منقسم جرمنی کا دوبارہ اتحاد: پانچ حقائق
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد شکست خوردہ جرمنی کو ابتدائی طور پر فاتح طاقتوں، امریکہ، فرانس، برطانیہ اور سوویت یونین نے چار قابض زونز میں تقسیم کر دیا تھا۔
1949ء میں دو جرمن ریاستیں ابھریں: مغرب میں ڈیموکریٹک فیڈرل ریپبلک آف جرمنی (ایف آر جی) اور مشرق میں سوویت کنٹرول کے تحت سوشلسٹ جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک (جی ڈی آر)۔
اس کے بعد سے جرمنی تقسیم ہو گیا اور گی ڈی آر کے شہریوں کو صرف سخت شرائط کے تحت ایف آر جی جانے کی اجازت تھی۔
جرمنی کا دوبارہ اتحاد کیسے ہوا؟جی ڈی آر کے باشندے سوویت نگرانی میں رہتے تھے اور اظہار رائے کی آزادی نہیں تھی۔ جس نے بھی سوشلسٹ حکومت کی لائن پر عمل نہیں کیا اسے ظلم و ستم اور قید کا سامنا کرنا پڑا۔
(جاری ہے)
1980ء کی دہائی کے آخر میں لوگوں نے حکومت کے خلاف تیزی سے آواز اٹھانا شروع کر دی۔
شہریوفاقی جمہوریہ جرمنی (FRG) میں اپنے پڑوسیوں کی طرح آزادی اور جمہوریت چاہتے تھے۔ اسی وقت میخائل گورباچوف کے زیر اثر سوویت یونین میں اصلاحات کی پالیسیوں نے اس عمل کو آسان بنایا۔اپنے پیشروؤں کے برعکس گورباچوف نے GDR اور دیگر مشرقی بلاک کے ممالک میں اصلاحاتی تحریکوں میں فوجی مداخلت سے گریز کیا۔ آخر کار1989ء میں، مشرقی جرمنی کے شہروں میں پرامن مظاہروں کا ایک سلسلہ دیوار برلن کھلنے کا سبب بنا، جس نے GDR اور FRG کے دوبارہ اتحاد کی راہ ہموار کی۔
تین اکتوبر جرمن یونیٹی ڈے کیوں بنا؟نو نومبر 1989 کو دیوار برلن کا گرنا، دوبارہ اتحاد کی راہ میں فیصلہ کن واقعہ تھا۔ اس لیے اس دن جرمن اتحاد کا جشن منانا زیادہ موزوں ہوتا ۔ لیکن یہ تاریخ، جرمن تاریخ میں کسی بھی دوسری تاریخ سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ نو سے 10 نومبر 1938 کی رات نازیوں نے پورے جرمنی میں عبادت گاہوں کو جلایا، یہودیوں کے کاروبار اور گھروں کو تباہ کیا۔
کرسٹل ناخٹ لاکھوں یہودیوں کے منظم ظلم و ستم اور قتل کا پیش خیمہ تھی۔اس لیے اس رات کی یاد کو جرمن اتحاد کے جشن کے ساتھ منانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ تین اکتوبر 1990 کو جرمن اتحاد، یعنی GDR کے FRG سے دوبارہ متحد ہونے کا دن قرار دیا گیا اور یوں تین اکتوبر قومی دن کی حیثیت سے چھٹی کا دن قرار پایا۔
جرمن یونیٹی ڈے کیسے مناتے ہیں؟یہ دن کافی پرسکون طریقے سے منایا جاتا ہے۔
آتش بازی وغیرہ تو نہیں کی جاتی مگر تین اکتوبر کو تقریباً ہر شہر میں تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ مزید برآں ہر سال ایک وفاقی ریاست تین اکتوبر کو ایک بڑے تہوار کی میزبانی کرتی ہے۔ اس سال مرکزی تقریبات جرمن صوبے زارلینڈ میں منائی جا رہی ہیں۔ دوبارہ اتحاد کا کوئی یادگار کیوں نہیں؟تقریباً دس سال کی بحث کے بعد وفاقی جرمن پارلیمان نے نو نومبر 2007 کو "آزادی اور اتحاد کی یادگار" کی تعمیر کی منظوری دی۔
خیال یہ تھا کہ برلن کے قلب میں ہمبولٹ فورم کے سامنے جمہوریت کی علامت کے طور پر 50 میٹر لمبا 'والک آن انٹر ایکٹیو اسٹرکچر‘ تعمیر کیا جائے گا لیکن 2025 میں بھی اس اسٹرکچر کا کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ یہ اس کی فراہمی کے لیے کمیشن کی گئی کمپنیوں اور وفاقی حکومت کے ذمہ دار اداروں کے درمیان ایک تنازعے کا نتیجہ ہے۔ کیا اس کا کوئی حل نکل پائے گا؟ یہ بات ابھی تک غیر واضح ہے۔ کیا جرمنی واقعی متحد ہے؟تمام سیاسی کوششوں کے باوجود ایک حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی نے ابھی تک اپنی تقسیم سے پیدا ہونے والے تمام تر مسائل پر قابو نہیں پایا ہے۔ فی الحال صرف 35 فیصد جواب دہندگان کا کہنا ہے کہ مشرقی اور مغربی جرمنی نے "بڑے پیمانے پر ایک ساتھ ترقی کی۔‘‘ ملک کے دونوں حصوں میں اس بارے میں تاثرات مختلف پائے جاتے ہیں۔
