’نسلی تعصب دم توڑ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ نسل پرست لوگ اپنے جنازے کو کتنا مہنگا بنائیں گے؟‘۔ مارٹن لوتھر کنگ کا یہ جملہ دنیا کی تلخ حقیقتوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔
ہم ایک ایسے ترقی یافتہ دور میں جی رہے ہیں کہ جہاں انسان نے خلا کی وسعتیں ناپ لیں، جینیاتی کوڈ پڑھ لیے اور معلومات کو انگلیوں کی پوروں پر لا کھڑا کیا، مگر افسوس کہ ترقی کے اس دور میں بھی ہمارے دلوں کے اندر رنگ و نسل کی بنیاد پر نفرتوں کے کانٹے پیوست ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ جس ’نسلی امتیاز‘ کی بنیاد پر تعصب اور خونریزی برپا کی گئی، وہ ایک جھوٹ، فریب اور سراب نکلی کہ جس کی نہ کوئی سائنسی حقیقت ثابت ہوسکی اور نہ ہی فطری تقسیم۔
سویڈن کے مشہور سائنسدان ’کارل لینیئس‘ نے پہلی مرتبہ کرہ ارض پر پائی جانے والی جاندار مخلوق (انسان اور جانور) کی درجہ بندی کرنے کے لیے اُسے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا اور وہی پیمانہ لاگو کیا جو وہ نباتات کی درجہ بندی میں استعمال کیا کرتا تھا، یعنی پھول اور پودے کی ظاہری ساخت، رنگت، خوبصورتی اور لمبائی وغیر۔ اسی بنیاد پر اُس نے سفید فام انسان کو ’کو کیثوئڈ(Caucasoid)، افریقہ کے باسی کو ’نیگروئڈ‘ (Negroid) اورمشرقی ایشیائی باشندے کو ’مونگولوئڈ‘(Mongoloid) اقسام میں تقسیم کیا۔
مزید پڑھیں: بھارتی میڈیا اور ’را‘ سے منسلک اکاؤنٹس سے پاکستان مخالف گمراہ کن پروپیگنڈا جاری
انسانوں کو مختلف نسلوں میں بانٹنے کا تصور دینے والا لینیئس خود اس بات کا قائل تھا کہ شکل و شباہت کی بنیاد پر کی گئی انسانی درجہ بندی محض سہولت کی حد تک ہے اور اس کی فطرت میں کوئی بنیاد نہیں۔
لینیئس کی تحقیق کے مطابق بدھ مت کے مقدس ترین پودے (lotus) کنول کے پودے کا تعلق (water lily) آبی نرگس کے خاندان سے ہے، مگر ڈی این اے کے تقابلی تجزیے کے مطابق وہ لندن میں پیدا ہونے والے (plane tree) چنار کے درخت سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں ایک طرف شکل و صورت اور جغرافیائی بنیادوں پر کی گئی نسلی تفریق نے دقیانوسی اور نسل پرستانہ سوچ کو پروان چڑھایا وہیں جدید جینیات نے اس قسم کی درجہ بندیوں کو باطل قرار دیا اور بتایا کہ تمام بنی نوع ایک ہی جدِ امجد کی اولاد ہیں اور ان کا ڈی این اے 99.
