Jasarat News:
2025-11-16@16:05:54 GMT

ٹی ٹی پی نہیں، بلکہ ٹی ٹی اے یا ٹی ٹی بی

اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT

ٹی ٹی پی نہیں، بلکہ ٹی ٹی اے یا ٹی ٹی بی

ٹی ٹی پی نہیں، بلکہ ٹی ٹی اے یا ٹی ٹی بی.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

کتابو ں سے رومانس

’’ کون سی کتاب پڑھ رہے ہو آج کل بیٹا؟‘‘ میںنے سامنے بیٹھے بچے سے سوال کیا، اس نے لگ بھگ پچیس منٹ کے بعد اپنے فون سے سر اٹھایا تھا، وہ مسلسل فون پر انگلیاں چلا رہا تھا۔

’’میں؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھ کر پوچھا، ’’میں کوئی کتاب نہیں پڑھ رہا ہوں ‘‘۔’’ آپ نے اس سے پہلے آخری کتا ب کب پڑھی تھی؟‘‘ میں نے اگلا سوال کیا۔ ’’ اپنے کورس کی کتابیں ہی پڑھی ہوں گی۔‘‘ 

اس نے سوچنے کے بعد کہا۔’’کورس کے علاوہ کوئی آخری کتاب کون سی پڑھی ہو گی؟‘‘ میںنے ایک اور سوال کیا۔’’ وہ تو اب یاد بھی نہیں، شاید سات آٹھ سال کا ہوں گا تب کوئی کتاب پڑھی ہو گی۔‘‘ اس نے بتایا۔’’ اخبار پڑھتے ہو بیٹا؟‘‘’’ نہیں، فوری اور بلا تردد جواب آیا۔

’’ تو دنیا کے بارے میں باخبر کیسے رہتے ہیں آپ بیٹا؟‘‘۔’’ یہ ہے نا… ‘‘ اس نے فون دکھایا، ’’ اس میں پوری دنیا ہے‘‘۔ ’’ کیا آپ اس پر کتابیں اور اخبارپڑھتے ہو؟‘‘۔’’

نہیں ، اس پر تو میں عموماً گیمز وغیرہ کھیلتا ہوں، ریلیں دیکھتا ہوں، فیس بک، سنیپ چیٹ، ایکس، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک دیکھتا ہوں ، ان کے ذریعے ہر طرح کی معلومات مل جاتی ہیں۔ اگر کسی کو دلچسپی ہو تو وہ اس پر کتابیں بھی ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ سکتا ہے۔ ‘‘

اس نے میری معلومات میں اضافہ کیا تھا یا شاید مجھے جتلایا تھا کہ میں کس دور میں رہ رہی تھی، اس قسم کے ترقی یافتہ دور میں بھی۔’’ ہوں… ‘‘ میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

’’ کیا آپ کتابیں پڑھتی ہیں؟‘‘ اس نے سوال کیا ۔ ’’ بہت … جنون کی حد تک، کتا ب پڑھے بغیر نیند نہیں آتی اور اخبار پڑھے بغیر لگتا ہے کہ صبح نہیں ہوئی‘‘۔

’’ کیا آپ کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے؟‘‘ اس نے سوال کیا ۔’’ ہے، بالکل ہے-‘‘ میں نے فورا کہا۔’’ تو کیا آپ کتابیں اور اخبار فو ن پر پڑھتی ہیں‘‘؟ ’’ ہر گز نہیں، فون پر بھی کچھ پڑھنے کا کچھ مزہ ہے، اتنی چھوٹی سی اسکرین پر آنکھیں چندھیا چندھیا کر کیسے پڑھا جا سکتا ہے۔

پہلے ہی نظر کمزور ہو گئی ہے اور آپ کی عمر کے نوجوانوں کو بھی اسی لیے کم عمری میں عینکیں لگ گئی ہیں‘‘۔ ’’ آپ اسمارٹ فون پر پھر کیا کیا ایپ استعمال کرتی ہیں؟‘‘۔’’ میں؟ میرے پاس ایک دو گیمز ہیں جو میں کھیلتی ہوں، موسم کا حال دیکھتی ہوں، کالیں اور میسج کرتی ہوں، وقت دیکھتی ہوں، نمازوں کے اوقات، فیس بک اور انسٹا گرام اور گوگل بھی کبھی کچھ معلومات کے لیے چیک کرنے کے لیے استعمال کرتی ہوں‘‘۔

میں نے اسے بتایا کہ میں اپنے اسمارٹ فون سے کتنی ہی چیزیں چیک کر لیتی ہوں ۔ ’’ یہ بھی کوئی ایسے کام ہیں جس کے لیے آپ نے اتنا مہنگا اسمارٹ فون رکھا ہوا ہے، اس سے زیادہ تو اسمارٹ فون ہم لوگو ں کے ملازمین استعمال کر لیتے ہیں‘‘ ۔

میں اکثر آج کل کے نوجوانوں سے، بات چیت میں حسب عادت سوال پوچھ لیتی ہوں کہ وہ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ جب یہ سوال آج کل کے نوجوانوں سے پوچھو تو زیادہ ترکہتے ہیں کہ کوئی بھی نہیں. 