مشرق میں 23 فیصد کا خیال ہے کہ جرمن 1990 سے ایک قوم بن چکے ہیں جب کہ مغرب میں 37 فیصد اس خیال کو درست سمجھتے ہیں۔
50 فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ اجرت، پنشن اور اثاثوں کی عدم برابری مشرقی اور مغربیجرمنی کے 'کامیاب اتحاد‘ کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
ادارت: امتیاز احمد
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دوبارہ اتحاد تین اکتوبر اتحاد کی
پڑھیں:
4 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 733 ملین ڈالرز تک پہنچ گیا
کراچی:پاکستان کی کمزور بیرونی پوزیشن ایک بار پھر دباؤمیں آگئی ہے،کیونکہ مالی سال 2026 کی پہلی چار ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 733 ملین ڈالر تک جاپہنچا،جوگزشتہ سال اسی دوران کے 206 ملین ڈالرزکے مقابلے میں تین گنا سے زائد ہے۔
اکتوبر میں صورتحال مزید خراب ہوئی اورکرنٹ اکاؤنٹ 112ملین ڈالر خسارے میں چلاگیا، جبکہ ستمبر میں یہ 83 ملین ڈالر سرپلس تھا۔
اسٹیٹ بینک کے جاری تازہ اعداد وشمار کے مطابق جولائی تا ستمبر FY26 کے دوران پہلے ہی 621 ملین ڈالر خسارہ ریکارڈ ہو چکا تھا، جو گزشتہ سال اسی عرصے کے 83 ملین ڈالرکے سرپلس کے برعکس ہے۔
بیرونی شعبے پر دباؤ کی بڑی وجہ درآمدات میں نمایاں اضافہ اور برآمدات کی سست رفتاری رہی، جولائی تا اکتوبر FY26 میں پاکستان کا مجموعی تجارتی خسارہ (اشیا و خدمات) بڑھ کر 11.26 ارب ڈالر ہو گیا، جو گزشتہ سال 9.61 ارب ڈالر تھا۔
اشیاء کی برآمدات میں صرف معمولی بہتری دیکھنے میں آئی اور یہ 10.63 ارب ڈالر رہیں، جوگزشتہ سال کے 10.42 ارب ڈالرسے صرف 2 فیصد زیادہ ہیں۔
اکتوبر میں برآمدات 2.75 ارب ڈالر رہیں،جو گزشتہ سال اکتوبر کے 3 ارب ڈالر سے کم ہیں۔ خدمات کی برآمدات نے کچھ سہارا فراہم کیا اور 3.03 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جن میں آئی ٹی و ٹیلی کام کی برآمدات 1.44 ارب ڈالر رہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔
دوسری جانب اشیا کی درآمدات بڑھ کر 20.72 ارب ڈالر ہوگئیں، جو گزشتہ سال کے 18.90 ارب ڈالر سے 9.6 فیصد زیادہ ہیں۔
خدمات کی درآمدات بھی بڑھ کر 4.20 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، بنیادی آمدنی کا خسارہ اب بھی بڑا چیلنج ہے، جو چار ماہ میں 3.09 ارب ڈالر رہا۔
اکتوبر میں ہی اس مد میں 905 ملین ڈالرکا خسارہ ریکارڈ ہوا۔ ترسیلات زر نے بیرونی کھاتوں کو سب سے زیادہ سہارا دیا، جو بڑھ کر 12.96 ارب ڈالر ہوگئیں، تاہم تیزی سے بڑھتے تجارتی خسارے کو پورانہ کر سکیں۔
مالی کھاتہ بھی دباؤ میں رہا اور چار ماہ میں 605 ملین ڈالر خسارہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ ایف ڈی آئی کم ہوکر 748 ملین ڈالر رہ گئی۔
اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر اکتوبر کے اختتام تک بڑھ کر 14.64ارب ڈالر ہوگئے تھے، تاہم بڑھتا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور آئندہ مہینوں میں بھاری قرض ادائیگیاں بیرونی استحکام کیلیے نئے خطرات پیدا کر رہی ہیں۔