قائم نسلی تفخر، خون یا خالص قوم کے تصور پر قائم کی گئی (خونی رشتے داریوں) کے جھوٹے تصور کو یکسر رد کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قوم رنگ و نسل اور خون کی بنیادوں پر قائم تصور کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتی بلکہ انسانی ارتقا کے پیچھے ایک تاریخی، ثقافتی، سیاسی، تعلیمی ترقی اور اقدارپوشیدہ ہوتی ہیں جو اُسے ترقی یافتہ اور مہذب بناتی ہیں۔
بیسویں صدی کے وسط میں امریکی ماہر حیاتیات ’ایشلے مونٹیگو‘ نے بھی ثابت کیا تھا کہ سائنس کبھی بھی شکل و شباہت کی بنیاد پر قائم نسلی تصور کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ سائنسی لحاظ سے یہ سوچ غلط، غیر ضروری اور گمراہ کن ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ تمام انسان حیاتیاتی طور پر ایک جیسے ہیں اور جو ظاہری فرق ہمیں نظر آتا ہے وہ محض جغرافیائی اثرات،موسمی تفاوت، آب و ہوا اور گروہوں کے آپسی فاصلے کا نتیجہ ہے۔
ایشلے نے یونیسکو کی جانب سے نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے لکھی گئی رپورٹ کا مسودہ تیار کیا تھا جس نے نسلی نظریات کے خلاف سائنسی بنیادوں پر عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا تھا، حتیٰ کہ ہٹلر جیسا آمر کہ جس نے نسل کو اپنا مرکزی نظریہ بنایا تھا، وہ بھی اعتراف کرتا تھا کہ ’مجھے بخوبی علم ہے کہ سائنسی لحاظ سے نسل جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، لیکن ایک سیاستدان کی حیثیت سے مجھے ایک ایسا تصور درکار ہے جو تاریخی بنیادوں پر قائم موجودہ نظام کو ختم کر سکے، اور ایک نیا، تاریخ سے منقطع نظام نافذ کیا جا سکے جسے فکری بنیاد فراہم کی جا سکے، اور اس مقصد کیلئے نسل کا تصور میرے لیے نہایت مفید ہے کیونکہ نسل کے نظریے کے ساتھ ہی نیشنل سوشلسٹ تحریک اپنی انقلابی سوچ کو جرمنی سے باہرلے جائے گی اور دنیا کو نئے سرے سے تشکیل دے گی۔‘ یہ بیان خود اس امر کا ثبوت ہے کہ نسل کا نظریہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر گھڑا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کرپٹو کونسل کا شاندار کارنامہ، مختصر وقت میں بڑی کامیابی حاصل کرلی
لہٰذا جن ظاہری بنیادوں پر قوموں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھا گیا، وہ سراسر مصنوعی اور سطحی ثابت ہوئیں حتیٰ کہ جلد کی رنگت بھی۔ اگر لمحہ بھر کے لیے غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان نہ سفید ہے، نہ کالا اور نہ ہی سانولہ، بلکہ یہ انسانی جلد کی رنگت کے مختلف شیڈز ہیں، جو انسانیت کے کسی بھی دوسرے پہلو کو متاثر نہیں کرتے۔
بے شک نسل کا تصور جھوٹا ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتنا گہرا کیوں ہے؟ اس کا جواب تاریخ کے سیاہ بابوں میں پوشیدہ ہے۔ انیسویں صدی میں یورپی طاقتوں نے جب دنیا پر قبضہ کیا تو غلامی اور نوآبادیاتی نظام کو جائز ٹھہرانے کے لیے نسلی نظریہ گھڑا گیا۔ افریقیوں، ایشیائیوں اور دیگر مقامی اقوام کو کمتر ظاہر کرکے ان پر ظلم و ستم، استحصال اور لوٹ مار کو ’تہذیب‘ کا نام دیا گیا۔
یورپی اقوام نے افریقہ، آسٹریلیا، ایشیا اور امریکا میں اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لیے وہاں کی مقامی قوموں کو ان کی ظاہری ساخت، خدوخال اور طاقت کی بنیاد پر تقسیم کرکے صرف وہاں کے طاقتور طبقات کو اپنے ساتھ ملایا تاکہ نو آبادیاتی قبضے، غلامی اور استحصال کو تادیر قائم رکھا جا سکے۔ انہوں نے ہندوستان کو بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرکے کمزور کیا۔ وہاں کی طاقتور قوتوں کو اپنے ساتھ ملاکر مزے سے حکمرانی کی، اور پھر نام نہاد آزادی کے طور پر مقامی طاقتور طبقے کے ہاتھوں میں اقتدار دے کر وہاں سے رخصت ہو گئے۔
یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ طاقتور طبقے ہمیشہ ایسے نظریات تراشتے ہیں جو ظلم کو جائز بنائیں اور نسل پرستی ان میں سب سے مؤثر ہتھیار ثابت ہوئی ہے۔ اس ضمن میں فرانسیسی فلسفی اور مفکر ’ژاں پال سارتر‘ کے بیان کردہ تصور Anti-Racist Racismکا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ جو نسل پرستی اور نوآبادیاتی نظام کے سخت مخالف تھے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کرپٹو کونسل کا شاندار کارنامہ، مختصر وقت میں بڑی کامیابی حاصل کرلی
’سارتر‘نے افریقیوں، عربوں اور دیگر مظلوم قوموں کی حمایت کی تھی لیکن ساتھ ہی ’نسل پرست رویوں کی ضد میں اٹھنے والی نئی نسل پرستی‘ کی بھی مخالفت کی تھی،کیونکہ جب نسل پرستی کا شکار کوئی قوم اس کے رد عمل میں خود کو برتر یا الگ قرار دیتی ہے تو وہ بھی اسی خطرناک راستے پر چل پڑتی ہے جس کے خلاف وہ کھڑی ہوئی تھی، جیسا کہ بلیک پاور تحریک اور اس کی ہم شکل تحریکیں۔
یہ بات قابلِ فہم ہے کہ ماضی میں جن قوموں کو ظلم، تعصب اور بدسلوکی کا سامنا رہا، انہوں نے اپنی شناخت کے گرد ایک حفاظتی خول قائم کرلیا لیکن جب یہی شناختیں سخت ہوئیں تو وہ خود نئے تعصب، نئی مذہبیت اور نئے انتقام کا جواز بن گئیں اور یوں اسی جھوٹے نسلی و مذہبی تصور کو دوام ملا، جو ساری خرابی کی بنیاد بنا۔
یہودی خود کو ’برگزیدہ قوم‘ کہہ کر دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں، ذات پات پر مبنی برہمنی متعصب نظام نے ہندوستان میں ہزاروں سال تک نچلی ذاتوں کو حقیر سمجھا اور یورپ میں سفید فام برتری کے نام پر افریقہ، امریکا کے ریڈ انڈینز، آسٹریلیا کی ایب اوریجنیز نسلیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی گئیں۔
مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی: پاکستان کا خطے کی صورتحال پر اقوام متحدہ سلامتی کونسل کو بریفنگ دینے کا فیصلہ
عربوں میں کچھ عناصر آج بھی خود کو اعلیٰ النسل سمجھ کر دوسروں پر برتری جتاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا بدل رہی ہے، مگر نسلی غرور، مذہبی تنگ نظری اور معاشرتی تعصب کے کالے پردوں میں لپٹی مکروہ ذہنیت ا ٓج بھی تاریک سرنگ میں پھنسی ہوئی ہے۔ رنگ، نسل اور خون کے جھوٹے غرور میں مبتلا نیلی رگوں والے یہودی، سفید فام یورپین اور ہندوستانی برہمن آج بھی اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ جو معاشرے چہرے کی سفیدی، گردن کی لالی، آنکھوں کی سبزی اور رگوں کا نیلاپن دیکھ کر انسانوں کی قدریں طے کرے، وہ خود انسانیت سے بے خبر ہیں۔
نسل پرستی اس وقت ختم ہوگی جب ہم سب قوم، قبیلوں اور مذہب سے اوپر اٹھ کر صرف انسان کو دیکھنا شروع کر یں گے۔ برطانوی فلاسفر ’ انتھونی کلفورڈ گریلنگ‘ نسل پرستی پر لکھے مضمون کا اختتام جان ایف کینیڈی کے اس شاندار جملے سے کرتا ہے کہ ’قبرستانوں میں دفنائے گئے انسانوں کی قبروں کے کتبوں پر کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہاں گورا دفن ہے یا کالا۔‘
مارٹن لوتھر کنگ کا یہ جملہ کہ ’نسلی تعصب دم توڑ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ نسل پرست لوگ اپنے جنازے کو کتنا مہنگا بنائیں گے؟۔ کیا مارٹن لوتھر صحیح کہہ رہا تھا؟ یا شاید اسے یہ غلط فہمی ہوئی تھی کہ نسل پرستی کا بھوت مر رہا ہے؟ یہ تو سچ میں آج بھی زندہ ہے اور خوب دھمالیں مار رہا ہے۔ ذہنی دُکھ، معاشرتی ناہمواری اور عالمی بے چینی کی صورت میں اس کے کفن دفن کے اخراجات ہم آج بھی مل کر چکا رہے ہیں۔ کیا ہم اسے کبھی دفنا پائیں گے؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: عباس سیال نسل پرستی کی بنیاد پر بنیادوں پر مزید پڑھیں نسل پرستی آج بھی نسل کا کی گئی کے لیے جا سکے تھا کہ اور اس رہا ہے کہ نسل
پڑھیں:
افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مغرب کی انصاف پسندی کی حقیقت
انسان کا انفرادی رویّہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویّہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی بُرائی کی راہ پر چل پڑتی ہے؟ اگر عقیدۂ آخرت حقیقت ِ نفس الامری کے مطابق نہ ہوتا اور اُس کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اقرار وانکار کے یہ نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجاے خود صحیح ہے۔
٭…٭…٭
اس کے جواب میں بسااوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفۂ اخلاق اور دستورِعمل سراسر دہریت و مادّہ پرستی پر مبنی ہے۔ پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلقِ خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنیٰ تامل واضح ہوجاتی ہے۔
تمام مادّہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظاماتِ فکر کی جانچ پڑتال کرکے دیکھ لیا جائے، کہیں اُن اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراجِ تحسین اِن ’نیکوکار‘ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفاے عہد، عدل، رحم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبطِ نفس، عفت، حق شناسی اور اداے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کو نظرانداز کردینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابلِ عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (Utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں اُس کی ذات کی طرف، یا اُس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی اُمیداور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے سچ اور جھوٹ، امانت اور خیانت، ایمان داری اور بے ایمانی، وفا اور غدر، انصاف اور ظلم، غرض ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسب ِ موقع ارتکاب کراسکتی ہے۔
٭…٭…٭
اِن اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانے کی انگریز قوم (مغرب) ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات رکھنے اور آخرت کے تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسند اور معاملات میں قابلِ اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپایداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راست بازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجاے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں، تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمایندہ اور اپنے اجتماعی اُمور کا سربراہِ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویّے اختیار کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں؟
٭…٭…٭
تاہم اگر کوئی منکرِ خداو آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے، تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیزگاری اس کے مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اُن مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیرشعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے، کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادّہ پرستی کے خزانے میں اِس سرمایے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کرسکتا۔ (تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 266-267)