خیبر پختونخوا کابینہ میں ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ ختم کرنے کی منظوری ، کیا اب آپریشنز ختم ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی کابینہ نے اپنے پہلے اجلاس میں ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ ریگولیشنز کو ختم کرنے اور صوبائی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست واپس لینے کی منظوری دی ہے۔
ترجمان خیبر پختونخوا حکومت شفیع اللہ جان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اس قانون پر شدید تحفظات تھے اور کابینہ اجلاس میں اس کے خاتمے کی منظوری دی گئی۔ اُن کے مطابق ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ کا خاتمہ بنیادی انسانی حقوق کا تقاضا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈینس کیا ہے، پی ٹی آئی کی قانون سازی پر علی امین گنڈاپور کو تحفظات کیوں؟
تاہم قانونی ماہرین کے مطابق اس سے صوبے میں جاری فوجی جاری آپریشنز پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور ہے کیا اور کب نافذ ہوا؟’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ ایک وفاقی آرڈیننس تھا جو فاٹا میں نافذ تھا۔ اس کے تحت سول حکومت سیکیورٹی فورسز کو معاونت کے لیے طلب کر سکتی تھی اور انہیں خصوصی اختیارات دیے جاتے تھے۔ یہ قانون پہلی مرتبہ 2011 میں سابقہ فاٹا اور پاٹا میں جاری دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں کے دوران نافذ ہوا، جبکہ اس کا اطلاق 2008 سے مؤثر سمجھا گیا۔
اس قانون کے ذریعے وفاق اور صوبائی حکومتیں سیکیورٹی فورسز کو قانونی تحفظ فراہم کرتی تھیں، جس کے تحت وہ مشتبہ افراد کو بغیر عدالتی اجازت کے گرفتار، زیرِ حراست رکھ سکتی تھیں، چھاپے مار سکتی تھیں اور حراستی مراکز قائم کر سکتی تھیں۔ ملزمان کو عدالت میں پیش کیے بغیر حراست میں رکھنا بھی اسی قانون کا حصہ تھا۔
خیبر پختونخوا میں اس قانون کا نفاذ کیسے ہوا؟2018 میں فاٹا اور پاٹا کو آئینی ترمیم کے ذریعے خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا۔ 2019 میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ کو پورے خیبر پختونخوا تک توسیع دے دی۔ اس وقت کے گورنر شاہ فرمان نے آرڈیننس جاری کرکے اسے پورے صوبے میں نافذ کیا، جو پہلے صرف قبائلی اضلاع تک محدود تھا۔
یہ بھی پڑھیے: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا ریڈیو پاکستان پر 9 مئی حملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن قائم کرنے کا اعلان
اس فیصلے کو وکیل شبیر حسین گگیانی نے پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ ہائیکورٹ نے اسے غیر آئینی قرار دے دیا، تاہم پی ٹی آئی حکومت سپریم کورٹ گئی جہاں ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا گیا۔ یوں یہ معاملہ بدستور سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
کیا کابینہ کی منظوری کے بعد قانون ختم ہو گیا ہے؟سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور بھی اس قانون کے خاتمے کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ سہیل آفریدی نے وزیراعلیٰ بنتے ہی کابینہ کے پہلے اجلاس میں سپریم کورٹ میں دائر اسٹے واپس لینے کی منظوری دی، تاکہ ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف کابینہ منظوری سے قانون ختم نہیں ہوتا۔ سابق ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شمائل احمد بٹ کے مطابق اسٹے آرڈر ختم کرانے کے لیے الگ پیٹیشن دائر کرنا ضروری ہے اور یہ معاملہ وفاقی آئینی عدالت کے دائرے میں آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس، اعلیٰ عسکری و سول قیادت وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئی
آئینی عدالت ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ قانون کا خاتمہ کس بنیاد پر ہونا چاہیے اور صوبائی حکومت کی درخواست کے بارے میں کیا حکم دیا جائے گا۔
اصل قانونی پیچیدگی کیا ہے؟شمائل بٹ کے مطابق آرڈیننس کی مدت تو 90 دن ہوتی ہے، لیکن اصل مسئلہ پشاور ہائیکورٹ کا وہ فیصلہ ہے جس میں اس قانون کو غیر آئینی قرار دے کر تمام حراستی مراکز اور زیرِ حراست افراد کو 3 دن میں عدالتوں میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
اگر آئینی عدالت ہائیکورٹ کے فیصلے کو بحال کرتی ہے تو یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت 2008 سے دیے گئے قانونی تحفظات اور کی جانے والی کارروائیوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ تمام قانونی پہلو عدالت کے سامنے رکھے جائیں گے اور فیصلہ وفاقی آئینی عدالت ہی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیے: تحریک لبیک پاکستان جیسی متشدد جماعتوں کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
سیئینر قانون دان علی گوہر درانی کے مطابق اس آرڈیننس کے خاتمے سے آپریشنز بند نہیں ہوں گے۔ ‘صوبے میں آپریشنز وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار ہے۔ اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن اس دوران کچھ خصوصی اختیارات ختم ہوں گے۔ اس میں حراستی مراکز، گرفتاری اور دیگر اختیار شامل تھے جو ختم ہوں گے۔’
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایکشن ان ایڈ آف سول پاور خیبرپختونخوا کابینہ صوبائی حکومت فوجی آپریشن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا کابینہ صوبائی حکومت فوجی آپریشن خیبر پختونخوا صوبائی حکومت آئینی عدالت سپریم کورٹ کی منظوری کورٹ میں کے مطابق کے لیے ہوں گے
پڑھیں:
آئی ایس او پاکستان کی مرکزی کابینہ کی منظوری دیدی گئی
نومنتخب مرکزی صدر سید امین شیرازی نے نئی کابینہ کا اعلان کیا۔ مرکزی صدر کے اعلان کے مطابق علی زین کو مرکزی نائب صدر آئی ایس او پاکستان منتخب کیا گیا ہے، جبکہ سروش زیدی مرکزی جنرل سیکرٹری، انیس احمد مرکزی مالیات سیکرٹری اورعلی رضا نقوی کو مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری آئی ایس او پاکستان منتخب کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی مرکزی کونسل کے پہلے اجلاس میں کابینہ کی منظوری دیدی گئی۔ نومنتخب مرکزی صدر سید امین شیرازی نے نئی کابینہ کا اعلان کیا۔ مرکزی صدر کے اعلان کے مطابق علی زین کو مرکزی نائب صدر آئی ایس او پاکستان منتخب کیا گیا ہے، جبکہ سروش زیدی مرکزی جنرل سیکرٹری، انیس احمد مرکزی مالیات سیکرٹری اورعلی رضا نقوی کو مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری آئی ایس او پاکستان منتخب کیا گیا ہے۔