اگر ہم اسے اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو خالق کائنات کا ارشاد ہے:’بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘ اور پھر اس پیغام کی تصدیق اُس کے منتخب کردہ بندے نے کچھ یوں کی: ’کسی عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ۔’ یہ پیغام فقط مذہبی عقیدہ نہیں تھا بلکہ آنے والے وقتوں میں انسانیت کا عالمی منشور بنا۔
مزید پڑھیں: بھارت کو جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں، پاکستان نے سلامتی کونسل کو آگاہ کردیا
ییل یونیورسٹی کے پروفیسر جوناتھن مارکس کا کہنا تھا کہ ’انسانی نسل کی کوئی حیاتیاتی حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ انسان اس طرح سے پیدا ہی نہیں ہوا کہ اسے نسلوں میں بانٹا جا سکے۔‘ انگریز مورخ ایڈورڈ آگسٹس فری مین نے آگے بڑھ کر نسل پرستی کو سائنسی اور تاریخی بنیادوں پر چیلنج کرتے ہوئے یورپ میں قائم نسلی تفخر، خون یا خالص قوم کے تصور پر قائم کی گئی (خونی رشتے داریوں) کے جھوٹے تصور کو یکسر رد کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قوم رنگ و نسل اور خون کی بنیادوں پر قائم تصور کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتی بلکہ انسانی ارتقا کے پیچھے ایک تاریخی، ثقافتی، سیاسی، تعلیمی ترقی اور اقدارپوشیدہ ہوتی ہیں جو اُسے ترقی یافتہ اور مہذب بناتی ہیں۔
بیسویں صدی کے وسط میں امریکی ماہر حیاتیات ’ایشلے مونٹیگو‘ نے بھی ثابت کیا تھا کہ سائنس کبھی بھی شکل و شباہت کی بنیاد پر قائم نسلی تصور کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ سائنسی لحاظ سے یہ سوچ غلط، غیر ضروری اور گمراہ کن ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ تمام انسان حیاتیاتی طور پر ایک جیسے ہیں اور جو ظاہری فرق ہمیں نظر آتا ہے وہ محض جغرافیائی اثرات،موسمی تفاوت، آب و ہوا اور گروہوں کے آپسی فاصلے کا نتیجہ ہے۔
ایشلے نے یونیسکو کی جانب سے نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے لکھی گئی رپورٹ کا مسودہ تیار کیا تھا جس نے نسلی نظریات کے خلاف سائنسی بنیادوں پر عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا تھا، حتیٰ کہ ہٹلر جیسا آمر کہ جس نے نسل کو اپنا مرکزی نظریہ بنایا تھا، وہ بھی اعتراف کرتا تھا کہ ’مجھے بخوبی علم ہے کہ سائنسی لحاظ سے نسل جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، لیکن ایک سیاستدان کی حیثیت سے مجھے ایک ایسا تصور درکار ہے جو تاریخی بنیادوں پر قائم موجودہ نظام کو ختم کر سکے، اور ایک نیا، تاریخ سے منقطع نظام نافذ کیا جا سکے جسے فکری بنیاد فراہم کی جا سکے، اور اس مقصد کیلئے نسل کا تصور میرے لیے نہایت مفید ہے کیونکہ نسل کے نظریے کے ساتھ ہی نیشنل سوشلسٹ تحریک اپنی انقلابی سوچ کو جرمنی سے باہرلے جائے گی اور دنیا کو نئے سرے سے تشکیل دے گی۔‘ یہ بیان خود اس امر کا ثبوت ہے کہ نسل کا نظریہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر گھڑا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کرپٹو کونسل کا شاندار کارنامہ، مختصر وقت میں بڑی کامیابی حاصل کرلی
لہٰذا جن ظاہری بنیادوں پر قوموں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھا گیا، وہ سراسر مصنوعی اور سطحی ثابت ہوئیں حتیٰ کہ جلد کی رنگت بھی۔ اگر لمحہ بھر کے لیے غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان نہ سفید ہے، نہ کالا اور نہ ہی سانولہ، بلکہ یہ انسانی جلد کی رنگت کے مختلف شیڈز ہیں، جو انسانیت کے کسی بھی دوسرے پہلو کو متاثر نہیں کرتے۔
