Express News:
2025-08-09@23:29:11 GMT

قصائی خانے اور افسر خانے

اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT

پاکستان کے منتخب شہنشاہوں کی مجلس ’’سینٹ‘‘ میں پہلی بار عوام کالانعام کی بات ہوئی ہے تو اس عظیم تبدیلی انقلاب اور انہونی پر جتنا بھی کہا، سنا جائے، اچھا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ ڈاکٹر دنیش کمار نام کا شخص کیسے وہاں پہنچا ورنہ ان مقامات تک پہنچنے کے لیے تو پہلے سے سلیکشن ہو چکی ہوتی ہے، صرف وہی لوگ وہاں پہنچ سکتے ہیں جو پہلے ہی ’’پہنچے‘‘ ہوئے ہوتے ہیں اورعوام کالانعام کو پانچ سال میں صرف ایک مرتبہ استعمال کرتے ہیں اور جب ان سے دھرنے، جلسے، جلوس اور انڈے حاصل کرلیتے ہیں، ان کو پانچ سال کے لیے بھول جاتے ہیں کہ

 کبھی فتراک میں میرے کوئی نخچیر بھی تھا

دراصل وہ فنڈوں، وزارتوں، ملازمتوں اور بندربانٹ میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان فضول چیزوں کی طرف دھیان بھی نہیں دے پاتے کہ گزشتہ الیکشن کی لاگت بھی سود سمیت وصول کرنا ہوتا ہے اوراگلے الیکشنوں کے لیے ’’خرچہ ‘‘ جمع کرنا پڑتا ہے لیکن ڈاکٹر دنیش کمار نے سینیٹ میں کالانعام کی بات کر کے تھوڑی دیر کے لیے بدمزہ کردیا، وہ تو اچھا ہوا کہ وزیر قانون نے بروقت اس گیندکو صوبوں کی طرف منتقل کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں جاؤ اور شکایت کرو ۔ اب لوگ پہلے اپنی اپنی صوبائی حکومت کا پتہ لگائیں گے کہ یہ کہاں ہے بلکہ ہے بھی کہ نہیں اور اگر ہے تو اس کے پاس ایسی فضول کالانعامی کاموں کے لیے وقت ہے یا نہیں۔

خیر ڈاکٹر دنیش کمار نے دوباتیں کہی ہیں، ایک یہ کہ علاج معالجے کے نام پر ڈاکٹروں، کلینکوں اور دواساز کمپنیوں نے جو حشر نشر برپا رکھا ہے، اس سے زیادہ ظالمانہ کاروبار کبھی چنگیز وہلاکو، ہٹلر اور نمرودوں اور فرعونوں نے بھی برپا نہیں کیا تھا، مریضوںکو پکڑ پکڑ کر توڑا پھوڑا، نچوڑا اور ککھوڑا جارہا ہے اورسکوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔

لمبے چوڑے نسخوں، فضول ٹیسٹوں اور بے پناہ فیسوں پر تو بات ہوگئی ہے لیکن اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو ابھی باقی ہے اور وہ ہے پرائیویٹ کلینکوں اور اسپتالوں میں حاملہ خواتین کے بلاوجہ آپریشنز… اور یہ چیرپھاڑ اتنی عام ہوچکی ہے کہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں اورگھروں و دکانوں میں کھولے گئے معمولی پولی کلینکوں میں زور و شور سے چل رہی ہے، مجال ہے اوریہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی حاملہ خاتوں ان کلینکوں بلکہ قصائی خانوں میں پہنچ جائے اور’’آپریشن‘‘ سے بچ جائے ۔

