Express News:
2025-10-05@07:38:50 GMT

قصائی خانے اور افسر خانے

اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT

پاکستان کے منتخب شہنشاہوں کی مجلس ’’سینٹ‘‘ میں پہلی بار عوام کالانعام کی بات ہوئی ہے تو اس عظیم تبدیلی انقلاب اور انہونی پر جتنا بھی کہا، سنا جائے، اچھا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ ڈاکٹر دنیش کمار نام کا شخص کیسے وہاں پہنچا ورنہ ان مقامات تک پہنچنے کے لیے تو پہلے سے سلیکشن ہو چکی ہوتی ہے، صرف وہی لوگ وہاں پہنچ سکتے ہیں جو پہلے ہی ’’پہنچے‘‘ ہوئے ہوتے ہیں اورعوام کالانعام کو پانچ سال میں صرف ایک مرتبہ استعمال کرتے ہیں اور جب ان سے دھرنے، جلسے، جلوس اور انڈے حاصل کرلیتے ہیں، ان کو پانچ سال کے لیے بھول جاتے ہیں کہ

 کبھی فتراک میں میرے کوئی نخچیر بھی تھا

دراصل وہ فنڈوں، وزارتوں، ملازمتوں اور بندربانٹ میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان فضول چیزوں کی طرف دھیان بھی نہیں دے پاتے کہ گزشتہ الیکشن کی لاگت بھی سود سمیت وصول کرنا ہوتا ہے اوراگلے الیکشنوں کے لیے ’’خرچہ ‘‘ جمع کرنا پڑتا ہے لیکن ڈاکٹر دنیش کمار نے سینیٹ میں کالانعام کی بات کر کے تھوڑی دیر کے لیے بدمزہ کردیا، وہ تو اچھا ہوا کہ وزیر قانون نے بروقت اس گیندکو صوبوں کی طرف منتقل کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں جاؤ اور شکایت کرو ۔ اب لوگ پہلے اپنی اپنی صوبائی حکومت کا پتہ لگائیں گے کہ یہ کہاں ہے بلکہ ہے بھی کہ نہیں اور اگر ہے تو اس کے پاس ایسی فضول کالانعامی کاموں کے لیے وقت ہے یا نہیں۔

خیر ڈاکٹر دنیش کمار نے دوباتیں کہی ہیں، ایک یہ کہ علاج معالجے کے نام پر ڈاکٹروں، کلینکوں اور دواساز کمپنیوں نے جو حشر نشر برپا رکھا ہے، اس سے زیادہ ظالمانہ کاروبار کبھی چنگیز وہلاکو، ہٹلر اور نمرودوں اور فرعونوں نے بھی برپا نہیں کیا تھا، مریضوںکو پکڑ پکڑ کر توڑا پھوڑا، نچوڑا اور ککھوڑا جارہا ہے اورسکوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔

لمبے چوڑے نسخوں، فضول ٹیسٹوں اور بے پناہ فیسوں پر تو بات ہوگئی ہے لیکن اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو ابھی باقی ہے اور وہ ہے پرائیویٹ کلینکوں اور اسپتالوں میں حاملہ خواتین کے بلاوجہ آپریشنز… اور یہ چیرپھاڑ اتنی عام ہوچکی ہے کہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں اورگھروں و دکانوں میں کھولے گئے معمولی پولی کلینکوں میں زور و شور سے چل رہی ہے، مجال ہے اوریہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی حاملہ خاتوں ان کلینکوں بلکہ قصائی خانوں میں پہنچ جائے اور’’آپریشن‘‘ سے بچ جائے ۔

ایسے میں ایک کلینک میں کام کرنے والی ’’مائی‘‘ نے مجھے بتایا کہ اگر کسی مریضہ کو ڈاکٹرنی کے پہنچنے سے پہلے عام طریقے سے ولادت ہوجائے تو ڈاکٹر ہم پر غصہ ہوتی ہے کہ بروقت مجھے کیوں نہ بلایا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عام ڈیلیوری کے آخر کتنے پیسے لیں گے لیکن ’’آپریشن‘‘ کے نام پر دیہاتوں میں بھی پچاس ساٹھ ہزار روپے تو عام سی بات ہے حالانکہ وضع حمل کوئی بیماری نہیں بلکہ یہ فطری عمل ہے جو انسانوں، حیوانوں حتٰی کہ نباتات میں بھی چل رہا ہے۔ 

