WE News:
2025-05-13@18:43:46 GMT

نسل پرستی کا بھوت

اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT

نسل پرستی کا بھوت

’نسلی تعصب دم توڑ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ نسل پرست لوگ اپنے جنازے کو کتنا مہنگا بنائیں گے؟‘۔ مارٹن لوتھر کنگ کا یہ جملہ دنیا کی تلخ حقیقتوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔

ہم ایک ایسے ترقی یافتہ دور میں جی رہے ہیں کہ جہاں انسان نے خلا کی وسعتیں ناپ لیں، جینیاتی کوڈ پڑھ لیے اور معلومات کو انگلیوں کی پوروں پر لا کھڑا کیا، مگر افسوس کہ ترقی کے اس دور میں بھی ہمارے دلوں کے اندر رنگ و نسل کی بنیاد پر نفرتوں کے کانٹے پیوست ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ جس ’نسلی امتیاز‘ کی بنیاد پر تعصب اور خونریزی برپا کی گئی، وہ ایک جھوٹ، فریب اور سراب نکلی کہ جس کی نہ کوئی سائنسی حقیقت ثابت ہوسکی اور نہ ہی فطری تقسیم۔

سویڈن کے مشہور سائنسدان ’کارل لینیئس‘ نے پہلی مرتبہ کرہ ارض پر پائی جانے والی جاندار مخلوق (انسان اور جانور) کی درجہ بندی کرنے کے لیے اُسے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا اور وہی پیمانہ لاگو کیا جو وہ نباتات کی درجہ بندی میں استعمال کیا کرتا تھا، یعنی پھول اور پودے کی ظاہری ساخت، رنگت، خوبصورتی اور لمبائی وغیر۔ اسی بنیاد پر اُس نے سفید فام انسان کو ’کو کیثوئڈ(Caucasoid)، افریقہ کے باسی کو ’نیگروئڈ‘ (Negroid) اورمشرقی ایشیائی باشندے کو ’مونگولوئڈ‘(Mongoloid) اقسام میں تقسیم کیا۔

مزید پڑھیں: بھارتی میڈیا اور ’را‘ سے منسلک اکاؤنٹس سے پاکستان مخالف گمراہ کن پروپیگنڈا جاری

انسانوں کو مختلف نسلوں میں بانٹنے کا تصور دینے والا لینیئس خود اس بات کا قائل تھا کہ شکل و شباہت کی بنیاد پر کی گئی انسانی درجہ بندی محض سہولت کی حد تک ہے اور اس کی فطرت میں کوئی بنیاد نہیں۔

لینیئس کی تحقیق کے مطابق بدھ مت کے مقدس ترین پودے (lotus) کنول کے پودے کا تعلق (water lily) آبی نرگس کے خاندان سے ہے، مگر ڈی این اے کے تقابلی تجزیے کے مطابق وہ لندن میں پیدا ہونے والے (plane tree) چنار کے درخت سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں ایک طرف شکل و صورت اور جغرافیائی بنیادوں پر کی گئی نسلی تفریق نے دقیانوسی اور نسل پرستانہ سوچ کو پروان چڑھایا وہیں جدید جینیات نے اس قسم کی درجہ بندیوں کو باطل قرار دیا اور بتایا کہ تمام بنی نوع ایک ہی جدِ امجد کی اولاد ہیں اور ان کا ڈی این اے 99.

9% ایک جیسا ہے۔

اگر ہم اسے اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو خالق کائنات کا ارشاد ہے:’بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘ اور پھر اس پیغام کی تصدیق اُس کے منتخب کردہ بندے نے کچھ یوں کی: ’کسی عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ۔’ یہ پیغام فقط مذہبی عقیدہ نہیں تھا بلکہ آنے والے وقتوں میں انسانیت کا عالمی منشور بنا۔

مزید پڑھیں: بھارت کو جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں، پاکستان نے سلامتی کونسل کو آگاہ کردیا