میں حیرت سے دیکھتی ہوں اور اگلا سوال کرتی ہوں کہ آخری کتاب کب اور کون سی پڑھی تھی، اس کے جواب میں علم ہوتا ہے کہ کسی نے سالوں سے کوئی نئی کتاب نہیں پڑھی اور زیادہ تر، لگ بھگ نوے فیصد نوجوانوں کا جواب ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے کورس کی کتابوں کے علاوہ ، پوری زندگی میں کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔

نوجوانوں میں اور ہم میں عمر کی تفریق اور خیالات کے تضادکی وجہ سے فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ ان سے بات کرنے کے لیے مجھے تو یہ سوال پوچھنے کی اس لیے عادت ہے کہ ہماری عمر کے اس دور میں یہ سوال عام بھی ہوتا تھا اور متوقع بھی، اس دور میں اخبار اور کتاب ہی معلومات کا ذریعہ بھی تھیں اور تفریح بھی۔

ہم ایک کتاب یا رسالہ پڑھ کر بلکہ چاٹ کر ختم کرتے تھے اور دوسرے کو شروع کر دیتے تھے، سب بہن بھائی اس لت میں مبتلا تھے اور ہر نئی کتاب ہمارے ہاتھوں میں گردش کرتی پائی جاتی، ایک پڑھتے پڑھتے وقفہ کرتا تو دوسرا اسے اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیتا۔

ہمارے پاس اپنے پیسے کا بہترین مصرف ہوتا تھا کہ اپنے لیے کتابیں خرید لیں، بہن بھائیوں کو آپس میں تحائف دینے کے لیے بھی ہمیں کچھ نہیں سوچنا پڑتا تھا کیونکہ ہمارے آپسیں تحائف بھی کتابیں ہی ہوتی تھیں۔ یہ عادت ایسی چپکی ہوئی ہے کہ آج تک اس نے جان نہیں چھوڑی، نہ لیپ ٹاپ پرکچھ پڑھنے کا مزہ آتا ہے، نہ فون پر، نہ ٹیبلیٹ پر اور نہ ہی کنڈل پر۔

نہ صرف دوسروں کو بلکہ خود کو بھی ہر موقع پر نئی کتاب تحفتاً دینے کی پختہ عادت ہے۔ جب اپنی آرڈر کی ہوئی کتابیں گھر بیٹھے مل جائیں یا دکان سے خرید کر لائیں تو پھر دل جلد از جلد فرصت کے محات ڈھونڈتا ہے، جب وقت ملے اور کتاب کو کھول کر اسکے نئے نکور اوراق کی خوشبو کو نتھنوں سے اتارا جائے اور ان پر ہاتھ پھیر کر کاغذکی خستگی کو محسوس کیا جائے۔

کتابوں کی دکان پر جا کر دل اسی طرح اب بھی دھڑکتا ہے جس طرح چھوٹے بچوں کا کھلونوں کی دکان پر جا کر۔ گھر میں جہاں جہاں بیٹھنے کی جگہیں ہیں، وہاں وہاں وہ کتابیں رکھی ہوتی ہیں جو میرے زیر مطالعہ ہوتی ہیں۔ جوں جوں لگتاہے کہ ساری کتابیں پڑھی جا چکی ہیں، ساتھ ہی نئی خریداری کی فہرست بننا شروع ہو جاتی ہے۔

کتا ب کا رومانس سب سے اچھا رومانس ہے کہ وہ آپ سے توجہ کے علاوہ کچھ نہیں مانگتی۔ کتنا بھی طویل انتظار کیو ں نہ ہو، کتاب کے ہوتے آپ کی ساری کوفت ختم ہو جاتی ہے اور گھنٹے منٹوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

کتابوں کے صفحات کی پہلی بارکھلنے کی خوشبو، ادھ کٹے صفحات کو کاغذ تراش سے کاٹنے کا عمل، کتاب میں رکھنے کے لیے نت نئے اور پر کشش بک مارک کی خریداری، رات دیر تک پڑھ کر سرہانے تلے کتاب رکھ کر سوجانا اور خوابوں میں اسی کتاب کے جزیروں میں گھومنا، کتاب ادھار لے کر پڑھنا، ا چھی اور قیمتی کتابوں کے لیے کئی مہینوں تک رقم جوڑ جوڑ کر رکھنا یا بہن بھائیوں کا مل کر چندہ کرکے کتاب خریدنا اور پھر باریاں طے کرنا کہ کون پہلے کتاب پڑھے گا۔

ہم تو کورس کی کتابوں کو بھی گھول گھول کر پڑھتے اور کئی کئی بار پڑھتے تھے کہ زبانی یاد ہو جاتی تھیں۔ آج کل کے بچے اس رومانس کو کیا جانیں اور اس سے اگلی نسل تو شاید کتاب کو ایک انٹیک چیز سمجھے گی، حیران ہو گی کہ اس کا مصرف کیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • کتابو ں سے رومانس
  • زنجیریں
  • سردیوں میں ایڑھیوں کا پھٹ جانا جسم میں کس غذائی کمی کی علامت ہے؟
  • لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں نیورو سرجری ڈیپارٹمنٹ کی تاریخی کامیابی
  • فضائی آلودگی میں آنکھوں پر اثرات کیوں بڑھ جاتے ہیں؟ جلن، خارش اور سرخی کی اصل وجہ کیا ہے؟
  • ججوں کا کام ٹکر بنوانا، کسی کو رسوا کرنا یا ڈانٹا نہیں بلکہ انصاف دینا ہے، پرویز رشید
  • پاک امریکی تعلقات اختیاری نہیں بلکہ دنیا کیلئے بھی ناگزیر ہیں، پاکستانی سفیر
  • حاجی نبن شاہ لکھاری نہیں بلکہ ایک ادارہ تھا، علی حیدرچانڈیو
  • 50کروڑ کی حد کو کم کرو بلکہ ختم کرو