سارے جانور، پرندے چرندے، درندے ، خرندے اسی طرح اپنی نسل بڑھاتے ہیں بلکہ بیماری کے بجائے یہ صحت مندی کی علامت ہے لیکن انسان نے اس فطری عمل کو کیا بنادیا ہے، یہ ان پرائیویٹ کلینکوں میں جاکر دیکھیے۔ مجھے پورے اعداد وشمار تو معلوم نہیں لیکن اپنے اردگرد کے علاقے میں ہونے والی ’’وارداتوں‘‘ سے اندازہ لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ ملک بھر میں روزانہ کم سے کم پچاس ہزار وارداتیں تو یقیناً ایسی ہورہی ہیں جن میں دوران زچکی خواتین کے بلاوجہ اورصرف اپنی کمائی کے لیے آپریشنز کیے جارہے ہیں۔

ایک مرتبہ میرے کچھ عزیز میرے پاس آئے کہ پچاس ہزارروپے ادھار دیجیے، پھر بازار اور کلینک کا نام بتاتے ہوئے کہا کہ ڈلیوری کاکیس ہے، کلینک والے کہتے ہیں کہ پچاس ہزارروپے میں آپریشن ہوگا۔ میں ان کلینکوں کو جانتا تھا جو اسی بازار میں دس بارہ تھے۔ میں نے پچاس ہزار روپے ان کے سامنے رکھے اورکہا کہ بات پیسوں کی نہیں لیکن میرا ایک مشورہ ہے ، ابھی جاؤ مریضہ کو وہاں سے اٹھاؤ اور لیڈی ریڈنگ اسپتال لے جاؤ، اسے اسپتال میں داخل کرنے کا طریقہ اور مقام بھی بتا دیا۔ دوسرے دن خوشی خوشی آئے، کل ملا کر ساڑھے چار ہزار روپے میں سارا کام ہوگیا تھا ٹراسپورٹ اور دواؤں سمیت۔

اور پھر ہمارا یہ جو صوبہ ہے ’’کے پی کے ‘‘ عرف خیر پخیر یہاں تو ویسے بھی’’قانون‘‘ بڑے ادب اور احترام کے ساتھ ’’جرائم‘‘ سے پوچھ پوچھ کر چلتا ہے، اس لیے یہ کاروبار اتنا عام ہے کہ گلی گلی، گاؤں گاؤں میں قصائی خانے کھلے ہوئے ہیں۔ لگ بھگ آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے، محکمہ صحت کے کسی شعبے نے یہاں کے ایک بڑے ہوٹل میں ایک بڑی کانفرنس بلائی تھی، موضوع یہی تھا کہ پرائیویٹ زچہ خانے، قصائی خانے بن چکے ہیں جب کہ اس سلسلے میں سرکاری اسپتالوں کے ہاں بڑے اچھے انتظامات موجود ہیں۔

میرے ساتھ اس وقت کے وزیر صحت بھی اسٹیج پر تھے، شاید ظاہرعلی شاہ نام تھا ان کا۔ چنانچہ ہم نے اور انھوں نے اسی بات پر زوردیا کہ اس مسئلے کا واحد حل عوام کو آگاہی دینا ہے تاکہ وہ باخبر ہوکر بے خبری میں ان پرائیویٹ قصائی خانوں کے بجائے سرکاری مراکز کارخ کریں۔ کانفرنس ختم ہوئی اور بات بھی ختم ہوئی، نہ آگاہی کی کوئی مہم چلی نہ کوئی تبدیلی آئی البتہ قصائی خانوں کا کاروبار اور پھیل گیا اور اس کی وجہ بھی ہمیں معلوم ہوئی، ایک تو یہ کہ ایسے قصائی خانے کوئی مزدور،کسان یا عام آدمی نہیں کھولتے بلکہ محکمہ صحت ہی کے ’’سابق‘‘ یا ’’لاحق‘‘ لوگ اور امیر ڈاکٹرز مل کرہی کھولتے ہیں، تو بندکون کرے گا اورکیوں؟

دوسرے یہ کہ سرکاری اسپتال اور زچہ بچہ مراکز میں بہرحال افسرانہ کلچر جاری ہے، سرکاری ملازم چاہے وہ ڈاکٹر ہو، نرس ہو، بابو ہو یاگیٹ کا چوکیدار کیوں نہ ہو، گورنمنٹ سرونٹ ہوتا ہے جس کے اردو میںمعنی ’’افسر‘‘ کے ہوتے ہیں اور عوام ان کے اس افسرانہ رویے سے اتنے گبھرائے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کے نزدیک جانے کے بجائے پرائیویٹ قصائی خانوں کارخ کرتے ہیں جہاں قصائی چاقو چھریاں تیز کیے ہوئے شکار کے منتظر ہوتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پچاس ہزار ہوتے ہیں ہیں اور ہے اور کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

بچے اکیلے نہیں جاتے

’اماں، یہ کمرہ مجھے چاہیے!‘ بڑی بیٹی نے پورے گھر کا جائزہ لینے کے بعد ماسٹر بیڈ روم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا۔

’ٹھیک ہے بیٹا۔‘ ابا نے رسان سے جواب دیا۔

باقی دو کمروں پر منجھلی اور سب سے چھوٹی نے فوراً دعویٰ کردیا،

اب باری آئی رنگ و روغن اور آرائش کی۔

’اماں، مجھے یہ پنک وال پیپر لگوانا ہے۔‘ سب سے بڑی نے کیٹ لاگ دیکھتے ہی خوشی سے کہا۔

’مجھے تو یہ سینری والا اچھا لگ رہا ہے۔‘ چھوٹی بول پڑی۔

منجھلی نے غور سے کیٹ لاگ پلٹا اور مضبوط لہجے میں کہا:

’مجھے بلیک اور گرے والا چاہیے۔‘

’ارے بیٹا، اس سے تو کمرہ بہت ڈارک ہو جائے گا،‘ اماں نے نرمی سے سمجھایا۔

’نہیں، مجھے یہی پسند ہے۔‘ منجھلی نے مختصر مگر پُراعتماد جواب دیا۔

’ہاں بیٹا، جو تمھیں اچھا لگے گا، وہی لیں گے۔‘ ابا نے شفقت سے بیٹی کا ہاتھ تھپتھپایا۔

کئی برس کرائے کے مکانوں میں بھٹکنے کے بعد اب قسمت نے موقع دیا تھا کہ اپنا ذاتی آشیانہ خرید سکیں۔ میاں بیوی کی خوشی دیدنی تھی اور بیٹیاں بھی جیسے خوشی سے اڑتی پھرتی تھیں۔ آخر اپنا

گھراپنا ہی ہوتا ہے۔

کمرے، ڈرائنگ روم، لاؤنج اور باورچی خانہ سب کی تزئین و آرائش زور و شور سے کی گئی۔ محض ایک ڈیڑھ ماہ میں گھر نئے روپ میں جگمگانے لگا، اور پھر وہ لمحہ بھی آ گیا جب پورا کنبہ اپنے چمکتے دمکتے آشیانے میں آن بسا۔ دن رات معمول کے مطابق گزرنے لگے۔

ابا ہر صبح دفتر کے لیے روانہ ہوتے اور بچیاں ماں کے ہمراہ اسکول چلی جاتیں۔ شام ڈھلے جب سب گھر میں ساتھ ہوتے تو مکان کی خاموش دیواروں میں ہنسی، باتوں اور قدموں کی چاپ گونجنے لگتی۔ یوں آہستہ آہستہ وہ مکان ایک زندہ دل گھر میں ڈھلنے لگا۔

چھوٹے سے لان میں ایک جانب سدا بہار بیل لپک لپک کے دیواروں سے لپٹنے لگی تو دوسری طرف رنگ برنگے پھول کھلنے لگے، ساتھ ہی لیموں کے ننھے پودے بھی جڑ پکڑ گئے۔ مالی نے دھنیا، پودینہ اور ہری مرچ کی کیاریاں بھی جما دیں، جو دیکھتے ہی دیکھتے خوشبو اور تازگی سے صحن کو بھرنے لگیں۔

