’نسلی تعصب دم توڑ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ نسل پرست لوگ اپنے جنازے کو کتنا مہنگا بنائیں گے؟‘۔ مارٹن لوتھر کنگ کا یہ جملہ دنیا کی تلخ حقیقتوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔
ہم ایک ایسے ترقی یافتہ دور میں جی رہے ہیں کہ جہاں انسان نے خلا کی وسعتیں ناپ لیں، جینیاتی کوڈ پڑھ لیے اور معلومات کو انگلیوں کی پوروں پر لا کھڑا کیا، مگر افسوس کہ ترقی کے اس دور میں بھی ہمارے دلوں کے اندر رنگ و نسل کی بنیاد پر نفرتوں کے کانٹے پیوست ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ جس ’نسلی امتیاز‘ کی بنیاد پر تعصب اور خونریزی برپا کی گئی، وہ ایک جھوٹ، فریب اور سراب نکلی کہ جس کی نہ کوئی سائنسی حقیقت ثابت ہوسکی اور نہ ہی فطری تقسیم۔
سویڈن کے مشہور سائنسدان ’کارل لینیئس‘ نے پہلی مرتبہ کرہ ارض پر پائی جانے والی جاندار مخلوق (انسان اور جانور) کی درجہ بندی کرنے کے لیے اُسے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا اور وہی پیمانہ لاگو کیا جو وہ نباتات کی درجہ بندی میں استعمال کیا کرتا تھا، یعنی پھول اور پودے کی ظاہری ساخت، رنگت، خوبصورتی اور لمبائی وغیر۔ اسی بنیاد پر اُس نے سفید فام انسان کو ’کو کیثوئڈ(Caucasoid)، افریقہ کے باسی کو ’نیگروئڈ‘ (Negroid) اورمشرقی ایشیائی باشندے کو ’مونگولوئڈ‘(Mongoloid) اقسام میں تقسیم کیا۔
مزید پڑھیں: بھارتی میڈیا اور ’را‘ سے منسلک اکاؤنٹس سے پاکستان مخالف گمراہ کن پروپیگنڈا جاری
انسانوں کو مختلف نسلوں میں بانٹنے کا تصور دینے والا لینیئس خود اس بات کا قائل تھا کہ شکل و شباہت کی بنیاد پر کی گئی انسانی درجہ بندی محض سہولت کی حد تک ہے اور اس کی فطرت میں کوئی بنیاد نہیں۔
لینیئس کی تحقیق کے مطابق بدھ مت کے مقدس ترین پودے (lotus) کنول کے پودے کا تعلق (water lily) آبی نرگس کے خاندان سے ہے، مگر ڈی این اے کے تقابلی تجزیے کے مطابق وہ لندن میں پیدا ہونے والے (plane tree) چنار کے درخت سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں ایک طرف شکل و صورت اور جغرافیائی بنیادوں پر کی گئی نسلی تفریق نے دقیانوسی اور نسل پرستانہ سوچ کو پروان چڑھایا وہیں جدید جینیات نے اس قسم کی درجہ بندیوں کو باطل قرار دیا اور بتایا کہ تمام بنی نوع ایک ہی جدِ امجد کی اولاد ہیں اور ان کا ڈی این اے 99.
