Express News:
2025-10-04@13:59:36 GMT

لال اور عبداللہ جان

اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT

کوئی کچھ بھی کہے سوچے،سمجھے یا بولے ہم تو اس کہاوت کے قائل ہیں کہ تلوار چلاؤ تو اپنوں کے لیے لیکن بات کرو تو خدا کے لیے۔جیسے قربانی خدا کے لیے اور کھال شوکت خانم کے لیے یا کماؤ تو اپنے لیے اور بولو تو بانی اور وژن کے لیے۔ چنانچہ سارے واقعات، واردات،بیانات اور’’بیرسٹروں‘‘ کی اطلاعات سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے صوبے کے پی کے خیر پخیر کی حکومت کو اب چھٹی یا پولیس کی اصطلاح کے مطابق ’’شاباشی‘‘ دینی چاہیے۔کیونکہ پانچ سال کا کام اس نے دو سال میں پورا کرلیا ہے جو کچھ کرنا تھا وہ سب کچھ ہوچکا بلکہ جو نہیں کرتا تھا وہ بھی ہوچکا ہے۔

ادارے اور محکمے’’ٹریک‘‘ پر ڈال دیے گئے ہیں، تبادلوں اور تقرریوں کے ذریعے ہر شاخ پر مناسب  ’’پرندے‘‘ بٹھائے جا چکے ہیں، منتخب’’ جمہوری شہنشاہ‘‘ اپنی اپنی کٹ میں آنے والوں کو دسترخوان پر بٹھا چکے ہیں، مطلب یہ کہ’’بانی‘‘ کا’’وژن‘‘ وژولائز ہوچکا ہے، اس لیے شاباشی یا چھٹی تو اس کی بنتی ہے انصاف بلکہ تحریک انصاف کی، بات بھی یہی ہے کہ جو اپنا کام پورا کرے اسے چھٹی اور شاباشی دونوں ملنی چاہیے کیونکہ یہ تو مکتب سیاست ہے، کوئی’’مکتب عشق‘‘ نہیں کہ ’’ اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا‘‘ مکتب سیاست میں چھٹی ملنا ضروری ہے کیونکہ اس مکتب کے طالب علم ’’عبداللہ جان‘‘ ہوتے ہیں۔اب لال اور عبداللہ جان کا نام لے لیا ہے تو کہانی بھی سنانا پڑے گی۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان ایک زرعی ملک ہوا کرتا تھا۔اب تو خدا کے فضل سے حکومتوں کی مہربانی سے،لیڈروں کی محنت سے اور ہر حکومت کی نئی نئی پالیسیوں اور تجربوں سے یہ ملک صنعتی بھی تجارتی بھی ہے۔جمہوری بھی ہے سیاسی بھی ہے خاندانی بھی ہے اور سائنسی مذہبی اور گینگسٹر بھی ہوگیا ہے لیکن اس زمانے میں یہ زرعی ہوا کرتا تھا اور حکومتیں ’’اگلے سال‘‘ گندم میں چاول میں چینی میں خود کفیل ہونے کی خوش خبریاں سنایا کرتی تھیں۔

اس وقت کے خصوصی اپنے خصوصی کی خصوصیات نشر کرتے جیسے کہ آج کل’’بانی‘‘ اور’’وژن‘‘ کی۔چنانچہ ہمارے علاقے میں ایک سیزن ایسا آتا تھا کہ کھیتوں میں کام بہت بڑھ جاتا تھا۔ان کھیتوں میں جہاں آج کل کالونیاں،ٹاؤن شپ اور سمنٹ اور سریے کے جنگل لہلہا رہے ہیں۔

چنانچہ اوپر کے پہاڑی علاقوں سے لوگ مزدوری کے لیے آجاتے تھے۔عام مزدور تو دیہاڑی پر کام کرتے تھے صبح سے دوپہر تک دیہاڑی ہوتی تھی لیکن’’لال‘‘ اور’’عبداللہ‘‘ دو بھائی دیہاڑی نہیں کرتے تھے بلکہ کام ٹھیکے پر لے لیتے تھے، مالک سے کوئی کام پانچ دہاڑی پر لیے لیتے تھے اور دو دن میں کام ختم کردیتے تھے، یوں وہ ایک ایک دن میں کبھی دو کبھی تین دہاڑیاں کما لیتے تھے، اگر سیزن دو مہینے پر رہتا تو وہ دو مہینے میں چار مہینے کی کمائی کرلیتے تھے، وجہ یہ تھی کہ وہ دونوں بڑے مضبوط، جفاکش اور ان تھک تھے، ہماری موجودہ صوبائی حکومت کی طرح۔ یوں ہم ان لال اورعبداللہ جان کو آج کے ’’بانی‘‘ اور’’وژن‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں اور ہماری یہ جو صوبائی حکومت ہے اس نے بھی’’بانی‘‘ اور’’وژن‘‘ کی برکت سے پانچ سال کا کام دوسال میں ختم کر ڈالا ہے۔ اور یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں ہم تو آج کل