پورا گھر خوشی اور زندگی کی ایک نرم سی روشنی میں نہانے لگا۔

دوست احباب کو یہ گھر کسی مہمان خانے سے زیادہ اپنائیت کا ٹھکانہ محسوس ہوتا تھا۔

گھر میں طرح طرح کی محفلیں ہوتی اور بچیاں بھی ان میں شریک ہوتیں۔

’تمھارا گھر تو بڑا ہوملی لگتا ہے۔‘ عرصے بعد ملنے والے ایک پرانے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اس وقت یوں لگتا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو اور زندگی کا پہیہ اب اسی ڈگر پر چلتا رہے گا، مگر ایک دن بڑی بیٹی نے حسبِ عادت اپنا فیصلہ سنا دیا:

’اماں، اے لیول کے بعد مجھے باہر جانا ہے۔‘

ماں نے نرمی سے سمجھایا:

’بیٹا، یہیں کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لے لو۔ ماسٹرز کے لیے چلی جانا جہاں تم چاہو۔‘

بیٹی نے گہرا سانس لیا اور بولی:

’نہیں اماں، یہاں کی یونیورسٹیوں کا معیار اچھا نہیں، مجھے وہیں پڑھنا ہے۔‘

ابا ہمیشہ کی طرح مسکرا کر بولے:

’ہاں بیٹا، جیسا تم چاہو۔‘

اور پھر وہ دن آیا جب بڑی نے اپنا بیگ کپڑوں، جوتوں اور کتابوں سے بھرنا شروع کیا۔ گھر کے ہر کونے میں جدائی کی ہلکی سی کسک پھیل گئی۔ آخر کار وہ سب کو الوداع کہہ کر پڑھائی کی خاطر پردیس کی راہ پر نکل کھڑی ہوئی۔

اب گھر میں صرف دو بچیاں رہ گئی تھیں۔ دن رات ان کی کلکاریاں اور ہنسی سے گھر اب بھی زندگی سے لبریز تھا۔ کبھی ان کے دوستوں کے گروپ یلغار کر دیتے تو چاروں جانب جشن کا سا سماں بندھ جاتا۔ مگر بڑی کی کمی دل کے کسی کونے میں پھر بھی چبھتی رہتی تھی۔

اسی دوران ایک دن منجھلی نے بات چھیڑی:

’ابا، میں بھی اسی ملک سے ڈگری کرنا چاہتی ہوں جہاں بڑی گئی ہے۔‘

ابا نے لمحہ بھر کو خاموشی اوڑھی، پھر مسکراتے ہوئے کہا:

’ہاں بیٹا، دونوں بہنیں ساتھ رہو گی تو ایک دوسرے کا سہارا بنو گی۔‘

یوں ایک بار پھر گھر پر جدائی کی گھڑی آن پہنچی۔ وہ دن پھر سے سر پر آپہنچا جب منجھلی نے اپنا سامان سمیٹا، سب کو گلے لگایا اور اڑان بھر کے پردیس سدھار گئی۔ گھر کی فضاؤں میں اس کے جانے کی خاموشی دیر تک گونجتی رہی۔

اب گھر میں صرف چھوٹی رہ گئی تھی، بہنوں کی کمی اسے کاٹ کھاتی، اور ماں باپ کو دو بڑی بیٹیوں سے دوری بار بار اداس کر دیتی۔ مگر چھوٹی باپ کی طبیعت پر گئی تھی، اچھی کتابوں، اچھی فلموں اور موسیقی کی دیوانی۔ یوں وہ باپ کے ساتھ مل کر انہی مشاغل میں تنہائی کم کرنے لگی۔

چار برس پر لگا کر اڑ گئے، اور اب باری چھوٹی کی تھی۔ ظاہر ہے جب دونوں بڑی بہنیں باہر پڑھنے گئیں، تو اس کا بھی حق بنتا تھا۔

