Express News:
2025-11-19@08:37:39 GMT

کردار اور امید!

اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT

1947میں تقسیم ہند کے فیصلے کے بعد‘ تقریباً ڈیڑھ کروڑ نفوس دونوں اطراف سے اپنے نئے ممالک میں کوچ کر گئے۔ انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی۔

اگر ٹائن بی کو غور سے پڑھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ چشم فلک نے اتنی کثیر تعداد میں لوگوں اور ان کے خاندانوں کو حد درجہ بے بسی سے لٹتے پٹتے ہوئے ‘ ایک ملک سے سرحد پار‘ اپنے نئے وطن میں جاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ قتل و غارت تو خیر ہر جانب سے ہوئی۔ اس خون ریزی سے صرف نظر کرتے ہوئے‘ ا گر صرف یہ سوال پوچھا جائے کہ کروڑوں انسانوں نے اپنے گھر بار ‘ کاروبار اور آبائی شہروں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کر کیا؟ کیا وجوہات تھیں کہ ان گنت نفوس‘ بغیر کسی سابقہ تجربہ کے یک دم‘ مہاجر بن گئے؟ یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اس کی تمام جزئیات کو ایک مختصر کالم میں سمویا نہیں جا سکتا۔

مگر طالب علم کو دو وجوہات ایسی معلوم پڑتی ہیں جنھوں نے لوگوں کو ذہنی طور پر قائل کیا‘ اور انھوںنے فانی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر لیا۔ پہلا عنصر تو یہ‘ اس وقت کی قیادت اور ان کے دعوؤں پر عام آدمی کو مکمل یقین تھا۔ مسلمانوں کی اکثریت محمد علی جناح کو اپنا نجات دہندہ سمجھتی تھی۔ یہی حال ‘ ہندوؤں کا گاندھی اور نہرو پر مکمل اعتماد کا تھا۔ اگر ہم صرف‘ مسلمانوں کی بات کریں۔ تو اس میں بھی ہمیں دو طرح کے رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ برصغیر میں مسلم آبادی چورانوے ملین (94 Millin) کے لگ بھگ تھی۔ واضح اکثریت نے قائداعظم کی باتوں پر لبیک کہا اور نئے ملک یعنی پاکستان آ گئے۔ مگر‘ ہندوستان کو نہ چھوڑنے والے مسلمان بھی کروڑوں میں تھے۔

جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں کی کثیر تعداد پاکستان نہیں آئی۔ بہر حال‘ اعداد و شمار کی بحث سے نکل کر‘ اگر ہم واقعاتی طرز پر معاملہ دیکھیں تو قائد کی شخصیت پر بھرپور اعتماد ‘ وہ بنیاد بنی‘ جس نے لوگوں کو نامعلوم شہروں کی طرف آنے پر آمادہ کر لیا۔ مگر سوچئے‘ کہ جناح صاحب اور 1947کے مسلمانوں میں تو کوئی بھی قدر مشترک نہیں تھی۔ قائد‘ مغربی طرز پر زندگی گزارنے والے دولت مند انسان تھے۔ مالا بار ہلز میں ان کا گھر‘ ایک محل کی طرح تھا۔ کھاناپینا بھی‘ عام لوگوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ گھر میں کانٹی نینٹل اور دیگر کھانے بنانے والے علیحدہ علیحدہ باورچی تھے۔ کپڑوں کو ملاحظہ کریں تو صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ برصغیرکے نناوے فیصد لوگ‘ اتنے قیمتی ملبوسات زیب تن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جناح صاحب کے پاس‘ بیش قیمت گاڑیاں تھیں۔ قیمتی ترین سگار پیتے تھے۔

چھٹیاں گزارنے کے لیے لندن ‘ پیرس‘ اور مغربی ممالک میں رہتے تھے۔ تو پھر کیا۔ یہ سوال پوچھنا مناسب نہیں ہے کہ… ایک ایسا شخص جس کی مماثلت ‘ کسی طور پر عام مسلمانوں کے طرز زندگی سے نہیں تھی۔ مسلمانوں نے اس پر آنکھ بند کر کے کیسے یقین کر لیا؟ جواب صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ جناح صاحب کا کردار اتنا پختہ اور مضبوط تھا کہ ان پر مسلمان تو کیا‘ غیر مسلم بھی مکمل یقین کرتے تھے۔ کردار کی عظمت وہ بنیاد بنی جس نے مسلمانوں کو جواز فراہم کیا ‘ کہ آنکھیں بند کر کے‘ نئے وطن کی طرف روانہ ہوجائیں۔ خون کے دریا گزرنے سے بھی نہ گھبرائیں۔ جائیداد بھی پیروں کی زنجیر نہ بننے پائی۔ قائد کا کردار ہی وہ کنجی ہے‘ جس سے پاکستان جیسے عظیم ملک کو قائم کرنے کا تالہ کھل پایا۔

