Express News:
2025-10-04@23:04:33 GMT

سب سے مل آؤ مگر…

اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT

وہ بات جو ’’منی بائی‘‘ نے نہ جانے کس سے کہی تھی کہ تم ہر کسی سے ملو،گل و بلبل سے ملو، موج و ساحل سے ملو۔ سروسنبل سے ملو، عاقل و جاہل سے ملو، درکامل سے ملو۔ سب سے مل آؤ تو اک بار میرے دل سے ملو۔

وہی بات ہم اپنے وزیراعظم، نائب وزیراعظم اور سارے وغیرہ وغیرہ سے کہنا چاہتے ہیں کہ بے شک، چین سے ملو، جاپان سے ملو، ایران توران سے ملو، سعودی عرب سے ملو وہاں جاکر ملو یا یہاں بلا کر ملو، ہاتھ ملا کر ملو یا سینے سے لگا کر ملو، ملتے رہیے کہ ملنے سے محبت بڑھتی ہے، ملنے سے گلے شکوے دور ہوا کرتے ہیں، دل قریب آتے ہیں۔

لیکن ان سب سے مل آؤ تو اس پیاری پیاری مہنگائی سے بھی ذرا مل لیجیے۔ کیونکہ اب تو اس نے قدم قدم چلنا بھی چھوڑ دیا، دوڑنا بھی ترک کردیا، برق کی طرح چھلانگیں لگانا شروع کر دیا ہے بلکہ لگتا ہے کہ اڑنے کے لیے بھی اسٹارٹ لینے والی ہے۔ اور جب سے جناب بانی مبانی کی آکاش وانی یا بلائے آسمانی ہم پر مسلط ہوئی ہے تب سے ہم سوچ رہے ہیں کہ
سوچتے ہیں کہ اب انجام سفر کیا ہوگا
پاؤں بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے
ادھر روپیہ ہے کہ روز بروز گرتا جارہا ہے اور ادھر مہنگائی ، اس کے سر، پر، پاؤں ہیں۔ آپ یقین کریں کسی اور پر تو ہمارا بس چلتا نہیں ہے، اس لیے خود ہی پر پابندیاں لگارہے ہیں، ایسی بہت سی چیزیں ہم نے چھوڑ دی ہیں جو کبھی ہماری پسندیدہ ہوا کرتیتھیں، چھوٹا گوشت خریدنے سے پہلے یہی بہتر نظر آتا ہے کہ خود ہی اپنے دل ودماغ کو کھالیں، پھر شاید گوشت خریدنے کا حوصلہ پیدا ہوجائے۔

ماش کی دال ہماری پسندیدہ دال ہوا کرتی تھی لیکن وہ اتنی نایاب ہوگئی ہے کہ نام لینے پر بھی جھرجھری آجاتی ہے۔ ایک سبزی ’’اروی‘‘ جو ہمیں دل و جان سے پسند تھی لیکن وہ ہمارے نوالے سے ایسی پھسل گئی کہ نوالہ بھی ساتھ لے گئی۔

چپل کباب کا شوق البتہ جاری ہے کیونکہ جب بھی دل کرتا ہے کسی کبابی کی دکان کے سامنے سے گزر جاتے ہیں بلکہ تھوڑی دیر ٹھہر بھی جاتے ہیں کیونکہ حکومت کو ابھی ہماری اس عیاشی کا پتہ نہیں چلا ہے ورنہ ٹیکس لگا دیتی۔بڑی بڑی قیمتی چیزیں مثلاً پیاز، ٹماٹر، آلو، چاول دال وغیرہ کو تو ہم کب کے بھلا کر طاق نسیاں پر رکھ چکے ہیں۔
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ’’خریداریاں
لیکن اب نقش ونگار طاق نسیاں ہوگئیں
لیکن اب معمولی چیزوں کے لیے بھی آنکھیں’’ترستیاں‘‘ ہیں کہ وے صورتیں الٰہی کس دیس ’’بستیاں‘‘ ہیں۔ مثلاً مہنہ میں رکھنی والی چکٹی کو لے لیجیے جو پہلے مفت بھی کسی نہ کسی سے لے کر گزارہ کرلیتے ہیں لیکن آج کل لوگ ایک دوسرے سے ایسا چھپا چھپا کر رکھتے ہیں جیسے پولیس سے ناجائز اسلحہ چھپایا جاتا ہے۔