’ابا، اماں۔۔۔ میں کینیڈا جانا چاہتی ہوں، وہاں شہریت بھی مل جاتی ہے، پھر آپ دونوں کو اپنے پاس بلا لوں گی،‘ چھوٹی نے سادگی اور معصومیت سے کہا۔

ماں باپ نے پھر دل پر ایک اور پتھر رکھا اور ہمیشہ کی طرح نرمی سے بولے:

’ہاں بیٹا، جاؤ۔۔۔ دنیا دیکھو، خوب پڑھو، آگے بڑھو۔‘

داخلے اور سفر کے سارے مراحل طے ہوئے، اور پھر وہی لمحہ آگیا، تیسری بھی سات سمندر پار اعلیٰ تعلیم کے لیے رختِ سفر باندھ بیٹھی۔

ایئرپورٹ بھی عجب جگہ ہے خوشی غمی کا ملاپ، ملنے بچھڑنے کی کسک۔۔۔ کوئی آتا ہے تو کوئی جاتا ہے، مگر آنسو دونوں مرحلوں پر بہتے ہیں۔

گھر اب سناٹے میں ڈوبا رہنے لگا، صبح ہوتی تو ابا حسبِ معمول دفتر کو نکلتے، اماں گھر کے معمولات میں مصروف رہتیں، مگر وہ چہل پہل، وہ کھلکھلاہٹ جو کبھی دیواروں میں گونجتی تھی، کہیں گم ہو چکی تھی۔

شام ڈھلتے ہی در و دیوار ان کی آنکھوں سے جیسے سوال کرتے وہ قہقہے کہاں گئے؟ وہ قدموں کی دوڑ دھوپ اور وہ ضدیں کہاں کھو گئیں؟ ٹی وی کے سامنے اب تینوں بیٹیوں کی جھگڑالو بحثوں کی جگہ خاموشی بیٹھ گئی تھی۔ باورچی خانے میں پلیٹوں اور چمچوں کی کھنک اب صرف اماں کے ہاتھوں کی رہ گئی تھی۔ بچیوں کی اپنے پسندیدہ کھانوں کی فرمائشیں تو کب کی چپ سادھ چکی تھیں۔

ابا کبھی کتاب ہاتھ میں لیتے، کبھی موسیقی چلاتے، کبھی کوئی فلم لگا کر دیکھنے لگتے اور اماں یونہی باورچی خانے میں بلاوجہ کوئی ہانڈی بنانا شروع کردیتی یا بچیوں کے کپڑے، جوتے، کتابوں کو دوبارہ بے وجہ سینت سینت کر رکھنے لگتی۔ دونوں جانتے تھے کہ بیٹیاں اپنی دنیا بنانے نکل گئی ہیں، مگر خالی کمروں کا سکوت بار بار دل کو کچوکے لگاتا۔

یوں لگتا تھا جیسے پورا گھر ایک وسیع ڈائری ہے، جس کے ہر کمرے میں یادوں کے اوراق بند ہیں، کھولنے پر صرف ہنسی، مذاق، ہلا گلا، پرمغز بحث و مباحث اور جدائی کی خوشبو نکلتی ہے۔

بچیوں کے جانے پر گھر اب سناٹے کا اسیر تھا، مگر چھٹی والے دنوں میں یہ سکوت ٹوٹ جاتا۔ فون کی گھنٹی بجتی یا موبائل اسکرین پر بیٹیوں کے نام جگمگاتے تو اماں اور ابا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ جاتی۔

’اماں! آج میں نے خود کھانا بنایا، تصویریں بھیجی ہیں دیکھیں ذرا!‘ بڑی شوخی سے بتاتی۔

’ابا، آپ نے وہ نئی کتاب پڑھی؟ یاد ہے ہم نے ساتھ خریدی تھی؟‘ منجھلی محبت سے پوچھتی۔

اور چھوٹی ہنستے ہوئے کہتی:

’میرے پروفیسر میری بین الاقوامی سنیما پر معلومات سے بہت متاثر ہوئے اور کل میں نے میلے میں پیانو بھی بجایا، ویڈیو بھیجی ہے آپ دونوں کو۔‘