ییل یونیورسٹی کے پروفیسر جوناتھن مارکس کا کہنا تھا کہ ’انسانی نسل کی کوئی حیاتیاتی حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ انسان اس طرح سے پیدا ہی نہیں ہوا کہ اسے نسلوں میں بانٹا جا سکے۔‘ انگریز مورخ ایڈورڈ آگسٹس فری مین نے آگے بڑھ کر نسل پرستی کو سائنسی اور تاریخی بنیادوں پر چیلنج کرتے ہوئے یورپ میں قائم نسلی تفخر، خون یا خالص قوم کے تصور پر قائم کی گئی (خونی رشتے داریوں) کے جھوٹے تصور کو یکسر رد کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قوم رنگ و نسل اور خون کی بنیادوں پر قائم تصور کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتی بلکہ انسانی ارتقا کے پیچھے ایک تاریخی، ثقافتی، سیاسی، تعلیمی ترقی اور اقدارپوشیدہ ہوتی ہیں جو اُسے ترقی یافتہ اور مہذب بناتی ہیں۔

بیسویں صدی کے وسط میں امریکی ماہر حیاتیات ’ایشلے مونٹیگو‘ نے بھی ثابت کیا تھا کہ سائنس کبھی بھی شکل و شباہت کی بنیاد پر قائم نسلی تصور کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ سائنسی لحاظ سے یہ سوچ غلط، غیر ضروری اور گمراہ کن ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ تمام انسان حیاتیاتی طور پر ایک جیسے ہیں اور جو ظاہری فرق ہمیں نظر آتا ہے وہ محض جغرافیائی اثرات،موسمی تفاوت، آب و ہوا اور گروہوں کے آپسی فاصلے کا نتیجہ ہے۔

ایشلے نے یونیسکو کی جانب سے نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے لکھی گئی رپورٹ کا مسودہ تیار کیا تھا جس نے نسلی نظریات کے خلاف سائنسی بنیادوں پر عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا تھا، حتیٰ کہ ہٹلر جیسا آمر کہ جس نے نسل کو اپنا مرکزی نظریہ بنایا تھا، وہ بھی اعتراف کرتا تھا کہ ’مجھے بخوبی علم ہے کہ سائنسی لحاظ سے نسل جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، لیکن ایک سیاستدان کی حیثیت سے مجھے ایک ایسا تصور درکار ہے جو تاریخی بنیادوں پر قائم موجودہ نظام کو ختم کر سکے، اور ایک نیا، تاریخ سے منقطع نظام نافذ کیا جا سکے جسے فکری بنیاد فراہم کی جا سکے، اور اس مقصد کیلئے نسل کا تصور میرے لیے نہایت مفید ہے کیونکہ نسل کے نظریے کے ساتھ ہی نیشنل سوشلسٹ تحریک اپنی انقلابی سوچ کو جرمنی سے باہرلے جائے گی اور دنیا کو نئے سرے سے تشکیل دے گی۔‘ یہ بیان خود اس امر کا ثبوت ہے کہ نسل کا نظریہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر گھڑا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کرپٹو کونسل کا شاندار کارنامہ، مختصر وقت میں بڑی کامیابی حاصل کرلی

لہٰذا جن ظاہری بنیادوں پر قوموں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھا گیا، وہ سراسر مصنوعی اور سطحی ثابت ہوئیں حتیٰ کہ جلد کی رنگت بھی۔ اگر لمحہ بھر کے لیے غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان نہ سفید ہے، نہ کالا اور نہ ہی سانولہ، بلکہ یہ انسانی جلد کی رنگت کے مختلف شیڈز ہیں، جو انسانیت کے کسی بھی دوسرے پہلو کو متاثر نہیں کرتے۔

