امریکا میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کا گرمجوش استقبال، ٹرمپ دور میں تعلقات کی حیران کن بحالی
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اس ہفتے کے آخر میں کیمرے کے لیے مسکرا کر ایک اعلیٰ امریکی جنرل کے ساتھ بغلگیر ہوکر تصویر کھنچوائی، یہ اس موسمِ گرما میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے مرکز میں ان کا دوسرا پرجوش استقبال تھا۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر فلوریڈا گئے تاکہ سینٹ کام کے سربراہ جنرل مائیکل کُرلا کی ریٹائرمنٹ کی تقریب میں شرکت کرسکیں، جو مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی افواج کے کمانڈر ہیں اور پہلے بھی پاکستانی طاقتور کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’شاندار شراکت داری‘ کی تعریف کر چکے ہیں، امریکا کے اعلیٰ ترین فوجی افسرجنرل ڈین کین کو منیر نے ایک تختی اور پاکستان آنے کی دعوت دی۔
ان ابتدائی سطروں کے ساتھ فائنانشل ٹائمزنے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ رواں برس جون میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ 2 گھنٹے کا نجی ظہرانہ کیا، صرف ایک ماہ بعد جب پاکستان اور اس کے روایتی حریف بھارت نے دہائیوں میں اپنی سب سے خونریز فوجی جھڑپ لڑی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایٹمی ہتھیاروں سے لیس نیا عالمی نظام، ایک خطرناک مستقبل
یہ کسی بھی شخص کے لیے غیر معمولی استقبال تھا، خاص طور پر اس شخص کے لیے جو ملک کا سب سے طاقتور عہدہ رکھتا ہے لیکن سربراہِ حکومت نہیں ہے اور مزید یہ کہ ایک ایسے ملک کے نمائندے کے لیے جو پاکستان کہلاتا ہے۔ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات ٹرمپ کی دوبارہ انتخابی کامیابی کے بعد خراب ہونے کی توقع تھی، کیونکہ وہ ایک بار ایٹمی طاقت کے حامل 24 کروڑ آبادی والے ملک پر امریکا کو ’جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہ دینے‘ کا الزام لگا چکے تھے۔
اس کے برعکس، ٹرمپ انتظامیہ کے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات پروان چڑھتے نظر آتے ہیں، جبکہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے وائٹ ہاؤس استقبال پر سخت ناراض ہونے والے ملک بھارت کو طنز کا سامنا ہے، حالانکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پہلے امریکی صدر کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھتے تھے۔
ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن کے نان ریزیڈنٹ سینئر فیلو مائیکل کوگلمین کے مطابق پاک-امریکہ تعلقات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ ’میں اس تعلق کو غیر متوقع بحالی، بلکہ احیا قرار دوں گا، پاکستان نے بہت کامیابی سے یہ سمجھا ہے کہ ایسے غیر روایتی صدر کے ساتھ کس طرح رابطہ قائم کرنا ہے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کا پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کا دعویٰ
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ نے ایک مکمل اور فوری فائر بندی میں مدد کی۔ ’میرا خیال ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ جنگ بندی مستقل ہوگی، جس سے دو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کے مابین ایک خطرناک تنازع ختم ہوا۔‘
