وہ بات جو ’’منی بائی‘‘ نے نہ جانے کس سے کہی تھی کہ تم ہر کسی سے ملو،گل و بلبل سے ملو، موج و ساحل سے ملو۔ سروسنبل سے ملو، عاقل و جاہل سے ملو، درکامل سے ملو۔ سب سے مل آؤ تو اک بار میرے دل سے ملو۔
وہی بات ہم اپنے وزیراعظم، نائب وزیراعظم اور سارے وغیرہ وغیرہ سے کہنا چاہتے ہیں کہ بے شک، چین سے ملو، جاپان سے ملو، ایران توران سے ملو، سعودی عرب سے ملو وہاں جاکر ملو یا یہاں بلا کر ملو، ہاتھ ملا کر ملو یا سینے سے لگا کر ملو، ملتے رہیے کہ ملنے سے محبت بڑھتی ہے، ملنے سے گلے شکوے دور ہوا کرتے ہیں، دل قریب آتے ہیں۔
لیکن ان سب سے مل آؤ تو اس پیاری پیاری مہنگائی سے بھی ذرا مل لیجیے۔ کیونکہ اب تو اس نے قدم قدم چلنا بھی چھوڑ دیا، دوڑنا بھی ترک کردیا، برق کی طرح چھلانگیں لگانا شروع کر دیا ہے بلکہ لگتا ہے کہ اڑنے کے لیے بھی اسٹارٹ لینے والی ہے۔ اور جب سے جناب بانی مبانی کی آکاش وانی یا بلائے آسمانی ہم پر مسلط ہوئی ہے تب سے ہم سوچ رہے ہیں کہ
سوچتے ہیں کہ اب انجام سفر کیا ہوگا
پاؤں بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے
ادھر روپیہ ہے کہ روز بروز گرتا جارہا ہے اور ادھر مہنگائی ، اس کے سر، پر، پاؤں ہیں۔ آپ یقین کریں کسی اور پر تو ہمارا بس چلتا نہیں ہے، اس لیے خود ہی پر پابندیاں لگارہے ہیں، ایسی بہت سی چیزیں ہم نے چھوڑ دی ہیں جو کبھی ہماری پسندیدہ ہوا کرتیتھیں، چھوٹا گوشت خریدنے سے پہلے یہی بہتر نظر آتا ہے کہ خود ہی اپنے دل ودماغ کو کھالیں، پھر شاید گوشت خریدنے کا حوصلہ پیدا ہوجائے۔
ماش کی دال ہماری پسندیدہ دال ہوا کرتی تھی لیکن وہ اتنی نایاب ہوگئی ہے کہ نام لینے پر بھی جھرجھری آجاتی ہے۔ ایک سبزی ’’اروی‘‘ جو ہمیں دل و جان سے پسند تھی لیکن وہ ہمارے نوالے سے ایسی پھسل گئی کہ نوالہ بھی ساتھ لے گئی۔
چپل کباب کا شوق البتہ جاری ہے کیونکہ جب بھی دل کرتا ہے کسی کبابی کی دکان کے سامنے سے گزر جاتے ہیں بلکہ تھوڑی دیر ٹھہر بھی جاتے ہیں کیونکہ حکومت کو ابھی ہماری اس عیاشی کا پتہ نہیں چلا ہے ورنہ ٹیکس لگا دیتی۔بڑی بڑی قیمتی چیزیں مثلاً پیاز، ٹماٹر، آلو، چاول دال وغیرہ کو تو ہم کب کے بھلا کر طاق نسیاں پر رکھ چکے ہیں۔
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ’’خریداریاں
لیکن اب نقش ونگار طاق نسیاں ہوگئیں
لیکن اب معمولی چیزوں کے لیے بھی آنکھیں’’ترستیاں‘‘ ہیں کہ وے صورتیں الٰہی کس دیس ’’بستیاں‘‘ ہیں۔ مثلاً مہنہ میں رکھنی والی چکٹی کو لے لیجیے جو پہلے مفت بھی کسی نہ کسی سے لے کر گزارہ کرلیتے ہیں لیکن آج کل لوگ ایک دوسرے سے ایسا چھپا چھپا کر رکھتے ہیں جیسے پولیس سے ناجائز اسلحہ چھپایا جاتا ہے۔
اُڑان بھرنے سے پہلے ایک ٹکیہ ایک روپے کی تھی ، پھر اس نے دو روپے پر چھلانگ لگائی اور ابھی لوگ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ پانچ اور پھر دس کی ہوگئی، مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ بیس اور پھر تیس۔ مہینے سے زیادہ ہو چکا ہے، آج کل میں ساٹھ کا ہونے والا ہے۔
پہلے کسی چیز کی قیمت بڑھتی تھی تو آنے دو آنے یا روپیہ دو روپے لیکن اب اس کم بخت نے چھلانگیں سیکھ لی ہیں، رات ہی رات میں دگنی بلکہ تگنی اور چوگنی ہوجاتی ہیں اور اب تو حکومتوں کی پالی ہوئی وزیروں کی ’’پوسی ہوئی‘‘ اور محکموں کی’’پروسی ہوئی‘‘ یہ مہنگائی اتنی بدمعاش ہوگئی ہے کہ کسی کی ذرا بھی پروا نہیں کرتی اور کوئی پروا کرنے والا ہے بھی نہیں کہ سب اس کے طرف دار ہوچکے ہیں بلکہ حصہ دار کہئے۔
ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا
اس لیے جب چاہتی ہے لمبی چھلانگ لگا دیتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے علاقے میں بڑاگوشت چودہ آنے سے اٹھارہ آنے سیر ہوگیا ، ایک ہنگامہ مچ گیا، لاوڈاسپیکروں پر اعلان ہوئے، دو چار قصائیوں کو مار بھی پڑی، لوگوں نے گوشت کا بائیکاٹ کردیا، آخر قصائی مجبور ہوگئے اور پرانی قیمت بحالی ہوگئی۔
آج وہی گوشت بڑے آرام سے ایک ہزار میں فروخت ہورہا ہے۔ چینی کا قصہ اس سے بھی زیادہ مشہور اور دلچسپ ہے، چینی کا نرخ بھی دس آنے سے چودہ آنے ہوگیا تھا۔ اس پر اتنا ہنگامہ ہوگیا تھا کہ’’گوگوخاں‘‘ زندہ باد سے مردہ ہوگیا۔ بلکہ ’’چینی چور‘‘ کا اضافی ٹائٹل بھی دے دیا تھا۔ آخر کار اسے استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔
اور آج یونان کی ایک بہت پرانی روایت زندہ ہوگئی، یونان کے پہلے فلسفی اینکسی مینڈر نے کہا تھا کہ آپ کسی دریا میں’’دوبار‘‘ ہاتھ نہیں دھوسکتے کیونکہ دوسری بار دوسرا پانی اور دوسرا دریا ہوچکا ہوتا ہے۔ اور آج آپ کوئی بھی چیز دوسری مرتبہ اسی قیمت پر خرید نہیں سکتے۔
یہ خود ہمارے ساتھ ہوچکا ہے، ہم نے ایک دکاندار سے آٹے کے تھیلے کا نرخ پوچھا تو اس نے چھ سو روپے بتایا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے ہم بازار سے کچھ اور سودا کرکے آتے ہیں، دوسرے کام کرنے میں ہمیں ڈیڑھ دو گھنٹے لگ گئے، آٹے کی دکان پر آئے اور چھ سو روپے دے کر تھیلا دینے کو کہا تو دکاندار نے چھ سو روپے لوٹاتے ہوئے کہا۔
بارہ سو دیجیے۔ ہم نے صبح کا حوالہ دیا۔ وہ صبح تھی اب دوپہر ہے پھر سامنے خالی ہوتے ہوئے ٹرک کی طرف اشارہ کرکے بولا ، اب بارہ سو ہوگیا ہے۔ اسی لیے ہم کہنا چاہتے ہیں کہ
سب سے مل آؤ تو اک بار اس ببلی بدمعاش یعنی مہنگائی سے بھی مل لیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہیں کہ کر ملو لیکن ا تھا کہ سے ملو
پڑھیں:
حکومتی بے توجہی
26 ویں آئینی ترمیم کی حمایت پر مولانا فضل الرحمن سے ناراض پی ٹی آئی کو 27 ویں ترمیم کے خطرے کے پیش نظر مولانا پھر یاد آ گئے اور مولانا کے در پر پی ٹی آئی کا وفد پھر پہنچ گیا تھا۔ اس موقع پر علی محمد خان نے کہا کہ مولانا صاحب ہمارے ساتھ آ جاتے ہیں تو وزن بڑھے گا۔
انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ وزن کس کا بڑھے گا؟ علی محمد خان وفد میں شامل نہیں تھے اور اپنے خیالات کا اظہار انھوں نے ایک ٹاک شو میں کیا، مولانا سے ملنے والے وفد میں اسد قیصر شامل تھے ۔ اس ملاقات میں مولانا نے محمود اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر پی ٹی آئی کی طرف سے نامزد کیے جانے کی حمایت کی۔ مولانا اور محمود خان ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی نے مولانا سے رفاقت بڑھانے میں پھر پہل کی اور محمود خان کے لیے مولانا کی حمایت حاصل کر لی تھی۔
اس سے چند روز قبل بلاول بھٹو بھی مولانا فضل الرحمن سے ملنے ان کے گھر گئے تھے اور انھوں نے باہمی گفتگو کے بعد مولانا کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی جو مولانا نے قبول کر لی ہے یہ ملاقات ایوان صدر میں ہوگی یا کہیں اور یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مولانا کب اور کہاں جائیں گے۔
بلاول بھٹو نے 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے مولانا سے ملاقاتیں کرکے ان کی حمایت حاصل کی تھی جس پر پی ٹی آئی مولانا سے کچھ خفا تھی۔ اس بار حکومتی اتحاد کی نشستیں سپریم کورٹ کے فیصلے سے قومی اسمبلی میں بڑھ گئی ہیں جس سے (ن) لیگ کے ارکان کی تعداد بھی بڑھی ہے مگر (ن) لیگ سینیٹ میں پی پی سے پیچھے ہے جہاں 27 ویں ترمیم کی منظوری پیپلز پارٹی کی حمایت سے ہی ممکن ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کی آئینی برطرفی میں مولانا فضل الرحمن کا اہم کردار تھا مگر جب فروری 2024 کے عام انتخابات میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے مولانا کو مکمل نظرانداز کیا تھا اور چوہدری شجاعت حسین کے گھر میں جو معاملات طے ہونے تھے ان میں مولانا سے رابطہ تک نہیں کیا گیا اور دونوں پارٹیوں نے صدر مملکت اور وزیر اعظم کے عہدے آپس میں بانٹ لیے تھے اور دونوں بڑی پارٹیوں کی طرف سے مولانا کو شاید اس لیے نہیں بلایا گیا کہ مولانا ملک کی صدارت مانگ رہے تھے اور اگر مولانا فضل الرحمن کو شامل کیا جاتا تو مولانا اپنے سابق اتحادیوں کو ان کا وعدہ یاد دلاتے اسی لیے مولانا کو بلایا ہی نہیں گیا تھا۔
آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے مگر پنجاب میں پیپلزپارٹی کو نمایاں نشستیں نہ ملیں تو زرداری صاحب نے دوبارہ صدر بننے کی خواہش کی جو باہمی معاہدے کے مطابق انھیں مل گئی تھی مگر پھر بھی دونوں بڑی پارٹیوں نے مولانا کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش تک نہ کی اور بلوچستان کی حکومت بھی پیپلز پارٹی نے حاصل کر لی حالانکہ وہاں (ن) لیگ، پی پی اور جے یو آئی کے ووٹ تقریباً برابر برابر تھے، اس لیے بلوچستان میں وزیر اعلیٰ جے یو آئی کا بنایا جا سکتا تھا پیپلز پارٹی نے مولانا کے لیے یہ قربانی بھی نہیں دی تھی۔
(ن) لیگ بھی چاہتی تو مولانا کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے انھیں نائب وزیر اعظم بننے پر راضی کر سکتی تھی مگر یہ عہدہ بھی (ن) لیگ اپنے قائد کے سمدھی کو دینا چاہتی ہوگی، اس لیے یہاں بھی مولانا کو نظرانداز کیا اور دونوں بڑی پارٹیوں نے جان بوجھ کر اپوزیشن میں دھکیلا مگر مولانا پی ٹی آئی سے بھی نہیں ملے اور تنہا ہی اپوزیشن کر رہے ہیں۔
مولانا سے صدر زرداری کی خفگی کی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ گزشتہ فروری کے الیکشن میں جے یو آئی نے سندھ میں پی پی کو سخت ٹف ٹائم دیا تھا اور پی پی کے مقابلے میں اپنے امیدوارکھڑے کیے تھے مگر سندھ میں چوتھی بار بھی پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت دینی تھی، اس لیے مولانا کے امیدواروں نے بھی لاکھوں ووٹ لیے مگر کوئی نشست جے یو آئی جیت نہیں سکی تھی۔
دکھاوے کے لیے الیکشن کے بعد صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف مولانا سے ملنے ان کے گھر بھی گئے تھے۔ حکومتی بے توجہی سے مولانا کو دکھ تو ہوگا جس کی ذمے دار حکومت ہے اور حکومت جان بوجھ کر خود سے الگ رکھ کر پی ٹی آئی سے قربت بڑھانے پر مجبور کر رہی ہے۔