بے شک نسل کا تصور جھوٹا ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتنا گہرا کیوں ہے؟ اس کا جواب تاریخ کے سیاہ بابوں میں پوشیدہ ہے۔ انیسویں صدی میں یورپی طاقتوں نے جب دنیا پر قبضہ کیا تو غلامی اور نوآبادیاتی نظام کو جائز ٹھہرانے کے لیے نسلی نظریہ گھڑا گیا۔ افریقیوں، ایشیائیوں اور دیگر مقامی اقوام کو کمتر ظاہر کرکے ان پر ظلم و ستم، استحصال اور لوٹ مار کو ’تہذیب‘ کا نام دیا گیا۔

یورپی اقوام نے افریقہ، آسٹریلیا، ایشیا اور امریکا میں اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لیے وہاں کی مقامی قوموں کو ان کی ظاہری ساخت، خدوخال اور طاقت کی بنیاد پر تقسیم کرکے صرف وہاں کے طاقتور طبقات کو اپنے ساتھ ملایا تاکہ نو آبادیاتی قبضے، غلامی اور استحصال کو تادیر قائم رکھا جا سکے۔ انہوں نے ہندوستان کو بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرکے کمزور کیا۔ وہاں کی طاقتور قوتوں کو اپنے ساتھ ملاکر مزے سے حکمرانی کی، اور پھر نام نہاد آزادی کے طور پر مقامی طاقتور طبقے کے ہاتھوں میں اقتدار دے کر وہاں سے رخصت ہو گئے۔

یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ طاقتور طبقے ہمیشہ ایسے نظریات تراشتے ہیں جو ظلم کو جائز بنائیں اور نسل پرستی ان میں سب سے مؤثر ہتھیار ثابت ہوئی ہے۔ اس ضمن میں فرانسیسی فلسفی اور مفکر ’ژاں پال سارتر‘ کے بیان کردہ تصور Anti-Racist Racismکا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ جو نسل پرستی اور نوآبادیاتی نظام کے سخت مخالف تھے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کرپٹو کونسل کا شاندار کارنامہ، مختصر وقت میں بڑی کامیابی حاصل کرلی

’سارتر‘نے افریقیوں، عربوں اور دیگر مظلوم قوموں کی حمایت کی تھی لیکن ساتھ ہی ’نسل پرست رویوں کی ضد میں اٹھنے والی نئی نسل پرستی‘ کی بھی مخالفت کی تھی،کیونکہ جب نسل پرستی کا شکار کوئی قوم اس کے رد عمل میں خود کو برتر یا الگ قرار دیتی ہے تو وہ بھی اسی خطرناک راستے پر چل پڑتی ہے جس کے خلاف وہ کھڑی ہوئی تھی، جیسا کہ بلیک پاور تحریک اور اس کی ہم شکل تحریکیں۔

یہ بات قابلِ فہم ہے کہ ماضی میں جن قوموں کو ظلم، تعصب اور بدسلوکی کا سامنا رہا، انہوں نے اپنی شناخت کے گرد ایک حفاظتی خول قائم کرلیا لیکن جب یہی شناختیں سخت ہوئیں تو وہ خود نئے تعصب، نئی مذہبیت اور نئے انتقام کا جواز بن گئیں اور یوں اسی جھوٹے نسلی و مذہبی تصور کو دوام ملا، جو ساری خرابی کی بنیاد بنا۔

یہودی خود کو ’برگزیدہ قوم‘ کہہ کر دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں، ذات پات پر مبنی برہمنی متعصب نظام نے ہندوستان میں ہزاروں سال تک نچلی ذاتوں کو حقیر سمجھا اور یورپ میں سفید فام برتری کے نام پر افریقہ، امریکا کے ریڈ انڈینز، آسٹریلیا کی ایب اوریجنیز نسلیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی گئیں۔

مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی: پاکستان کا خطے کی صورتحال پر اقوام متحدہ سلامتی کونسل کو بریفنگ دینے کا فیصلہ