مگر اس کے علاوہ‘ ایک حد درجہ اہم عنصر اور بھی تھا۔ جسے پہچاننے اور ذہن نشین کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ وہ یہ ‘ کہ عام مسلمانوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن تھی۔ یقین تھا کہ نیا وطن‘ پاکستان ان کے لیے بے پناہ مواقع لے کر آئے گا۔ معاشی‘ معاشرتی‘ سماجی‘ اقتصادی ترقی‘ ان کے قدموں میں ہو گی۔ خود پاکستان کے خالق نے ان نئی جہتو ں کا متعدد بار اعادہ کیا تھا۔ بارہا اعلان کیا تھا کہ نئے ملک میں مسلمانوں کو ذاتی ترقی کے وہ تمام مواقع دستیاب ہوں گے جو آج تک ہندو اکثریت نے انھیں فراہم نہیں کیے۔

یہ بات بالکل درست تھی کہ پاکستان ایک ایسا خواب تھا‘ جو مسلمانوں کے ہر مثبت قدم کی تعبیر تھا۔ 1940سے لے کر 1947سے مسلمانوں میں امید کی یہ کرن ‘ اتنی طاقتور ہو چکی تھی کہ انھیں اپنا سب کچھ لٹانے میں معمولی سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ دلیل کو سمیٹے ہوئے‘ یہ عرض کروں گا کہ قائداعظم کے بلند کردار‘ نے مسلمانوں کے دلوں میں امید کے ایسے چراغ جلا دیے تھے کہ وہ سود و زیاں سے بالاتر ہو چکے تھے۔ مگر قائد کی بیماری اور وفات نے‘ ملک کو ایسے معاملات سے دو چار کر دیا جس نے تمام رموز سلطنت‘ حددرجہ ادنیٰ لوگوں کے ہاتھ میں دے ڈالے۔

یہ وہ حکمران تھے‘ جو بذات خود‘ پاکستانیوں کے لیے ام المسائل تھے۔ شعوری طور پر لوگوں کو مفلوج کر کے ایک سراب تخلیق کیا گیا۔ جہاں پر آج تک ‘ کسی بھی پاکستانی کی رسائی نہیں ہو پائی۔ غلام محمد‘ سکندر مرزا‘ وہ ناعاقبت اندیش حکمران تھے‘ جنھوں نے ملک کی بہتری اور لوگوں کی خدمت کے بجائے‘ سازش کے ذریعے ملک پر مسلسل حکمرانی کا ارادہ کیا۔ دونوں تاریخ کے کوڑے دان میں گئے۔ مگر جاتے جاتے‘ ملک کی بنیادوں کو ہلا گئے۔ آمروں نے عمومی حکمرانی‘ سازش اور قومی تشخص کی کمزوری کی بنیاد پرکی ۔ کھوکھلے نعرے‘ بے مقصد تقریبات ‘ تشدد پسندی جذباتیت ‘ فرقہ پرستی اور نفرت کے ایسے بیج بوئے جو آج توانا ہو کر برگد کے درخت نہیں‘ بلکہ مہیب جنگل کے روپ میں سامنے آ چکے ہیں۔ ملک کی زمین کو انھوںنے فروعی کانٹوں سے پر کر دیا‘ جو اب بارودی سرنگیں بن چکی ہیں۔ یعنی قائداعظم کی رحلت کے بعد ‘باکردار حکمران تو خیر آئے ہی نہیں‘ یا آنے نہ دیے گئے۔

