جرمن شہر بون میں افغان قونصل خانے کے عملے کا اجتماعی استعفا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برلن (انٹرنیشنل ڈیسک) جرمن شہر بون میں واقع افغانستان کے قونصل خانے کے عملے نے استعفا دے دیا۔ یہ فیصلہ افغان حکومت کے مقرر کردہ 2نمائندوں کو جرمنی کی جانب سے منظوری دینے کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا گیا۔ بون میں واقع افغانستان کے قونصل خانے کے عملے نے 2نمائندوں کو منظوری دینے کے اقدام کو جرمنی میں مقیم افغان شہریوں کی حساس معلومات کے لیے خطرہ قرار دیا۔ واضح رہے کہ ابھی تک صرف روس نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان ایکسپریس؛ دہلی کے چائے خانے سے ریاست مدینہ تک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251117-03-8
خلیل الرحمن
سنیے! یہ جو پاکستان ایکسپریس چلی تھی اس کا قصہ بھی سن کر دیکھیے آپ بھی سر دھنتے ہوئے کہیں گے یا خدا یہ کیا ماجرا ہے۔ سفر کا آغاز تکبیروں کی گونج اور جنت کی منزل کے وعدے سے ہوا انجن میں پہلا ایندھن ڈالا گیا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ واہ رے واہ!! ایسا لگا جیسے اب گھی کے چراغ جلیں گے اور قوم پنجوں کے بل چلے گی، مگر میاں بسم اللہ ہی غلط اُتر گئی، ڈرائیور نے اسلامی جمہوریت کے اسٹیشن پر اتنی دیر ٹال مٹول کی کہ گاڑی رُکی کم اور رگڑے زیادہ کھائے۔ مسافروں نے چائے پانی سے زیادہ سگار کے کش لگائے۔ آگے چل کر بنیادی جمہوریت کی ایسی پرپیچ کھائیاں آئیں کہ مسافروں کا آٹے دال کا بھاؤ پانی کی طرح بہہ گیا، ڈرائیور جو خود کو انجینئر سمجھنے لگے تھے بریک کو بھول کر ایکسیلیٹر پر ہی پیر جمائے بیٹھے رہے اور سائیڈ مرر میں اپنے عکس سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے رہے۔
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
یہ کھائیاں پار ہی ہوئی تھیں کہ ون یونٹ کے اسٹیشن پر ایسا ازدحام مچا کہ خدا ہی حافظ تھا سمجھ لیجیے کہ ایک پھول میں سو کانٹے سمٹ آئے اور غصے میں آ کر گاڑی نے اپنا ایک ڈبا ہی گول کر دیا اْس دن سے یہ قول مشہور ہوا ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور پھر تو گاڑی کا انجن ایسا ٹھنڈا پڑا کہ کسی زورآور کے بس کی بات نہ رہی ایک نئے مسافر نے لقمہ دیا روٹی، کپڑا اور مکان کا ایندھن لگاؤ مگر جناب وہ ایندھن ڈالا کم گیا چوری زیادہ ہوا پھر بھی گاڑی کو دھکا لگا کر اسٹارٹ کیا گیا مسافر پھولے نہ سمائے کہ اب تو نئی نویلی دلہن کی طرح سب کچھ سج جائے گا، مگر وقت کا پلٹا ہوا پتا دیکھیے سامنے سے ایک ٹرین آ نکلی جس پر بڑے حروف میں لکھا تھا نو ستارے نو بھائی بھٹو تیری شامت آئی، اس ٹکر میں گاڑی کا رُخ مڑ کر اسلام ہمارا عقیدہ، جمہوریت ہمارا نظام کے اسٹیشن پر آ گیا یہاں ہر گھر سے نوکری کا خواب ایسا بیچا گیا کہ مسافروں نے سمجھا اب تو انگریز کے زمانے کی پنشن مل جائے گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ٹامک ٹوئیاں مارتے سب واپس اسی ڈسے ہوئے مقام پر آ پہنچے، گاڑی کو اسلامی نظام و قوانین کے اسٹیشن پر ٹھیرنا تھا مگر انجن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور چلتا پرزہ بن کر سیدھا جمہوریت بحال کرو کے اسٹیشن پر جا رْکا۔ یہاں گاڑی کو پتا چلا کہ آگے کا ویزہ صرف قائد کا وفادار ہی لے سکتا ہے ورنہ تو وہ غدار ہے اور موت کا حقدار! گویا دال میں کالا بہت پہلے ہی پڑ چکا تھا۔