ویڈیو کال پر تینوں بیٹیوں کے ہنستے چہرے، کمرے میں گونجتی آوازیں، اور شوخ قہقہے کچھ لمحوں کے لیے دیواروں کو پھر سے زندہ کر دیتے۔ اماں بار بار اسکرین پر ہاتھ پھیرتی جیسے بچیوں کے رخسار چھو رہی ہوں۔ ابا مسکراتے مگر آنکھوں کی نمی چھپ نہ پاتی۔

مگر کال ختم ہوتے ہی کمرے پھر سے سنسان ہو جاتے۔ سکوت کی دبیز چادر دوبارہ بچھ جاتی۔ اور ماں باپ آہستہ آہستہ اپنے کام کی طرف لوٹ جاتے مگر دلوں کے کسی کونے میں اگلی کال کا انتظار ہر دم زندہ رہتا۔

بچے جب پڑھنے کے لیے دوسرے ملک جاتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں جاتے، وہ اپنے ساتھ اپنی ہنسی، کھلکھلاہٹ، شوخیاں، مستیاں، شور شرابہ، ہلا گلا، کمرے میں بکھرے کپڑے، مسہری کے سرہانے پڑی کھانے کی پلیٹ، باتھ روم کے سِنک پر دھرا ادھ کھلا ٹوتھ پیسٹ اور اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتیں بھی باندھ کر ساتھ لے جاتے ہیں۔ گھر کی دیواروں کو جو آوازیں جِلا بخشتی ہیں، وہ سب ایک دم خاموش ہو جاتی ہیں، شوخی اور قہقہوں کی گونج کہیں کھو جاتی ہے۔

ماں اپنے دل کو سمجھاتی ہے کہ یہ جدائی عارضی ہے، یہ فاصلہ ضرورت ہے، یہ تعلیم کے نام پر قربانی ہے، لیکن جب وہ کمرے میں پڑا خالی بستر دیکھتی ہے تو دل کہتا ہے، ’کتنی چھوٹی چھوٹی چیزیں تھیں جو میرے حصے میں خوشی بن کر آئی تھیں، اور آج وہ بھی سامانِ سفر بن گئیں۔‘

کیا بچیاں مستقل بیرون ملک چلی گئیں ہیں؟ ایک دوست نے پوچھا۔

مستقل؟ مستقل کیا ہوتا ہے؟ مستقل تو کچھ بھی نہیں سب عارضی ہے، ماں نے جواب دیا۔

ماں باپ بظاہر مضبوط دکھتے ہیں، وہ بچوں کے سامنے کمزور نہیں پڑتے مگر رات کی تنہائی میں آنسو خود بخود تکیے میں جذب ہوتے رہتے ہیں اور دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ بچوں کے قدم ہمیشہ محفوظ رکھے، ان کے خوابوں کو راستہ ملے، اور وہ اپنی ہنسی کبھی نہ کھوئیں۔

اولاد کا پردیس جانا دراصل والدین کی روح کا بٹ جانا ہے۔ ایک ٹکڑا وہاں رہ جاتا ہے، اور ایک ٹکڑا یہاں سانس لیتا ہے۔ مگر والدین کا دل بھی عجب ہے کہ جدائی میں بھی سکون ڈھونڈ لیتا ہے، کیونکہ اُسے یقین ہوتا ہے کہ اس جدائی کے پیچھے بچوں کی کامیابی، ان کا مستقبل اور ان کی خوشی پوشیدہ ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

wenews اعلیٰ تعلیم کا حصول بچے بیرون ملک والدین وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • لاہور کی تاریخی آندھی، جب دن کے وقت رات ہوگئی
  • بچے اکیلے نہیں جاتے
  • سب سے مل آؤ مگر…
  • کردار اور امید!
  • امریکی سفارتخانے کی پاکستان میں ویزامعلومات ایکس پر محدود
  • لال اور عبداللہ جان
  • جرمن شہر بون میں افغان قونصل خانے کے عملے کا اجتماعی استعفا
  • گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن
  • بون میں افغانستان قونصل خانے کے عملے نے استعفیٰ کیوں دیا؟
  • فرانسیسی سفارتخانے کے وفد کی اڈیالہ جیل میں قیدی سے ملاقات