ملک کے عام لوگوں کی امید کی تمام روشنی کو بھی اندھیرے میں بدل دیا ۔ سیاست دانوں نے بھی اپنا قبلہ تبدیل کر لیا۔ مال و دولت کا ناجائز ذخیرہ ان کی زندگی کامقصد بن گیا۔ ہاں‘ ایک اور بات‘ جس سیاست دان یا شخص نے ملک کی بہتری کی کوئی بھی کوشش کی اسے منفی حکمت عملی سے دیوار میں چنوا دیا گیا۔ جس وزیراعظم نے ملک کو آئین دیا۔ نوے ہزار جنگی قیدی واپس لانے کا لازوال کارنامہ انجام دیا۔ بدلے میں عدالت کے ذریعے قتل کروا دیا گیا۔ جس سیاست دان نے ملک میں شہریوں کے لیے موٹرویز کا خوبصورت جال بچھایا۔ نئے ایرپورٹ تعمیر کروائے ‘ ہمسایہ ملک کے ساتھ پائیدار امن کی بات کی‘ اسے برباد کر دیا گیا اور آج بھی راندہ درگاہ ہے۔ جس خاتون وزیراعظم نے عوامی سطح کی خدمت کرنے کی جوت جگائی۔ اسے سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنھوں نے‘ یہ سب منفی ترین کام کیے ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر پایا۔

گزشتہ تین برس ملک پر خصوصی طور پر بھاری پڑے۔ 30لاکھ پاکستانی ‘ اپنے اثاثے اونے پونے فروخت کر کے پاکستان سے باہر منتقل ہو گئے۔ بلوم برگ جیسے معتبر چینل کے مطابق‘ یہ لاکھوں لوگ کوئی مزدوری کرنے نہیںگئے۔ یہ ان پڑھ افراد بھی نہیں تھے۔ ان میں پروفیشنل‘ کامیاب کاروباری اشخاص‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ آئی ٹی ماہرین اور اسی سطح کے لوگ تھے۔ مگر سوچیئے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا‘ اور آج بھی کیوںبدستور جاری ہے؟ دراصل ‘ پاکستانیوں کی اکثریت ‘ اپنے حکمرانوں میں بلند کردار کے اوصاف نہیں دیکھتی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سڑک چھاپ‘ سائیکل سے حد درجہ دونمبر ذرایع سے ارب پتی بن گئے۔ اور اب حق ِحکمرانی کو صرف اپنے تک محدود کر چکے ہیں۔ ہر وقت نت نئے اسکینڈل ‘ اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔

مگر کسی قسم کا کوئی احتساب نہیں ہو پاتا۔ اچھے کردار کی بات کیا کرنی‘ اب تو جو حقیقتاً منفی صفات کا مالک ہے ‘ وہ خوب پھل پھول رہا ہے۔ اس ناجائز حکمرانی نے لوگوں کے دلوں میں ناامیدی پیدا کر دی ہے۔ ان سے بہتری کی معمولی سے معمولی امید بھی چھین لی ہے۔ انھیں یقین ہو چکا ہے کہ پاکستان کے حالات کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اس ملک میںان کا اور ان کی اولاد کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

ایک غیر جانبدار سروے کروا لیجیے۔ آپ کے سامنے ‘ حکمرانوں کے کردار اور امید کے متعلق تمام حقائق سامنے آ جائیں گے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ سچ سب جانتے ہیں مگر سچ سننا نہیں چاہتے۔ ملک کی ناکامی کی وجوہات سب سمجھتے ہیں۔ مگر اس کو ٹھیک کرنے کے لیے قصداً کوئی قدم نہیں اٹھاتے ۔ سرکاری سطح پر ناکامی کو چھپانے کے لیے‘ جھوٹ کی مکمل سرپرستی کی جا رہی ہے۔ صحرا میں پل بنانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ جانتے ہوئے کہ صحرا میں پانی کا گزر کبھی ہو گا ہی نہیں۔ ناامیدی کو اب‘ امید میں بدلنا معروضی طور پر ممکن نہیں رہا۔ اور ہاں۔ حکمران طبقہ میں بلند کردار کی بات کرنا‘ صرف اور صرف وقت کو ضایع کرنے کے مترادف ہے۔ جناب! یہاں حالات ‘ کم از کم عوام کے تو نہیں بدلنے والے! باقی آپ خود سمجھدار ہیں!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مسلمانوں کے نہیں ہو دیا گیا کر لیا کی بات کے لیے کر دیا اور ان ملک کی نے ملک

پڑھیں:

عہد ِرسالتؐ میں صحابیاتؓ کا معاشی کردار

معاش حیات انسانی کا وہ اہم ترین شعبہ ہے اور عمرِعزیز کا بیشتر حصہ غمِ فردا میں گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب اسلام نے اس فطرت انسانی کا خاص خیال رکھا ہے اور جا بہ جا حصولِ معاش کی دوڑ دھوپ کا حکم دیا ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو ارشاد فرمایا: ’’نیک آدمی کے لیے اچھا مال کیا ہی خوب ہے۔‘‘ (ترمذی) نیز نبی کریم ﷺ نے حضرت انس ؓ کے لیے کثرت اولاد کے ساتھ فراخی رزق کی دعا فرمائی، مفہوم: ’’اے اﷲ! انس کے مال اور اولاد میں کثرت فرما۔‘‘ (بخاری)

اگرچہ عورت کا حقیقی دائرہ کار اس کا گھر ہے جہاں وہ بچوں کی نگہ داشت، نشوونما اور تعلیم و تربیت کے فرائض سرانجام دیتی ہے۔ عورت کو فکرِمعاش سے آزاد کیا گیا ہے۔ اس پر دوسروں کی فکر تو کیا بلکہ اپنی ذمہ داری سے بھی سبک دوش ہے۔ یہ صرف اس لیے کہ عورت اپنے گھر میں کامل منہمک ہو کر اپنے فرائض ادا کرسکے۔ مفہوم: ’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو۔‘‘ کی اصل غرض و غایت بھی یہی ہے۔

شریعت مرد سے زیادہ عورت کو تربیت ِ اولاد کے لیے موزوں سمجھتی ہے۔ ایک صحابیؓ نے جب اپنی بیوی کو طلاق دی اور بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہا مگر بچے کی والدہ نے شکایت کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم ہی اس کی زیادہ حق دار ہو جب تک دوسرا نکاح نہ کرلو۔‘‘ (سنن ابی داؤد)

عورت گھر کی منتظم ہے لہٰذا اس کا فرض ہے کہ وہ اس کا انتظام خوش اسلوبی سے چلائے۔ صفائی، ستھرائی کا اور افراد خانہ کے لباس و خوراک کا خاص خیال اس طرح رکھے کہ گھر چین و سکون کا گہوارہ بن جائے۔ شریعت اسلامیہ کی نگاہ میں عورت کا پنے اصل دائرہ کار پر کاربند رہنا ضروری ہے، چناں چہ اجتماعی اور تمدنی میادین میں عورت کی عدم شرکت قابل برداشت ہے مگر گھر کا نقصان برداشت نہیں۔ اس لیے کہ گھر کا معاملہ صرف دو افراد یعنی میاں بیوی ہی کے مابین نہیں بلکہ دو خاندانوں اور اس کے سینکڑوں افراد کے مابین ہے۔

شریعت اسلامیہ اجتماعی عبادات میں بھی حصہ لینے کی بہ جائے عورت سے اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ عبادات بھی اپنے گھر میں ہی بجا لائے۔ گھر میں رہ کر خاوند کی خدمت کرنا عورت کا جہاد ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تمہارا گھر میں بیٹھنا ہی جہاد ہے۔‘‘ (مسند احمد) اس کے باوجود قرآن و حدیث میں غور و فکر سے معلوم ہوتا کہ معاشی تگ و دو کا بنیادی فریضہ تو مرد کے سر ہے تاہم عورت کے لیے اس کی ممانعت نہیں۔

اس کی تفصیل ذیل میں مذکور ہے۔

حدیث میں تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’دس حصوں میں سے نو حصے رزق اﷲ نے تجارت میں رکھا ہے۔‘‘ (عمدۃ القاری) امام ابراہیم نخعیؒ سے سوال کیا گیا کہ آپ کی نظر میں سچا تاجر زیادہ بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کررکھا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک سچا تاجر زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ وہ حالت جہاد میں ہے۔ شیطان ہر طرف سے اسے پھسلانے کی کوشش کرتا ہے کبھی ناپ تول میں کمی بیشی کا کہتا ہے تو کبھی لین دین میں مکربازی کی چالیں سمجھاتا ہے لیکن وہ تاجر ان سب سے انکار کرکے جہاد کرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین)