اگر ہم اسے اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو خالق کائنات کا ارشاد ہے:’بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘ اور پھر اس پیغام کی تصدیق اُس کے منتخب کردہ بندے نے کچھ یوں کی: ’کسی عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ۔’ یہ پیغام فقط مذہبی عقیدہ نہیں تھا بلکہ آنے والے وقتوں میں انسانیت کا عالمی منشور بنا۔
مزید پڑھیں: بھارت کو جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں، پاکستان نے سلامتی کونسل کو آگاہ کردیا
ییل یونیورسٹی کے پروفیسر جوناتھن مارکس کا کہنا تھا کہ ’انسانی نسل کی کوئی حیاتیاتی حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ انسان اس طرح سے پیدا ہی نہیں ہوا کہ اسے نسلوں میں بانٹا جا سکے۔‘ انگریز مورخ ایڈورڈ آگسٹس فری مین نے آگے بڑھ کر نسل پرستی کو سائنسی اور تاریخی بنیادوں پر چیلنج کرتے ہوئے یورپ میں قائم نسلی تفخر، خون یا خالص قوم کے تصور پر قائم کی گئی (خونی رشتے داریوں) کے جھوٹے تصور کو یکسر رد کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قوم رنگ و نسل اور خون کی بنیادوں پر قائم تصور کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتی بلکہ انسانی ارتقا کے پیچھے ایک تاریخی، ثقافتی، سیاسی، تعلیمی ترقی اور اقدارپوشیدہ ہوتی ہیں جو اُسے ترقی یافتہ اور مہذب بناتی ہیں۔
بیسویں صدی کے وسط میں امریکی ماہر حیاتیات ’ایشلے مونٹیگو‘ نے بھی ثابت کیا تھا کہ سائنس کبھی بھی شکل و شباہت کی بنیاد پر قائم نسلی تصور کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ سائنسی لحاظ سے یہ سوچ غلط، غیر ضروری اور گمراہ کن ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ تمام انسان حیاتیاتی طور پر ایک جیسے ہیں اور جو ظاہری فرق ہمیں نظر آتا ہے وہ محض جغرافیائی اثرات،موسمی تفاوت، آب و ہوا اور گروہوں کے آپسی فاصلے کا نتیجہ ہے۔
ایشلے نے یونیسکو کی جانب سے نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے لکھی گئی رپورٹ کا مسودہ تیار کیا تھا جس نے نسلی نظریات کے خلاف سائنسی بنیادوں پر عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا تھا، حتیٰ کہ ہٹلر جیسا آمر کہ جس نے نسل کو اپنا مرکزی نظریہ بنایا تھا، وہ بھی اعتراف کرتا تھا کہ ’مجھے بخوبی علم ہے کہ سائنسی لحاظ سے نسل جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، لیکن ایک سیاستدان کی حیثیت سے مجھے ایک ایسا تصور درکار ہے جو تاریخی بنیادوں پر قائم موجودہ نظام کو ختم کر سکے، اور ایک نیا، تاریخ سے منقطع نظام نافذ کیا جا سکے جسے فکری بنیاد فراہم کی جا سکے، اور اس مقصد کیلئے نسل کا تصور میرے لیے نہایت مفید ہے کیونکہ نسل کے نظریے کے ساتھ ہی نیشنل سوشلسٹ تحریک اپنی انقلابی سوچ کو جرمنی سے باہرلے جائے گی اور دنیا کو نئے سرے سے تشکیل دے گی۔‘ یہ بیان خود اس امر کا ثبوت ہے کہ نسل کا نظریہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر گھڑا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کرپٹو کونسل کا شاندار کارنامہ، مختصر وقت میں بڑی کامیابی حاصل کرلی