ایسے میں ایک کلینک میں کام کرنے والی ’’مائی‘‘ نے مجھے بتایا کہ اگر کسی مریضہ کو ڈاکٹرنی کے پہنچنے سے پہلے عام طریقے سے ولادت ہوجائے تو ڈاکٹر ہم پر غصہ ہوتی ہے کہ بروقت مجھے کیوں نہ بلایا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عام ڈیلیوری کے آخر کتنے پیسے لیں گے لیکن ’’آپریشن‘‘ کے نام پر دیہاتوں میں بھی پچاس ساٹھ ہزار روپے تو عام سی بات ہے حالانکہ وضع حمل کوئی بیماری نہیں بلکہ یہ فطری عمل ہے جو انسانوں، حیوانوں حتٰی کہ نباتات میں بھی چل رہا ہے۔ 

سارے جانور، پرندے چرندے، درندے ، خرندے اسی طرح اپنی نسل بڑھاتے ہیں بلکہ بیماری کے بجائے یہ صحت مندی کی علامت ہے لیکن انسان نے اس فطری عمل کو کیا بنادیا ہے، یہ ان پرائیویٹ کلینکوں میں جاکر دیکھیے۔ مجھے پورے اعداد وشمار تو معلوم نہیں لیکن اپنے اردگرد کے علاقے میں ہونے والی ’’وارداتوں‘‘ سے اندازہ لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ ملک بھر میں روزانہ کم سے کم پچاس ہزار وارداتیں تو یقیناً ایسی ہورہی ہیں جن میں دوران زچکی خواتین کے بلاوجہ اورصرف اپنی کمائی کے لیے آپریشنز کیے جارہے ہیں۔

ایک مرتبہ میرے کچھ عزیز میرے پاس آئے کہ پچاس ہزارروپے ادھار دیجیے، پھر بازار اور کلینک کا نام بتاتے ہوئے کہا کہ ڈلیوری کاکیس ہے، کلینک والے کہتے ہیں کہ پچاس ہزارروپے میں آپریشن ہوگا۔ میں ان کلینکوں کو جانتا تھا جو اسی بازار میں دس بارہ تھے۔ میں نے پچاس ہزار روپے ان کے سامنے رکھے اورکہا کہ بات پیسوں کی نہیں لیکن میرا ایک مشورہ ہے ، ابھی جاؤ مریضہ کو وہاں سے اٹھاؤ اور لیڈی ریڈنگ اسپتال لے جاؤ، اسے اسپتال میں داخل کرنے کا طریقہ اور مقام بھی بتا دیا۔ دوسرے دن خوشی خوشی آئے، کل ملا کر ساڑھے چار ہزار روپے میں سارا کام ہوگیا تھا ٹراسپورٹ اور دواؤں سمیت۔

اور پھر ہمارا یہ جو صوبہ ہے ’’کے پی کے ‘‘ عرف خیر پخیر یہاں تو ویسے بھی’’قانون‘‘ بڑے ادب اور احترام کے ساتھ ’’جرائم‘‘ سے پوچھ پوچھ کر چلتا ہے، اس لیے یہ کاروبار اتنا عام ہے کہ گلی گلی، گاؤں گاؤں میں قصائی خانے کھلے ہوئے ہیں۔ لگ بھگ آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے، محکمہ صحت کے کسی شعبے نے یہاں کے ایک بڑے ہوٹل میں ایک بڑی کانفرنس بلائی تھی، موضوع یہی تھا کہ پرائیویٹ زچہ خانے، قصائی خانے بن چکے ہیں جب کہ اس سلسلے میں سرکاری اسپتالوں کے ہاں بڑے اچھے انتظامات موجود ہیں۔

میرے ساتھ اس وقت کے وزیر صحت بھی اسٹیج پر تھے، شاید ظاہرعلی شاہ نام تھا ان کا۔ چنانچہ ہم نے اور انھوں نے اسی بات پر زوردیا کہ اس مسئلے کا واحد حل عوام کو آگاہی دینا ہے تاکہ وہ باخبر ہوکر بے خبری میں ان پرائیویٹ قصائی خانوں کے بجائے سرکاری مراکز کارخ کریں۔ کانفرنس ختم ہوئی اور بات بھی ختم ہوئی، نہ آگاہی کی کوئی مہم چلی نہ کوئی تبدیلی آئی البتہ قصائی خانوں کا کاروبار اور پھیل گیا اور اس کی وجہ بھی ہمیں معلوم ہوئی، ایک تو یہ کہ ایسے قصائی خانے کوئی مزدور،کسان یا عام آدمی نہیں کھولتے بلکہ محکمہ صحت ہی کے ’’سابق‘‘ یا ’’لاحق‘‘ لوگ اور امیر ڈاکٹرز مل کرہی کھولتے ہیں، تو بندکون کرے گا اورکیوں؟