عربوں میں کچھ عناصر آج بھی خود کو اعلیٰ النسل سمجھ کر دوسروں پر برتری جتاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا بدل رہی ہے، مگر نسلی غرور، مذہبی تنگ نظری اور معاشرتی تعصب کے کالے پردوں میں لپٹی مکروہ ذہنیت ا ٓج بھی تاریک سرنگ میں پھنسی ہوئی ہے۔ رنگ، نسل اور خون کے جھوٹے غرور میں مبتلا نیلی رگوں والے یہودی، سفید فام یورپین اور ہندوستانی برہمن آج بھی اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ جو معاشرے چہرے کی سفیدی، گردن کی لالی، آنکھوں کی سبزی اور رگوں کا نیلاپن دیکھ کر انسانوں کی قدریں طے کرے، وہ خود انسانیت سے بے خبر ہیں۔

نسل پرستی اس وقت ختم ہوگی جب ہم سب قوم، قبیلوں اور مذہب سے اوپر اٹھ کر صرف انسان کو دیکھنا شروع کر یں گے۔ برطانوی فلاسفر ’ انتھونی کلفورڈ گریلنگ‘ نسل پرستی پر لکھے مضمون کا اختتام جان ایف کینیڈی کے اس شاندار جملے سے کرتا ہے کہ ’قبرستانوں میں دفنائے گئے انسانوں کی قبروں کے کتبوں پر کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہاں گورا دفن ہے یا کالا۔‘

مارٹن لوتھر کنگ کا یہ جملہ کہ ’نسلی تعصب دم توڑ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ نسل پرست لوگ اپنے جنازے کو کتنا مہنگا بنائیں گے؟۔ کیا مارٹن لوتھر صحیح کہہ رہا تھا؟ یا شاید اسے یہ غلط فہمی ہوئی تھی کہ نسل پرستی کا بھوت مر رہا ہے؟ یہ تو سچ میں آج بھی زندہ ہے اور خوب دھمالیں مار رہا ہے۔ ذہنی دُکھ، معاشرتی ناہمواری اور عالمی بے چینی کی صورت میں اس کے کفن دفن کے اخراجات ہم آج بھی مل کر چکا رہے ہیں۔ کیا ہم اسے کبھی دفنا پائیں گے؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

عباس سیال مارٹن لوتھر نسل پرستی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: عباس سیال نسل پرستی کی بنیاد پر بنیادوں پر مزید پڑھیں نسل پرستی آج بھی نسل کا کی گئی کے لیے جا سکے تھا کہ اور اس رہا ہے کہ نسل

پڑھیں:

پاک بھارت جنگ… بات چل نکلی ہے

پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بار پھر جنگی ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ بھارت نے پہلگام میں ہوئی دہشت گردی کے واقعے کو بلا جواز اور یک طرفہ پاکستان کے سر تھوپ دیا۔ خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بن کر فیصلہ سنا دیا کہ یہ سب کیا دھرا پاکستان کا ہے۔پاکستان کی جانب سے بار بار یہ مطالبہ عالمی برادری کے سامنے رکھا گیا کہ بھارت ثبوت بہم پہنچائے، ثبوتوں کے بغیر یہ الزام تراشی اس کی بد نیتی پر مبنی ہے۔

اس بدنیتی کے ثبوت واقعے کے دس منٹ بعد ہی سامنے آنا شروع ہو گئے۔ انتہائی مشکل علاقے میں جہاں عام آدمی کی دسترس مشکل ہے، واقعے کی ایف ائی آر 20 منٹ کے اندر درج ہو جاتی ہے لیکن دہشت گردوں کو فرار ہونے کے لیے وافر وقت ملا۔ آج تک ایک بھی دہشت گرد 7 لاکھ کی فوج موجود ہونے کے باوجود گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ دہشت گردوں کے فرار ہونے کے ساتھ ہی مین اسٹریم میڈیا اور بنیاد پرست سیاسی حلقوں کی دانش اور دلیل بھی فرار ہو گئی۔ خبر سامنے آتے ہی مین اسٹریم میڈیا نے چیخ چیخ کر سارا الزام پاکستان کے سر تھوپ دیا۔