بے شک نسل کا تصور جھوٹا ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتنا گہرا کیوں ہے؟ اس کا جواب تاریخ کے سیاہ بابوں میں پوشیدہ ہے۔ انیسویں صدی میں یورپی طاقتوں نے جب دنیا پر قبضہ کیا تو غلامی اور نوآبادیاتی نظام کو جائز ٹھہرانے کے لیے نسلی نظریہ گھڑا گیا۔ افریقیوں، ایشیائیوں اور دیگر مقامی اقوام کو کمتر ظاہر کرکے ان پر ظلم و ستم، استحصال اور لوٹ مار کو ’تہذیب‘ کا نام دیا گیا۔
یورپی اقوام نے افریقہ، آسٹریلیا، ایشیا اور امریکا میں اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لیے وہاں کی مقامی قوموں کو ان کی ظاہری ساخت، خدوخال اور طاقت کی بنیاد پر تقسیم کرکے صرف وہاں کے طاقتور طبقات کو اپنے ساتھ ملایا تاکہ نو آبادیاتی قبضے، غلامی اور استحصال کو تادیر قائم رکھا جا سکے۔ انہوں نے ہندوستان کو بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرکے کمزور کیا۔ وہاں کی طاقتور قوتوں کو اپنے ساتھ ملاکر مزے سے حکمرانی کی، اور پھر نام نہاد آزادی کے طور پر مقامی طاقتور طبقے کے ہاتھوں میں اقتدار دے کر وہاں سے رخصت ہو گئے۔
یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ طاقتور طبقے ہمیشہ ایسے نظریات تراشتے ہیں جو ظلم کو جائز بنائیں اور نسل پرستی ان میں سب سے مؤثر ہتھیار ثابت ہوئی ہے۔ اس ضمن میں فرانسیسی فلسفی اور مفکر ’ژاں پال سارتر‘ کے بیان کردہ تصور Anti-Racist Racismکا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ جو نسل پرستی اور نوآبادیاتی نظام کے سخت مخالف تھے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کرپٹو کونسل کا شاندار کارنامہ، مختصر وقت میں بڑی کامیابی حاصل کرلی
’سارتر‘نے افریقیوں، عربوں اور دیگر مظلوم قوموں کی حمایت کی تھی لیکن ساتھ ہی ’نسل پرست رویوں کی ضد میں اٹھنے والی نئی نسل پرستی‘ کی بھی مخالفت کی تھی،کیونکہ جب نسل پرستی کا شکار کوئی قوم اس کے رد عمل میں خود کو برتر یا الگ قرار دیتی ہے تو وہ بھی اسی خطرناک راستے پر چل پڑتی ہے جس کے خلاف وہ کھڑی ہوئی تھی، جیسا کہ بلیک پاور تحریک اور اس کی ہم شکل تحریکیں۔
یہ بات قابلِ فہم ہے کہ ماضی میں جن قوموں کو ظلم، تعصب اور بدسلوکی کا سامنا رہا، انہوں نے اپنی شناخت کے گرد ایک حفاظتی خول قائم کرلیا لیکن جب یہی شناختیں سخت ہوئیں تو وہ خود نئے تعصب، نئی مذہبیت اور نئے انتقام کا جواز بن گئیں اور یوں اسی جھوٹے نسلی و مذہبی تصور کو دوام ملا، جو ساری خرابی کی بنیاد بنا۔
یہودی خود کو ’برگزیدہ قوم‘ کہہ کر دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں، ذات پات پر مبنی برہمنی متعصب نظام نے ہندوستان میں ہزاروں سال تک نچلی ذاتوں کو حقیر سمجھا اور یورپ میں سفید فام برتری کے نام پر افریقہ، امریکا کے ریڈ انڈینز، آسٹریلیا کی ایب اوریجنیز نسلیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی گئیں۔
مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی: پاکستان کا خطے کی صورتحال پر اقوام متحدہ سلامتی کونسل کو بریفنگ دینے کا فیصلہ
عربوں میں کچھ عناصر آج بھی خود کو اعلیٰ النسل سمجھ کر دوسروں پر برتری جتاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا بدل رہی ہے، مگر نسلی غرور، مذہبی تنگ نظری اور معاشرتی تعصب کے کالے پردوں میں لپٹی مکروہ ذہنیت ا ٓج بھی تاریک سرنگ میں پھنسی ہوئی ہے۔ رنگ، نسل اور خون کے جھوٹے غرور میں مبتلا نیلی رگوں والے یہودی، سفید فام یورپین اور ہندوستانی برہمن آج بھی اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ جو معاشرے چہرے کی سفیدی، گردن کی لالی، آنکھوں کی سبزی اور رگوں کا نیلاپن دیکھ کر انسانوں کی قدریں طے کرے، وہ خود انسانیت سے بے خبر ہیں۔
نسل پرستی اس وقت ختم ہوگی جب ہم سب قوم، قبیلوں اور مذہب سے اوپر اٹھ کر صرف انسان کو دیکھنا شروع کر یں گے۔ برطانوی فلاسفر ’ انتھونی کلفورڈ گریلنگ‘ نسل پرستی پر لکھے مضمون کا اختتام جان ایف کینیڈی کے اس شاندار جملے سے کرتا ہے کہ ’قبرستانوں میں دفنائے گئے انسانوں کی قبروں کے کتبوں پر کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہاں گورا دفن ہے یا کالا۔‘