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

خود ہماری خبر نہیں آتی

لیکن ’’بیان نامے‘‘ یوں آتے ہیں جن کو اگلے زمانوں میں ’’اخبار‘‘ کہا کرتے ہیں اور ان بیان ناموں میں سب سے مستقل سب سے موثق اور سب سے معتبر و مستند بیان معاون خصوصی کے بیان ہوتے ہیں۔ان موثق،معتبر اور بالکل سچے مچے بیانات سے ہی پتہ چلا ہے کہ بانی اور وژن یا لال و عبداللہ نے پانچ دیہاڑیوں کا کام دو دیہاڑیوں میں ختم کرڈالاہے، سارا صوبہ سب کچھ میں خودکفیل ہوچکا ہے۔کوئی بیمار نہیں رہا ہے کوئی بیروزگار نہیں رہا ہے اور کوئی ناانصافی کا شکار نہیں رہا ہے۔

سوائے ایک کام کے کہ چین سے چین کی بانسریاں بس پہنچنے والی ہیں جو عوام میں تقسیم کرکے بجوائی جائیں گی۔لیکن اور ایک ضمنی سوال یہ پیدا ہوا کہ موجودہ ’’کام تمام‘‘ حکومت جائے گی کہاں یعنی۔ ’’کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد‘‘۔کیونکہ سب کام کرنے،کام دکھانے اور کام تمام کرنے والے لوگ ہیں، بیکار بھی تو نہیں بیٹھ سکتے۔’’یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے‘‘۔اور پھر’’بانی‘‘ اور وژن کی برکت سے لال اور عبداللہ جان بھی ہیں۔تواس کا ایک حل بھی ہمارے پاس موجود ہے اسی موثق، معتبر اور سچے مچے ذریعے سے پتہ چلا ہے کہ پڑوسی صوبہ نہایت ہی بُرے حال میں ہے کیونکہ جدی پشتی حکمرانوں نے صوبے کو اتنا برباد کر ڈالا ہے کہ صوبے کے سارے لوگ نقل مکانی کرکے کسی سیارے پر چلے گئے ہیں۔ اور اگر یہ ہمارے چھٹی اور شاباشی کا مستحق لال اور عبداللہ جان کو وہاں بھیجا جائے اور یہ بانی اور وژن کا نام لے کر کام شروع کردیں تو آنے والے دو سالوں میں پچھلے پانچ سالوں کا کام ممکن ہوسکتا ہے اور صوبہ بچ سکتا ہے ورنہ ممکن ہے پنجاب پاکستان کا سب سے پسماندہ ترین صوبہ بن جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: لال اور عبداللہ جان اور وژن ہیں کہ بھی ہے کے لیے کا کام

پڑھیں:

بانی پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ کو کابینہ کا اختیار دیا تھا‘ بیرسٹر سیف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251003-08-14
پشاور(آن لائن)مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ کے پی کو حکومتی کارکردگی مزید بہتر بنانے کی ہدایت کی، انہوں نے علی امین گنڈاپور کو کابینہ میں ردوبدل کا اختیار دیا تھا۔بیرسٹر محمد علی سیف نے اپنے بیان میں کہا کہ کابینہ میں ردوبدل بانی پی ٹی آئی کے وژن کو آگے بڑھانے کے لیے کی گئی ہے، سیاسی رنگ دے کر مخالفت کرنے والے دراصل بانی پی ٹی آئی کے وژن کے مخالف ہیں۔بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ حکومتی کارکردگی کو مزید مئوثر بنانے کے لیے کابینہ میں تبدیلی کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کابینہ میں تبدیلی وزیراعلیٰ کا صوابدیدی اختیار ہے، کسی بھی وقت ردوبدل کرسکتے ہیں، موجودہ حالات میں بہترین ٹیم تشکیل دینا وقت کی ضرورت ہے۔ بیرسٹر سیف نے یہ بھی کہا کہ عوام کو بہتر سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، کابینہ میں ردوبدل ایک مثبت اور جمہوری عمل ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین