UrduPoint:
2025-09-27@10:16:15 GMT

امریکہ اور چین نے ٹیرفس میں اضافہ 90 دن کے لیے مؤخر کر دیا

اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT

امریکہ اور چین نے ٹیرفس میں اضافہ 90 دن کے لیے مؤخر کر دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اگست 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز تصدیق کر دی کہ چین کے ساتھ ٹیرفس کی جنگ میں مزید 90 دن کے لیے وقفہ بڑھا دیا گیا ہے، جبکہ بیجنگ نے بھی اسی نوعیت کے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک پوسٹ میں کہا، ’’میں نے ابھی ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت چین پر محصولات عائد کرنے کے عمل کی معطلی مزید 90 دن کے لیے بڑھا دی گئی ہے۔

معاہدے کے دیگر تمام پہلو جوں کے توں رہیں گے۔‘‘

یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب ڈیڈ لائن ختم ہونے میں چند ہی گھنٹے باقی تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے منگل کو چینی وزارت تجارت کے حوالے سے یہ خبر دی کہ چین نے بھی اعلان کیا کہ وہ امریکی اشیاء پر اضافی ٹیرفس مزید 90 دن کے لیے معطل کر دے گا۔

(جاری ہے)

صدر ٹرمپ کا تازہ ترین ایگزیکٹیو آرڈر اب 10 نومبر کی رات 12 بجے ختم ہو گا، جس سے دونوں ممالک کو کسی ممکنہ حل تک پہنچنے کے لیے مزید وقت مل گیا ہے۔

ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ چین نے تجارتی اور سلامتی سے متعلق امریکی خدشات کو حل کرنے کی سمت ’’اہم اقدامات‘‘ جاری رکھے ہیں اور اس میں دونوں ممالک کے درمیان جاری مذاکرات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

تاہم اس صدارتی حکم نامے میں تسلیم کیا گیا ہے، ’’امریکی اشیاء کے لیے بڑے اور مستقل سالانہ تجارتی خسارے بدستور موجود ہیں اور یہ کہ وہ امریکہ کی قومی سلامتی اور معیشت کے لیے خلاف معمول اور غیر معمولی نوعیت کا خطرہ ہیں۔

‘‘

اس حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان ’’تجارتی مساوات کی کمی‘‘ کو دور کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے اور چین نے امریکی شکایات کے ازالے کے لیے ’’اہم اقدامات‘‘ کیے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’دیکھتے ہیں، آگے کیا ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کا بھی ذکر کیا۔

چین کا ردعمل

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا کے مطابق چین 10 فیصد ٹیرفس برقرار رکھے گا۔

’’بیجنگ جنیوا مشترکہ اعلامیے میں طے پائے گئے ضابطوں کے مطابق امریکہ کے خلاف غیر ٹیرف جوابی اقدامات کو معطل یا ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گا یا جاری رکھے گا۔‘‘

واشنگٹن اور بیجنگ نے مئی میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ایک دوسرے پر لگائے گئے بھاری بھرکم ٹیرفس، جو بالترتیب چینی اشیاء پر 145 فیصد اور امریکی اشیاء پر 125 فیصد تک پہنچ گئے تھے، میں کمی کی جائے۔

اس معاہدے سے ایک ممکنہ معاشی بحران کو ٹالنے میں مدد ملی۔

مئی کے اس سمجھوتے کے تحت چینی اشیاء پر ٹیرفس 30 فیصد تک کم کر دیے گئے جبکہ امریکی درآمدی اشیاء پر یہ محصولات 10 فیصد ہی رہے۔

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایگزیکٹیو آرڈر دن کے لیے اشیاء پر چین نے گیا ہے

پڑھیں:

امریکہ، چین اور خطے کی سیاست

محمد آصف

دنیا کی سیاست میں امریکہ اور چین دو ایسی بڑی طاقتیں ہیں جن کا اثر و رسوخ صرف اپنی سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا پر براہِ راست پڑتا ہے ۔ اکیسویں صدی کو اگر ”ایشیا کی صدی” کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا، کیونکہ عالمی معیشت اور سیاست کا محور تیزی سے ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے ۔ چین اپنی معاشی ترقی، ٹیکنالوجی میں جدت، اور خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے ، جبکہ امریکہ اب بھی عسکری طاقت، عالمی اداروں میں اثر و رسوخ، اور روایتی اتحادیوں کے سہارے دنیا کی قیادت کا دعوے دار ہے ۔ یہی کشمکش خطے کی سیاست کو پیچیدہ اور غیر یقینی بنا رہی ہے ۔
امریکہ کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں رکھے ۔ سرد جنگ کے زمانے میں یہ کردار سوویت یونین کے خلاف تھا اور آج یہی پالیسی چین کے خلاف نظر آتی ہے ۔ امریکہ خطے میں بھارت کو ایک بڑی اسٹریٹجک طاقت کے طور پر سامنے لانا چاہتا ہے تاکہ چین کو روکا جا سکے ۔ دوسری طرف، چین”بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو”(BRI)اور”چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور” (CPEC) جیسے منصوبوں کے ذریعے خطے میں معاشی جڑیں مضبوط کر رہا ہے ۔ یہ صورتحال امریکہ اور چین کے درمیان ایک نئے قسم کے سرد جنگی ماحول کو جنم دے رہی ہے ۔ پاکستان اس کشمکش میں ایک نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے
پاکستان خطے کی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ چین کے ساتھ اس کے تعلقات روایتی طور پر مضبوط ہیں اور سی پیک کو پاکستان اپنی معاشی ترقی کا سنگ بنیاد سمجھتا ہے ۔ مگر دوسری طرف پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات کو نظرانداز نہیں کر سکتا، کیونکہ امریکہ اب بھی عالمی
مالیاتی اداروں، فوجی امداد، اور سفارتی اثر و رسوخ کے ذریعے ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو بار بار ”بیلنسنگ ایکٹ”کرنا پڑتا ہے ، یعنی ایک طرف چین سے قریبی تعلقات رکھنا اور دوسری طرف امریکہ کو بھی ناراض نہ کرنا۔
خطے میں بھارت کا کردار بھی امریکہ اور چین کی سیاست کا اہم حصہ ہے ۔ امریکہ، بھارت کو چین کے خلاف ایک فطری اتحادی کے طور پر دیکھ رہا ہے ۔”کواڈ” (QUAD) اتحاد جس میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں ۔اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ ایشیا میں چین کے بڑھتے اثرکو روکنے کے لیے ایک اتحاد بنا رہا ہے ۔ اس کے مقابلے میں چین پاکستان کے ساتھ مل کر خطے میں بھارت کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس کشمکش کے اثرات نہ صرف سیاسی اور دفاعی شعبوں میں ہیں بلکہ معاشی میدان میں بھی نمایاں ہیں۔
افغانستان کی صورتحال بھی اس خطے کی سیاست پر گہرے اثرات ڈال رہی ہے ۔ امریکہ نے طویل جنگ کے بعد افغانستان سے انخلا کیا، لیکن اس کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے چین اور روس آگے بڑھ رہے ہیں۔ طالبان حکومت کے بعد افغانستان میں امن و امان اور دہشت گردی کے خدشات کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات نے خطے کے ممالک کو نئی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے ۔ چین افغانستان میں سرمایہ کاری کے امکانات تلاش کر رہا ہے جبکہ امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے ۔ پاکستان اس سارے منظرنامے میں براہِ راست متاثر ہو رہا ہے کیونکہ افغانستان کی صورتحال کا اثر اس کی سیکیورٹی اور معیشت دونوں پر پڑتا ہے ۔
امریکہ اور چین کے درمیان یہ مقابلہ محض عسکری یا سیاسی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی، معیشت اور عالمی اداروں پر اثر و رسوخ کی جنگ بھی ہے ۔ امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ ہائی ٹیک انڈسٹریز، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)، اور دفاعی ٹیکنالوجیز پر اپنی برتری قائم رکھے ، جبکہ چین تیزی سے ان شعبوں میں ترقی کر رہا ہے ۔ 5G ٹیکنالوجی، الیکٹرک گاڑیاں، اور جدید انفراسٹرکچر میں چین نے کئی ممالک کو اپنی طرف مائل کر لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ چینی ٹیکنالوجی، خاص طور پر ہواوے اور دیگر کمپنیوں کو استعمال نہ کریں۔
خطے کے دوسرے ممالک جیسے ایران، ترکی، وسطی ایشیائی ریاستیں، اور خلیجی ممالک بھی اس بڑی طاقتوں کی کشمکش سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایران چین کے ساتھ معاہدے کر کے امریکہ کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، جبکہ خلیجی ممالک ایک طرف امریکہ کے روایتی اتحادی ہیں مگر دوسری طرف وہ چین سے معاشی تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ خطے کی سیاست اب ایک کثیر رخی شکل اختیار کر چکی ہے جہاں ممالک صرف ایک طاقت پر انحصار کرنے کے بجائے دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ اس عالمی اور علاقائی کشمکش میں اپنے مفادات کو کیسے محفوظ رکھے ۔ سی پیک کے ذریعے پاکستان کو توانائی، انفراسٹرکچر اور روزگار کے مواقع مل رہے ہیں، مگر امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا مطلب عالمی مالیاتی اداروں سے مشکلات اور سفارتی دباؤ ہو سکتا ہے ۔ اس لیے پاکستان کو نہ صرف معاشی خودکفالت کی طرف جانا ہوگا بلکہ ایک متوازن خارجہ پالیسی اپنانی ہوگی تاکہ وہ دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھ سکے ۔ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے امریکہ، چین اور خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب یا دور کیا ہے ۔ پاکستان جیسے ملک موسمیاتی آفات کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں، لیکن ان کے پاس وسائل نہیں کہ وہ تنہا ان سے نمٹ سکیں۔ ایسے میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کو قائل کرے کہ ماحولیاتی انصاف کے تحت کمزور ممالک کی مدد کی جائے ۔ چین نے گرین انرجی پر سرمایہ کاری بڑھائی ہے ، جبکہ امریکہ نے بھی ”کلائمٹ چینج” کے حوالے سے کئی عالمی وعدے کیے ہیں۔ خطے کی سیاست میں یہ پہلو بھی ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے ۔ مستقبل کی سیاست کا دارومدار اس بات پر ہے کہ امریکہ اور چین کی یہ کشمکش کہاں تک جاتی ہے ۔ اگر یہ محاذ آرائی کھلی ٹکراؤ میں بدلتی ہے تو خطے کے ممالک کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی، لیکن اگر یہ مقابلہ زیادہ تر معاشی اور سفارتی حدود میں رہے تو چھوٹے ممالک اس سے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے موقع یہ ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی حیثیت، معاشی مواقع اور سفارتی کردار کو اس انداز میں استعمال کریں کہ دونوں طاقتوں سے فائدہ بھی اٹھائیں اورکسی بڑی طاقت کے ساتھ دشمنی مول نہ لیں۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • H-1B ویزا فیس میں ڈرامائی اضافہ: امریکی شعبہ صحت کے لیے دھچکہ
  • کسی امریکی مطالبے پر اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے: خواجہ آصف 
  • وفاقی حکومت کے دعوؤں کے باوجود 17 اشیائے ضروریہ مہنگی، 17 اشیاء مہنگی
  • چین نے 6 امریکی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا، تجارتی کشیدگی میں اضافہ
  • امریکہ، چین اور خطے کی سیاست
  • ٹرینوں کی ڈائننگ کار میں مسافروں کو غیر معیاری اشیاء فراہم کیے جانے کا انکشاف
  • ایچ-1 بی ویزا کی لاگت میں غیر معمولی اضافہ، 8 امریکی متبادل ورک ویزے کونسے؟
  • ایشیائی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی
  • گلگت بلتستان میں درآمدی اشیاء پر سیلز اور ایڈوانس انکم ٹیکس نہیں لگے گا، معاہدہ: اویس لغاری
  • اسلامی ممالک کے سربراہان کا امریکہ سے غزہ میں جنگ ختم کروانے کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