مارٹن لوتھر کنگ کا یہ جملہ کہ ’نسلی تعصب دم توڑ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ نسل پرست لوگ اپنے جنازے کو کتنا مہنگا بنائیں گے؟۔ کیا مارٹن لوتھر صحیح کہہ رہا تھا؟ یا شاید اسے یہ غلط فہمی ہوئی تھی کہ نسل پرستی کا بھوت مر رہا ہے؟ یہ تو سچ میں آج بھی زندہ ہے اور خوب دھمالیں مار رہا ہے۔ ذہنی دُکھ، معاشرتی ناہمواری اور عالمی بے چینی کی صورت میں اس کے کفن دفن کے اخراجات ہم آج بھی مل کر چکا رہے ہیں۔ کیا ہم اسے کبھی دفنا پائیں گے؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: عباس سیال نسل پرستی کی بنیاد پر بنیادوں پر مزید پڑھیں نسل پرستی آج بھی نسل کا کی گئی کے لیے جا سکے تھا کہ اور اس رہا ہے کہ نسل
پڑھیں:
ایک انوکھی کہانی
آئی ایم ایف کے تازہ ترین جائزے میں یہ چشم کشا حقیقت سامنے آئی کہ تعلیم اور صحت کے لیے مختص وسائل مکمل طور پر استعمال نہیں کیے جا سکے حالانکہ تعلیم اور صحت ہر سیاسی پارٹی اور حکومتوں کی زبانی ترجیحات میں بظاہر نمبر ون پر ہوتے ہیں۔
جہاں یہ وسائل استعمال ہو رہے ہیں، وہاں یہ صورتحال ہے کہ عوام ناخوش اور حکومت مصر ہے کہ صحت کی سہولتوں میں انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ دیگر صوبوں میں بھی عمومی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔
پاکستان میں صحت کا شعبہ طویل عرصے سے حکومتی ترجیحات کے دعوؤں میں آگے لیکن عملاً لڑکھڑا رہا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی کل جی ڈی پی کا صرف 1.2 فیصد صحت کے سرکاری شعبے میں خرچ ہوتا ہے۔ایک اور سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فی کس سالانہ میڈیکل اخراجات 45 ڈالر سے بھی کم ہیں، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم شمار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ہر 1300 افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر اور 1800 افراد کے لیے ایک بستر دستیاب ہے۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا حادثہ بچوں کو سہنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر 11 میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر سے پہلے وفات پا جاتا ہے۔ہمارے ہاں غربت اور بیماری ایک ایسا گھن چکر ہے جس سے نکلنا غریب عوام کے لیے ممکن نہیں۔
پاکستان میں تقریباً 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جن کے لیے بیماریاں اس غربت کی دلدل کو مزید گھمبیر بنا دیتی ہیں۔ایک حالیہ سروے کے مطابق 70 فیصد مریض علاج کا خرچ خود ادا کرتے ہیں، یعنی کوئی انشورنس، کوئی سوشل سیکیورٹی کا نظام نہیں۔
بیماری کی صورت میں ایک عام گھرانہ اپنی سالانہ آمدنی کا 30 سے 50 فیصد صرف صحت پر خرچ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ایسے میں نجی شعبے میں صحت کے اعلیٰ معیار اور بلاتخصیص علاج تک رسائی کی چند روشن مثالیں قابل قدر اور قابل ستائش ہیں۔ دو روز قبل لاہور کے جوبلی ٹاؤن میں انڈس اسپتال کے 600 بستروں پر مشتمل کیمپس کا تفصیلی مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔
گزشتہ سال ہمیں انڈس اسپتال کراچی وزٹ کرنے اور ان کے سسٹم کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع ملا جو بجائے خود ایک انوکھا تجربہ تھا۔ انڈس اسپتال جوبلی ٹاؤن کو اسی تجربے کا شاندار تسلسل پایا۔ یہ روایتی اسپتال نہیں، بلکہ طبّی سہولت، انسانی ہمدردی اور انتظامی سلیقے کی ایک انوکھی مثال ہے۔