لہٰذا جن ظاہری بنیادوں پر قوموں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھا گیا، وہ سراسر مصنوعی اور سطحی ثابت ہوئیں حتیٰ کہ جلد کی رنگت بھی۔ اگر لمحہ بھر کے لیے غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان نہ سفید ہے، نہ کالا اور نہ ہی سانولہ، بلکہ یہ انسانی جلد کی رنگت کے مختلف شیڈز ہیں، جو انسانیت کے کسی بھی دوسرے پہلو کو متاثر نہیں کرتے۔
بے شک نسل کا تصور جھوٹا ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتنا گہرا کیوں ہے؟ اس کا جواب تاریخ کے سیاہ بابوں میں پوشیدہ ہے۔ انیسویں صدی میں یورپی طاقتوں نے جب دنیا پر قبضہ کیا تو غلامی اور نوآبادیاتی نظام کو جائز ٹھہرانے کے لیے نسلی نظریہ گھڑا گیا۔ افریقیوں، ایشیائیوں اور دیگر مقامی اقوام کو کمتر ظاہر کرکے ان پر ظلم و ستم، استحصال اور لوٹ مار کو ’تہذیب‘ کا نام دیا گیا۔
یورپی اقوام نے افریقہ، آسٹریلیا، ایشیا اور امریکا میں اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لیے وہاں کی مقامی قوموں کو ان کی ظاہری ساخت، خدوخال اور طاقت کی بنیاد پر تقسیم کرکے صرف وہاں کے طاقتور طبقات کو اپنے ساتھ ملایا تاکہ نو آبادیاتی قبضے، غلامی اور استحصال کو تادیر قائم رکھا جا سکے۔ انہوں نے ہندوستان کو بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرکے کمزور کیا۔ وہاں کی طاقتور قوتوں کو اپنے ساتھ ملاکر مزے سے حکمرانی کی، اور پھر نام نہاد آزادی کے طور پر مقامی طاقتور طبقے کے ہاتھوں میں اقتدار دے کر وہاں سے رخصت ہو گئے۔
یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ طاقتور طبقے ہمیشہ ایسے نظریات تراشتے ہیں جو ظلم کو جائز بنائیں اور نسل پرستی ان میں سب سے مؤثر ہتھیار ثابت ہوئی ہے۔ اس ضمن میں فرانسیسی فلسفی اور مفکر ’ژاں پال سارتر‘ کے بیان کردہ تصور Anti-Racist Racismکا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ جو نسل پرستی اور نوآبادیاتی نظام کے سخت مخالف تھے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کرپٹو کونسل کا شاندار کارنامہ، مختصر وقت میں بڑی کامیابی حاصل کرلی
’سارتر‘نے افریقیوں، عربوں اور دیگر مظلوم قوموں کی حمایت کی تھی لیکن ساتھ ہی ’نسل پرست رویوں کی ضد میں اٹھنے والی نئی نسل پرستی‘ کی بھی مخالفت کی تھی،کیونکہ جب نسل پرستی کا شکار کوئی قوم اس کے رد عمل میں خود کو برتر یا الگ قرار دیتی ہے تو وہ بھی اسی خطرناک راستے پر چل پڑتی ہے جس کے خلاف وہ کھڑی ہوئی تھی، جیسا کہ بلیک پاور تحریک اور اس کی ہم شکل تحریکیں۔
یہ بات قابلِ فہم ہے کہ ماضی میں جن قوموں کو ظلم، تعصب اور بدسلوکی کا سامنا رہا، انہوں نے اپنی شناخت کے گرد ایک حفاظتی خول قائم کرلیا لیکن جب یہی شناختیں سخت ہوئیں تو وہ خود نئے تعصب، نئی مذہبیت اور نئے انتقام کا جواز بن گئیں اور یوں اسی جھوٹے نسلی و مذہبی تصور کو دوام ملا، جو ساری خرابی کی بنیاد بنا۔
یہودی خود کو ’برگزیدہ قوم‘ کہہ کر دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں، ذات پات پر مبنی برہمنی متعصب نظام نے ہندوستان میں ہزاروں سال تک نچلی ذاتوں کو حقیر سمجھا اور یورپ میں سفید فام برتری کے نام پر افریقہ، امریکا کے ریڈ انڈینز، آسٹریلیا کی ایب اوریجنیز نسلیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی گئیں۔
مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی: پاکستان کا خطے کی صورتحال پر اقوام متحدہ سلامتی کونسل کو بریفنگ دینے کا فیصلہ
عربوں میں کچھ عناصر آج بھی خود کو اعلیٰ النسل سمجھ کر دوسروں پر برتری جتاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا بدل رہی ہے، مگر نسلی غرور، مذہبی تنگ نظری اور معاشرتی تعصب کے کالے پردوں میں لپٹی مکروہ ذہنیت ا ٓج بھی تاریک سرنگ میں پھنسی ہوئی ہے۔ رنگ، نسل اور خون کے جھوٹے غرور میں مبتلا نیلی رگوں والے یہودی، سفید فام یورپین اور ہندوستانی برہمن آج بھی اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ جو معاشرے چہرے کی سفیدی، گردن کی لالی، آنکھوں کی سبزی اور رگوں کا نیلاپن دیکھ کر انسانوں کی قدریں طے کرے، وہ خود انسانیت سے بے خبر ہیں۔
نسل پرستی اس وقت ختم ہوگی جب ہم سب قوم، قبیلوں اور مذہب سے اوپر اٹھ کر صرف انسان کو دیکھنا شروع کر یں گے۔ برطانوی فلاسفر ’ انتھونی کلفورڈ گریلنگ‘ نسل پرستی پر لکھے مضمون کا اختتام جان ایف کینیڈی کے اس شاندار جملے سے کرتا ہے کہ ’قبرستانوں میں دفنائے گئے انسانوں کی قبروں کے کتبوں پر کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہاں گورا دفن ہے یا کالا۔‘
مارٹن لوتھر کنگ کا یہ جملہ کہ ’نسلی تعصب دم توڑ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ نسل پرست لوگ اپنے جنازے کو کتنا مہنگا بنائیں گے؟۔ کیا مارٹن لوتھر صحیح کہہ رہا تھا؟ یا شاید اسے یہ غلط فہمی ہوئی تھی کہ نسل پرستی کا بھوت مر رہا ہے؟ یہ تو سچ میں آج بھی زندہ ہے اور خوب دھمالیں مار رہا ہے۔ ذہنی دُکھ، معاشرتی ناہمواری اور عالمی بے چینی کی صورت میں اس کے کفن دفن کے اخراجات ہم آج بھی مل کر چکا رہے ہیں۔ کیا ہم اسے کبھی دفنا پائیں گے؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: عباس سیال نسل پرستی کی بنیاد پر بنیادوں پر مزید پڑھیں نسل پرستی آج بھی نسل کا کی گئی کے لیے جا سکے تھا کہ اور اس رہا ہے کہ نسل
پڑھیں:
بگرام کا ٹرکٖ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا دور صدارت ان کے گلے کو آگیا تھا۔ انہیں کسی چیز کا کچھ پتا ہی نہ تھا۔ ابھی حلف ہی نہ اٹھایا تھا کہ ان کے نامزد مشیر قومی سلامتی جنرل فلنگ ایف بی آئی کے ہتھے چڑھ گئے۔
صدارت شروع ہوئی تو جلد اپنی ہی ٹیم ان کا دھڑن تختہ کروانے پر تل گئی۔ بات مواخذے بلکہ مواخذوں تک پہنچ گئی۔ یوں اس دور صدارت کے بعد وہ خود ہی یہ کہتے پائے گئے کہ ہاں مجھے کچھ بھی سمجھ نہ آرہا تھا۔
یوں لگتا ہے اس دوسرے دور صدارت میں ان کی ایک مستقل حکمت عملی یہ ہے کہ خود کو ڈیڑھ شانڑاں باور کرایا جائے۔ اس کے لیے وہ طرح طرح کی مضحکہ خیز کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر اس معاملے میں ان کی ایک مستقل کوشش یہ بھی رہتی ہے کہ لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جائے۔ اور جب وہ ٹرک کا پیچھا شروع کردیں تو یہ خود پتلی گلی سے کٹ لیتے ہیں۔
کینیڈا کو امریکا کی 51 ویں ریاست بنانے اور گرین لینڈ کے حصول والا شوشہ ان کی ایسی ہی بتیاں تھیں۔ اسی ضمن میں ان کا نیا ٹرک افغانستان کا بگرام ایئربیس ہے۔ ہم اسے ٹرک کی بتی 2 وجوہات سے کہہ رہے ہیں۔ پہلی وجہ یورپ میں ہے اور دوسری ایشیا پیسفک میں۔
