بھارت میں امریکی مصنوعات کے خلاف بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ رہی ہے، جس کی بڑی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی برآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنا ہے۔ 

اس فیصلے نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو سخت دباؤ میں ڈال دیا ہے اور سماجی و کاروباری حلقوں میں "میک ان انڈیا" اور مقامی مصنوعات کو ترجیح دینے کا نعرہ دوبارہ گونجنے لگا ہے۔

بھارت دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک اور امریکی برانڈز کے لیے ایک اہم منڈی ہے، جہاں مڈل کلاس کے بڑھتے ہوئے طبقے کو عالمی معیار کے برانڈز خاص کشش دیتے ہیں۔ 

میٹا کی واٹس ایپ کے سب سے زیادہ صارفین بھارت میں ہیں، ڈومینوز پیزا کے سب سے زیادہ آؤٹ لیٹس بھی یہیں ہیں، جبکہ پیپسی اور کوکا کولا مشروبات کی مارکیٹ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ایپل اسٹورز کے افتتاح پر لمبی قطاریں لگنا عام بات ہے، اور اسٹاربکس کی خصوصی ڈسکاؤنٹ آفرز پر کافی شاپس بھر جاتی ہیں۔

ٹرمپ کے ٹیرف فیصلے کے بعد اگرچہ ابھی امریکی مصنوعات کی فروخت میں کسی بڑی کمی کی اطلاع نہیں، مگر سوشل میڈیا پر اور مختلف شہروں میں "بائیکاٹ امریکن برانڈز" کے پیغامات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ مودی کے حامی گروپ اور کاروباری رہنما صارفین کو مقامی برانڈز کی حمایت کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

جی پی ٹی5 کا آغاز، صارفین کی ملی جلی آراء ، کچھ نے سراہا، زیادہ تر نے مایوس کن قرار دیا

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اوپن اے آئی نے اپنے نئے اور طویل عرصے سے زیرِانتظار ماڈل جی پی ٹی-5 کی لانچنگ کا اعلان کر دیا۔ کمپنی کے سی ای او سیم آلٹ مین نے اسے دنیا کا سب سے ذہین رائٹنگ اور کوڈنگ ماڈل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منطقی سوچ کی صلاحیت کے ساتھ تیار کیا گیا ہے اور مفت استعمال کے لیے دستیاب ہے۔ لیکن ماڈل کے سامنے آتے ہی آن لائن کمیونٹی میں بحث چھڑ گئی اور خاص طور پر تجربہ کار صارفین کی جانب سے سخت تنقید سامنے آئی۔

ریڈٹ پر سب سے زیادہ وائرل ہونے والی ایک پوسٹ میں ایک صارف نے جی پی ٹی-5 کو “مایوس کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے جوابات بے جان، مختصر اور کم ذاتی انداز کے ہیں۔ کئی پلس یوزرز نے شکایت کی کہ چند گھنٹوں کے اندر پرامپٹس کی حد ختم ہو جاتی ہے، جو پہلے کے مقابلے میں بڑا منفی فرق ہے۔

مزید برآں، اوپن اے آئی نے پرانے ماڈلز ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے، جس سے وہ صارفین خاصے ناخوش ہیں جو اپنے پروجیکٹس میں پرانے ورژنز پر انحصار کرتے تھے۔ کچھ کا ماننا ہے کہ نیا ماڈل کارکردگی میں کسی بڑی چھلانگ کے بجائے کئی پہلوؤں میں پیچھے چلا گیا ہے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ شاید کمپنی نے اخراجات کم رکھنے کے لیے ماڈل کو محدود کیا ہے، کیونکہ بڑے AI ماڈلز بجلی اور وسائل دونوں کے لحاظ سے مہنگے اور ماحول پر بوجھ ڈالنے والے ہوتے ہیں۔

چند صارفین نے طنزیہ انداز میں اسے “اوپن اے آئی کا شِرنک فلیشن” کہا — یعنی کم معیار میں نیا ورژن پیش کرنا۔ پروگرامرز کا بھی یہی کہنا ہے کہ کوڈنگ ٹیسٹس میں کوئی نمایاں بہتری نظر نہیں آئی۔ البتہ تحقیقاتی ادارہ METR کے مطابق جی پی ٹی فائیو اتنا طاقتور نہیں کہ خطرناک حد تک تیز رفتاری سے تحقیق کو آگے بڑھا سکے، جو ایک طرح سے مثبت پہلو ہے۔

سیم آلٹمین کا کہنا ہے کہ جی پی ٹی-5 کمپنی کا اب تک کا سب سے ذہین ماڈل ہے اور ان کی ترجیح یہ ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے اور قیمت کم رکھی جائے۔ ان کا وعدہ ہے کہ مستقبل میں مزید بہتر اور طاقتور ماڈلز متعارف کرائے جائیں گے۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • بھارتی مصنوعات پر بھاری محصولات‘ امریکی برانڈز کے بائیکاٹ اور مقامی مصنوعات کو فروغ دینے کی مہم زور پکڑ گئی
  • چین ۔ امریکہ اسٹاک ہوم معاشی و تجارتی مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری
  • امریکا اور چین میں تجارتی جنگ 90 روز کے لیے مؤخر، بھاری ٹیرف کا خطرہ ٹل گیا
  • بھارت میں امریکی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ گئی
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا، بلال اظہر کیانی
  • پاک امریکا اکنامک ڈپلومیسی: کیا پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت اپنی کھوئی ہوئی پہچان حاصل کر پائے گی؟
  • جی پی ٹی5 کا آغاز، صارفین کی ملی جلی آراء ، کچھ نے سراہا، زیادہ تر نے مایوس کن قرار دیا
  • امریکہ کے نئے ٹیرف نظام کی وجہ سے صنعتی نظام ازسر نو مرتب ہوگا، الطاف شکور
  • مودی کے ٹرمپ اور چین کیساتھ کشیدہ تعلقات، بھارت عالمی تنہائی کا شکار، امریکی جریدے کی رپورٹ