دوسرے یہ کہ سرکاری اسپتال اور زچہ بچہ مراکز میں بہرحال افسرانہ کلچر جاری ہے، سرکاری ملازم چاہے وہ ڈاکٹر ہو، نرس ہو، بابو ہو یاگیٹ کا چوکیدار کیوں نہ ہو، گورنمنٹ سرونٹ ہوتا ہے جس کے اردو میںمعنی ’’افسر‘‘ کے ہوتے ہیں اور عوام ان کے اس افسرانہ رویے سے اتنے گبھرائے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کے نزدیک جانے کے بجائے پرائیویٹ قصائی خانوں کارخ کرتے ہیں جہاں قصائی چاقو چھریاں تیز کیے ہوئے شکار کے منتظر ہوتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پچاس ہزار ہوتے ہیں ہیں اور ہے اور کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

یہ دہشت گردی نہیں ہے

نام۔ امن کانفرنس

مقام ۔باچاخان مرکز پشاور

خبریں تو آپ نے پڑھ لی ہوں گی کانفرنس واقعی بڑی کانفرنس تھی کیونکہ اس میں ہر مکتبہ فکر اور ہر سیاسی پارٹی کی نمایندگی تھی اور صوبے کی اہم شخصیات نے حصہ لیا تھا۔کانفرنس کی فوری وجہ تو مولانا خان زیب کی المناک شہادت تھی جو مفتی منیرشاکر کی طرح عوام میں بے حد مقبول تھے اور مروجہ ملائیت یا سیاسی اسلام کے نکتہ چین تھے۔لیکن اس فوری وجہ کے ساتھ ساتھ اصل وجہ وہ مستقل بدامنی،خونریزی اور قتل و قتال تھی،جو (45) سال سے اس خطے پر اپنا منحوس سایہ پھیلائے ہوئے ہے اور کم ہونے کے بجائے مزید پھیلتا جارہا ہے جسے مخصوص میڈیا نے دہشت گردی کا نام دے رکھا ہے اور ایسا کوئی اس خطے میں کم ہی ملے گا جس پر اس سوکال دہشت گردی کا سایہ نہ پڑا ہو اور اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ

مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے

دستار پہ بات آگئی ہوتی ہوئی سر سے

میڈیا نے تو اسے ’’دہشت گردی‘‘کا نام دے کر مسلمانوں کی ’’دُم‘‘ سے باندھا ہوا ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے، اصل ذمے داروں نے اس کے گرد اتنے پردے تانے ہوئے ہے کہ ساری دنیا دھوکا کھاگئی ہے اور کھا رہی ہے، منجھا ہوا تجربہ کار مجرم ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہے اور یہاں تو کمال کی انتہا ہوگئی ہے کہ خود مقتول ہی کو اپنا قاتل ثابت کیا جارہا ہے اور جرم کو بلوہ قرار دیا ہے۔نہ تو یہ دہشت گردی ہے نہ فساد نہ سیاست نہ کچھ اور۔بلکہ صاف صاف صنعت و تجارت ہے جو عالمی سطح پر ہورہی ہے،کمرشلائزیشن اینڈ انڈسٹریلائزیشن ان گلوبلائزیشن۔اور یہ کوئی ہوائی نہیں ہے بلکہ ابھی ابھی اسے ثابت بھی کیے دیتا ہوں۔

دنیا میں تحقیق و تفتیش کا یہ بنیادی اصول رہا ہے کہ جب کوئی جرم ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کا’’موٹیو‘‘ یعنی محرک تلاش کیا جاتا ہے کہ اس جرم سے کس کو فائدہ پہنچنا ہے یا پہنچے گا،مثال کے طور پر‘‘قتل‘‘ کے کسی جرم کو لے لیجیے اور یہ سوکال دہشت گردی بھی انسانیت کا قتل ہی تو ہے۔

اب مخصوص اور روایتی میڈیا نے تو اس جرم کو دہشت گردی کا نام دے کر’’مسلمانوں‘‘ کے نام کیا ہوا ہے۔ لیکن تحقیق وتفتیش کے اس بنیادی اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے بلکہ ہر ہر طرف اور ہر ہر لحاظ سے نقصان ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔ مجموعی طور نہ مسلمانوں کو کوئی فائدہ ہورہا ہے نہ اسلام کو اور نہ اسلامی ممالک کو تو پھر مسلمانوں کو کس منطق کس دلیل اور کس شہادت کی بنیاد پر اس کا ذمے دار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟۔یہ تو ایسا ہے جیسے کسی مقتول کو اپنے قتل کا ملزم ٹھہرایا جائے کسی کو اپنے ہی گھر کو جلانے کا ذمے دار ٹھہرایا جائے۔

اس لیے کہ اس کے پیچھے بھی ’’کوئی اور‘‘ ہے اس دنیا کے لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل امریکا کا ’’بغل بچہ‘‘ ہے لیکن اصل بات اس کے بالکل الٹ ہے، امریکا خود اسرائیل کا بغل بچہ ہے۔چلیے اسرائیلی ریاست کا نہ سہی لیکن یہودیوں کا ’’اسیر‘‘ ہے۔اس وقت کوئی کچھ بھی کہے۔دنیا کا اصلی’’سپرپاور‘‘ امریکا نہیں یہودی’’ مالی مافیا‘‘ہے۔اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ساری دنیا کی ساری دولت کا(68) فیصد یہودی مالی مافیا کے قبضے میں ہے، دنیا کی ساری بڑی بڑی کمپنیاں اور انڈسٹریاں ان کی زنجیر میں پروئی ہوئی ہیں اس عالمی یہودی مافیا کو کسی نے نیگسٹر کی طرز پر ’’نیکسٹرز‘‘ کا نام دیا ہے جو نہایت ہی حسب حال اور موزوں نام ہے اور امریکا جو بظاہر آزاد ہے اس کا اسیر ہے بلکہ ان کا ’’سیلز مینجر‘‘ ہے۔

یہ مافیا صرف ساری دنیا کی دولت ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے سارے میڈیا کا (96) فیصد بھی اس کے قبضے میں ہے اور باقی(4) فیصد میں اشتہاری کمپنیوں کے ذریعے اس نے نکیل ڈالی ہوئی ہے۔آپ دیکھیں تو ایسی کمپنیوں اور پراڈکس کے اشتہار بھی لگاتار آرہے ہیں جن کو پبلسٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ صرف اس لیے کہ میڈیا ’’قابو‘‘ میں رہے اور دنیا میں’’ہتھیارسازی‘‘ کی صنعت تقریباً ’’سوفیصد‘‘ پر یہی یہودی’’عالمی مافیا‘‘ کی اجارہ داری ہے۔اس صنعت میں دنیا کی سب سے بڑی بڑی کمپنیاں شامل ہیں، سافٹ ڈرنکس کی معروف کمپنیاں، جان بچانے والی دواؤں کی کمپنیاں دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت کرنے والی کمپنیاں۔بڑی بڑی مخیر کمپنیاں مطلب یہ کہ ایک طرف ’’جان لیوا‘‘ ہتھیار اور ان ہتھیاروں میں اب صرف پستول بندوق نہیں بلکہ توپیں ٹینکیں ہوائی جہاز، میزائل راکٹ بارودی سرنگیں ہر قسم کے بم اور تباہ کار آلات شامل ہیں۔اور یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ یہ سارے ہتھیار نہ تو کھانے کے کام آتے ہیں نہ پینے کے نہ اوڑھنے کے،نہ پہننے کے مطلب یہ کہ یہ سب کے سب ہتھیار صرف ایک ہی’’کام‘‘ آتے ہیں۔اور وہ ہے جان لینا۔اب یورپ، امریکا، برطانیہ، کینیڈا، چین،جاپان والے تو اتنے سمجھ دار ہوچکے ہیں کہ وہاں ان ہتھیاروں کی کھپت کوئی نہیں ہے۔اور صرف مسلمان ممالک ہی ایسے ممالک ہیں جہاں ان ہتھیاروں کی کھپت ہے اور مسلمان ممالک ہی ان ہتھیاروں کی مارکیٹ ہوسکتے ہیں،ہیں اور رہیں گے اور مسلمان ہی وہ جذباتی لوگ ہیں جنھیں بہت آسانی سے ’’گرم‘‘ کرکے لڑایا جاسکتا ہے۔

وہ ایک افیمی نے دکاندار سے دو پیسے کی افیون مانگی تو دکاندار نے کہا کہ دو پیسے کی افیون سے کیا نشہ ہوگا۔تو افیمی نے کہا کہ ’’نشہ‘‘ میرے سر میں اپنا بہت ہے صرف ایک’’دھکے‘‘ کی ضرورت ہے۔وہ سلسلہ یہاں بھی ہے کہ نشہ تو مسلمانوں کے سر میں پہلے سے بہت ہے صرف ایک دھکے کی ضرورت ہے اور وہ ’’دھکا‘‘ دینے کا بندوبست بھی موجود ہے۔ دیکھیے تو یہ سوکال دہشت گردی یا جہاد یا طالبان وغیرہ صرف مسلمان ملکوں میں سرگرم ہیں،نہ یورپ میں نہ امریکا میں نہ آسٹریلیا نہ روس میں نہ چین و جاپان میں۔ان تمام دلائل و شواہد سے ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ نام نہاد دہشت گردی نہ دہشت گردی ہے نہ جہاد ہے نہ ہی سیاست ہے بلکہ خالص تجارت و صنعت ہے۔

ذرا تھوڑی دیر کے لیے فرض کریں کہ اگر آج یہ دہشت گردی ختم ہوجائے تو ہتھیاروں کی سب سے بڑی صنعت وتجارت والے اپنا’’مال‘‘ کہاں بیچیں گے، کیا اپنے کارخانے بند کریں گے؟ اپنا مال دریا برد کریں گے؟یا انھیں پگھلا کر کچھ اور بنائیں گے؟۔ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ دنیا میں ان کی مارکیٹ چلتی رہے وسیع ہوتی رہے دن دونی رات چوگنی ترقی کرتی رہے۔اصل حقیقت یہی ہے باقی سب’’مایا‘‘ ہے۔ واردات کا اصل مجرم سامنے ہے یعنی گلابلائزیشن کا کمرشلائزیشن اور انڈسٹریلائزیشن ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دھرتی جنگ نہیں امن چاہتی ہے
  • ایک انوکھی کہانی
  • آزادی عنوان ہے
  • پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات
  • این اے 129 لاہور کا ضمنی الیکشن، حماد اظہر کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل مکمل
  • یہ دہشت گردی نہیں ہے
  • کسی افسر کا مخصوص عہدے یا ایس ایچ او کا مخصوص تھانے پر تعیناتی کا حق نہیں، ہائیکورٹ
  • میرے حلقے سے ایک افسر ہٹایا گیا اور مجھے پتا بھی نہیں خواجہ آصف کا نواز شریف سے شکوہ
  • کسی افسر کا مخصوص عہدے یا ایس ایچ او کا مخصوص تھانے پر تعیناتی کا حق نہیں، سندھ ہائیکورٹ