بھارت کی مودی سرکار کو اپنی اکنامک پاور اور مغرب کا نک چڑھا اتحادی ہونے کا غرور ہے۔ اس بار بھی یہ غرور بار بار سامنے آیا۔ کسی بھی قسم کے ثبوت سامنے لانے کے بجائے بھارت مصر رہا کہ وہ پاکستان کو سبق سکھائے گا۔ بھارت نے اپنے تئیں چھ اور سات مئی کی درمیانی رات پاکستان میں نصف درجن مقامات پر حملے کیے۔

اس سے اگلے دن ڈرونز کا سیلابی ریلا پاکستان کی طرف روانہ کیا۔ پاکستان نے انتہائی تحمل اور ٹھہراؤ کے ساتھ بھارت کے ان حملوں کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ خم ٹھوک کر کہا کہ جواب پاکستان کی مرضی کے مقام اور وقت پر دیا جائے گا جسے کل عالم دیکھے گا۔ دو دن قبل پاکستان نے وہ جواب شافی اور کافی انداز میں بھارت کو دے دیا۔بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔

جنگی محاذ گرم ہونے پر عالمی برادری میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، امریکا سمیت کئی ممالک بھارت اور پاکستان کی قیادت سے رابطے میں ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ صورتحال کو مزید بگڑنے کے بجائے ٹھنڈا کیا جائے۔

پاک بھارت کے درمیان ان جنگی حملوں میں کی رپورٹنگ عالمی میڈیا میں کم و بیش متوازن انداز میں کی گئی۔ تاہم کئی بھارت نواز ٹی وی چینلز اور اینکرز نے بہت سے ماہرین اور پاکستانی قیادت کے منہ میں مرضی کے لقمے ڈالنے کی کوشش کی لیکن مجموعی طور پر عالمی میڈیا میں رپورٹنگ متوازن رہی اور پاکستان کا موقف سامنے آتا رہا۔رافیل طیارہ گرائے جانے کا واقعہ بھی عالمی میڈیا کے ذریعے ہی کنفرم ہوا لیکن دوسری طرف بھارت کے اندر مین اسٹریم میڈیا میں ایک ہذیان برپا ہو گیا۔

مین اسٹریم میڈیا پر ٹی آر پی کے چکر میں ایسی ایسی بے تکی اور جھوٹ خبریں سنائی گئیں اور بے جوڑ ویڈیوز چلائی گئیں کہ خدا کی پناہ۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بھارتی حکومت کو پچھلے دو دنوں سے مین اسٹریم میڈیا کے سامنے ہاتھ جوڑنا پڑ رہے ہیں کہ فیک نیوز کے بجائے صرف سرکاری بیانات اور پوزیشن کو ہی اصلی مانا جائے لیکن بھارت میں 400 سے زائد نیوز چینل میں سے بیشتر حکومت کی یہ عرضی ماننے کو تیار نہیں۔

بھارت کی ایک معروف جرنلسٹ ساکشی جوشی ہیں جن کا الیکٹرانک میڈیا میں 19 سال کا تجربہ ہے۔ اپنے کیریئر میں وہ بی بی سی سمیت بہت سے نامی گرامی نیوز چینلز کے ساتھ وابستہ رہیں۔ آج کل وہ اپنا یوٹیوب چینل چلا رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا پر فیک نیوز اور جنگی جذبات کا ہذیان قیامت برپا کر رہا ہے اور بات کہاں تک جا پہنچی ہے،ان کے ایک حالیہ یوٹیوب ویڈیو سے ہو بہو نقل کیا جا رہا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی مین اسٹریم میڈیا خبروں سے کہیں آگے خواہش کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔

’’ بھارتی مین اسٹریم میڈیا صرف اور صرف خوف و ہراس پھیلا رہا ہے ، جھوٹی خبریں آپ تک پہنچا رہا ہے۔ اس لیول تک آگئی ہیں ان کی جھوٹی خبریں کہ سرکار کو بتانا پڑ رہا ہے کہ جو چیز آپ کو میڈیا پہ دکھائی دے رہی ہے وہ سب غلط ہے۔ جنگ کی سچویشن میں ہر آدمی سب سے پہلے نیوز چینل لگاتا ہے کہ کوئی نہ کوئی انفارمیشن آئے گی۔ انفارمیشن تو کچھ نہیں آنے والی آپ کے پاس لیکن مس انفارمیشن کی وجہ سے ایک عام آدمی چکرا کر رہ جاتا ہے، گھبرا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنے ٹی آر پی کے لیے کبھی نہیں سدھرنے والے‘‘۔ یہاں تک جھوٹ کہہ دیا گیا کہ ب پاکستان کی راجدھانی اسلامآباد پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔۔۔ باپ رے! یہ لوگ اپنے آپ کو جرنلسٹ کہہ رہے ہیں۔‘‘

اسی لیے اب اس رجحان کے خلاف لوگوں کا رد عمل سامنے آنے لگا ہے۔ ویرداس لکھتے ہیں: پلیز ایسی چیزوں کو سننا اور شیئر کرنا بند کر دیجیے جہاں پر آپ کو لوگ چیخ چیخ کر اپنے پھیپھڑے پھاڑ پھاڑ کر بولتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ڈاکٹر شوریہ ٹوئٹر پر لکھتے ہیں؛ انڈین میڈیا ابھی تک مایوس کن رہا ہے۔ فیک سائرن اور ہیڈ لائنز دکھا دکھا کر انھوں نے ابھی تک صرف شرمناک کام کیا ہے۔ حد ہو گئی ، یعنی کچھ بھی چل رہا ہے، انٹ شنٹ۔۔ آپ سوچیں کوئی بھی انڈین نیوز چینل دیکھ رہا ہو تو صرف ایسا جھوٹ سنائی اور دکھائی پڑے جس کی سرکارکو تردید کرنی پڑتی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تو وہ کیا سوچے گا!!

سندرن لکھتے ہیں: مجھے نہیں پتہ کہ کتنا ڈیمج پاکستان کو ہوا ہے، پچھلی رات کو لیکن جو ڈیمیج انڈین میڈیا کی کریڈیبلٹی کو ہوا ہے، وہ سب سے زیادہ ہے ! جنگ بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ جس طرح کی یہ لوگ باتیں بول رہے ہیں اور کر رہے ہیں، اینکرز جس طرح سے ہذیان میں آپ کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں، یہ سراسر ملک کی بے عزتی کر رہے ہیں۔

منیش پانڈے لکھتی ہیں یہ کچرا دکھا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو انفارمیشن وار ہے، یہ "کمپلیٹلی نان سینسیکل" ہے۔ عجیب جھوٹے کلیمز لے کر ا رہے ہیں جنھیں انڈیا میں کوئی بھی ماننے کو راضی نہیں ہے۔

چنائی واسی لکھتے ہیں، یہ ہائی ٹائم ہو گیا ہے انڈیا کے لیے کہ ہمارا ایک پیپلز موومنٹ ہونا چاہیے، اس طرح کی انڈین نیوز میڈیا کے خلاف، کیونکہ ہم لوگ بالکل بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ نیوز اینکرز اس دیش میں سارا نیریٹو ( بیانیہ) سیٹ کریں، نفرت پھیلانا شروع کریں، لوگوں کے اندر سراسیمگی پیداکرنا شروع کریں، ڈر کا ماحول پیدا کر دیں اور پورے ملک کو آپ سیٹ کر دیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • یہ پاکستان کی بہت بڑی فتح، دنیا کا ماحول تبدیل ہو گیا
  • سعودی عرب: جنگ کی بو میں، امن کی خوشبو
  • کوچۂ سخن
  • 'پیام مشرق' بنام مشرق
  • مہذب اور باربیرین
  • تو عظیم ہے ماں!
  • ماں
  • وہ جو مزدوروں کا خواب دیکھتا تھا مارکس
  • پاک بھارت جنگ… بات چل نکلی ہے