شاندار اور وسیع عمارت جے سی آئی کے عالمی معیارات پر سنگاپور کی ایک معروف فرم کے ڈیزائن کے مطابق تعمیر شدہ ہے ( واضح رہے کہ پاکستان کے صرف تین اسپتال جے سی آئی سرٹیفائیڈ ہیں)۔ تربیت یافتہ، منظم اور خوش اخلاق عملہ، تمام شعبوں کی مربوط کارکردگی اور سب سے بڑھ کر علاج کی مکمل بلامعاوضہ فراہمی کے مشن پر مکمل عملدرآمد۔ پورے اسپتال میں کہیں بھی کیش کاؤنٹر نہیں ہے۔
یہ سب کیسے ممکن ہو پا رہا ہے؟ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر شفیق حیدر سے تفصیلی ملاقات اور ان کی ٹیم کے ہمراہ اسپتال کے تفصیلی ملاحظے سے ادارے کے بانی ڈاکٹر عبد الباری کے ’’مفت علاج سب کے لیے‘‘ کے خواب کی تعبیر سے مزید آگاہی ہوئی۔ انھوں نے انڈس ہیلتھ کئیر نیٹ ورک کے ارتقائی سفر، نظریاتی بنیاد، انڈس ہیلتھ نیت ورک کی موجودہ سہولیات، اداروں اور جوبلی ٹاؤن کیمپس کے موجودہ اور مستقبل کے ماسٹر پلان سے آگاہ کیا۔
انڈس نیٹ ورک کا سفر 2007میں کراچی کے ایک چھوٹے سے اسپتال سے شروع ہوا، آج یہ نیٹ ورک ملک بھر میں بیسیوں اسپتالوں، کلینکس اور طبی مراکز پر مشتمل ہے، جہاں سالانہ ساٹھ لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج بلاامتیاز کیا جاتا ہے۔ سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان… ہر صوبے میں انڈس کی موجودگی، پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ ماڈل کے تحت کامیابی سے جاری ہے۔
یہ نیٹ ورک نہ صرف علاج، بلکہ طبّی تعلیم، تحقیق، نرسنگ اور پیرامیڈیکل ٹریننگ کے میدان میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مخیر حضرات کی امداد کو انتہائی شفافیت کے ساتھ مریضوں کی خدمت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی اعتماد اور شفافیت اس نیٹ ورک کی کامیابی کی کلید ہے۔
یہ صرف ایک ادارہ جاتی کامیابی نہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی فخریہ مثال ہے۔ ایسے وقت میں جب مہنگے اسپتالوں کے بل انسانوں کو مقروض اور مایوس بنا رہے ہیں، انڈس جیسا ادارہ ایک روشن راہ دکھا رہا ہے۔یہ اسپتال اس سوچ کا اظہار کہ اگر نیت خالص ہو، نظام شفاف ہو اور عوام کا اعتماد حاصل ہو، تو دنیا کا کوئی خواب ناممکن نہیں۔ ہمیں بطور قوم ایسے اداروں سے سیکھنا چاہیے۔ مخیر طبقے کو مزید منظم انداز میں انڈس اور ایسے مزید اداروں کی سرپرستی کرنی چاہیے۔
کبھی سوچا تھا کہ ایک اسپتال بغیر فیس کے، بغیر نسلی یا مالی امتیاز کے، عالمی معیار کی سہولت دے سکتا ہے؟ انڈس اسپتال نیٹ ورک نے ثابت کیا کہ خواب، اگر بصیرت اور عزم کے ساتھ دیکھے جائیں، تو وہ تعبیر پا سکتے ہیں۔ ہماری دعائیں، تحسین اور تعاون انڈس جیسے اداروں کے لیے ہیں… جو ہمیں سکھاتے ہیں کہ انسانیت کا سب سے قیمتی علاج محبت، خلوص اور خدمت ہے۔
مہنگائی اور زندگی کے تقاضوں نے عام آدمی کی زندگی مشکل بنا دی ہے بلکہ یہ مشکل ہر گزرتے دن مشکل تر ہو رہی ہے۔ تعلیم اور صحت ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے۔ ماں باپ کی اپنی زندگی جیسے بھی گزر جائے ان کی شدید خواہش اور خواب یہی ہوتا ہے کہ ان کی اولاد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو تاکہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔
عوام کی یہ بھی ایک بنیادی ضرورت ہے کہ غربت کے مارے ہوئے اور مسائل کی چکی میں پسنے کے باوجود انھیں صحت کی اس قدر بنیادی سہولتیں ضرور میسر ہوں کہ سانس کا ناتا برقرار رہے۔ سرکاری شعبے میں انتظامی مداخلت اور مالی وسائل کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کا مسلسل دباؤ سرکاری صحت کے انفرااسٹرکچر کو مسلسل زیربار کیے ہوئے ہے۔
کمرشل بنیادوں پر استوار نجی شعبے کی صحت سہولیات عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ ایسے میں انڈس اسپتال نیٹ ورک اور ایسے دیگر ادارے خدمت کی روشن مثال قائم کر رہے ہیں۔ انھیں تعاون کی ضرورت ہے اور ان کے لیے راستے آسان کرنے کی ضرورت ہے۔