عہد رسالتؐ میں صحابیاتؓ تجارت سے وابستہ تھیں، حضرت اسماء بنت مخزمہؓ عطر کا کاروبار کرتی تھیں۔ حضرت خولہ بنت توقیتؓ اس قدر عطر فروخت کرتی تھیں کہ وہ عطارہ کے نام سے مشہور ہوگئی تھیں۔ جب وہ رسول اﷲ ﷺ کے گھر تشریف لائیں توآپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: ’’تم نے ان سے کچھ خریدا نہیں؟ انھوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! آج یہ عطر فروخت کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ اپنے خاوند کی شکایت لے کر آئی ہیں تو آپ ﷺ نے ان کی شکایت کا ازالہ کیا۔‘‘ (ابن الاثیر)

ان واقعات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ عورت تجارت و کاروبار میں حصہ لے سکتی ہے۔ عصرحاضر میں تجارت و کاروبار کا ایک وسیع میدان عورتوں سے متعلق ہے جس میں عورتوں کے ملبوسات اور زیب و زینت کی بے شمار اشیاء شامل ہیں۔ اگر عورتیں تجار ت میں حصہ لینا چاہتی ہیں تو ان کے لیے بہترین مواقع عورتوں سے متعلقہ اشیاء ہیں جن سے دُہرا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ عورت رزقِ حلال کما سکتی ہے اور دوسرے یہ کہ خریدار عورتوں سے شرم وحیاء کا دامن بھی نہیں چھوٹتا۔ نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے اور اس سے زیادہ تکلیف سے یہ بات سہنا پڑتی ہے کہ ہمارے ہاں شرم و حیاء کی دھجیاں اُڑا کر یہ کام مردوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے جس کے مُضر اثرات سب کے سامنے ہیں۔

روز ِاول سے زراعت و کاشت کاری ذریعہ معاش ہی رہا ہے۔ انسان نے سب سے پہلے زمین پر اُگایا اور پھر اسے کھایا۔ حضرت آدمؑؑ کا پیشہ بھی زراعت و کاشت کاری ہی تھا۔ حضرت موسٰیؑ کے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیبؑ کے گھر کا دار و مدار مویشی پالنے اور زراعت پر تھا۔

آپ ﷺ نے اس پیشے کی فضیلت یوں بیان فرمائی، مفہوم: ’’جس نے بنجر زمین کو آباد کیا تو وہ اسی کے لیے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) دوسری جگہ فرمایا : ’’اگر کسی شخص کے پاس زمین ہے تو اسے خود کاشت کرنی چاہیے، اگر وہ خود کاشت نہیں کرسکتا تو اس کو چاہیے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دے دے۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جو شخص زمین کو بے کار اور بے کاشت رکھے اس کا حق تین سال کے بعد ساقط ہوجائے گا۔ (کتاب الخراج)

صحابیاتؓ اس پیشے سے بھی وابستہ تھیں۔ اُم مبشر انصاریہ کا ایک کھجوروں کا باغ تھا ، آپ ﷺ ان کے کھجوروں کے باغ میں تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ یہ کھجوریں کسی مسلمان کی ہیں یا کافر کی ؟ انھوں نے عرض کیا کہ مسلمان کی ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص درخت لگاتا ہے یا کچھ اُگاتا ہے، پھر اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھا لیتا ہے تو یہ (اس کا کھانا) اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کہتی ہیں کہ میری زبیر سے شادی ہوئی تو نہ ان کی کوئی زمین تھی اور نہ ہی کوئی مال، البتہ ایک اونٹ تھا جو پانی لادنے کے کام آتا تھا اور ایک گھوڑا۔ میں خود گھوڑے کو چارہ ڈالتی اور پانی بھر کے لاتی، آٹا گوندھتی لیکن مجھے روٹی پکانا نہیں آتی تھی۔ انصار کی عورتیں جو بڑی ہی مخلص تھیں، وہ مجھے روٹی پکا کر دے دیتیں۔ آپ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو ایک قطعہ اراضی دے دیا تھا جو میرے گھر سے تین فرسخ کی مسافت پر تھا ، میں وہاں جاتی اور کھجور کی گٹھلیاں چن کر لاتی۔

حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنے کھیت میں ایک سبزی (چقندر) اُگایا کرتی تھی۔ جمعہ کے دن وہ اس کا سالن بنایا کرتی تھی، ہم جمعہ کی نماز کے بعد اس کے گھر چلے جاتے، اسے سلام کرتے اور وہ ہمارے لیے کھانا لگا دیتی۔ ہم پورا ہفتہ، جمعہ کا انتظار صرف اسی لیے کرتے تھے۔ (کہ نماز جمعہ کے بعد کھانا ملے گا) (صحیح بخاری)