بھارت اور پاکستان کی متضاد سفارتی کامیابیاں جنوبی ایشیا کی نازک جغرافیائی سیاست کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور یہ پہلے ہی تجارت پر اثر ڈال رہی ہیں، جہاں امریکا نے اسلام آباد پر نسبتاً ہلکا 19 فیصد ٹیرف لگایا جبکہ نئی دہلی پر 50 فیصد کا سخت جرمانہ عائد کیا۔
صدر ٹرمپ نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ پاکستان کے ’تیل کے وسیع ذخائر‘ کو ترقی دینے کا معاہدہ کریں گے، جبکہ اسلام آباد امریکا کو دیگر سرمایہ کاری کے مواقع پیش کر رہا ہے تاکہ اپنے بیل آؤٹ پر منحصر معیشت کو بحال کر سکے۔
مزید پڑھیں: کیا مشرق وسطیٰ میں جاری تصادم عالمی جنگ میں تبدیل ہو جائے گا؟
امریکا میں پاکستان کی حالیہ مقبولیت جزوی طور پر ایک ایسی پرکشش مہم کا نتیجہ ہے جو پاکستانی سینیئر جرنیلوں نے ترتیب دی، جس میں انسدادِ دہشت گردی کا تعاون، ٹرمپ کے قریب کاروباری شخصیات سے روابط، توانائی، اہم معدنیات اور کرپٹو کرنسی کے معاہدے شامل ہیں اور اس سب کے ساتھ وائٹ ہاؤس کے لیے تعریف و توصیف کی بارش بھی۔
اسلام آباد کے رہنماؤں کا ماننا تھا کہ انہیں فوری طور پر اس غیر متوقع صدر اور ان کے کچھ ساتھیوں کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے، جو نیٹو کی افغانستان جنگ کے دوران طالبان کی مبینہ حمایت پر پاکستان پر سخت تنقید کر چکے تھے۔
پروجیکٹ 2025، ایک انتخاب سے قبل کی پالیسی دستاویز جس نے ٹرمپ انتظامیہ کے کئی ابتدائی اقدامات کو متاثر کیا ہے، نے پاکستان کے فوجی غلبے والے نظام کو “انتہائی امریکی مخالف اور کرپٹ” قرار دیا تھا اور اسے چین کا کلائنٹ کہا تھا۔ صدر کے قریبی حلقے پاکستان میں جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بڑھتی آمرانہ روش پر بھی تنقید کر رہے تھے۔ کانگریس میں ایک دو جماعتی گروپ نے منیر پر خان کی قید کے حوالے سے پابندیاں عائد کرنے کے لیے قانون سازی کا مسودہ تیار کرنا شروع کیا۔
مزید پڑھیں:آرمی چیف کا امریکا کے ساتھ شراکت داری مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ
ایک سینیئر پاکستانی سفارتکار کے مطابق ہمیں نہیں معلوم تھا کہ صدر ٹرمپ سے کیا توقع رکھنی چاہیے، لیکن عام تاثر یہی تھا کہ یہ مشکل ہوگا، پاکستان کی ابتدائی کامیابی اس گرفتاری سے ہوئی جسے امریکہ نے اہم قرار دیا۔ مارچ میں آئی ایس آئی کے سربراہ عاصم ملک نے داعش-خراسان کے ایک اہم کارندے کو امریکہ کے حوالے کیا تھا۔
اس دہشت گرد کے بارے میں کہا گیا کہ وہ 2021 میں کابل میں ہونے والے اس بم دھماکے کے پیچھے تھا جس میں 180 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں 13 امریکی فوجی بھی شامل تھے، اس گرفتاری پر ٹرمپ نے اپنے مارچ کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں پاکستان کی تعریف کی اور بھارت کو بلند ٹیرف پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
اہم بات یہ بھی تھی کہ پاکستان نے ’کرپٹو ڈپلومیسی‘ کے ذریعے ٹرمپ کے قریبی حلقوں تک رسائی حاصل کی، ورلڈ لبرٹی فائنانشل، ایک ٹرمپ کی حمایت یافتہ کرپٹو کرنسی منصوبہ، نے اپریل میں پاکستان کے کرپٹو کونسل کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے، جب اس کے شریک بانی پاکستان کے دورے پر آئے۔
مزید پڑھیں:امریکا کے ساتھ ممکنہ تجارتی معاہدے کی بدولت بھاری سرمایہ کاری متوقع ہے، فیلڈ مارشل عاصم منیر
اس دورے کے دوران امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے بیٹے زیک وٹکوف نے کہا کہ پاکستان کے پاس کھربوں ڈالر مالیت کے معدنی وسائل ہیں جو ٹوکنائزیشن کے لیے تیار ہیں۔