آگے ترقی و خوشحالی کی منزل کی طرف گاڑی نے ہچکولے کھانے شروع کیے جیسے ڈرائیور نے کوئی نیا نشہ کیا ہو یہ حالت دیکھ کر کسی سیانے نے گاڑی کا رُخ جدید پاکستان کی طرف موڑ دیا مگر میاں یہ اندھیرے میں ہاتھ مارنے والی بات تھی گاڑی ابھی مقامی حکومتوں کے اسٹیشن سے گزر ہی رہی تھی کہ نئے پاکستان کی تبدیلی سے ایسی لڑکھڑائی کہ ڈرائیور سمیت سب کی بتیس دانتوں میں زبان آ گئی۔ مرمت کے نام پر احسن حکمرانی اور غریب دوستی کے پرزے لگائے گئے جن کا حال نقار خانے میں توتی کی آواز جیسا تھا ساتھ ہی فوراً پاکستان کھپے کا نیا انجن منگوانے کا شور مچا بس یہیں پرانے انجن نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور چلّا اٹھا مجھے کیوں نکالا مجھے کیوں نکالا۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو قطرۂ خوں نہ نکلا
جب ہماری یہ سیاسی ایکسپریس دوبارہ جمہوریت بحال کرو کے اسٹیشن پر رکی تو نئے ڈرائیور صاحب ایک ایسے خواب لیے آئے کہ سن کر عقل دنگ رہ گئی انہوں نے اعلان فرمایا اب ہم اس کھٹارا گاڑی کو سیدھا ریاست ِ مدینہ کے ٹریک پر ڈالیں گے۔ لوگوں نے سنا تو آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والا معاملہ پیش آ گیا، وہی انجن جو پہلے اسلامی قوانین کے اسٹیشن پر کانوں میں تیل ڈال کر سو رہا تھا اب اچانک اسے اسلامی فلاحی ریاست کا خیال آیا، ڈرائیور صاحب نے فرمایا کہ ہم عمرانیات کو بھی مدینہ کی طرز پر ڈھالیں گے مگر المیہ یہ تھا کہ وہ نہ خود مغرب کی ٹوئی چھوڑ پائے نہ ہی یہ سمجھ سکے کہ ریاست ِ مدینہ تلوار سے نہیں عدل و کردار سے بنتی ہے یہاں ایک نئی پھکڑپن شروع ہوئی جہاں پہلے ہر گھر سے نوکری کی بات ہوتی تھی اب ہر فرد کو ریاست کا نگہبان بنانے کے دعوے ہونے لگے۔ وہ خواب تھا جو فقط سو گئے تو خواب ہوا؍حقیقتوں سے جسے دور کر دیا گیا تھا۔
یہ ریاست ِ مدینہ والا نیا انجن لگا تو سہی مگر میاں یہ تو الٹی گنگا بہنے لگی جب ڈرائیور نے گاڑی کو جدید پاکستان کی طرف موڑنے کی کوشش کی تب ہی اس کے پرزے ایسے ڈھیلے ہوئے کہ ہر کوئی اپنے منہ میاں مٹھو بنا بیٹھا تھا اصل میں لگایا کچھ گیا نکلا کچھ اور اسی انجن کی گڑگڑاہٹ میں نئے پاکستان کی تبدیلی کا وہ پرچم بھی لہرا رہا تھا جس پر احسن حکمرانی اور غریب دوستی کی مرمت درج تھی مگر مرمت ایسی ہوئی کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور، گاڑی لڑکھڑا کر پھر سے کھائی میں گرنے ہی کو تھی کہ نیا شور بلند ہوا مجھے کیوں نکالا اب کہانی پھر سے پاکستان کھپے اور ووٹ کو عزت دو کے پرانے ٹریک پر آ گئی ہے، اور ریاست ِ مدینہ کا خواب بیچ بازار میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ یہ سیاسی ریل گاڑی چلتی رہے گی ڈرائیور بدلتے رہیں گے ایندھن چوری ہوتا رہے گا۔ مگر یاد رکھیے جس دن مسافروں نے خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اْس دن یہ گاڑی نہیں رْکے گی، بلکہ یہ کھٹارا لوہے کا ڈبا پرزہ پرزہ ہو جائے گا اور منزل خود بخود سامنے آ جائے گی اپنا خیال رکھیے اب تو چائے کا ایک گھونٹ پی لیجیے ورنہ یہ بھی ٹھنڈی ہو جائے گی۔