درج بالا واقعات سے معلوم ہُوا کہ عہدرسالتؐ میں صحابیاتؓ زراعت سے بھی وابستہ تھیں اور ان کے اپنے باغات ہوتے تھے جس کی وہ دیکھ بھال کرتی تھیں۔ دیکھ بھال میں جو کام اپنے کرنے کے ہیں، وہ خود بھی بجا لائے جاسکتے ہیں اور جو کام صنف نازک کے بس سے باہر ہوں، ان میں خادم بھی رکھا جاسکتا ہے، مثلاً فصل کو پانی لگانا، درختوں سے پھل اُتارنا وغیرہ۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کی زوجہ حضرت زینبؓ دست کاری سے واقف تھیں اور اس کے ذریعے اپنے بچوں یہاں تک کہ خاوند کے اخراجات کا بندوبست کرتی تھیں۔ ایک دن وہ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ میں دست کاری سے خوب واقف ہوں اور چیزیں بنا کر فروخت کرتی ہوں۔ میرے بیٹے اور خاوند کے پاس کوئی کام کاج نہیں ہے، میں ہی ان پر خرچ کرتی ہوں اور ان پر خرچ کرنے کی وجہ سے میں غرباء پر صدقہ نہیں کرسکتی تو کیا بیٹے اور خاوند پر خرچ کرنے سے مجھے اجر ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں! تم ان پر جو بھی خرچ کروگی، تمھیں اس کا اجر ضرور ملے گا۔‘‘ (صحیح مسلم) اُم المؤمنین حضرت زینب بنت جحشؓؓ اپنے ہاتھ سے قسما قسم کی چیزیں تیار کرکے انھیں فروخت کرتیں اور جو کمائی انھیں حاصل ہوتی اسے راہ خدا میں صدقہ کردیا کرتی تھیں۔

حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت آپ ﷺ کے پاس ایک چادر لے کر آئی جس کے کنارے بُنے ہوئے تھے۔ اس نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! یہ چادر میں نے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے تاکہ میں اسے آپ کو پہناؤں۔ آپ ﷺ نے اس کا ہدیہ قبول فرمایا۔ ا یک آدمی نے اسے دیکھ کر سوال کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ آپ یہ چادر مجھے دے دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے تم لے لو۔ آپ ﷺ نے وہ چادر تہہ کروا کر اس آدمی کو بھجوا دی۔ لوگوں نے اس آدمی سے کہا کہ تم بھی عجیب ہو، رسول اﷲ ﷺ سے چادر کا سوال کردیا، تمھیں معلوم نہیں کہ وہ کسی سائل کا سوال رَد نہیں فرماتے۔ اس شخص نے کہا: اﷲ کی قسم! میں نے آپ ﷺ سے یہ چادر صرف اس لیے مانگی کہ بہ وقت موت یہ میرا کفن بن سکے۔ سہل ؓ کہتے ہیں کہ جب اس شخص کی موت ہوئی تو وہی چادر اس کا کفن تھی۔ (صحیح بخاری)

عہد رسالتؐ میں عورتیں اپنے کاروبار میں نہ صرف یہ کہ خود حصہ لیتی تھیں اور بہ طور کارکن خود کام کرتی تھیں بلکہ خود کاروبار کی ادارت اور نگرانی بھی کرتیں اور کام کاج کوئی اور کرتا تھا۔ امام بخاری ؒ نے حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ سے روایت کی ہے کہ انصار کی ایک عورت نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ کیا میں آپ کے لیے ایک منبر نہ بنوا دوں جس پر آپ تشریف فرما ہوا کریں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو بے شک بنوا دو‘‘ تو اس عورت نے منبر بنوا کر دیا۔ جمعہ کے روز آپ ﷺ اسی پر تشریف فرما ہوتے اور خطبہ ارشاد فرماتے۔ (صحیح بخاری) حضرت خدیجہؓ کی تجارت بھی کچھ اسی طرح کی تھی کہ وہ اپنا مال مضاربت پر دے کر خود کاروبار کی نگرانی کرتی تھیں اور منافع مضاربین اور اپنے مابین تقسیم کر لیتی تھیں۔ آپ ؓ نے نبی کریم ﷺ کو بھی مضاربت کی بنیاد پر مال دیا تھا جسے آپ ﷺ نے فروخت کیا تو دُگنا منافع ہُوا تھا۔