اُڑان بھرنے سے پہلے ایک ٹکیہ ایک روپے کی تھی ، پھر اس نے دو روپے پر چھلانگ لگائی اور ابھی لوگ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ پانچ اور پھر دس کی ہوگئی، مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ بیس اور پھر تیس۔ مہینے سے زیادہ ہو چکا ہے، آج کل میں ساٹھ کا ہونے والا ہے۔

پہلے کسی چیز کی قیمت بڑھتی تھی تو آنے دو آنے یا روپیہ دو روپے لیکن اب اس کم بخت نے چھلانگیں سیکھ لی ہیں، رات ہی رات میں دگنی بلکہ تگنی اور چوگنی ہوجاتی ہیں اور اب تو حکومتوں کی پالی ہوئی وزیروں کی ’’پوسی ہوئی‘‘ اور محکموں کی’’پروسی ہوئی‘‘ یہ مہنگائی اتنی بدمعاش ہوگئی ہے کہ کسی کی ذرا بھی پروا نہیں کرتی اور کوئی پروا کرنے والا ہے بھی نہیں کہ سب اس کے طرف دار ہوچکے ہیں بلکہ حصہ دار کہئے۔
ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا
اس لیے جب چاہتی ہے لمبی چھلانگ لگا دیتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے علاقے میں بڑاگوشت چودہ آنے سے اٹھارہ آنے سیر ہوگیا ، ایک ہنگامہ مچ گیا، لاوڈاسپیکروں پر اعلان ہوئے، دو چار قصائیوں کو مار بھی پڑی، لوگوں نے گوشت کا بائیکاٹ کردیا، آخر قصائی مجبور ہوگئے اور پرانی قیمت بحالی ہوگئی۔

آج وہی گوشت بڑے آرام سے ایک ہزار میں فروخت ہورہا ہے۔ چینی کا قصہ اس سے بھی زیادہ مشہور اور دلچسپ ہے، چینی کا نرخ بھی دس آنے سے چودہ آنے ہوگیا تھا۔ اس پر اتنا ہنگامہ ہوگیا تھا کہ’’گوگوخاں‘‘ زندہ باد سے مردہ ہوگیا۔ بلکہ ’’چینی چور‘‘ کا اضافی ٹائٹل بھی دے دیا تھا۔ آخر کار اسے استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔

اور آج یونان کی ایک بہت پرانی روایت زندہ ہوگئی، یونان کے پہلے فلسفی اینکسی مینڈر نے کہا تھا کہ آپ کسی دریا میں’’دوبار‘‘ ہاتھ نہیں دھوسکتے کیونکہ دوسری بار دوسرا پانی اور دوسرا دریا ہوچکا ہوتا ہے۔ اور آج آپ کوئی بھی چیز دوسری مرتبہ اسی قیمت پر خرید نہیں سکتے۔

یہ خود ہمارے ساتھ ہوچکا ہے، ہم نے ایک دکاندار سے آٹے کے تھیلے کا نرخ پوچھا تو اس نے چھ سو روپے بتایا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے ہم بازار سے کچھ اور سودا کرکے آتے ہیں، دوسرے کام کرنے میں ہمیں ڈیڑھ دو گھنٹے لگ گئے، آٹے کی دکان پر آئے اور چھ سو روپے دے کر تھیلا دینے کو کہا تو دکاندار نے چھ سو روپے لوٹاتے ہوئے کہا۔

بارہ سو دیجیے۔ ہم نے صبح کا حوالہ دیا۔ وہ صبح تھی اب دوپہر ہے پھر سامنے خالی ہوتے ہوئے ٹرک کی طرف اشارہ کرکے بولا ، اب بارہ سو ہوگیا ہے۔ اسی لیے ہم کہنا چاہتے ہیں کہ
سب سے مل آؤ تو اک بار اس ببلی بدمعاش یعنی مہنگائی سے بھی مل لیجیے۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہیں کہ کر ملو لیکن ا تھا کہ سے ملو

پڑھیں:

ٹشو پیپرز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ملک کی آبادی کم و بیش پچیس کروڑ ہے‘ گویا ملک میں ٹشو پیپرز کی تعداد بھی یہی ہے۔ ہم سب ٹشو پیپرز ہیں، ہم میں کوئی خاص ہے اور کوئی عام۔ خواص کو تو امریکا استعمال کرکے پھینک دیتا ہے اور عوام کو حکمران اور استحصال کرنے والا طبقہ استعمال کرکے پھینک دیتا ہے۔ سیٹھ، آجر، باس یہ سب اسی طبقے کے لوگ ہیں جو خود سے کم تر کو استعمال کرتے ہیں اور پھر پھینک دیتے ہیں۔ ان دنوں ٹرمپ کی بہت تعریفیں ہورہی ہیں وہ بھی جنوب ایشاء میں اپنے مفادات کے لیے ہماری بہت تعریفیں کر رہے ہیں۔ جنوب ایشاء میں اسے چاہیے کیا؟ معدینات تو وہ لے چکا‘ اب جان ہی رہ گئی ہے وہ بھی تقریباً لے ہی چکا ہے، بس اب وہم ہی باقی ہے کہ ہم زندہ ہیں‘ اگر ہم زندہ ہوتے تو یوں خوار نہ ہوتے۔ ٹرمپ سے ملاقات کو جو بھی اپنے اعزاز سمجھ رہے ہیں یہ سب ٹشو پیپرز کی مانند استعمال کرکے پھینک دیے جائیں گے۔

امریکا نے اس ملک میں اب تک کیا کچھ نہیں کیا مجال ہے کہ چور چوری کے بعد اپنا داغ چھوڑ جائے یا نشان چھوڑ جائے۔ یہی تو چور کا کمال ہے۔ غزہ میں بھی یہی چور ہے مگر کمال ہے کہ او آئی سی بھی اسی کے گن گا رہی ہے، کشمیر میں یہی چور ہے، کمال ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ثالثی کرائے گا۔ افغانستان کی تباہی میں اس کا پورا وجود لتھڑا پڑا ہے پھر یہاں امن کے لیے اسی کی جانب دیکھا جارہا ہے۔ اس لیے ابھی کچھ ٹشو پیپرز باقی ہیں جنہیں استعمال ہونے کا شوق ہے۔

بھارت کے ساتھ حالیہ معرکہ حق میں کامیابی ملی تھی کہ ہم نے بنیان مرصوص کی صورت اختیار کی‘ اس کے بعد ہم کیوں بکھرے چلے جارہے ہیں؟ ہم کرکٹ میں بھی ہار رہے ہیں؟ وجہ کیا ہے؟ بھارت نے شوشا چھوڑا تھا کہ اب نیو نارمل کی طرف دیکھنا ہے‘ یہ نیو نارمل کیا ہے؟ یہی کہ جو ہندو کہے وہی سچ ہے‘ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ امریکا بھی یہی کہتا ہے نارمل وہی ہے جسے وہ نارمل سمجھے۔ یہاں ہندو اور امریکا دونوں ایک پیج پر ہیں۔ مسلم اور او آئی سی ایک پیج پر کیوں نہیں ہے؟ امریکا اور ہندو کبھی نارمل نہیں رہے یہ ہمیشہ ہی ابنارمل ہی رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ تو واقعی ابنارمل ہیں مگر ہم کیوں ابنارمل ہوئے جارہے ہیں‘ کیوں خوف زدہ ہیں؟ سیاسی میدان سے لے کر کھیل کے میدان تک، ابنارمل ہی ابنارمل ہے۔

کرکٹرز کو چاہیے کہ مثبت کھیل پیش کریں۔ ایک اچھا کھیل، نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں، یہی مومن کی حکمت ہوتی ہے کہ وہ اسے تلاش کرتا رہتا ہے۔ کیا ہم نارمل میں ابنارمل تلاش کر سکتے ہیں؟ نہیں کر سکتے۔ ہاں ہماری سرحدوں پر تو ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو کہ بائیس اپریل کی پوزیشن پر واپس آچکے ہیں مگر ابھی بھی ہمارے لیے اسٹرٹیجک خطرات موجود ہیں‘ بلکہ یہ خطرات جنوب ایشاء میں اب مسلسل بڑھ رہے ہیں‘ ان کا مقابلہ کیسے ممکن ہے ہمیں یہ سوچنا ہے۔ مودی کا نیونارمل ڈاکٹرئن اس کی جنگی سوچ اور اس کا بیانیہ ہے اس تناظر میں حکومت پاکستان کو آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور سفارتی محاذ پر مودی کے جارحانہ اقدامات کو مستقل بنیادوں پر عالمی برادری کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہندو کی سوچ ہے کہ جنگ چھیڑنے کے لیے ثبوت کی نہیں بلکہ الزام ہی کافی ہوگا۔ بنیادی طورپر یہی مودی کی ڈاکٹرائن ہے یہی ابنارمل ذہن ہے‘ مودی ضرور ایک اور پنگا لینا چاہتا ہے‘ بھارت کی کرکٹ ٹیم نے جو کچھ کیا ہے بے مقصد نہیں ہے۔ یہ کھیلوں کے میدان میں جارحیت پر اترچکے ہیں بہتر یہی ہے کہ یکسو ہو جائیں۔ ایک ہوجائیں اور متحد ہو کر بھارتی جارحانہ ڈاکٹرائن کو دنیا کے سامنے لایا جائے اور یہ بھی یقین رکھیں کہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ پانی ساری دنیا کے لیے لائف لائن ہے‘ مودی کا جنگی جنون ہے کہ وہ پاکستان کے لیے پانی بند کرے گا اور مرضی سے کھولے گا پاکستان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کو برداشت کرلیں اس خطے میں خدشات بدستور موجود ہیں اور جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں کہ اگر مستقبل میں دونوں ممالک میں کشیدگی ہوئی اور حملہ ہوا تو پھر ایک جنگ چھڑ جائے گی جو اتنی خوفناک ہوسکتی ہے کہ الامان الحفیظ… بہتر یہی ہے کہ ہم انسان بن کر، پاکستانی بن کر، مسلمان بن کر سوچیں اور ٹشو پیپرز نہ بنیں۔ اس دنیا کی تاریخ ٹشو پیپرز کے نتائج سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ سے سبق لیں یہی ہم سب کے لیے بہتر راستہ ہوگا۔ ٹرمپ کے لنچ پر قربان ہونا چھوڑیے روکھی سوکھی کھائیے اور عزت کے ساتھ جیئیں۔

میاں منیر احمد سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • لال اور عبداللہ جان
  • یہ کووڈ نہیں، پریشان نہ ہوں بس علامات کا فرق جانیں
  • آزاد کشمیر میں مظاہرین کے مطالبات بجا لیکن تشدد کا راستہ نہیں اپنانا چاہیے: کوآرڈینیٹر وزیراعظم
  • کراچی میں پارکنگ تنازع؛ حکومت کریں لیکن کام تو کسی قانون کے تحت کریں، سندھ ہائیکورٹ
  • بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟
  • سکھر،ڈویلپمنٹ الائنس ،اسمال ٹریڈرز کی جانب سے سیپکو کیخلاف احتجاج
  • اشارے بازیاں، لاٹھی اور بھینس
  • سونم کپور کے یہاں دوسری خوشخبری متوقع، کیا فلموں میں واپسی کھٹائی میں پڑگئی؟
  • ٹشو پیپرز