یہ بھی پڑھیں: دفاعی معاہدہ، سیاسی امکانات
پچھلے ڈیڑھ 2 ہفتوں کے دوران چار یورپین ممالک کی جانب سے یہ واویلا دیکھا گیا کہ رشین ڈرونز اور لڑاکا طیارے ان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
ان ممالک میں پولینڈ، اسٹونیا، رومانیہ اور ڈنمارک شامل ہیں۔ ان میں قدرے سیریس معاملہ پولینڈ کا لگتا تھا مگر وہ بھی یوں ڈرامہ ثابت ہوا کہ اپنی رینج کے لحاظ سے وہ ڈرونز رشیا سے پولینڈ پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ اور جب رشیا نے مشترکہ تحقیقات کی آفر کی تو پولینڈ انکار کرگیا۔ یورپین ممالک کے اس واویلے کی بابت آزاد عالمی ماہرین کی تقریبا متفقہ رائے یہ رہی کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کو یوکرین جنگ سے جوڑے رکھنے کی بھونڈی سی اسکیم ہے۔
اس رائے کے پیچھے ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ حالیہ ٹویٹ کارفرما تھی جس میں انہوں نے روس پر مزید پابندیوں کا معاملہ اس بات سے مشروط کردیا تھا کہ یورپ پہلے رشین تیل خریدنا بند کرے۔
یہ ٹویٹ اس قدر جارحانہ تھی کہ ٹرمپ اس کے آخر میں یہ بھی کہہ گئے کہ اگر یورپ رشین تیل کی خریداری بند کرنے کو تیار نہیں تو پھر میرا وقت ضائع نہ کیا جائے۔
یہ وہی مجوزہ پابدیاں تھیں جن کے متعلق ٹرمپ نے روس کو پہلے پچاس پھر 10 دن کی مہلت دی تھی۔ ٹرمپ اور پیوٹن کی الاسکا والی ملاقات کا یہ نتیجہ تو دنیا دیکھ ہی رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ملاقات کے بعد سے یوکرین کا ذکر بہت ہی کم کردیا ہے۔
یوں جب مذکورہ ٹویٹ بھی سامنے آگئی تو لگ بھگ طے ہوگیا کہ وہ یوکرین جنگ سے خود کو لاتعلق کر رہے ہیں۔ اسی لیے عالمی ماہرین کی پہلی رائے یہی بنی تھی کہ 4 یورپین ممالک کا فضائی حدود کی خلاف ورزی والا ڈرامہ درحقیقت امریکا کو یوکرین سے باندھے رکھنے کی کوشش ہے۔
مگر 3 روز قبل رائٹر نے ایک آرٹیکل کے ذریعے خبر دی ہے کہ سرحدی خلاف ورزی والے واویلے کے پیچھے اصل وجہ یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ٹرمپ انتظامیہ نے ای یو کو آگاہ کیا ہے کہ وہ بالٹک ریاستوں سے امریکی اڈے ختم کرنے کی تیاری میں ہے۔ کیونکہ امریکا اب ان فضول خرچیوں کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔
رائٹر کا کہنا ہے جب سے یہ میسج برسلز پہنچا ہے سرحدی خلاف ورزیوں والے ڈرامے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یورپ میں اپنی فوجی موجودگی میں بڑی کمی لانے کی بات ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی بار کہی تھی۔ اس معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال یہ ہے کہ سوویت یونین واقعی خطرہ تھا۔ لیکن روس سے یورپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ تو تیس سال قبل نیٹو ممبرشپ بھی مانگ رہا تھا جو ہم نے نہیں دی۔
گویا یورپ میں یہ اندیشہ پہلے ہی موجود تھا کہ ٹرمپ وہاں امریکی فوج کی تعداد میں بڑی کمی کرسکتے ہیں۔ ایسے میں فی الحال اگرچہ صرف 3 بالٹک ریاستوں سے امریکا کی فوجی موجودگی ختم کرنے کی بات ہوئی ہے مگر امکان یہی ہے کہ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو بات صرف بالٹک ریاستوں تک رہے گی نہیں۔