عہد رسالتؐ میں بہت سے صحابیاتؓ طبابت کے پیشے سے بھی وابستہ تھیں۔ صحابیاتؓ جنگوں میں رسول اﷲ ﷺ کے ہم راہ تشریف لے جاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کا فریضہ سرانجام دیا کرتی تھیں۔ ان میں ایک بنو اسلم کی حضرت رفیدہ انصاریہؓ تھیں۔ ابن اسحاق ؒسے مروی ہے: ’’غزؤہ خندق میں جب حضرت سعدؓ تیر سے زخمی ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں رفیدہ ؓ کے خیمے میں منتقل کر دیا جائے تاکہ میں قریب سے ان کی عیادت کرسکوں۔ نبی کریم ﷺ ان کے خیمے کے پاس سے گزرتے تو سعد ؓ کا حال دریافت فرماتے تو سعد ؓ آپ ﷺ کو اپنا حال بتاتے۔‘‘

(ابن حجر عسقلانی)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ غزوات میں اُم سلیم ؓ اور انصار کی عورتیں نبی کریم ﷺ کے ہم راہ ہوتی تھیں جو جنگ کے دوران پانی بھر کر لاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔ (صحیح مسلم) اُم عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں سات غزوات میں بنی کریم ﷺ کے ہم راہ رہی۔ میں مجاہدین کے لیے کھانا بناتی، زخموں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی دوا کرتی تھی۔ (صحیح مسلم) خارجہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ اُم علاء ؓ نے انھیں بتایا کہ عثمان بن مظعونؓ کو بخار ہوا اور وہ ہمارے ہاں مریض ٹھہرے یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔ (صحیح بخاری)

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے انصار کی عورتوں کو بخار اور کانوں کے امراض کے علاج کی اجازت دی تھی۔ (صحیح بخاری) درج بالا واقعات یہ شہادت پیش کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ عورت معالج بن سکتی ہے بلکہ وہ مردوں کا علاج بھی کرسکتی ہے بہ شرط یہ کہ فتنے کا خوف نہ ہو۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ طب کے پیشے پر خصوصی توجہ دیں تاکہ طب کے تمام شعبوں میں عورتوں کا طبی معائنہ عورتیں ہی کرسکیں اس میں جہاں مریضوں کے لیے فائدہ ہے کہ انھیں طبی معائنے کے لیے کسی نامحرم کے پاس نہ جانا پڑے گا، وہیں خواتین ڈاکٹرز کے لیے یہ مواقع ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں کلینک قائم کرسکتی ہیں۔

تعلیم و تحقیق اسلام کا نقطۂ آغاز ہے اور اس سلسلے میں مرد ہو یا عورت ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ غزوہ بدر میں وہ کفار جو قیدی تھے، کا کفارہ دس بچوں کو تعلیم دینا قرار پایا۔ حضرت شفاء بنت عبداﷲ ؓ کو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جیسے تم نے حفصہ ؓ کو کتابت سکھائی ہے تو کیا انھیں مرضِ نملہ کی دعا نہیں سکھاؤ گی۔؟‘‘ (سنن ابی داؤد)

رسول اﷲ ﷺ کی کثرت ازواج میں اصحابؓ کی دل جوئی، عداوتوں کے خاتمے سمیت ایک حکمت یہ بھی تھی کہ ازواج ِ مطہراتؓ کو دینِ اسلام کی تعلیم دے کر انہیں دین سکھانے پر مامور کردیا جائے تاکہ خواتین کے وہ مسائل جن کے بیان کرنے میں ایک مرد کے لیے شرم و حیاء مانع ہوتی ہے، کا بہترین بندوبست ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ازواجِ مطہراتؓ نے شوق و رغبت سے دین سیکھا اور پھر اُسے امت تک بہ خوبی پہنچایا۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے تقریباً ایک ہزار روایات مروی ہیں جو انھوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہیں اور ستّر کے قریب صحابیاتؓ ایسی ہیں جنھوں نے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ سے روایات نقل کی ہیں اور بڑے ائمہ ان کے شاگر ہیں۔ امام ابن تیمیہ ؒ اور امام ان قیم جوزیہ ؒ ایک مشہور عالمہ فخرالنساء کے تلامذہ میں سے ہیں۔ علامہ ابن عساکر ؒ نے اٹھارہ اور امام مسلم ؒ نے سترہ عورتوں سے میراثِ نبویؐ کو حاصل کیا ہے۔ (عمل المرأۃ) دورِ حاضر میں خواتین کے لیے سب سے بہتر میدان طب اور درس و تدریس ہے۔

