ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کام کرنا ’مشکل اور ناخوشگوار‘ تجربہ تھا ، سشمیتا سین کے انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
1994 کی مس یونیورس اور بالی ووڈ اداکارہ سشمیتا سین نے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا کہ مس یونیورس آرگنائزیشن کے ساتھ کام کرنے کے دوران، جب اس کی ملکیت ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس تھی، ان کا تجربہ نہ تو آسان تھا اور نہ ہی خوشگوار۔
سشمیتا، جو 2010 سے 2012 تک مس انڈیا یونیورس کی فرنچائز ہولڈر رہیں، نے ’مڈ ڈے‘ کو بتایا کہ جب انہیں یہ فرنچائز لینے کی پیشکش ملی، تو یہ ان کے لیے یہ ایک خواب جیسا لمحہ تھا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے معاہدہ سخت اور انتظامی معاملات مشکل تھے۔
’میں نے ایک انتہائی سخت اور پیچیدہ معاہدے پر دستخط کیے، کیونکہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ملکیت تھا — اور یہی ایک بات تھی جس سے معاملات مشکل اور ناخوشگوار ہوجاتے تھے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ اور مس یونیورس آرگنائزیشنڈونلڈ ٹرمپ نے 1996 میں مس یونیورس، مس یو ایس اے اور مس ٹین یو ایس اے مقابلوں کے حقوق خریدے اور تقریباً 2 دہائیوں تک یہ ان کی ملکیت میں رہے۔ اس دوران وہ مقابلوں کے انتظام، فارمیٹ، ججز کے انتخاب، اور حتیٰ کہ امیدواروں کے انتخاب میں بھی براہ راست مداخلت کرتے رہے۔
یہ بھی پڑھیے ڈونلڈ ٹرمپ کو جنسی زیادتی اور ہتک عزت کے الزام میں 50 لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم
ٹرمپ کے دور میں مس یونیورس مقابلے کو کئی تنازعات نے گھیرے رکھا، جن میں شامل تھے:
امیدواروں کے بارے میں متنازع بیانات — متعدد سابق مقابلہ کنندگان نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ ذاتی طور پر بیوٹی پیجینٹس میں شریک خواتین کا معائنہ کرتے اور بعض اوقات غیر پیشہ ورانہ تبصرے کرتے تھے۔
جانبدار فیصلوں کے الزامات — بعض ناقدین کا کہنا تھا کہ مقابلوں میں جیتنے یا آگے بڑھنے کے فیصلے بعض اوقات مسابقتی صلاحیت کی بجائے تعلقات یا شہرت کی بنیاد پر ہوتے تھے۔
سیاسی رنگ — 2015 میں اپنے صدارتی انتخابی مہم کے دوران امیگریشن مخالف بیانات کے بعد، کئی ممالک نے مس یونیورس مقابلوں کا بائیکاٹ کیا اور ٹرمپ نے بعد ازاں اپنے شیئرز فروخت کر دیے۔
سشمیتا کا نقطۂ نظرسشمیتا نے ٹرمپ کے ساتھ براہ راست کسی ذاتی تنازع کا ذکر نہیں کیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کی سخت شرائط، فیصلہ سازی کا دباؤ اور انتظامی پیچیدگیاں اس دور کو چیلنجنگ بناتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے جنسی زیادتی کیس میں ٹرمپ کی اپیل مسترد، 5 ملین ڈالر ہرجانے کا فیصلہ برقرار
واضح رہے کہ سشمیتا سین 1994 میں پہلی بھارتی خاتون کے طور پر مس یونیورس کا تاج جیتنے کے بعد بین الاقوامی شہرت کی مالک بنیں۔ بعد میں انہوں نے فرنچائز ہولڈر کی حیثیت سے نوجوان بھارتی ماڈلز کو عالمی اسٹیج پر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ وہ خواتین کے حقوق، تعلیم اور فلاحی منصوبوں میں بھی سرگرم ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انٹرٹینمنٹ بالی ووڈ اداکارہ سشمیتا سین ڈونلڈ ٹرمپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انٹرٹینمنٹ بالی ووڈ اداکارہ سشمیتا سین ڈونلڈ ٹرمپ ڈونلڈ ٹرمپ مس یونیورس سشمیتا سین کی ملکیت کے ساتھ ٹرمپ کے
پڑھیں:
’ ڈیموکریٹس صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بھروسہ نہیں کرتے‘، امریکا میں 38 روزہ حکومتی شٹ ڈاؤن برقرار
امریکا میں وفاقی حکومت کے 38 روز سے جاری شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے لیے سینیٹ میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس ایک دوسرے کی تجاویز پر متفق نہ ہو سکے۔ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے پیش کردہ منصوبے مسترد کر دیے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا میں حکومتی شٹ ڈاؤن کے باعث ایک ہزار سے زائد پروازیں منسوخ، سیاسی کشمکش جاری
جمعے کے روز سینیٹ میں ڈیموکریٹک رہنما چک شومر نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت حکومت کو دوبارہ کھولنے کی حمایت اس صورت میں کرے گی اگر ریپبلکنز ’افورڈایبل کیئر ایکٹ‘ (اوباماکیئر) کے ٹیکس کریڈٹس میں ایک سال کی توسیع اور 3 سالہ فنڈنگ بلز منظور کرنے پر رضامند ہوں۔
چک شومر نے کہا کہ ڈیموکریٹس ایک سادہ سمجھوتا پیش کر رہے ہیں، اب فیصلہ ریپبلکنز کے ہاتھ میں ہے۔ تاہم ریپبلکن رہنما جان تھون نے اس پیشکش کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
ریپبلکن سینیٹر لنڈسی گراہم نے شومر کے بیان کو ’سیاسی دہشتگردی‘ سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ تجویز بحران حل کرنے کے بجائے سیاست چمکانے کے لیے ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان اختلاف کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈیموکریٹس صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بھروسہ نہیں کرتے کہ وہ افورڈایبل کیئر ایکٹ کے ٹیکس کریڈٹس میں توسیع یا وفاقی ملازمین کی برطرفی روکنے سے متعلق وعدوں پر قائم رہیں گے۔
جمعرات کے روز سینیٹ میں ایک 2 جماعتی (بائی پارٹیزن) مسودہ پیش کیا گیا تھا جس میں حکومت کو عارضی طور پر دوبارہ کھولنے اور 3 سالہ بجٹ منظور کرنے کی تجویز دی گئی تھی تاہم ڈیموکریٹس نے اس منصوبے کو بھی مسترد کر دیا۔
سینیٹر تھون نے کہا کہ اگرچہ مذاکرات جاری ہیں، لیکن انہیں امید ہے کہ حکومت کا شٹ ڈاؤن رواں ماہ کے اختتام تک ختم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ کسی اتفاق رائے تک پہنچا جائے، تاکہ حکومت جلد از جلد اپنے کام پر واپس آئے۔
واضح رہے کہ سینیٹ میں ایوانِ نمائندگان کی جانب سے منظور کردہ فنڈنگ ریزولوشن اکثریتی حمایت حاصل کر چکی ہے، مگر 60 ووٹ درکار ہونے کے باعث فلی بسٹر کے قانون کے تحت تاحال منظور نہیں ہو سکی۔
صدر ٹرمپ نے بھی اپنے بیان میں ریپبلکن سینیٹرز پر زور دیا کہ وہ ’’ڈیموکریٹس کے ساتھ کھیلنے کے بجائے فلی بسٹر ختم کریں اور فوری طور پر حکومت کو کھولنے کے لیے قانون سازی کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں