UrduPoint:
2025-11-18@21:27:08 GMT

بون میں افغانستان قونصل خانے کے عملے نے استعفیٰ کیوں دیا؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT

بون میں افغانستان قونصل خانے کے عملے نے استعفیٰ کیوں دیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) بون میں واقع افغانستان کے قونصل خانے کے عملے نے جرمنی کی جانب سے طالبان حکومت کے مقرر کردہ دو نمائندوں کو منظوری دینے کے اقدام کو جرمنی میں مقیم افغان شہریوں کی حساس معلومات کے لیے خطرہ قرار دیا۔

ابھی تک صرف روس نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے، جس نے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالا تھا، جب امریکی قیادت میں افواج نے 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان سے افراتفری میں انخلاء کیا۔

تاہم، جولائی میں جرمنی کی جانب سے دو سفارت کاروں کو منظوری دینا دوطرفہ تعلقات میں ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔

جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن کورنیلیئس نے اس وقت کہا تھا کہ یہ تقرری افغان حکام کے ساتھ مجرم افغان شہریوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے سے متعلق مذاکرات کے بعد ہوئی۔

(جاری ہے)

یہ ملک بدریاں اگست 2024 سے دوبارہ شروع ہوئیں۔

ان نئے نمائندوں کو آئندہ ملک بدری کی پروازوں کی ہم آہنگی میں مدد دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، کیونکہ جرمنی تارکین وطن پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔

جرمنی میں تارکین وطن ایک ایسا سیاسی موضوع ہے جس نے بہت سے ووٹرز کو انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت پر مجبور کیا ہے۔

اجتماعی استعفے کا اعلان

بون میں افغان قونصل خانے کے قائم مقام قونصل، حامد ننگیالے کبیری، نے قونصل خانے کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو میں عملے کے اجتماعی استعفے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا، ''طالبان کی غیر قانونی حیثیت اور افغان عوام کے بنیادی حقوق کی وسیع خلاف ورزیوں کے پیشِ نظر، یہ فیصلہ ناقابل قبول ہے اور شہریوں کے حساس دستاویزات اور معلومات کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ تمام دستاویزات، سامان اور دیگر اثاثے جرمن وزارتِ خارجہ کے حوالے کر دیے جائیں گے۔

کبیری نے مزید کہا، ''ہم پرامید ہیں کہ جلد ایک آزاد افغانستان دیکھنے کو ملے گا، جو قانون کی حکمرانی کے تحت ہوگا اور عوام کی مرضی سے ابھرے گا۔‘‘

جرمنی کا ردعمل

جرمن وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے رائے دینے سے انکار کیا، جبکہ برلن میں افغان سفارت خانے سے بھی فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔

جرمنی میں تقریباً 4 لاکھ 42 ہزار افغان شہری مقیم ہیں، جہاں حال ہی تک تارکینِ وطن کے لیے نسبتاً کھلا دروازہ اور وسیع پناہ گزین ڈھانچہ موجود رہا ہے۔

روس نے جولائی میں طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کیا، جو طالبان انتظامیہ کے لیے اپنی عالمی تنہائی کو کم کرنے کی ایک اہم پیش رفت تھی۔

چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان پہلے ہی کابل کے لیے سفیروں کا تقرر کر چکے ہیں، جو طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کیے جانے کی طرف ایک قدم ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان میں بدامنی کی جڑ افغانستان سے مسلح گروہوں کی دراندازی ہے، رانا ثنا اللہ

تسنیم نیوز کے علاقائی دفتر کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے ایک بار پھر افغانستان کو اسلام آباد کی سیکیورٹی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیرِاعظم میاں محمد شہباز شریف کے مشیر رانا ثنا اللہ نے افغانستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مسلح گروہوں کے نفوذ کا سرچشمہ بن چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں دہشت گردی کے بڑے حصے کو افغانستان سے آنے والے گروہوں کے آمد و رفت کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ تسنیم نیوز کے علاقائی دفتر کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے ایک بار پھر افغانستان کو اسلام آباد کی سیکیورٹی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی بڑی تعداد میں بدامنی اور دہشت گرد حملوں کی جڑ افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحد سے مسلح گروہوں کی دراندازی ہے۔ انہوں نے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کئی برسوں سے افغانستان کی سرزمین سے مختلف مسلح گروہوں کی دراندازی کی قیمت ادا کر رہا ہے، تاہم اسلام آباد اس قابل ہے کہ سرحد پار سے ہونے والے ہر حملے کا مناسب جواب دے سکے۔

واضح رہے کہ رانا ثنا اللہ اس سے قبل بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی سرحدوں سے مختلف گروہوں کی دراندازی کی وجہ سے پاکستان سنگین دہشت گردی کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سرحدی سطح پر نئے اقدامات ضروری ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدی پٹی پر ایک محفوظ بفر زون قائم کرنے کو سرحدی کنٹرول مضبوط کرنے اور مسلح گروہوں کی آمد و رفت کو روکنے کے ممکنہ آپشنز میں سے ایک قرار دیا تھا۔

یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستانی حکام طالبان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ مسلح گروہوں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان، کو اپنی سرزمین پر منظم ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ طالبان ان الزامات کو بارہا مسترد کر چکے ہیں اور مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ حال ہی میں جنوبی وزیرستان کے ملٹری کالج پر حملہ اور اسلام آباد میں ہونے والا دھماکہ دونوں افغان عناصر کی شمولیت سے انجام پائے۔

انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان لفظی اور سیکیورٹی کشیدگی مزید بڑھ گئی۔ پاکستان اور طالبان کے تعلقات اگست 2021 میں طالبان کی کابل واپسی کے بعد ابتدا میں ایک تدبیراتی ہم آہنگی کے ساتھ شروع ہوئے تھے، لیکن پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان اور دیگر مسلح گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے ساتھ یہ تعلقات تیزی سے گہری بداعتمادی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ قطر اور ترکی میں دونوں جانب سے کئی مذاکراتی دور ہوئے، مگر اب تک کوئی واضح یا قابلِ ذکر پیشرفت سامنے نہیں آ سکی۔

متعلقہ مضامین

  • آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
  • آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
  • آسٹریلیا نے افغان طالبان حکومت پر نئی پابندیوں کی تجاویز پیش کر دیں
  • پاکستان سے تجارت کم کرنا طالبان رجیم کو کتنا مہنگا پڑے گا؟
  • واویلا کیوں؟
  • اہل تشیع کیساتھ دینی اقدار کے فروغ کے لئے تعاون برقرار رہیگا، افغان طالبان
  • پاکستان میں بدامنی کی جڑ افغانستان سے مسلح گروہوں کی دراندازی ہے، رانا ثنا اللہ
  • پاک افغان تعلقات جنگ سے ٹھیک ہوں گے؟
  • افغانستان اور دہشت گردی
  • کیا طالبان افغانستان کو مزید برباد کرنا چاہتے ہیں؟