عہد رسالتؐ میں رضاعت ایک جانا پہچانا پیشہ تھا اور بہت سی عورتیں اس پیشے سے وابستہ تھیں۔ قرآن حکیم نے ان مرضعات کو دستور کے مطابق معاوضہ دینے کا حکم فرمایا۔ حلیمہ سعدیہؓ نے سرور ِدو عالم ﷺ کو دودھ پلایا تو اُم بردہ ؓ نے آپ ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ کو دودھ پلایا۔ جب حضرت ابراہیم ؓ پیدا ہوئے تو انصار کی عورتوں میں یہ بات ہوئی کہ انھیں دودھ کون پلائے گا؟ تو نبی کریم ﷺ نے انھیں اُم بردہ ؓ کے حوالے کردیا۔ (طبقات ابن سعد)

خواتین اپنے گھروں میں ڈے کیئر سینٹر قائم کرکے جہاں ملازم خواتین کی ضرورت پوری کرسکتی ہیں، وہیں اپنے لیے روزگار کا بندوبست بھی امرِ بدیہی ہے۔ اس سے نہ گھر کا کام متاثر ہوتا ہے نہ ہی بے پردگی سے خلاف شریعت کچھ لازم آتا ہے۔ اگر اس میں خلوص نیت شامل ہوتو یہ ’’نیکی کے امور میں ایک سوجے سے تعاون کرو۔‘‘ (المائدہ) کے مصداق عبادت ہی ہے۔

دین اسلام جو کہ دین فطرت ہے، مرد و عورت کو وہ تمام حقوق ادا کرتا ہے جس سے زندگی کا پہیا بہ آسانی رواں دواں رہ سکے لیکن وہ اس کے ساتھ اصول و ضوابط کے اپنانے کا بھی حکم دیتا ہے جس میں مطمعٔ نظر محض انسانیت کی خیر خواہی اور اس کی فلاح و بہبود ہے۔ ہر مسلمان عورت پر لازم ہے کہ وہ پردے کا خاص خیال رکھے۔ یہ اس قدر اہم ہے کہ شریعت نے قریبی رشتہ داروں سے بھی پردے کا حکم دیا لہٰذا غیروں کے سامنے اس کی اجازت کس طرح ممکن ہے۔ عورتوں کے لیے یہ بھی راہ نمائی ہے کہ جب انھیں معاشی سرگرمیوں کے لیے کسی ایسی جگہ جانا پڑے جہاں مردوں سے اختلاط لازم آتا ہو تو ان پر لازم ہے کہ مردوں کے مابین مردوں سے عدم اختلاط کا رویہ رکھیں۔ دین اسلام عورت کو معاشی سرگرمی کی اجازت تو دیتا ہے مگر وہ اسے خاندان کے سربراہ کی اجازت سے بھی مشروط کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے۔‘‘ (سنن الکبریٰ)

شرم و حیاء مومن کا جوہر ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا کہ حیاء کا نتیجہ خیر ہی خیر ہے۔ لہٰذا ایسی ملازمت جس میں شرم و حیاء کی پاس داری نہ رہے، عورتوں کے لیے جائز نہیں۔  n

متعلقہ مضامین

  • آئندہ ماہ بجلی سستی ہونے کا امکان، صارفین کو بڑا ریلیف ملنے کی امید
  • امید ہے آزادکشمیر کی نئی حکومت تحریکِ آزادی کشمیر کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھے گی، غلام محمد صفی
  • بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ میں نے روکی، صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر ذکر چھیڑ دیا
  • پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟
  • بنگلا دیش کا سیاسی بحران؛ جماعت ِ اسلامی کا ابھرتا ہوا کردار
  • میرواعظ حسن افضل فردوسی کا دہلی کار دھماکے کے بعد کشمیر کی صورتحال پر خصوصی انٹرویو
  • روان ایٹنکنسن
  • بدلتی دنیا میں پاکستان کا کردار اہم ہے، عطا تارڑ
  • حکومت پنجاب کی جانب سے ڈیڑھ ارب کے فنڈز کی امید‘ جلد جاری ہو نگے :گورنر 
  • عہد ِرسالتؐ میں صحابیاتؓ کا معاشی کردار