یوں گویا یورپین ممالک کا سرحدی خلاف ورزی والا واویلا یوکرین سے نہیں جڑا بلکہ یہ یورپین یونین کا اپنا معاملہ ہے۔ اور یہی ہے یورپ میں موجود وہ وجہ جس کے تحت ٹرمپ کی جانب سے بگرام ایئربیس والا شور محض ٹرک کی بتی لگاتا ہے۔
ایشیا پیسفک سے جڑی وجہ یہ ہے کہ امریکی فوج اور سی آئی اے کے سابق افسران انٹرویوز ہی نہیں بلکہ اپنے لکھے تجزیوں میں بھی یہ بات کر رہے ہیں کہ امریکا نے اچانک ایشیا پیسفک میں بھی فوجی موجودگی کم کرنی شروع کردی ہے۔ اس حوالے سے جنوبی کوریا اور جاپان کا خاص طور پر ذکر آیا ہے۔
جنوبی کوریا نے تو اس کی صاف تردید کی ہے لیکن پینٹاگون کی جانب سے معنی خیز تردید آئی۔ کہا گیا ’ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا‘ الفاظ کا یہ چناؤ صاف بتا رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ چل رہا ہے۔ جاپان والے معاملے میں تو تردید بھی اب تک نہیں آئی۔ جاپانی جزیرے اوکی ناوا سے 9000 یو ایس میرین کم کرنے کا پلان بتایا جا رہا ہے۔ اور کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے 4000 اب تک وہاں سے نکالے بھی جا چکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان اور کوریا دونوں کو مبینہ طور پر بتایا یہ گیا ہے کہ یہ فوجی گوام کے امریکی بیس پر منتقل کئے جا رہے ہیں جو پیسفک میں ہی واقع ہے۔
مزید پڑھیے: چارلی کرک کا قتل
لیکن ریٹائرڈ امریکی افسران کا کہنا ہے کہ یہ ان ممالک کی تسلی کے لئے کہا گیا ہے۔ فوجیوں کو گوام پہنچانے کے بعد اگلے مرحلے میں امریکا پہنچایا جا رہا ہے۔
ان ریٹائرڈ امریکی افسران کا کہنا ہے کہ چین کو گھیر نے کی بچی کھچی امیدیں بھی اس کی حالیہ وکٹری ڈے پریڈ سے دم توڑ گئی ہیں۔ اس پریڈ کے بعد امریکا اس معاملے میں یکسو ہوچکا کہ چین کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا۔ لہٰذا ایشیا پیسفک میں فوجی موجودگی کم کرنا ہی دانشمندی ہے۔ ان افسران کا کہنا ہے کہ امریکا اب بس بر اعظم امریکا پر ہی فوکسڈ رہنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس کی معاشی و سیاسی ہی نہیں بلکہ عسکری ساکھ بھی اب بڑے پنگے لینے والی نہیں رہی۔
اس پورے پس منظر میں یہ سوال غیر معمولی ہوجاتا ہے کہ اگر امریکا یورپ اور ایشیا پیسفک سے ہی اپنی فوجیں کم کر رہا ہے۔ بعض اڈے بھی بند کرنے کی تیاری میں ہے تو بگرام والے ایئربیس کا اس نے اچار ڈالنا ہے؟
اگر وہ وہاں سے چین کے خلاف کچھ کرنے کی سکت رکھتا تو افغانستان سے انخلاء ہی کیوں کرتا ؟ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ دوحہ مذاکرات میں یہ کوشش ہوئی تھی کہ طالبان کو کچھ امریکی ملٹری بیسز برقرار رکھنے پر آمادہ کیا جاسکے۔
مزید پڑھیں: بڑا جی ڈی پی، چھوٹی اوقات
مگر جب وہ ایک بیس بھی دینے کو تیار نہ ہوئے تو معاہدہ مکمل انخلاء کا ہی ہوا۔ سو ہمیں نہیں لگتا کہ ٹرمپ واقعی بگرام ایئربیس حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بگرام بس ایک ٹرک ہے جس کی بتی کے پیچھے دوڑنا دانشمندی نہ ہوگی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں