ٹرمپ کے 50 فیصد ٹیرف کے بعد بھارت میں امریکی برانڈز کی بائیکاٹ مہم زور پکڑ گئی
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
بھارت میں امریکی مصنوعات کے خلاف بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ رہی ہے، جس کی بڑی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی برآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنا ہے۔
اس فیصلے نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو سخت دباؤ میں ڈال دیا ہے اور سماجی و کاروباری حلقوں میں "میک ان انڈیا" اور مقامی مصنوعات کو ترجیح دینے کا نعرہ دوبارہ گونجنے لگا ہے۔
بھارت دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک اور امریکی برانڈز کے لیے ایک اہم منڈی ہے، جہاں مڈل کلاس کے بڑھتے ہوئے طبقے کو عالمی معیار کے برانڈز خاص کشش دیتے ہیں۔
میٹا کی واٹس ایپ کے سب سے زیادہ صارفین بھارت میں ہیں، ڈومینوز پیزا کے سب سے زیادہ آؤٹ لیٹس بھی یہیں ہیں، جبکہ پیپسی اور کوکا کولا مشروبات کی مارکیٹ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ایپل اسٹورز کے افتتاح پر لمبی قطاریں لگنا عام بات ہے، اور اسٹاربکس کی خصوصی ڈسکاؤنٹ آفرز پر کافی شاپس بھر جاتی ہیں۔
ٹرمپ کے ٹیرف فیصلے کے بعد اگرچہ ابھی امریکی مصنوعات کی فروخت میں کسی بڑی کمی کی اطلاع نہیں، مگر سوشل میڈیا پر اور مختلف شہروں میں "بائیکاٹ امریکن برانڈز" کے پیغامات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ مودی کے حامی گروپ اور کاروباری رہنما صارفین کو مقامی برانڈز کی حمایت کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ٹرمپ کا جی 20 اجلاس کا بائیکاٹ، جے ڈی وینس کو بھی جنوبی افریقا سے واپس بلا لیا گیا
واشنگٹن:امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکی حکومت کے کسی بھی عہدیدار کو اس سال جنوبی افریقہ میں ہونے والی جی20 سمٹ میں شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ٹرمپ نے اس موقع پر دوبارہ یہ دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام کسانوں کو قتل اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ نے اس سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور نائب صدر جے ڈی وینس کو ان کی جگہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے بھیجا گیا تھا۔ تاہم ایک باخبر ذرائع نے بتایا کہ اب نائب صدر وینس بھی اس سمٹ میں شرکت نہیں کریں گے۔
ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا سائٹ "ٹروتھ سوشل" پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ جی20 کا اجلاس جنوبی افریقہ میں ہو رہا ہے۔
https://truthsocial.com/@realDonaldTrump/115510666739916664افریکنرز (جو ڈچ آبادکاروں اور فرانسیسی و جرمن تارکین وطن کے نسل سے تعلق رکھتے ہیں) کو قتل اور ذبح کیا جا رہا ہے، اور ان کی زمینوں اور فارموں کو غیر قانونی طور پر ضبط کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب تک یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رہیں گی کوئی امریکی عہدیدار اس اجلاس میں شریک نہیں ہوگا اور میں 2026 میں میامی، فلوریڈا میں جی20 کی میزبانی کا منتظر ہوں
جنوبی افریقا کے وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے الزامات کو "افسوسناک" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس سمٹ کے کامیاب انعقاد کے لیے پرعزم ہیں۔
وزارت نے اپنے بیان میں کہا کہ افریکنرز کو ایک خاص طور پر سفید فام گروہ کے طور پر بیان کرنا تاریخی طور پر غلط ہے۔ اس کمیونٹی کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائے جانے کا دعویٰ حقائق سے بے بنیاد ہے۔
جنوبی افریقہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افریکنرز کے بارے میں کیے گئے الزامات جھوٹے ہیں اور اس کے صدر سیرل رامافوسا نے ٹرمپ کو بتایا کہ ان الزامات کا کوئی حقیقت نہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے طویل عرصے سے جنوبی افریقہ کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اقلیتی سفید فام افریکنر کسانوں کے ساتھ ظلم اور تشدد کی اجازت دے رہی ہے۔
اس دوران امریکی حکومت نے جنوبی افریقہ کے پناہ گزینوں کی تعداد کو محدود کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ زیادہ تر پناہ گزین سفید فام جنوبی افریقی ہوں گے جنہیں اپنے ملک میں امتیاز اور تشدد کا سامنا ہے۔
جنوبی افریقہ کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس الزامات سے حیران ہیں کیونکہ سفید فام افراد کا معیار زندگی ملک کے سیاہ فام باشندوں کے مقابلے میں کافی بہتر ہے اور یہ سب اپارتھائڈ کے خاتمے کے تین دہائیاں بعد بھی برقرار ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس سال کے آغاز میں ایک جی 20 اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ اس اجلاس کے ایجنڈے میں تنوع، شمولیت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات شامل تھے۔