اس کے بعد سے، پاکستان کے وزیر برائے کرپٹو اور بلاک چین بلال بن ثاقب ایک غیر رسمی سفارتکار کے طور پر ابھرے، واشنگٹن کے ساتھ تجارتی بات چیت میں حصہ لیا اور پاکستان کی کرپٹو صلاحیت کو ٹرمپ کے خاندان اور مشیروں کے قریبی حلقوں میں پیش کیا۔
پاکستانی حکام اس بات کو بھی اپنی ساکھ میں شامل کرتے ہیں کہ مئی میں بھارت کے ساتھ جھڑپ کے دوران انہوں نے طاقت اور ضبط دونوں کا مظاہرہ کیا، چند بھارتی طیارے مار گرائے لیکن بڑے پیمانے پر تصادم سے گریز کیا جبکہ امریکا اور خلیجی ممالک نے فائر بندی کے لیے سفارتی کوششیں کیں۔
مزید پڑھیں:سی پیک 2 کے لیے چین سے رابطہ، امریکا کے ساتھ تعلقات استوار ہو رہے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف
اسلام آباد نے اس جنگ بندی کا سہرا ٹرمپ کے سر باندھا، حتیٰ کہ امریکی صدر کو نوبیل امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا، اس ہفتے کے آخر میں، جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے خاکی وردی کے بجائے سوٹ اور ٹائی پہنی، تو انہوں نے ٹمپا میں پاکستانی نژاد امریکیوں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر صدر ٹرمپ کی تعریف کی، جن کی تذویراتی قیادت نے دنیا میں کئی جنگوں کو روکا۔
واشنگٹن کے ہڈسن انسٹیٹیوٹ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے کہا کہ صدر ٹرمپ کو کامیابی کی کہانیاں درکار ہیں جن کا وہ کریڈٹ لے سکیں اور پاکستان خوشی سے انہیں یہ کہانیاں دے رہا ہے، اس کے برعکس، بھارتی وزیر اعظم مودی نے زیادہ سخت رویہ اختیار کیا۔
’جون میں منیر کے ساتھ ظہرانے سے ایک دن قبل، بھارتی وزیر اعظم نے امریکی صدر کے ساتھ ایک تلخ فون کال کی، جس میں جنگ بندی میں ٹرمپ کے کردار پر بحث ہوئی۔ مودی نے بعد میں عوامی طور پر ٹرمپ کی بات کی تردید کی اور کہا کہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ امریکی مداخلت سے نہیں بلکہ دونوں ممالک کی افواج کے موجودہ رابطہ چینلز کے ذریعے ہوا۔‘
مزید پڑھیں:بھارت کے خلاف جوابی کارروائی کے بعد امریکی سیکرٹری خارجہ کا آرمی چیف عاصم منیر سے رابطہ
بھارت نے اپنے بیان میں کہا کہ وزیر اعظم مودی نے واضح طور پر کہا کہ بھارت نہ کبھی ثالثی کو قبول کرتا ہے اور نہ کرے گا۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کا صدر ٹرمپ سے ملاقات کا دورہ اس وقت ہوا جب امریکا ایران پر فوجی حملے کی تیاری کر رہا تھا، پاکستان کے فوجی سربراہ کے لیے ایک اور پہلو اجاگر کرنے کا موقع تھا یعنی فوجی اور انٹیلی جنس تعاون۔
آرمی چیف نے بنیادی طور پر پاکستان کو ایک قابلِ اعتماد بیک چینل کے طور پر پیش کیا جو امریکا اور اس کے حریف ایران اور چین کے درمیان رابطہ کر سکتا ہے، یہ حکمت عملی 1970 کی دہائی کے پاکستان کی یاد دلاتی ہے جب اس نے رچرڈ نکسن کے لیے کمیونسٹ چین سے تعلقات استوار کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔
مزید پڑھیں:آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے سے ملک کو نقصان ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
اگرچہ پاکستان نے ایران پر امریکی حملوں پر تنقید کی، لیکن وہ پھر بھی امریکا اور اس کے مخالفین کے درمیان ثالث کے طور پر اپنا کردار اجاگر کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ جولائی کے آخر میں، فیلڈ مارشل عاصم منیر بیجنگ گئے، جہاں انہوں نے پیپلز لبریشن آرمی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا اور چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان میں چینی کارکنوں کو باغی حملوں سے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
امریکی سینٹ کام کے کمانڈر کُرلا کے ساتھ گرمجوش ملاقاتوں کے دوران، جنہیں جولائی کے آخر میں پاکستان کی حکومت کی طرف سے فوجی اعزازات دیے گئے، عاصم منیر نے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا بھی اسلام آباد میں استقبال کیا۔
واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں سینئر فیلو مارون وینبوم نے کہا کہ پاکستان ایک نایاب ملک ہے جو چین، ایران، خلیجی ممالک، کسی حد تک روس، اور اب دوبارہ امریکا، سب کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ’امریکا منیر کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتا ہے جو ایک مفید تذویراتی کردار ادا کر سکتا ہے، پاکستانی سب سے تعلقات کھلے رکھتے ہیں مگر جانتے ہیں کہ کب پیچھے ہٹنا ہے۔‘
مزید پڑھیں:وزیراعظم و آرمی چیف کے مشترکہ دورے پاکستان کی بین الاقوامی حمایت میں اضافے کا پتہ دیتے ہیں: سفارتی ماہرین
نئی دہلی کے لیے، روایتی حریف پاکستان کے صدر ٹرمپ سے بڑھتے تعلقات نے شدید جھنجھلاہٹ پیدا کی ہے، جسے مزید اس بات نے بڑھایا کہ وہ اپنی بڑی معیشت کے باوجود بھاری ٹیرف سے نہیں بچ سکا۔ امریکی صدر نے پہلے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف لگایا، پھر روسی تیل کی خریداری پر اسے دگنا کر کے 50 فیصد کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق، قابل اعتماد ذرائع نے بتایا کہ یہاں اعتماد کی کمی دور ہونے میں کچھ وقت لگے گا، بھارتی حکام اس بات پر بھی برہم ہیں کہ فوجی زیرِ حکومت پاکستان کو کاروباری معاہدوں سے واشنگٹن کو لبھانے پر انعام دیا جا رہا ہے۔
’ناقص نظاموں کے ساتھ معاملات کرنا بہت آسان ہے۔‘
مزید پڑھیں:غلط اور گمراہ کُن معلومات کا تیزی سے پھیلاؤ دنیا کا بڑا چیلنج ہے، آرمی چیف
موجودہ اورسابق پاکستانی حکام اورتجزیہ کارخبردارکرتے ہیں کہ اگر پاکستان وعدے پورے کرنے میں ناکام رہا تو ٹرمپ کا رویہ بدل سکتا ہے۔ پاکستان کے بیشتر قدرتی وسائل یا تو ثابت شدہ نہیں یا ایسے غیر مستحکم صوبوں میں موجود ہیں جہاں گزشتہ سال بغاوتوں میں 2,000 ہلاکتیں ہوئیں۔ پاکستان کی معیشت 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف بیل آؤٹ اور چین و خلیجی ممالک کے قرضوں کی تجدید پر انحصار کرتی ہے۔
اگر صدر ٹرمپ نے دوبارہ بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ نریندر مودی کو خوش کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف ہو سکتے ہیں، 2 سفارتکاروں نے کہا کہ امریکی صدر کو امید ہے کہ اسلام آباد اسرائیل کو تسلیم کرے گا، جو پاکستان کے لیے عوامی مخالفت کے باعث ایک مشکل قدم ہے۔
ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے حسین حقانی نے کہا کہ صدر ٹرمپ پاکستان کا کارڈ استعمال کر رہے ہیں تاکہ بھارت کے ساتھ زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے، بھارتیوں کو ناراض کیا جا سکے، اور دیکھا جا سکے کہ آیا اس سے وہ بات چیت پر آمادہ ہوتے ہیں اور ٹرمپ کی شرائط قبول کرتے ہیں۔ ’یہ ایک لین دین پر مبنی بہتری ہے۔‘
مزید پڑھیں:انتہا پسندی و دہشتگردی کے خلاف توانا آواز، امریکی جریدے کا آرمی چیف کو خراج تحسین
حکومت کے ناقد اورواشنگٹن میں مقیم پاکستان کے سابق پالیسی مشیر حسین ندیم نے کہا کہ غیرمنتخب رہنما اور فوجی عہدیدار حد سے زیادہ وعدے کرنے کو تیار ہیں تاکہ وہ ٹرمپ کی خود پسندی کو خوش کر سکیں۔ ’ٹرمپ اور ان کے مشیر آخرکار صبر کھو سکتے ہیں جب وہ دیکھیں گے کہ پاکستان کارکردگی نہیں دکھا رہا۔‘
2017 سے 2018 تک مسلم لیگ ن کی حکومت کے سربراہ اور بعد ازاں اپنی علیحدہ جماعت بنانیوالے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ٹرمپ انتظامیہ کی غیر یقینی پالیسیوں سے محتاط رہنا چاہیے۔’مودی کبھی اچھے آدمی تھے، اب وہ تنقید کا نشانہ ہیں۔ زیلنسکی کو بھی عوامی طور پر ڈانٹ پڑی، پاکستان کو اپنے مفادات اور وقار دونوں کا تحفظ کرنا ہوگا۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان جنگ ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن پاکستان کا کارڈ پاکستانی حکام پالیسی مشیر تجزیہ کار حسین حقانی حسین ندیم شاہد خاقان عباسی غیر منتخب رہنما فوجی عہدیدار مائیکل کوگلمین نیٹو ہڈسن انسٹیٹیوٹ واشنگٹن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان جنگ پاکستان کا کارڈ پاکستانی حکام پالیسی مشیر تجزیہ کار شاہد خاقان عباسی فوجی عہدیدار نیٹو واشنگٹن فیلڈ مارشل عاصم منیر مزید پڑھیں ا اور پاکستان میں پاکستان پاکستان کے واشنگٹن کے پاکستان کو اسلام آباد کہ پاکستان پاکستان کی امریکی صدر کے آخر میں امریکا کے نے کہا کہ ا رمی چیف کے طور پر کہ بھارت کے دوران ٹرمپ کی ہیں اور کے خلاف ٹرمپ کے کے ساتھ رہا ہے صدر کے تھا کہ اور اس ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا دورہ امریکا، پاکستانی مؤقف کی عالمی سطح پر پذیرائی، بھارت کا دہشتگردانہ چہرا ایک بار پھر بے نقاب
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے دورہ امریکا کو لے کر پاکستان کے مؤقف کی عالمی سطح پر پذیرائی اور بھارت کا دہشتگردانہ چہرا ایک بار پھر بےنقاب ہوا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی کامیاب ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت کا دہشتگردانہ چہرا عالمی سطح پر بےنقاب ہوا ہے۔ امریکا کی جانب سے فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کو دہشتگرد تنظیمیں قرار دینا فیلڈ مارشل کی کاوشوں کا مظہر ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی اسپانسرڈ فتنہ الہندوستان کو عالمی دہشتگرد تنظیم قرار دینے سے بھارت کا اصل چہرا عالمی سطح پر بےنقاب ہوچکا ہے، حالیہ امریکی فیصلہ پاکستان کے مؤقف کی عالمی سطح پر توثیق ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے فتنہ الہندوستان کے ساتھ براہِ راست روابط قائم رکھے اور بھارت نے پاکستان کے خلاف دہشتگردانہ کارروائیوں کیلئے فتنہ الہندوستان کو مالی امداد فراہم کی۔
سیکیورٹی ذرائع نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارت نے فتنہ الہندوستان کے دہشتگردوں کو اپنے ملک میں علاج کی سہولتیں فراہم کیں، گودی میڈیا نے فتنہ الہندوستان کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق مودی اور اجیت دوول نے بلوچستان میں فتنہ الہندوستان کے ساتھ اپنے روابط کا برملا اعتراف کیا، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری بھارتی ریاستی سرپرستی میں دہشتگردی کا واضح ثبوت ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کے دہشتگردانہ عزائم نہ صرف خطے بالکل عالمی امن کیلئے بھی خطرہ ہیں۔